مخلِص اور مخلَص کا فرق

مخلِص اور مخلَص کا فرق

مخلِص جس کی عبادت خالص اللہ ہی کے لیے ہو۔(اسم فاعل جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے لیے خالص بنایا ہے،رہائی والے لوگ, اپنے قلب کوگناہوں اورعیبوں سے پاک کرنے والے ,جو شخص نیت کی تصحیح اوراخلاص کے تکلف کے مرحلے میں ہے ۔اس کی مثال دودھ کی ہے جو گوبر اور خون سے نکلتا ہے) اس کا تعلق قلب سے ہے۔

  مخلَص جس کو خداوند عالم نے شرک و معاصی سے پاک وصاف فرما دیا ہو۔( اسم مفعول جنہیں اللہ نے خالص بنایا ہے،رہائی یافتہ لوگ جن کے قلب کو  ﷲ نے اپنی عبادت کیلئے خالص کیا ،جو شخص تکلف کے مرحلے سے حقیقت کے مرحلے میں جا چکا ہو ۔اس کی مثال مکھن کی ہے جو دودھ اور لسی سے نکلتا ہے) جب انسان مخلِص ہوتا ہے اور اس کے اخلاص کو اللہ قبول فرماتا ہے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے اپنے لیے مخلَص بناتا ہے۔ پہلے مخلِص ہوتا ہے ، بعد میں مخلَص۔

اخلاص کا بیان

ارشاد خداوندی ہے: أَلَا لِلَّهِ الدِّينُ الْخَالِصُ ہاں خالص اللہ ہی کی بندگی ہے۔ (الزمر:3)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں رسول اکرم ﷺنے فرمایا:

ثَلَاثٌ لَا يُغِلُّ   عَلَيْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ: إِخْلَاصُ العَمَلِ لِلَّهِ، وَمُنَاصَحَةُ أَئِمَّةِ المُسْلِمِينَ، وَلُزُومُ جَمَاعَتِهِمْ(سنن الترمذی کتاب العلم)

تین باتوں پر مسلمانوں کے دل میں خیانت پیدانہیں ہوتی (1) اللہ کے لیے خالص عمل کرنا۔ (2)اپنے کام کی خیر خواہی کرنا۔ (3)مسلمانوں کی جماعت کا ساتھ دینا۔

نیکیوں پرجن خوش نصیبوں کو دس گنا، سو گنا اور سات سو گنا اور اس سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھا کر اجر وثواب سے نوازا جاتا ہے اس کا تعلق ’’اخلاص‘‘ سے ہے۔

اخلاص کی تعریف

اخلاص یہ ہے کہ ارادے کے ساتھ صرف اللہ کے لیے عبادت کی جائے یعنی وہ عبادت کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کرے کوئی اور مقصد نہ ہو، نہ تو مخلوق کے لیے بناوٹ ہونہ لوگوں سے تعریف کی خواہش ہو اور نہ ہی لوگوں سے تعریف کروانے کی محبت ہو بلکہ اللہ کے قرب کے علاوہ کوئی دوسری بات پیش نظر نہ ہو۔

یہ کہنا بھی درست ہے کہ مخلوق کی نگاہوں سے اپنے فعل کو پاک رکھنے کا نام ”اخلاص ‘‘ہے۔ اور یہ کہنا بھی ٹھیک ہے کہ لوگوں کی نگاہوں سے بچنے کا نام ”اخلاص‘‘ ہے۔

ایک مستند حدیث میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے خبر دی اور وہ اللہ سے کہتے ہیں کہ اللہ نے فرمایا:

الإِخْلاصُ سِرٌّ مِنْ سِرِّي أَوْدَعْتُهُ قَلْبَ مَنْ أَحْبَبْتُ مِنْ عِبَادِي)اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے میں جس بندے سے محبت کرتا ہوں اسے اس کے دل میں رکھ دیتا ہوں۔“(الفردوس بماثورالخطاب باب القاف)

 اخلاص اللہ کے رازوں سے راز ہے

نبی اکرم ﷺسے اخلاص کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے اخلاص کے بارے میں پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اللہ نے فرمایا: (سَأَلْتُ رَبَّ الْعِزَّةِ عَنِ الإِخْلاَصِ مَا هُوَ ؟ فَقَالَ : سِرٌّ مِنْ سِرِّي أوْدَعْتُهُ قَلْبَ مَنْ أحْبَبْتُ مِنْ عِبَادِي ی میرے رازوں میں سے ایک راز ہے جس کو میں نے اس بندے کے دل میں رکھا ہے جس سے میں محبت کرتا ہوں ۔ (الفردوس بماثورالخطاب باب القاف)

اخلاص کے بارے اقوال

حضرت استاد ابوعلی دقاق رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں: اخلاص مخلوق کی نگاہوں سے بچنے کا نام ہے اور صدق نفس کو اعمال دکھانے سے بچنے کو کہتے ہیں۔ پس’’ مخلص‘ ‘ریاکارنہیں ہوتا اور ”صادق ‘‘خود پسندنہیں ہوتا۔

حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ     فرماتے ہیں: اخلاص صرف صداقت اور اس پر صبر کے ذریعےمکمل ہوتا ہے اور صدق اس صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے کہ اس میں اخلاص ہو اور اس پر مداومت اختیار کی جائے۔

حضرت ابویعقوب سوسی رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں: جب لوگ اپنے اخلاص میں اخلاص کا مشاہدہ کریں تو ان کا ’’اخلاص“ بھی اخلاص کا محتاج ہوتا ہے۔

 حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ    فرماتے ہیں تین باتیں اخلاص کی علامات میں سے ہیں۔

(اسْتِوَاءُ الْمَدْحِ وَالذَّمِّ مِنَ الْعَامَّةِ) بندے کے نزدیک عوام کی طرف سے مدح اورمذمت ایک جیسی ہے۔“

 (وَنِسْيَانُ رُؤْيَةِ الْأَعْمَالِ فِي الْأَعْمَالِ)اعمال میں اپنے اعمال کو دیکھنا بھول جائے۔“

  (وَنِسْيَانُ اقْتِضَاءُ ثَوَابِ الْعَمَلِ فِي الْآخِرَةِ)”آخرت میں اعمال کا ثواب چاہنے کو ہی بھول جائے۔“ (حلیۃ الاولیاء)

حضرت ابوعثمان مغربی  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں: اخلاص یہ ہے کہ کسی حالت میں نفس کا حصہ نہ پایا جائے   یہ عوام کا ’’اخلاص ‘‘ہے۔

 خاص لوگوں کا ’’اخلاص ‘‘یہ ہے جو اللہ کی طرف سے ان پر جاری ہو ان کے اپنے ذریعے سے نہ ہو۔ ان سے عبادات ظاہر ہوتی ہیں لیکن ان کا ان میں ذاتی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کی طرف سے ریاکاری ہوتی ہے اور نہ وہ ان کو کسی شمار میں لاتے ہیں۔ یہ خاص لوگوں کا ’’اخلاص‘‘ہے۔

حضرت ابوبکر دقاق  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں: ہر مخلص کے اخلاص کا نقصان اپنے اخلاص کو مدنظر رکھنا ہے جب اللہ اس کے اخلاص کو خالص کرنا چاہتا ہے تو وہ اس سے اخلاص کے دیکھنے کو بھی ساقط کر دیتا ہے لہذا وہ”مخَلص“(جس کو اخلاص عطا کیا گیا )ہوتا ہے مخِلص نہیں۔

حضرت سہل رحمۃ اللہ علیہ   بھی فرماتے ہیں: (لَا يَعْرِفُ الرِّيَاءَ إِلَّا مُخْلِصٌ)ریا کی پہچان صرف مخلص کو ہوتی ہے۔

حضرت ابوسعید خراز رحمۃ اللہ علیہ   بھی فرماتے ہیں: رِيَاءُ الْعَارِفِينَ أَفْضَلُ مِنْ إِخْلَاصِ الْمُرِيدِينَ “عارف لوگوں کاریا ءمریدین کے اخلاص سے افضل ہوتا ہے۔“

حضرت ذوالنون رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں: اخلاص وہ چیز ہے جو انسان کو دشمن کے خراب کرنے سے بچاتا ہے۔

 حضرت ابوعثمان رحمۃ اللہ علیہ    فرماتے ہیں: اخلاص یہ ہے کہ مخلوق کو دکھانا بھول جائے اور ہمیشہ خالق کے فضل کو دیکھے۔

 حضرت حذیفہ مرعشی رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں: اخلاص یہ ہے کہ بندے کے افعال ظاہر و باطن میں برابر ہوں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اخلاص وہ ہے جس سے حق سبحانہ کا ارادہ کیا جائے اور اس کے ساتھ  حق کا قصد کیا جائے۔

 کہا گیا ہے کہ اعمال کو دیکھنے سے آنکھوں کو بند کرنے کا نام اخلاص ہے۔

حضرت سری سقطی  رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں: (مَنْ تَزَيَّنَ لِلنَّاسِ بِمَا لَيْسَ فِيهِ سَقَطَ مِنْ عَيْنِ اللَّهِ تَعَالَى)

جوشخص لوگوں کے لیے اس چیز کے ساتھ زینت ظاہر کرے جو اس میں نہیں وہ ا للہ تعالیٰ کی نظروں سے گر جاتا ہے۔

 حضرت فضیل رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: لوگوں کے لیے عمل کو چھوڑ دینا ’’ریاء‘‘ ہے۔ لوگوں کے لیے عمل کرنا ’’شرک“ (شرک خفی )ہے اور ’’اخلاص‘‘ یہ ہے کہ اللہ تعالی تمہیں ان دونوں باتوں سے بچائے۔

حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: اخلاص اللہ اور بندے کے درمیان ایک راز ہے اسے فرشتہ بھی نہیں جانتا کہ لکھ دے اور نہ شیطان جانتا ہے کہ خرابی پیدا کرے اورنہ  خواہش نفس کو اس کا علم ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنی طرف مائل کرے۔

حضرت رویم رحمۃ اللہ علیہ   فرماتے ہیں: اعمال میں اخلاص یہ ہے کےعمل کرنے والا دونوں جہانوں میں اس کا بدلہ نہ چاہے اور نہ ہی دونوں فرشتوں (کراماکاتبین) سے کوئی حصہ چاہے۔

حضرت سہل بن عبدالله رحمۃ اللہ علیہ  سے پوچھا گیا: (أَيُّ شَيْءٍ أَشَدُّ عَلَى النَّفْسِ ؟” نفس پر کون سی چیز زیادہ  سخت ہے؟

انھوں نے فرمایا: (الْإِخْلَاصُ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ لَهَا فِيهِ نَصِيبٌ ‘‘ کیونکہ اس میں نفس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔

کسی اور بزرگ سے اخلاص کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: اخلاص یہ ہے کہ تم اپنے عمل پرالله کے سوا کسی کو گواہ نہ بناؤ۔

مخلِص قلیل ہیں

کسی بزرگ نے فرمایا: میں جمعہ کے دن نماز سے پہلے حضرت سہل بن عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ان کے گھر گیا تو میں نے گھر میں سانپ دیکھا۔ میں ایک پاؤں بڑھاتا اور ایک پاؤں پیچھے کرتا۔

انھوں نے فرمایا: داخل ہو جاؤ انسان اس وقت تک حقیقت ایمان کو نہیں پہنچتا جب تک وہ دنیا کی کسی بھی چیز سے ڈرتا ہو۔ پھر پوچھا: کیا تو نماز جمعہ پڑھنا چاہتا ہے؟

فرماتے ہیں: میں نے کہا ہمارے اور مسجد کے درمیان ایک دن رات کی مسافت ہے۔ پس انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا، تھوڑی دیر کے بعد میں نے مسجد کو دیکھا پس ہم اس میں داخل ہوئے اور نماز جمعہ ادا کی۔ پھر باہر نکلے تو آپ کھڑے ہو کر لوگوں کو دیکھتے رہے وہ نکل رہے تھے۔ فرمایا: (أَهْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَثِيرٌ، وَالْمُخْلِصُونَ مِنْهُمْ قَلِيلٌ) لا إلہ إلا الله والے بہت لوگ ہیں لیکن ان میں مخلص تھوڑے ہیں۔

 حضرت مکحول  رحمۃ اللہ علیہ  سے مروی ہے فرماتے ہیں: جو بندہ چالیس (40) دن تک ’’اخلاص‘‘ سے عبادت کرتارہے اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر پھوٹنے لگتے ہیں۔

حضرت یوسف بن حسین  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: دنیا میں سب سے کم یاب چیز’’اخلاص‘‘ ہے۔ میں نے کئی بار اپنے دل سے’’ر یاء“ کو نکالنے کی کوشش کی مگر وہ کسی نہ کسی رنگ میں ظاہر ہو جاتی۔

حضرت ابو سلیمان رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں: جب بنده ’’مخلص‘‘ ہو جائے تو اس سےوسوسوں کی کثرت اور ’’ریاء‘‘ ختم ہو جاتی ہے۔

رسالہ قشیریہ ،ابو القاسم عبد الکریم ہوازن قشیری صفحہ379

مکتبہ اعلیٰ حضرت دربار مارکیٹ لاہور


ٹیگز

مخلِص اور مخلَص کا فرق” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں