اس بیان میں کہ اس جہان کی مصیبتیں اگر چہ بظاہر جراحت و زخم ہیں مگر حقیقت میں ترقیوں کا موجب ہیں اور مرہم ہیں اور مرگ طاعون کی فضیلت میں مرزا حسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔
حمد وصلوة اور بلیغ دعوات کے بعد واضح ہو کہ آپ کا صحیفہ شریفہ جو مصائب کی ماتم پرسی کے بارہ میں شیخ مصطفی کے ہاتھ ارسال کیا تھا، اس کے مضمون سے مشرف ہوا۔ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَیہ مصیبتیں بظاہر جراحت نظر آتی ہیں مگر حقیقت میں ترقیات اور مرہم ہیں ۔ وہ ثمرات و نتائج جن کے ملنے کی امید و توقع آخرت میں ہے، ان نتائج وثمرات کا سواں (100) حصہ ہیں جوحق تعالی کی عنایت سے اس جہان میں ان مصیبتوں پر مترتب ہوئی ہیں۔
فرزندوں کا وجود عین رحمت ہے۔ زندگی میں بھی ان سے فائدے اور نفع ہیں اور مرنے پربھی ثمرات ونتائج مترتب ہیں۔
امام اجل محی السنہ(امام نووی) حلیۃ الابرار میں لکھتے ہیں کہ عبداللہ بن زبیر رضی الله تعالی عنہ کے زمانہ میں تین دن طاعون واقع ہوئی۔ اس طاعون میں حضرت انس کے تراسی (83) بیٹے جو سب کے سب ہمارے پیغمبر علیہ الصلوة والسلام کے خادم تھے اور حضرت علیہ الصلوة والسلام نے اس کے حق میں برکت کی دعا فرمائی تھی، سب فوت ہو گئے اور چالیس (40) بیٹے حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے فوت ہو گئے۔ جب حضرت خیر الانام علیہ السلام کے اصحاب کرام کے ساتھ ایسا معاملہ فرمائیں گے تو پھر ہم گنہگا رکس حساب میں ہیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ طاعون پہلی امتوں کے حق میں عذاب تھا اور اس امت کے لیے شہادت ہے۔ واقعی وہ لوگ جو اس وباء میں مرتے ہیں۔عجب حضور وتوجہ سے مرتے ہیں۔ ہوس آتی ہے کہ کوئی شخص ان دنوں میں اس بلا والے لوگوں کے ساتھ ملحق ہو جائے اور دنیا سے آخرت کی طرف کوچ کر جائے ۔ یہ بلا اس امت میں بظاہر غضب ہے اور باطن میں رحمت۔ میاں شیخ طاہر بیان کرتے تھے کہ لاہور میں طاعون کے دنوں میں ایک شخص نے خواب میں دیکھا تھا کہ فرشتے کہہ رہے ہیں کہ جو کوئی ان دنوں میں نہ مرے گا حسرت اٹھائے گا۔ ہاں جب ان گز شتہ لوگوں کے حالات پرنظر کی جاتی ہے تو احوال غریبہ اور معاملات عجییہ مشاہدہ میں آتے ہیں۔ شائد شہداء فی سبیل اللہ ان خصوصیتوں سے ممتاز ہیں۔
میرے مخدوم فرزند عزيز(خواجہ محمد صادق) قدس سرہ کی مفارقت (وفات)بڑی بھاری مصیبت ہے۔ معلوم نہیں کہ کسی کو اس قسم کی مصیبت پہنچی ہولیکن وہ صبر وشکر جو حق تعالی نے اس مصیبت میں اس ضعیف القلب کو کرامت فرمایا ہے۔ بڑی اعلی نعمت اور اعظم انعام ہے۔ یہ فقیر حق تعالی نے سوال کرتا ہے کہ اس مصیبت کی جزاء آخرت پر موقوف رکھے اور دنیا میں اس کی جزا کچھ بھی ظاہر نہ ہو۔ حالانکہ جانتا ہے کہ یہ سوال بھی سینہ کی تنگی کے باعث ہے ورنہ حق تعالی بڑی وسعت و رحمت والا ہے۔ فَلِلَّهِ الْآخِرَةُ وَالْأُولَى دنیا و آخرت اللہ ہی کے لیے ہے۔
دوستوں سے التجا ہے کہ دعا کے ساتھ امداد و اعانت فرمائیں کہ اللہ تعالی خاتمہ سلامتی کے ساتھ کرے اور لغزشوں کو جو انسان کے لیے لازم ہیں، معاف فرمائے اور ان تقصیروں سے جو بشریت کے باعث صادر ہوتی ہیں، درگزر کرے۔ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِين یا اللہ ہمارے گناہوں کو اور جو کچھ ہم سے کاموں میں اسراف ہوا ہے بخش اور ہمارے قدموں کوثابت رکھا اور کافروں پر ہماری مدد کر۔) و السلام عليكم وعلى سائر من اتبع الهدی (سلام ہو آپ پر اور ان لوگوں پر جنہوں نے ہدایت اختیار کی۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ66 ناشر ادارہ مجددیہ کراچی