اس بیان میں کہ صوفیہ نے سیر کو آفاق وانفس ہی میں منحصررکھا ہے اور تخلیہ اورتجلیہ اسی سیر میں ثابت کیا ہے اور حضرت ایشان یعنی حضرت مجدد قدس سرہ اس حصرے منع فرماتے ہیں اور نہایت النہایت کو آفاق وانفس سے باہر ثابت کرتے ہیں۔
خواب جمال الدین ولد مرزا حسام الدین احمد کی طرف صادر فرمایا ہے۔
الحمد لله رب العلمين والصلوة والسلام على سيد المرسلين وعلى اله الكرام وأصحابه العظام إلى يوم القيامفرزند عزیز خدا تجھے سعادت بخشے۔ گوش ہوش سے سنو کہ جب سالک نیت کو درست اور خالص کر کے۔ اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ہوتا ہے اور سخت ریاضتیں اور مجاہدے اختیار کرتا ہے اور تزکیہ (رذائل سے پاک) پاکر اس کے اوصاف رذیلہ اخلاق حسنہ سے بدل جاتے ہیں اور توبہ و انابت اس کو میسر ہو جاتی ہے اور دنیا کی محبت اس کے دل سے نکل جاتی ہے اور صبر و توکل ورضا حاصل ہو جاتے ہیں اور اپنی حاصل شدہ معانی کو درجہ بدرجہ اور ترتیب وار عالم مثال میں مشاہدہ کرتا ہے اور اپنے آپ کو بشریت کی کدورتوں اورکمینہ صفتوں سے پاک وصاف دیکھتا ہے تو اس وقت اس کا سیر آفاقی تمام ہو جاتا ہے۔
اس مقام میں اس گروہ میں سے بعض نے احتیاط اختیار کی ہے اور انسان کے ساتوں لطیفوں میں سے ہر ایک لطیفہ کیلئے عالم مثال میں اس کے مناسب انوار میں سے ایک نور مقرر کیا ہے اور اس نور مثالی میں سے نور کے ظاہر ہونے کو اس لطیفہ کی صفائی کی علامت مقرر کی ہے اور اس سیرکولطیفہ قلب سے شروع کر کے بتدریج و ترتیب لطیفہ اخفی تک جوتمام لطائف کامنتہاہے، پہنچایا ہے۔
مثلا صفائی قلب کی علامت قلب کے نور کا ظہور مقرر کی ہے اور عالم مثال میں وہ نور نور سرخ کی صورت میں ہے اور صفائی روح کی علامت اس کے نور کا ظہور ہے جو نور زرد کی صورت میں مقرر ہے۔ اسی طرح دوسرے لطائف کا حال ہے۔ پس سیرآفاقی کا حال یہ ہے کہ سالک اپنے اوصاف کی تبدیلی اور اخلاق کے تغیر کو عالم مثال کے آئینے میں مشاہدہ کرتا ہے اور اپنی کدورتوں اورظلمتوں کا دور ہونا اس جہان میں محسوس کرتا ہے تا کہ اس کو اپنی صفائی کایقین اور اپنے تزکیہ کا علم ہو جائے۔ جب سالک اس سیر میں دمبدم اپنے احوال و اطوار کو عالم مثال میں جو من جملہ آفاق کے ہے، مشاہدہ کرتا ہے اور اس عالم میں ایک حالت سے دوسری حالت میں اپنی تبدیلی کو دیکھتا ہے تو گویا اس کا یہ سیر آفاق ہی میں ہے۔ اگرچہ درحقیقت یہ سیر سالک
کے اپنے نفس کا سیر ہے اور اس کے اپنے اوصاف و اخلاق میں حرکت کیفی ہے لیکن چونکہ دوربینی کے باعث اس کے مدنظر آفاق ہے نہ کہ انفس۔ اس لیے یہ سیر بھی آفاق کی طرف منسوب ہے۔ اس سیر کے تمام ہونے کو جو آفاق کی طرف منسوب ہے۔ سیرالی اللہ کا تمام ہونا مقرر کیا ہے اور فنا کو اس سیر پر موقوف رکھا ہے اور اس سیرکو سلوک سے تعبیر کیا ہے۔
اس کے بعد جو سیر واقع ہوتا ہے، اس کو سیرانفسی کہتے ہیں اور سیر فی اللہ بھی بولتے ہیں اور بقا باللہ اس مقام میں ثابت کرتے ہیں اور اس مقام میں سلوک کے بعد جذبہ کا حاصل ہونا جانتے ہیں۔ چونکہ سالک کے لطائف سیر اول میں تزکیہ پا چکے ہیں اور بشریت کی کدورتوں سے صاف ہو جاتے ہیں، اس لیے یہ قابلیت پیدا کر لیتے ہیں کہ اسم جامع (جو اس کا رب ہے)کے ظلال وعکوس ان لطائف کے آئینوں میں ظاہر ہوں اور یہ لطائف اس اسم جامع کی جزئیات کے تجلیات وظہورات کے مظہر اور مورد ہوں۔
اس سیرکوسیرانفسی اس لیے کہتے ہیں کہ انفس اسماء کے ظلال وعکوس کے آ ئینے ہیں۔ نہ یہ کہ سالک کا سیر نفس میں ہے۔ جیسے کہ سیر آفاقی میں گزرا کہ باعتبار آئینہ ہونے کے اس کو سیر آفاقی کہا ہے۔ نہ یہ کہ سیر آفاق میں ہے۔ اس سیر میں درحقیقت اس کےآئینوں میں اسماء کے ظلال کا سیر ہے۔ اسی واسطے اس سیرکوسیر معشوق فی العاشق کہتے ہیں۔
. آئینہ صورت از سفر دور است . کان پذیر اے صورت از نور است
ترجمہ: سفر سےصورت کا آئینہ ہے اور قبول کرتا ہےصورت کو وہ باعث نور۔
اس سیر کو سیر فی اللہ اس اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ صوفیاء نے کہا ہے کہ سالک اس سیر میں اللہ تعالی کے اخلاق سےمتخلق ومتصف ہو جاتا ہے اور ایک خلق سے دوسری خلق میں انتقال کرتا ہے کیونکہ مظہر کو ظاہر کے بعض اوصاف سے حصہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اگرچہ اجمالی طور پر ہو۔ گویا حق تعالی کے اسماء میں سیرمتحقق ہو گیا۔ اس مقام کی نہایت تحقیق اور اس کلام کی تصحیح یہی ہے جو بیان ہو چکی۔ دیکھیں صاحب مقام کا کیا حال ہوگا اور کلام کے متکلم کی کیا مراد ہوگی۔ ہر ایک شخص سے اس کی سمجھ کے مطابق کلام کرتا ہے۔ کہنے والا اپنی کلام سے خواہ کچھ معنی مرادر کھے۔ سننے والا اسی کلام سے کچھ اور معنی بھی سمجھ لیتا ہے۔ یہ لوگ سیرانفسی کو بے تکلف سیر فی اللہ اور بے تحاشا اس کو بقا باللہ کہتے ہیں اور مقام وصال و اتصال خیال کرتے ہیں۔ یہ اطلاق اس فقیر پر بہت گراں گزرتے ہیں۔ اسی واسطے اس کی توجیہ اورتصحیح میں حیلہ وتکلف کیا جاتا ہے۔ جس کا کچھ حصہ ان کی کلام سے ماخوذ ہے اور کچھ افاضہ اور الہام کی راہ سے حاصل ہے۔سیر آفاقی میں رذائل یعنی بری صفتوں سے تخلیہ حاصل ہو چکا ہوتا ہے اور سیرانفسی میں اخلاق حمیدہ سے آراستہ ہو جاتے ہیں کیونکہ تخلیہ یعنی بری صفات سے خالی ہونا مقام فنا کے مناسب ہے اور تجلیہ یعنی نیک صفات سے آراستہ ہونا مقام بقا کے لائق۔ ان کے نزدیک اس سیر انفسی کی نہایت نہیں اور عمر ابدی کے ساتھ بھی اس کے منقطع نہ ہونے کا حکم کیا ہے اور کہا ہے کہ محبوب کے اوصاف اور خصلتوں کی کوئی نہایت نہیں۔
پس ہمیشہ کے لیے سالک متخلق کے آئینہ میں اس کی صفات میں سے کسی صفت کی تجلی ہوگی اور اس کے کمالات میں سے کسی کمال کا ظہور ہوگا۔ پھر انقطاع کہاں ہو گا اور نہایت کس طرح جائز ہوگی اور انہوں نے کہا ہے
ذره گر بس نیک اور بس بدبود گرچہ عمرے تنگ زند در خود بود
ترجمہ: ذره گر ہو نیک یا ہو بد عیاں عمر بھر دوڑے تو پھر بھی ہے یہاں
اور اس فنا و بقاء پر جو سیر آفاقی اور انفسی سے حاصل ہوا ہے، ولایت اطلاق کرتے ہیں اور نہایت کمال اس جگہ تک جانتے ہیں۔ اس کے بعد اگر سیر میسر ہو تو وہ سیران کے نزدیک رجوعی ہے جس کو سیرعن الله باللہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ . اسی طرح سیر چہارم کو بھی جس کوسیرفی الاشياءبا اللہ کہتے ہیں ۔ نزول(رجوع) کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ان دوسیروں کو تکمیل و ارشاد کے لیے مقرر کیا ہے جس طرح کہ پہلے دوسیروں کونقص ولایت و کمال کے حاصل ہونے کے لیے مقرر کیا ہے اور بعض نے یوں کہا ہے کہ وہ سترہزار پردے جن کا ذکر حدیث میں آیا ہے ان لله سبعين الف حجاب من نور وظلمة تحقیق الله تعالی کے لئے ستر ہزار پردے نور اور ظلمت کے ہیں۔ سب کے سب سیر آفاقی میں دور ہو جاتے ہیں کیونکہ ساتوں لطائف میں سے ہر ایک لطیفہ دس دس ہزار پردوں کو دور کر دیتا ہے اور جب یہ سیر تمام ہو جاتا ہے۔ پردے بھی سب کے سب دور ہو جاتے ہیں اور سالک سیر فی اللہ سے متحقق ہو جاتا ہے اور مقام وصل میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ ہے ارباب ولایت کےسیر وسلوک کا حاصل اور ان کے کمال وتکمیل کا نسخہ جامعہ۔
. اس بارہ میں جو کچھ اس فقیر پر اللہ تعالی کے فضل و کرم سے کیا گیا ہے اور جس راستے پر اس فقیر کو چلایا ہے۔ اس نعمت کے ظاہر اور عطیہ کے شکر ادا کرنے کی خاطر اس کو لکھتا اور بیان کرتا ہے۔ فاعتبروا أولي الأبصار.
اے عزیز خدا تجھے سیدھے راستے کی ہدایت دے۔ تجھے جاننا چاہیئے کہ حق تعالی جو بے چون و بیچگون ہے، جس طرح آفاق سے وراء الوراء ہے، اسی طرح انفس سے بھی وراء وراء الوراء ہے پس سیر آفاقی کو سیر الی اللہ اور سیرانفسی کو سیر فی الله کہنا فضول ہے بلکہ سیر آفاقی اور سیر انفسی دونوں سیر الی اللہ میں داخل ہے اور سیر فی الله وہ سیر ہے جو آفاق وانفس سے کئی منزلیں دور اور ان سےوراء الوراء ہے۔عجب معاملہ ہے کہ انہوں نےسیرفی اللہ کو سیرانفسی مقرر کیا ہے اور اس کو بے نہایت کیا ہے اور عمر ابدی سے بھی اس کا طے ہونا جائز نہیں سمجھا۔ جیسے کہ گزر چکا ہے۔ جب انفس بھی آفاق کی طرح دائرہ امکان میں داخل ہوتا ہے تو اس صورت میں دائرہ امکان کا قطع کرنا ناممکن ہوگا۔ پس اس سے دائمی مایوسی اور خسارہ کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔نہ کبھی فنا متحقق ہوگی نہ بقا تصور ہوگا۔ پھر وصال و اتصال کیسے ہوگا اور قرب و کمال کیا حاصل ہوگا۔
سبحان اللہ جب بزرگ لوگ پانی کو چھوڑ کر سراب پر کفایت کریں اور الی اللہ کو فی اللہ خیال کریں اور امکان کو وجوب تصور کریں اور چون کو بیچون تعبیر کریں تو پھر چھوٹوں اور پست فطرتوں کا کیا گلہ اور کیا شکایت ہے۔ ان لوگوں کو کیا ہو گیا۔ انہوں نے اس کو کس اعتبار سےحق تعالی کہا ہے کہ اس کےسیر کو باوجود حد و نہایت کے بے نہایت کہا ہے۔ سالک آئینہ میں حق تعالی کے اسماء و صفات کا وہ ظہور جو انہوں نےسیرانفسی میں مقرر کیا ہے۔ وہ اسماء و صفات کے ظلال میں سے کسی ظل کا ظہور ہے۔ نہ عین اسماء و صفات کا ظہور ۔ اس مضمون کی تحقیق اس کتاب کے آخر میں انشاء الله تعالی کی جائے گی۔
میں کیا کروں اور باوجودعلم وتمیز کے حق تعالی کی پاک جناب میں یہ بے ادبی کس طرح جائز رکھوں اور حق تعالی کے ملک میں غیر کو کیسے شریک کروں۔ اگرچہ ان بزرگواروں کے حقوق مجھ پر لازم ہیں کیونکہ انہوں نے مجھے طرح طرح کی تربیت سے پرورش کیا ہے لیکن حق تعالی کے حقوق ان تمام کے حقوق سے بڑھ کر ہیں اور اس کی تربیت دوسروں کی تربیت سے برتر ہے۔ اللہ تعالی کی حسن تربیت کے سبب میں نے اس بھنور سے نجات پائی ہے اور اس کے ملک مقدس میں غیر کو شریک نہیں کیا۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ الله تعالی کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو اس کی ہدایت دی اور اگر وہ ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے۔)حق تعالی بیچون و بے چگون ہے اور جو چیز چونی اور چندی کے داغ سے لتھڑی ہوئی ہے، سب اس کے بارگاہ سے مسلوب اور دور ہے۔ پس آفاق کے آئینوں میں اور اس کی جلوہ گاہوں میں حق تعالی کی بھی گنجائش نہیں اور جو کچھ ان میں ظاہر ہوتا ہے، وہ بھی چند و چون کا مظہر ہے۔ پس انفس وآفاق سے آگے گزرنا چاہیئے اور حق تعالی کو انفس و آفاق سے ماوراء ڈھونڈ نا چاہیئے۔ جس طرح دائرہ امکان یعنی نفس و آفاق میں حق تعالی کی ذات کی گنجائش نہیں۔ اس کے اسماء و صفات کی بھی گنجائش نہیں کیونکہ جو کچھ وہاں ظاہر ہے، اسماء و صفات کے ظلال وعکوس اور ان کی شبہ و مثال ہیں بلکہ اسماء و صفات کی ظلیت اور مثالیت بھی آفاق و انفس سے باہر ہے۔ اس جگہ تعبیہ (آراستہ کرنا)اورنقش قدرت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ورنہ ظہور کس کا اور تجلی کہاں۔ کیونکہ حق تعالی کے اسماء و صفات بھی اس کی ذات کی طرح بیچون و بے چگون اور بے شبہ و بے نمونہ ہیں جب تک انفس و آفاق سے باہر نہ نکلیں ۔ حق تعالی کے اسماء و صفات کی ظلیت کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تو پھر اسماء و صفات تک وصول کیسے حاصل ہوگا۔
عجب معاملہ ہے کہ اگر میں اپنے یقینی مکشوفات ومعلومات کو بیان کروں تو مشائخ کے مذاق اور ان کے مکشوفات کے موافق و مطابق نہ ہوں گے تو پھر مجھ پر کون اعتبار کرے گا اور کون قبول کرے گا اور اگر کچھ نہ کہوں پوشیدہ ہی رہنے دوں تو حق باطل کے ساتھ ملا رہے گا اورحق تعالی کے حق میں ان امور کا اطلاق جائز سمجھا جائے گا جو اس کی بارگاہ کے لائق نہیں۔ اس لیے جو کچھ حق تعالی کی پاک جناب کے نامناسب ہے، اس کو سلب اور دفع کرتا ہوں اور دوسروں کے خلاف سے نہیں ڈرتا ہوں۔ ان کی مخالفت کا خوف تب ہوسکتا ہے جب کہ میرے معاملہ میں تذبذب اور میرے مکشوف میں شبہ ہو۔ جب اصل حقیقت کوصبح کی سفیدی کی طرح ظاہر کر دیں اور اصل معاملہ کو چودھویں رات کے چاند کی طرح واضح کر دیں اور تمام ظلال وشبہ ومثال سے گزار کر بالاتر لے جائیں تو پھر وہ کہاں ہوگا اور تردد وتذبذب کس کو پیدا ہوگا۔
ہمارے حضرت خواجہ قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ احوال کے درست ہونے کی علامت اپنے کمال پر یقین کا حاصل ہونا ہے۔ نیز تذبذب و اشتباه کیسے متصور ہوسکتا ہے جب کہ اللہ تعالی کی عنایت بے غایت سے ان بزرگواروں کے مقرر احوال کی تفصیل پر اطلاع ہو چکی ہے اور معارف توحید و اتحاد واحاطہ (اللہ تعالیٰ کا ہر چیز پر محیط ہونا)اور سریان (اللہ تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا) مکشوف ہو گئے ہیں اور ان کے مکشوف ومشہودکی حقیقت حاصل ہو چکی ہے اور ان کے علوم و معارف کے دقائق واضح ہو گئے ہیں۔
فقیر دنوں تک اس مقام میں ٹھہرا رہا اور ان کے قلیل و کثر پرخوب غور کیا۔ آخر کارفضل خداوندی جل شانہ سے ظاہر ہوا کہ یہ سب ظلال کے شعبدے اور شبہ و مشال کی گرفتاری ہے۔ مطلوب ان سب سے وراء الوراء اور مقصودان سے سواء السواء ہے۔ ناچاران سب سے منہ پھیر کر بیچون کی بارگاہ پاک کی طرف متوجہ ہوا اور جو کچھ چند و چون کے داغ سے موسوم تھا۔ اس سے بیزار ہوا۔ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ سب طرف سے ہٹ کر میں نے اپنے آپ کو اس ذات پاک کی طرف متوجہ کیا جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں) اگر معاملہ ایسا نہ ہوتا تو مشائخ کے برخلاف ہرگز نہ کہتا اورظن وتخمین سے ان کی مخالفت نہ کرتا۔ نیز اگر یہ خلاف حق تعالی کی ذات و صفات کے متعلق نہ ہوتا اور اس کی تقدیس و تنزیہ کی نسبت گفتگو نہ ہوتی تو پھر بھی ان بزرگوں کے مکشوف کے برخلاف وقوع میں نہ آتا اور ان کے علوم کی مخالفت میں کلام نہ کرتا کیونکہ میں انہی کی دولتوں کے خرمنوں کا کمینہ خوشہ چین ہوں اور انہی کی نعمتوں کے دسترخوان سے پس خوردہ کھانے والا فقیر ہوں۔ بار بار یہی ظاہر کرتا ہوں کہ انہی لوگوں نے مجھے طرح طرح کی تربیت سے پرورش کیا ہے اور طرح طرح کے کرم واحسان سے مجھے فائدہ پہنچایا ہے۔
لیکن کیا کروں حقوق خداوندی ان کے حقوق سے برتر ہیں۔ جب حق تعالی کی ذات و
صفات کی بحث درمیان میں آگئی اور معلوم ہوا کہ بعض امور کا اطلاق حق تعالی کی پاک جناب کے لائق نہیں تو اس مقام پر خاموش رہنا اور دوسروں کے خلاف سے ڈرنا دین و دیانت سے دور ہے، بندگی اور اطاعت کا مقام اس کی تاب نہیں لاسکتا۔ علماء کا خلاف مشائخ کے ساتھ مسئلہ تو حید و غیره امور خلافیہ میں نظر و استدلال کی وجہ سے ہے اور فقیر کا خلاف ان کے ساتھ ان امور میں کشف و شہود کی وجہ سے ہے۔ علماء ان امور کی قباحت کے قائل ہیں اور فقیر بشرط عبوران امور کے حسن کا ۔ مسئلہ وحدت وجود میں شیخ علاء الدولہ کا خلاف علماء کے طور پر مفہوم ہوتا ہے اور اس کی نظر امور کی قباحت پر ہے۔ اگرچہ اس کا خلاف کشف کی راہ سے بھی ہے کیونکہ صاحب کشف ان کو قبیح نہیں جانتا۔ اس لیے کہ یہ مسئلہ احوال غریبہ اور معارف عجیبہ پرمشتمل ہے۔ ہاں اس مقام میں ٹھہرارہنا اچھا نہیں اور انہی احوال و معارف پر کفایت کرنا مناسب نہیں۔
سوال: اس صورت میں مشائخ باطل ہوں گے اور ان کے مکشوف ومشہودکے برخلاف ہوگا۔
جواب: باطل وہ ہوتا ہے جس میں صدق کی بو نہ ہو اور جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں، ان احوال و معارف کا باعث حق تعالی کی محبت کا غلبہ ہے یعنی حق تعالی کی محبت یہاں تک غالب آجاتی ہے کہ ان کی نظر بصیرت میں ماسوا کا نام و نشان نہیں چھوڑتی اور غیرو غیریت کا اسم ورسم محو ولاشے کر دیتی ہے۔ اس وقت سکر(مستی) و غلبہ حال کے باعث ماسوا کو معدوم جانتے ہیں اور حق تعالی کے سوا کچھ موجودنہیں دیکھتے۔ . یہاں باطل کیا ہے اور بطلان کہاں ہے۔ اس مقام میں حق کا غلبہ اور باطل کا بطلان ہے۔ بزرگواروں نے حق تعالی کی محبت میں اپنے آپ کو اور اپنے غیر کوقربان کر دیا ہے اور اپنا اور اپنے غیر کا نام ونشان نہیں چھوڑا۔ باطل تو ان کے سایہ سے بھاگتا ہے۔ یہاں سب حق ہی حق ہے اور حق ہی کے لیے ہے۔ علمائے ظاہربیں ان کی حقیقت کو کیا پاسکیں اور ظاہری مخالفت کے سوا اور کیا سمجھیں اور ان کے کمالات کو کیسے حاصل کرسکیں۔
گفتگو اس امر میں ہے کہ ان احوال و معارف کے سوا اور بھی اس قسم کے کمالات ہیں۔ جن کے ساتھ یہ احوال و معارف وہ نسبت رکھتے ہیں جو قطرے کو دریائے محیط کے ساتھ ہے۔
آساں نسبت بعرش آمد فرود ورنہ بس عالیست پیش خاک تود
ترجمہ: عرش سے نیچے ہے گرچہ آسماں لیک اونچا ہے زمین سے اے جواں
اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جو انہوں نے خرق حجب یعنی پردوں کے دور ہونے کی نسبت کہا ہے کہ سیر آفاقی میں سب ظلمانی اور نورانی پردے دور ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ گزر چکا۔
فقیر کے نزدیک اس کلام میں خدشہ ہے بلکہ اس کے برخلاف ثابت ہے اور مشہود ہوا ہے کہ ظلمانی پردوں کا دور ہو نا امکان کے تمام مراتب طے کرنے یعنی سیر آفاقی اور سیرانفسی کے تمام ہونے پر وابستہ ہے اور نورانی پردوں کا دور ہونا حق تعالی کے اسماء و صفات کےسیر پر موقوف ہے۔ حتی کہ نظر میں نہ اسم ہے نہ صفت اور نشان اور نہ اعتبار۔ اس وقت تمام نورانی پردے دور ہو جاتے ہیں اور وصل وعریانی حاصل ہوتا ہے۔ یہ عمل بہت ہی کم کسی کو حاصل ہوتا ہے اور ایسے دل والا نہایت ہی عزیز الوجود ہے ۔
پس سیر آفاقی میں معلوم نہیں کہ نصف ظلمانی پردے بھی دور ہوتے ہوں۔ پھر نورانی .پردوں کے دور ہونے کا کیا حال ہے۔
حاصل کلام یہ ہے ظلمانی پردوں میں مختلف اور متفاوت مرتبے ہیں جو اشتباه کا سبب ہو جاتے ہیں کیونکہ نفانی پردے ظلمت میں قلبی پردوں کے اوپر ہیں۔ جس طرح کہ تھوڑی سی ظلمت والی چیز بہت سی ظلمت والی چیز کی نسبت اپنے آپ کو زیادہ نورانی ظاہر کرے اور ظلمانی نورانی متخیل ہو ورنہ درحقیقت ظلمانی ظلمانی ہے اور نورانی نورانی ۔ تیز نظروالا شخص ایک کو دوسرے کے ساتھ نہیں ملاتا اور اشتباه کا باعث معلوم کر کے ظلمت پر نور کا حکم نہیں کرتا۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ به الله تعالی کا فضل ہے۔ جس کو چاہتا ہے، دیتا ہے اور اللہ تعالی بڑے فضل والا ہے۔
وہ طریق کے جس کے سلوک سے اس فقیر کومشرف فرمایا ہے۔ ایسا طریق ہے جو جذبہ و سلوک کا جامع ہے۔ وہاں تخلیہ اورتجلیہ باہم جمع ہیں اور تصفیه و تزکیہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ اس مقام میں سیر انفسی سیر آفاقی کو شامل ہیں۔ عین تصفیہ میں تزکیہ ہے اور عین تجلیہ میں تخلیہ۔ جذبہ سے سلوک حاصل ہوتا ہے اور انفس کو آفاق شامل ہے لیکن تقدم ذاتی تجلیہ اور جذبہ کے لیے ہے اور تزکیہ پرتصفیہ کوذاتی سبقت ہے اورمدنظر ملحوظ انفس ہے نہ کہ آفاق۔
یہی وجہ ہے کہ یہ راستہ سب راستوں سے اقرب اور وصل کے نزدیک تر ہے بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ طریقہ البتہ موصل ہے۔ یہاں عدم وصول کا احتمال مفقود ہے۔حق تعالی سے استقامت اور فرصت طلب کرنی چاہیئے اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ یہ طریق البتہ موصل ہے، اس لیے ہے کہ اس راہ کا پہلا قدم جذبہ ہے جو وصول کی دہلیز ہے اور توقعات کی جگہیں یا سلوک کی منزلیں ہیں یا وہ مقامات جذبات جو سلوک پر شامل نہ ہوں اور اس طرق میں یہ دونوں مانع مرتفع ہیں کیونکہ یہ سلوک طفیلی ہے جو جذبہ کے ضمن میں حاصل ہو جاتا ہے۔ یہاں نہ سلوک خاص ہے اور نہ جذ بہ ناقص تا کہ سدراہ ہوں۔
یہ وہ طریق ہے جو انبیاء علیہم السلام کی شاہراہ ہے۔ یہ بزرگواراس راہ سے اپنے اپنے درجوں کے موافق وصول کی منزلوں تک پہنچے ہیں اور آفاق و انفس کو ایک قدم سے قطع کر کے دوسرا قدم آفاق و انفس کے آگے رکھا ہے اور اپنا معاملہ سلوک و جذبہ سے آگے لے گئے ہیں کیونکہ سلوک کی نہایت سیر آفاقی کی نہایت تک ہے اور جذبہ کی نہایت سیرانفسی کی نہایت تک۔ جب سیرآفاقی وانفسی ختم ہوا سلوک و جذ ب کا معاملہ بھی تمام ہوا۔ بعدازاں نہ سلوک ہے نہ جذبہ۔ یہ بات ہر مجذوب سالک (۔ مجذوب سالک وہ ہے جس کے سلوک کی ابتداء جذبہ سے ہو۔)اور سالک مجذوب (سالک مجذوب وہ ہے جس کو سلوک کی انتہاء میں جذبہ نصیب ہو۔)کی سمجھ میں نہیں آتی کیونکہ ان کے نزدیک آفاق و انفس کے آگے کوئی مرتبہ نہیں۔ اگر بالفرض ابدی اور دائمی عمر پائیں اور اس کوسیرانفسی میں لگائیں تو بھی اس کو تمام نہ کر سکیں۔ ایک بزرگ فرماتا ہے۔ بیت
ذره گر بس نیک و ربس بدبود گر چہ عمرے تگ زند در خود بود
ترجمہ: ذره گر ہو نیک یا ہو گر برا عمر بھر دوڑے رہے اس جا پڑا
ایک اور بزرگ فرماتا ہے کہ تجلی ذاتی متجلی لہ نے حق کے آئینہ میں اپنی صورت کے سوانہیں دیکھا اور حق کونہیں دیکھا اور نہ ہی ممکن ہے کہ اس کو دیکھ سکے۔ : .جاننا چاہیئے کہ میرے پیروں اور خدا کی طرف مجھے رہنمائی کرنے والوں نے جن کے وسیلہ سے میں نے اس راہ کی آنکھ کھولی ہے اور جن کے ذریعے گفتگو کر رہا ہوں، میں نے طریقت میں الف با کاسبق انہی سے لیا ہے اور مولویت کا ملکہ ان کی توجہ شریف سے حاصل کیا ہے۔ اگر مجھے علم ہے تو انہی کے طفیل ہے اور اگر معرفت ہے تو انہی کی توجہ کااثر ہے۔ اندراج النہایت فی البدایت کا طریق میں نے انہی سے سیکھا ہے اور قیومیت کی طرف انجذاب کی نسبت انہی سے اخذ کی ہے اور ان کی ایک نظر سے وہ کچھ دیکھا ہے جو لوگ چلوں میں بھی نہیں دیکھتے اور ان کے ایک کلام سے وہ کچھ پایا ہے جو دوسرے سالوں میں نہیں پاسکتے۔ بیت
آنکہ بہ تبریزیافت یک نظرش شمس دین طعنه زند برده سخرہ کند بر چلہ ترجمہ: ایک نظر میں شمس تبریزی نے وہ کچھ پالیا جو چلوں میں اور لوگوں کونہیں حاصل ہوا ۔
کسی نے کیا اچھا کہا ہے۔ بیت
نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند کہ برند از رہ پنہان بحرم قافلہ را
ترجمہ: نقشبندی عجیب ہی قافلہ سالار ہیں جو قافلے کو خفیہ راستے سے حرم پہنچا دیتے ہیں ۔
اپنی بلندفطرتی اور عالی ہمتی سے طریقت کی ابتدا سیرانفسی سے مقرر کی ہے اور سیر آفاقی کو اس کے ضمن میں قطع کر لیتے ہیں۔ ان کی عبارت میں سفر در وطن سے مراد یہی ہے۔ ان بزرگواروں کا طریق سب طریقوں سے اقرب اور وصول کے نزدیک تر ہے اور دوسروں کےسیر کی نہایت ان کےسیر کی ابتداء ہے۔ اسی واسطے انہوں نے فرمایا ہے کہ ہم نہایت کو بدایت میں درج کرتے ہیں۔
غرض ان بزرگواروں کا طریق مشائخ کے تمام طریقوں سے بہت بلند ہے اور ان کی حضور و آ گا ہی ان میں سے اکثر کی حضور و آگاہی سے برتر ہے۔ اسی واسطے انہوں نے فرمایا
ہے کہ ہماری نسبت تمام نسبتوں سے برتر ہے اور نسبت سے ان کی مرادحضور و آ گاہی ہے لیکن چونکہ انفس و آفاق اور جذبہ سلوک کے آگے اولیاء کی ولایت کا گزر نہیں، اس لیے ان بزرگواروں نے بھی آفاق وأنفس کے سوا کوئی خبرنہیں دی اور جذبہ اور سلوک کے سوا کوئی کلام نہیں کی اور کمالات ولایت کے اندازہ کے موافق فرماتے ہیں کہ اہل اللہ فنا بقا کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں، اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ پہچانتے ہیں اپنے آپ میں پہچانتے ہیں اور ان کی حیرت ان کے اپنے وجود میں ہے۔ وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ اور تمہاری جانوں میں نشان ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے۔
اللہ تعالی کا حمد اور احسان ہے کہ ان بزرگواروں نے اگرچہ اس کے سوا کوئی اور خبر نہیں دی لیکن انفس میں گرفتاری بھی نہیں چاہتے ہیں کہ انفس کو بھی آفاق کی طرح لاکے نیچے لائیں اور غیر یت کے باعث اس کی نفی کریں۔
حضرت خواجہ بزرگ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ جو کچھ دیکھا اور سنا اور جانا گیا سب کچھ غیر ہے۔ کلمہ لا سے اس کی نفی کرنی چاہیئے۔
نقشبند ندو لے بند بہر نقش نیند ہر دم از بوالعجبی نقش دگر پیش آرند
ترجمہ نقشبند ہیں پر ہر نقش کے پابند نہیں ہیں نقش نیاد یکھتے ہیں ایک پرفر سندہ نہیں ہیں ۔
نقشبندانے والے از نقش پاک نقش راہم کردہ پاک از لوح خاک
ترجمہ: نقشبندی ہیں مگر نقشوں سے پاک ان کے نقشوں پر نہیں ہے ذرہ خاک
یہاں ایک سرہے جو جاننے کے لائق ہے اور وہ یہ ہے کہ غیر یت کی نفی اور ہے اور غیرت کا انتفا(فنا) اور شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ جذبہ وسلوک و آفاق وانفس کے باہر ولایت کا قدمگاہ نہیں ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ ولایت کے ان چاروں ارکان کے آگے کمالات نبوت کے مبادی اور مقدمات ہیں جس کے بلند درخت تک ولایت کا ہاتھ نہیں پہنچ سکتا۔
انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کے اصحاب میں سے اکثر لوگ اور باقی تمام امتوں میں سے کمتر لوگ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی وراثت اور تبعیت کے طور پر اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں اور جذبہ و سلوک کی اس جامع راہ سے بعد کی منازل کوقطع کر کے جذبہ و سلوک کے آگے قدم رکھا ہے اور دائرہ ظلال سے باہر نکل کر انفس کو آفاق کی طرح پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ اس مقام میں وہ تجلی ذاتی برقی جو دوسروں کے لیے برق خاطف کی طرح ہوتی ہے، ان کے لیے دائمی ہے بلکہ ان بزرگواروں کا معاملہ تجلی سے خواہ برقی ہو یا غیر برقی اعلی و برتر ہے کیونکہ تجلی کچھ نہ کچھ ظلیت چاہتی ہے اور ظلیت کا ایک نقطہ ان بزرگواروں کوکوہ عظیم نظر آتا ہے۔ ان بزرگواروں کے کام کی ابتداء جذب ومحبت الہی جل شانہ پر ہے۔ جب اللہ تعالی کی عنایت بیغایت سے یہ محبت دمبدم غالب آتی جاتی ہے اور قوت وغلبہ پکڑتی جاتی ہے تو آہستہ آہستہ ماسوا کی محبت زائل ہوتی جاتی ہے اور اغیار کی گرفتاری کا تعلق بتدریج دور ہوتا جاتا ہے اور جب کسی صاحب دولت پر حق تعالی کی محبت غالب آجاتی ہے اور ماسوا کی محبت بالکل زائل ہو کر اس کی بجاۓ حق تعالی کی محبت و گرفتاری آجاتی ہے تو اس کے برے اوصاف اور ردی اخلاق سب دور ہو جاتے ہیں اور اخلاق حمیدہ سے آراستہ ہو کر مقامات عشرہ کے ساتھ متحقق ہو جاتا ہے اور جو کچھ سیرآفاقی سے تعلق رکھتا ہے، سلوک اور ریاضتوں اور مجاہدوں کی تکلیف کے بغیر اس کو میسر ہو جاتا ہے کیونکہ محبت محبوب کی اطاعت چاہتی ہے۔ جب محبت کامل ہو جائے تو اطاعت بھی کامل طور پر حاصل ہو جاتی ہے اور جب محبوب کی اطاعت قوت بشری کے انداز کے موافق پورے طور پر حاصل ہو جائے تو مقامات عشرہ حاصل ہو جاتے ہیں اور اسی سیر محبوب سے جس طرح سیر آفاقی تمام ہو جاتا ہے۔سیرانفس بھی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے۔ الْمَرْءُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ (آدمی اس کے ساتھ ہوگا جس کے ساتھ اس کی محبت ہوگی)
اور جب محبوب آفاق و انفس سے باہر ہے، محب بھی معیت کے حکم سے آفاق و انفس سے گزر جائے گایعنی سیرانفسی کو بھی پیچھے چھوڑ کر معیت کی دولت حاصل کر لے گا۔ یہ بزرگوار محبت کی دولت کے باعث نہ آفاق سے تعلق رکھتے ہیں نہ انفس کے ساتھ بلکہ انفس و آفاقی ان کے کام کے تابع ہیں اور جذبہ سلوک ان کے معاملہ کا طفیلی ہے۔ ان بزرگواروں کا سرمایہ محبت ہے جس کومحبوب کی اطاعت لازم ہے اورمحبوب کی اطاعت شریعت کی تابعداری پر موقوف ہے جو الله تعالی کے نزدیک پسندیدہ دین ہے۔
پس کمال محبت کی علامت شریعت کی کمال اطاعت ہے اور شریعت کی کامل اطاعت علم و عمل و اخلاص پرمنحصر ہے۔ وہ اخلاص جو تمام اقوال و اعمال اور تمام حرکات وسکنات میں متصور ہو سکے، وہ مخَلص(بفتح لام )کا حصہ ہے۔ مخلِص ( بکسرلام) اس معما کو کیا پا سکتے ہیں۔ والمخلصون على خطر عظيم (مخلص خطرہ عظیم پر ہیں) آپ نے سنا ہی ہوگا۔
اب ہم پھر اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سلوک و جذبہ کے سیرسےمقصود یہ ہے کہ انفس ان اخلاق ردیہ اور اوصاف رذیلہ سے جن کا رئیس انفس کی گرفتاری اورا نفس کی مرادوں اور خواہش کا حاصل ہونا ہے۔ پاک صاف ہو جائے۔ پس سیرانفسی بڑا ضروری ہے کیونکہ اس کے سوا صفات رذیلہ سے صفات حمیده تک جانے کا اور کوئی راستہ نہیں اور سیر آفاقی مقصود سے خارج ہے کوئی غرض معتد بہ اس کے متعلق نہیں کیونکہ آفاق کی گرفتاری انفس کی گرفتاری کے باعث ہے کیونکہ جس چیز کو کوئی شخص دوست رکھتا ہے، اپنی دوستی کے باعث دوست رکھتا ہے۔ اگر مال و فرزند کو دوست رکھتا ہے تو اپنے نفع اور فائدے کے لیے دوست رکھتا ہے۔ جب سیرانفسی میں حق تعالی کی محبت کے غلبہ کے باعث اپنی دوستی زائل ہو جاتی ہے تو اس کے ضمن میں مال و اولاد کی محبت بھی دور ہو جاتی ہے۔
پس سیر انفسی ضروری ہے اورسیر آفاقی اس کےضمن میں اس کے طفیل میسر ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیا علیہم الصلوة والسلام کا سیر انفس پر موقوف ہے اور آفاقی اس کے طفیل اسی کے ضمن میں طے ہو جاتا ہے۔ ہاں سیر آفاقی بھی نیک ہے۔ بشرطیکہ اس سے قطع کرنے کی فرصت دیں اور توقفات کے خلل کے بغیر انجام تک پہنچا دیں اور اگر اس کے قطع کرنے کی فرصت نہ دیں اور توقفات میں ہی مبتلا رکھیں تو پھر سیر آفاقی بے معنی اور مطلب حاصل ہونے سے مانع گنا جاتا ہے۔ سیرانفسی جس قدر قطع کیا جائے غنیمت ہے کیونکہ برائی سے نیکی کی طرف جانا جس قدر ہو سکے بہتر ہے۔ اس سیر کو انجام تک پہنچانا اوردائرہ نفس سے باہر نکلنا بڑی نعمت ہے۔ اس کے ہوتے کچھ ضروری نہیں کہ انفس کی تلوینات کو آفاق کے آئینہ میں مشاہدہ کریں اور اپنے تغیرات کو آفاق میں معائنہ کر یں یعنی اپنی صفاء قلب کو مثال کے آئینہ میں معلوم کریں اور اس صفا کو نور سرخ کی صورت میں دیکھیں۔ کیوں اپنی وجدان پر عمل نہ کریں اور اس صفا کو اپنی فراست کے حوالہ کیوں نہ کریں۔
مثل مشہور ہے کہ دوازده سال یعنی بارہ سال کے آدمی کو طبیب کی کیا حاجت ہے۔ اپنے وجدان صحیح سے اپنے احوال کےتلوینات معلوم کر لے گا اور فراست کے ساتھ اپنی صحت وبیماری کا پتا لگا لے گا۔
ہاں سیرآ فاقی میں بہت سے علوم و معارف اورتجلیات اور ظہورات ہیں جو سب کے سب ظلال کی طرف راجح اور شبہ و مثال کے متعلق ہیں۔ جب سیر انفسی ظلال سے تعلق رکھتا ہو جیسے کہ اپنے مکتوبات و رسالوں میں اس کی تحقیق ہو چکی ہے تو پھر آفاقی ظل کے ظل کےساتھ متعلق ہونا چاہیئے کیونکہ آفاق انفس کے ظل کی طرح ہے اور اس کے ظہور کا آئینہ ہے۔
جاننا چاہیئے کہ انفس کے احوال جو آفاق کے آئینہ میں مشاہدہ کرتے ہیں اور صفا وتجليہ وہاں سے معلوم کرتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص خواب یا واقعہ یا عالم مثال میں اپنے آپ کو بادشاہ دیکھے یا قطب وقت مشاہدہ کرے۔ حقیقت میں وہ نہ بادشاہ ہے نہ قطب۔ بادشاہ تب ہے جب خارج میں اس مرتبہ سے مشرف ہو۔ ہاں اتنا ہو جاتا ہے کہ اس خواب اور واقعہ سے بادشاہ ہونے کی استعداد اور قطب بننے کی قابلیت معلوم ہو جاتی ہے۔ بڑی کوشش اور محنت کرنی پڑتی ہے تا کہ معاملہ قوت سے فعل میں آئے اور گوش سے آغوش تک پہنچے اور جس کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس میں بھی تزکیہ اورتجلیہ سیرانفسی پر وابستہ ہے جو کچھ سیر آفاقی میں دیکھا ہے وہ تزکیہ اور تجلیہ کی استعداد اور قابلیت ہے۔
پس جب تک خارج میں سیر انفسی کے ساتھ اپنے آپ کو پاک و صاف نہ دیکھیں اور وجدان سے اپنے آپ کو مصفا معلوم نہ کریں تب تک حقیقت میں فنا سے بے نصیب اور مقامات کے حاصل ہونے سے بے بہرہ ہیں اور اطوار سبعہ (عالم خلق اور عالم امر کے ساتوں لطائف)سے سوائے پوست کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ اس اعتبار سےسیرانفسی سیر الی اللہ میں داخل ہے اور سیر الی اللہ کا تمام ہونا جو مقام فنا ہے۔سیرانفسی پر وابستہ ہے اور سیر فی الله سیرانفسی سے کئی منز میں آگے ہے۔ بیت
كَيْفَ الْوُصُوْلُ إِلىٰ سُعَادَ وَدُوْنَهَا قُلَلْ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُيُوْفُ
میں سعاد تک کعب کیسے پہنچوں کس قدر خوفناک راستے ہیں
اے سعادت کے نشان والے۔ جب سیرانفسی میں وہ تعلق علمی وحبی جو سالک کی ذات کی طرف منسوب ہو جاتا ہے، زائل ہو جاتا ہے اور وہ گرفتاری جو اپنے آپ کے ساتھ رکھتا ہے، دور ہو جاتی ہے تو دوسروں کی گرفتاری اس کی ذات کی گرفتاری کےضمن میں زائل ہو جاتی ہے کیونکہ دوسروں کی گرفتاری اپنی گرفتاری کے باعث ہے جیسا کہ اس کے تحقیق اوپر گزر چکی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ سیرآفاقی سیرانفسی میں قطع ہو جاتا ہے اور سالک اسی ایک سیر سے اپنی گرفتاری اور دوسروں کی گرفتاری سے بھی نجات پا جاتا ہے۔ پس اس تحقیق کے اندازہ کے موافق سیرانفسی اور آفاقی کا مطلب بے تکلف حاصل ہو جاتا ہے کیونکہ سیردرا نفس بھی ہے اور سیر در آفاق بھی۔ کیونکہ نفس کا قطع تعلقات بتدریج سیردر انفس ہے اور آفاق کاقطع تعلقات جو سیرانفسی کے ضمن میں ہو جاتا ہے سیردر آفاق ہے۔ برخلاف دوسروں کے سیرآفاقی اور سیرانفسی کے جوتکلف کے محتاج ہیں جیسے کہ گزر چکا۔
ہاں جس جگہ حقیقت ہے وہاں تکلف نہیں۔ والله الموفق ذرا غور سے سنو کہ سالک کہ آئینہ میں اللہ تعالی کے اسماء و صفات کا ظہور جو سیرانفسی میں انہوں نے کہا ہے اور اس کوتجلیہ بعد تخلیه سمجھا ہیں۔ درحقیقت وہ ظہور اسماء وصفات کا ظہور ہے جس سےتجلیہ اور تزکیہ حاصل ہوتا ہے۔
اس کا بیان یہ ہے کہ سبقت اسی طرف سے ہے جو مبدا بننے کے مناسب ہے۔ پہلے طالب کے آئینہ میں مطلوب کے ظلال میں سے کسی ظل کا ظہور ہوتا ہے تا کہ طالب کی ظلمتوں اور کدورتوں کو دور کرے اور اس کو تصفیہ اور تزکیہ حاصل ہو۔ ظلمتوں کے دور ہونے اور تصفیه و تزکیہ کے حاصل ہونے کے بعد جوسیر نفسی کے تمام ہونے پر وابستہ ہے۔ تخلیہ حاصل ہوتا ہے اور تجلیہ کی استعداد پیدا ہوتی ہے اور حق تعالی کے اسماء و صفات کے ظہور کے لائق ہوتا ہے۔ پس سیر انفسی میں وہ تخلیہ حاصل ہوتا ہے جو تزکیہ اور تصفیہ پر وابستہ ہے اور وہ تخلیہ جو سیرآفاقی میں متوہم ہوا تھا وہ تخلیہ کی صورت تھی نہ کہ تخلیہ کی حقیقت تا کہ سیرانفسی میں تجلیہ کا حصول اور اسماء و صفات کا ظہورمتصور ہوتا ہے جیسے کہ صوفیہ نے کہا ہے۔
اس بیان سے لازم آتا ہے کہ ظل کا پیوستن (جوڑنا وملنا) گسستن(توڑنے) پر مقدم ہے لیکن جب تک مطلوب کے ظلال میں سے کوئی ظل سالک کے آئینہ میں منعکس نہ ہو۔ مطلوب کے غیر سے گسستن (توڑنا) متصور نہیں ہو سکتا لیکن اصل کا پیوستن گسستن کے حاصل ہونے کے بعد ہے
پس مشائخ میں سے جنہوں نے پیوستن کو مقدم رکھا ہے، اس سے مرادظل کا پیوستن ہے اور جنہوں نے گسستن کو پیوستن پر مقدم کیا ہے۔ اس سے مراد اصل کا پیوستن سمجھنا چاہیئے تاکہ فریقین کا نزاع لفظ کی طرف راجع ہو۔
شیخ ابوسعید خراز قدس سرہ اس مقام میں متوقف ہے۔ وہ کہتا ہے۔’’تانر ہی نیابی تانیابی نرہی ندانم کدام پیش بود (یعنی جب تو آزاد نہ ہوگا نہ پائے گا اور جب تک تو نہ پائے گا ، آزاد نہ ہوگا۔ میں نہیں جانتا پہلے کون ہے۔) پہلی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ظل کا پانا آزاد ہونے سے پہلے ہے اور اصل کا پانا آزاد ہونے کے بعد۔ پس کوئی اشتباه نہ رہا۔ جیسے کہ صبح کے وقت آفتاب سے پہلے آفتاب کی شعاعوں کے ظلال کا ظہور ہوتا ہے تا کہ جہان کو اندھیرے سے خالی کر کے صاف کر دے اور اندھیروں کے دور ہونے اور صفائی کے حاصل ہونے کے بعد نفس آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ پس آفتاب کےظل کا ظہورظلمات کے زوال سے پہلے ہے اورنفس آفتاب کا طلوع ظلمات کے زائل ہونے کے بعد۔ ہاں بادشاہوں کا طلوع کرنا تخلیہ اور تصفیہ کے حاصل ہونے کے بعد اچھا ہے۔ اگر تخلیہ اور تصفیہ ان کے طلوع کے مقدمہ کے بغیر تصور نہیں ۔ پس حق ظاہر ہو
گیا اور نزاع دور ہو گیا اور اشتباه زائل ہو گیا ۔ والله سبحانه الملهم الله تعالی ہی بہتری کا الہام کرنے والا ہے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ135ناشر ادارہ مجددیہ کراچی