اس عبارت کے معنی میں جو بعض صوفیہ نے کہا ہے کہ اس بارگاہ میں یافت کا صرف ذوق ہی ہے نہ کہ یافت اور اندراج النہایت فی البدایت کی تحقیق میں جو اس طریقہ عليا کا خاصہ ہے اور دوسرے طریقوں پر اس طریقہ کی افضلیت کے بیان میں مولانامحمد افضل کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔)
اس طریقہ علیہ کے مشائخ کی عبارات میں آیا ہے کہ اس بارگاہ جل شانہ میں یافت (حاصل)کا ذوق ہے نہ یافت۔ یہ بات اندراج النہایت فی البدایت کے مناسب ہے جو ان بزرگواروں کے جذبہ خاص کا مقام ہے۔ اس مقام میں یافت کی حقیقت نہیں کیونکہ وہ انتہاء کے ساتھ مخصوص ہے لیکن چونکہ نہایت کی چاشنی بدایت میں درج کی ہوئی ہے اس لیے یافت کا ذوق اس مقام میں بھی میسر ہے اور جب معاملہ جذبہ سے آگے بڑھ جائے اور ابتداء سے توسط تک پہنچ جائے۔ یافت کا ذوق بھی یافت کی طرح معدوم ہو جاتا ہے۔ نہ یافت رہتی ہے نہ یافت کا ذوق اور جب کام نہایت تک پہنچ جاتا ہے یافت میسر ہو جاتی ہے اور یافت کا ذوق مفقود ہو جاتا ہے اور جب یافت کا ذوق منتہی میں مفقود ہے تو لذت و حلاوت بھی اس کے حق میں کمتر ہوگی ۔منتہی ذوق و حلاوت کو پہلے قدم میں ہی چھوڑ جاتا ہے اور آخر میں بے لذتی اور بے مزگی کے گوشہ میں گمنام پڑا رہتا ہے كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْأَحْزَانِ دَائِمَ الْفِكْرِ رسول اللہ ﷺہمیشہ غمناک اور متفکر رہا کرتے تھے۔
سوال: جب نبی کو مطلوب کی یافت میسر ہوگئی تو پھر یافت کا ذوق کیوں مفقود ہوگا اور جب مبتدی یافت سے بے نصیب ہے تو یافت کا ذوق کہاں سے پائے گا؟
جواب: یافت کی دولت منتہی کے باطن کا حصہ ہے جو اپنے ظاہری تعلق کے منقطع ہونے کے بعد اس دولت سے مشرف ہوا ہے۔ جب اس کے باطن کو اس کے ظاہر کے ساتھ تعلق نہیں رہا۔ اس لیے باطنی نسبت اس کے ظاہر میں اثر نہیں کرتی اور باطنی یافت سے ظاہر ذوق و لذت نہیں لے سکتا۔ پس نبی کے باطن کو مطلوب کی یافت حاصل ہوتی ہے اور اس کے ظاہر کو اس یافت کا ذوق نہیں ہوتا۔ باقی رہا باطن کا ذوق جس کا حصہ یافت ہے جب باطن نے بیچونی(بے مثل) کا حصہ پالیا ہے اس کا وہ ذوق بھی عالم بیچونی سے ہوگا اور ظاہر کے ادراک میں جو سراسر چون(مثل) ہے نہ آئے گا بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ظاہر باطن سے ذوق کی نفی کر دیتا ہے۔ باطن کو بھی اپنی طرح بے حلاوت جانتا ہے کیونکہ چون کا ذوق اور ہے اور بیچون کا ذوق اور جب منتہی کا ظاہر اس کے ذوق کی خبر نہیں رکھتا تو پھر عوام ظاہر بین منتہی کے باطن کی کیا خبر پائیں گے اور سوائے انکار کے ان کے حصہ میں کیا آئے گا۔ وہ ذوق جو ان کےفہم میں آتا ہے،ظاہر کا ذوق ہے جو عالم چون سے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سماع اور اور نعرہ اور اضطراب وغیرہ جو ظاہری احوال و اذواق ہیں ان کے نزدیک بڑے نایاب اورعظیم القدر ہیں بلکہ اکثر اوقات اذواق ومواجید کرانہی امور میں منحصر جانتے ہیں اور ولایت کے کمالات انہی امور کوسمجھتے ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کو سیدھے راستہ کی ہدایت دے۔ ظاہری احوال باطنی احوال کے ساتھ وہی نسبت رکھتے ہیں جو چون کوبیچون کے ساتھ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ منتہی کا باطن یافت بھی رکھتا ہے اور یافت کا ذوق بھی لیکن چونکہ وہ ذوق عالم بے چونی سے حصہ رکھتا ہے، اس لیے ظاہر کے ادراک میں نہیں آ سکتا بلکہ ظاہر اس ذوق کی نفی کا حکم کرتا ہے۔ اگر چہ ظاہر باطن کی یافت و اطلاع رکھتا ہے لیکن اس یافت کے ذوق کونہیں پا سکتا۔ پس کہہ سکتے ہیں کی منتہی کو ظاہر میں ذوق میسر ہے لیکن یافت کا ذوق مفقود ہے۔
اور اس طریقہ عالیہ کے مبتدی رشید میں جو باوجود یافت کے مفقود ہونے کے یافت کا ذوق ثابت کرتے ہیں، وہ اسی سبب سے ہے کہ یہ بزرگوار ابتداء میں انتہاء کی چاشنی درج کر دیتے ہیں اور انعکا س کے طور پر نہایت کا پر تو مبتدی رشید کے باطن میں ڈالتے ہیں۔ چونکہ مبتدی کا ظاہر اس کے باطن سے ملا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ظاہروباطن میں قوی تعلق ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے نہایت کا وہ پرتو اور ولایت کی وہ چاشنی مبتدی کے باطن سے اس کے ظاہر میں بھی آجاتی ہے اور اس کا ظاہر باطن کے رنگ میں رنگا جاتا ہے اور یافت کاذوق بے اختیار اس کے ظاہر میں پیدا ہو جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مبتدی میں یافت کی حقیقت مفقود ہے اور یافت کا ذوق حاصل ہے۔ اس بیان سے طریقہ علیہ نقشبندیہ کی بلندی اور ان کی نسبت علیا کی رفعت معلوم ہوتی ہے اور مریدوں اور طالبوں کے حق میں ان بزرگواروں کا کمال اہتمام اور حسن تربیت مفہوم ہوتا ہے۔ پہلے ہی قدم میں جو کچھ خودرکھتے ہیں مرید رشید اور طالب صادق کے حوصلہ کے موافق عطا فرماتے ہیں اور حبی تعلق اور ارتباط کے باعث توجہ اور انعکاس سے اس کی تربیت کرتے ہیں۔
دوسرے سلسلوں کے بعض مشائخ ان بزرگواروں کی کلام اندراج النہایت في البدایت میں شبہ کرتے ہیں اور اس کلام کی حقیقت میں متردد ہیں ۔ وہ پسند نہیں کرتے کہ اس طریق کا مبتدی دوسرے طریقوں کےمنتہی کے برابر ہو۔
بڑے تعجب کی بات ہے کہ انہوں نے اس طریق کے مبتدی کا دوسرے طریقوں کے منتہی کے ساتھ برابر ہونا کہاں سے سمجھ لیا ہے۔ ان بزرگواروں سے اندراج نہایت در بدایت سے زیادہ کچھ سر زدنہیں ہوا اور یہ عبارت مساوات پر دلالت نہیں کرتی۔ اس عبارت سے ان کا مقصود یہ ہے کہ اس طریق میں شیخ منتہی اپنی توجہ اور تصرف سے اپنی نہایت کی دولت کی چاشنی انعکاس کے طور پر مبتدی رشید کو عطا فرماتا ہے اوربدایت میں اپنی نہایت کا نمک ملا دیتا ہے۔ اس میں کون سی مساوات ہے اور کون سا اس میں شبہ ہے اور اس کی حقیقت میں کیا تر دد ہے۔ یہ اندراج بڑی دولت ہے۔ اس طریق کا مبتدی اگر چہ منتہی کا علم نہیں رکھتا لیکن نہایت کی دولت سے بے نصیب نہیں رہتا۔ بالفرض اگر اس مبتدی کو طریق وصول کو قطع کرنے اور اس کے منازل کو طے کرنے کی فرصت نہ بھی دیں تو پھر نہایت کی دولت سے بے نصیب نہ رہے گا اور وہ ذرہ نمک اس کے کلیت کوملیح و نمکین بنا دے گا۔ برخلاف دوسرے طریقوں کے مبتدیوں کے جو نہایت سے بہت دور ہیں اور منزلوں کا قطع کرنا اور مسافتوں کا طے کرنا ان کے حق میں مشکل کا سامنا ہے۔ اگر ان کو اس قطع کی فرصت نہ ملی اور مسافت کو طے کرنے کا موقع نہ ملا تو پھر ان کی حالت نہایت ہی قابل افسوس ہے۔ جب اس طریق کے مبتدی اور دوسرے طریقوں کے مبتدیوں کے درمیان فرق واضح ہو چکا اور اس مبتدی کی زیادتی دوسرے مبتدی پر ثابت ہو چکی تو پھر جاننا چاہیئے کہ اس طریق کے منتہی اور دوسرے طریقوں کے منتہیوں کے درمیان اس قدر فرق ہے اور اس منتہی کی زیادتی دوسرے طریقوں کے منتہیوں کے درمیان اس قدر ثابت ہے بلکہ اس طریقہ علیا کی نہایت دوسرے مشائخ کے تمام طریقوں کی نہایات سے وراء الوراء ہے۔
خواہ میری اس بات کا یقین کریں یا نہ کریں۔ ہاں اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں تو شاید اعتبار کر لیں ۔ وہ نہایت جس کی بدایت میں نہایت ملی ہوئی ہو دوسروں کی نہایتوں سے ممتاز ہوگی بلکہ ان نہایتوں کی نہایت ہوگی۔
سالےکہ نکوست از بہارش پید است ترجمہ ہوتا ہے سال ویسا جیسی بہا ر ہو
دوسروں سلسلوں کے بعض متعصب لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ ہماری نہایت وصول بحق تعالیٰ ہے اور اس کو تم اپنی بدایت کہتے ہو۔ پس حق کے آگے کہاں جاؤ گے اور ان کے آگے تمہاری نہایت کیا ہوگی۔
ہم کہتے ہیں کہ ہم حق سے حق کی طرف جاتے ہیں اور ظلیت کی آمیزش سے نکل کر اصل الاصل کی طرف دوڑتے ہیں اور تجلیات (غیبی انوار دلوں پر ظاہر ہونا) سے منہ پھیر کر متجلی کو ڈھونڈتے ہیں اور ظہورات کو واپس چھوڑ کر ظاہرکو باطنوں میں طلب کرتے ہیں اور چونکہ ابطنیت(زیادہ باطن والا ہونا) میں مراتب مختلف ہیں ، اس لیے ایک ابطنيت سے دوسری ابطنیت میں جاتے ہیں اور دوسری سے تیسری میں قدم رکھتے ہیں الا ماشاء اللہ تعالیٰ ۔
حق تعالیٰ اگرچہ بسیط حقیقی (جو تمام نسبتوں اور اعتباروں سے مجرد(خالی) اور شیون و صفات کی تفصیلوں سے معراہے) ہے لیکن واسع(فراخ) بھی ہے۔ نہ یہ وسعت جس کا طول و عرض ہوتا ہے کہ یہ امکان و حدوث کے نشانات و علامات میں سے ہے بلکہ حق تعالیٰ کی وسعت بھی اس کی ذات کی طرح بیچون و بیچگون (بے مثل و بے کیف) ہے اور وہ سیر بھی جواس وسعت میں واقع ہوتا ہے۔ بیچون وبیچگون ہے اور سیر کرنے والا بھی باوجود چندی اور چونی کےبیچونی اور بے چگونی کی قوت سے ان بیچگونی منزلوں کو قطع کرتا ہے اور چون سے بیچون کی طرف جاتا ہے۔ بچارے بے سروسامان اس معاملہ کی حقیقت کو کیا پائیں اور عالم چون کے رفتار بیچون کی خبر کیا جانیں ۔ اپنی نارسائی کو اعتراض سمجھتے ہیں اور اپنی نادانی پر فخر کرتے ہیں۔
بیخروے چند ز خود بے خبر عیب پسندند برغم ہنر
ترجمہ: وہ بے وقوف جن کو نہیں اپنی بھی خبر پسندعیب کو کرتے ہیں برخلاف ہنر
اس قدر نہیں جانتے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نہایت بلکہ حضرت خاتم الرسل علیہ وعلیہم الصلوۃ والتسلیمات کی نہایت بھی حق ہے اور ان کی نہایت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نہایت کے ساتھ متحد نہیں بلکہ آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں۔
پس ہوسکتا ہے کہ بعض کو وہ نہایت میسر ہو جو ان کی نہایت سے برتر ہو اور انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی نہایت سےنیچے اس بیان سے ثابت ہوا کہ سب کی نہایت حق تعالیٰ ہے اور صوفیاء کے گروہوں کے درمیان ان کے مرتبوں کے اختلاف کے بموجب تفاوت ثابت ہے یا ہم یہ کہتے ہیں کہ سب اپنی اپنی نہایت کو وصول بحق جانتے ہیں لیکن اکثر ایسے ہیں جو حق تعالیٰ کے ظلال اور ظہورات کو حق تعالیٰ جانتے ہیں ۔ حالانکہ ظلال اورظہورات کے مرتبوں میں بہت فرق ہے۔ پس تمام ارباب نہایت کی نہایت نفس الامر میں وصول بحق نہ ہوئی بلکہ ہر ایک کی نہایت اس کے اپنے خیال میں حق سبحانہ ہے۔ پس اگر ایک گروہ کی ابتداء تعالیٰ کے ظلال و ظہورات ہوں جو حقانیت کے خیال سے دوسرے گروہ کی نہایت ہے اور اس پہلے گروہ کی نہایت وہ وصول بحق ہو جو ظلال وظہورات سے ماوراء ہے تو پھر یہ بات کیوں بعید معلوم ہوتی ہے اور اس میں کون سا انکار اور شبہ کا مقام ہے۔ بیت
قاصرے گر کند ایں طائفہ راطعن قصور حاشاء اللہ کہ بر آرم بر زبان ایں گلہ را
ہمہ شیران جهان بسته ای سلسلہ اند روبه از حیلہ چساں بگسلد ایں سلسلہ را
ترجمہ گر کوئی قاصر لگائے طعن ان کے حال پر تو بہ توبہ گرزبان پر لاؤں میں اس کا گلہ شیر ہیں جکڑے ہوئے اس سلسلہ میں سب کے سب لومڑی حیلہ سے توڑنے کس طرح یہ سلسلہ
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ يارب ہمارے گناہوں اور ہمارے کاموں میں زیادتی کو معاف کر اور ہمارے قدموں کو ثابت رکھ اور کافروں پر ہمیں مدد د ے ۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ151ناشر ادارہ مجددیہ کراچی