کلمہ طیبہ کے فضائل میں جوطریقت وحقیقت و شریعت پرمشتمل ہے اور اس بیان میں کہ کمالات نبوت کے مقابلہ میں کمالات ولایت کی کچھ مقدار ہیں اور اس بیان میں کہ صاحب ولایت کو شریعت کے بغیر چارہ نہیں۔ ظاہر ہمیشہ شریعت کے ساتھ مکلف ہے اور باطن اس معاملہ کا گرفتار ہے اور اس کے مناسب بیان میں مولانا حمید الدین بنگالی کی طرف صادر فرمایا ہے۔ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ کلمہ طیبہ طریقت و حقیقت و شریعت کا جامع ہے۔ جب تک سالک نفی کے مقام میں ہے طریقت میں ہے اور جب نفی سے پورے طور پر فارغ ہو جاتا ہے اور تمام ماسوا اس کی نظر سے ملی ہو جاتا ہے تو طریقت کا معاملہ ختم ہو جاتا ہے اور مقام فنا میں پہنچ جاتا ہے۔ جب نفی کے بعد مقام اثبات میں آتا ہے اور سلوک سے جذبہ کی طرف رغبت کرتا ہے تو مرتبہ حقیقت کے ساتھ عشق اور بقاء کے ساتھ موصوف ہو جاتا ہے۔ اس نفی و اثبات اور اس طریقت و حقیقت اور اس فنا و بقاء اور اس سلوک و جذبہ سے اس پر ولایت کا اسم صادق آتا ہے اورنفس امارہ(برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) پن کو چھوڑ کر مطمئنہ ہو جاتا ہے اور پاک وصاف بن جاتا ہے۔ پس ولایت کے کمالات اس کلمہ طیبہ کی جزو اول کے ساتھ جونفی و اثبات ہے وابستہ ہیں۔
باقی رہا اس کلمہ مقدسہ کا دوسرا جزو جو حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کی رسالت کو ثابت کرتا ہے۔ یہ دوسرا جزو شریعت کا کامل اور تمام کرنے والا ہے جو کچھ ابتداء اور وسط میں شریعت سے حاصل ہوا تھا۔ وہ شریعت کی صورت تھی اور اس کا اسم ورسم تھا۔ شریعت کی اصل حقیقت اس مقام میں حاصل ہوتی ہے جو مرتبہ ولایت کے حاصل ہونے کے بعد ہوتا ہے اور کمالات نبوت جوکامل تابعداروں کو انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی وراثت اور تبعیت کے طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس مقام میں حاصل ہوتے ہیں۔ طریقت و حقیقت جس سے ولایت حاصل ہوتی ہے۔ شریعت کی حقیقت اور کمالات نبوت کے حاصل ہونے کے لیے گویا شرائط ہیں۔ ولایت کو طہارت میں وضو کی طرح سمجھنا چاہیئے اور شریعت کو نماز کی طرح۔ طریقت میں حقیقی نجاستیں دور ہوتی ہیں اور حقیقت میں حکمی نجاستیں رفع ہوتی ہیں تا کہ کامل طہارت کے بعد احکام شرعیہ کے بجالانے کے لائق ہو جائیں اور اس کے نماز ادا کرنے کی قابلیت حاصل ہو جائے جو مراتب تقرب کی نہایت اور دین کا ستون اور مومن کی معراج ہے۔
مجھے اس کلمہ کا دوسرا جزو دریائے ناپید کنار کی طرح معلوم ہوا۔ جس کے مقابلہ میں پہلا جو قطرہ کی طرف دکھائی دیتا تھا۔ ہاں کمالات نبوت کے مقابلہ میں کمالات ولایت کی کچھ مقدار نہیں۔ آفتاب کے مقابلہ میں ذرہ کی کیا مقدار ہے۔ سبحان اللہ بعض لوگ کج بینی سے ولایت کو نبوت سے افضل جانتے ہیں اور شریعت کو جو لب لباب ہے، پوست (چھلکا)سمجھتے ہیں۔
بچارے کیا کریں۔ ان کی نظر شریعت کی صورت تک ہی محدود ہے اور مغز سے پوست کے سوا ان کے ہاتھ میں نہیں آیا۔ نبوت کوخلق کی طرف توجہ ہونے کے باعث قاصر (کم درجہ)جانتے ہیں اور اس توجہ کو عوام کی توجہ کی طرح ناقص سمجھ کر ولایت کو جو حق تعالیٰ کی طرف توجہ رکھتی ہے، اس توجہ پرترجیح دیتے ہیں اور ولایت کو نبوت سے افضل جانتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے ہیں کہ کمالات نبوت میں بھی عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کے وقت حق تعالیٰ کی طرف توجہ ہوتی ہے جس طرح کہ مرتبہ ولایت میں بلکہ مرتبہ ولایت میں ان عروجی کمالات کی صورت ہے جو مقام نبوت میں حاصل ہے۔ چنانچہ اس کا ذکر آگے کیا جائے گا۔
نبوت میں نزول کے وقت ولایت کی طرح خلق کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ البتہ اس قدر فرق ہے کہ ولایت میں بظاہر غفلت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور باطن میں ان کی طرف اور نبوت کے نزول میں ظاہر و باطن خلق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور کلی طور پر ان کو حق تعالیٰ کی طرف دعوت کرتے ہیں۔ یہ نزول ولایت کے نزول سے اتم واکمل ہے۔ جیسے کہ کتابوں اور رسالوں میں اس کی تحقیق ہوچکی ہے۔ خلق کی طرف ان کی یہ توجہ عوام کی توجہ کی طرح نہیں
ہے۔ جیسے کہ انہوں نے گمان کیا ہے بلکہ عوام کی توجہ خلق کی طرف ان کی اس گرفتاری کے باعث ہوتی ہے جو ماسوا کے ساتھ رکھتے ہیں اور اخص خواص کی توجہ خلق کی طرف ماسوا کی گرفتاری کے باعث نہیں ہے کیونکہ یہ بزرگوار ماسوا کی گرفتاری کو کو پہلے ہی قدم میں چھوڑ جاتے ہیں بلکہ ان بزرگوں کی توجہ بہ خلق ہدایت و ارشاد کے لئے ہے تا کہ خلق کی خالق کی طرف رہنمائی کریں اور مولی کی رضا جوئی کی طرف ان کی دلالت کریں اور شک نہیں کہ اس قسم کی توجہ بخلق جس کا مقصودخلق کو ماسوا کی غلامی سے آزاد کرنا ہو۔ اس توجہ بحق سے کئی درجے فضیلت والی ہے جو اپنے نفس کے لئے ہے
مثلا ایک شخص ذکر الہی میں مشغول ہے۔ اسی اثناء میں ایک نابینا آ گیا۔ جس کے آگے کنواں ہے کہ اگر ایک قدم اور اٹھائے تو کنویں میں جا پڑے تو اس صورت میں ذکر کرنا بہتر ہے یانابینا کو کنویں سے بچانا۔ شک نہیں کہ اس صورت میں نابینا کو کنویں سے بچانا ذکر کرنے سے بہتر ہے کیونکہ حق تعالیٰ اس سے اور اس کے ذکر سے غنی ہے اور نابینا ایک محتاج بندہ ہے جس کے ضررکا دفع کرنا ضروری ہے۔ خاص کر جبکہ اس کو خلاص کرنے پر مامور ہو۔ اس وقت اس کی تخلیص بھی ذکر ہے کیونکہ امر کی بجا آوری ہے۔ ذکر میں ایک ہی حق کا ادا کرنا ہے جو مولا کا حق ہے اور تخلیص میں جوامر کے ساتھ واقع ہو، دوحق ادا ہوتے ہیں۔ بنده کا حق بھی اور مولی کا حق بھی بلکہ نزدیک ہے کہ اس وقت ذکر کرنا گناہ میں داخل ہو کیونکہ تمام وقت ذکر کرنا نا پسندیدہ ہیں ۔ بعض اوقات ذکر نہ کرنا بھی مستحسن اور پسندیدہ ہے۔ اور ایام ممنوعہ(عید الفطر ،عید الاضحیٰ،ایام تشریق) میں روزہ نہ رکھنا اور اوقات مکروہ(نماز فجر کے بعد طلوع تک زوال کے وقت نماز عصر کے بعد غروب تک) میں نماز کا ادا نہ کرنا۔ روزہ رکھنے اور نماز ادا کرنے سے بہتر ہے۔
جاننا چاہیئے کہ ذکر سے مراد یہ ہے کہ غفلت دور ہو جائے خواہ کسی طرح ہو۔ نہ یہ کہ نفی اثبات اسم ذات کےتکرار پر منحصر ہے۔ جیسے کے گمان کیا جاتا ہے۔ پس اوامر کا بجالانا اور نواہی سے ہٹ جانا ذکر ہی میں داخل ہے۔ حدودشرعی کو مدنظر رکھ کر خرید و فروخت کرنا بھی ذکر ہے۔ اسی طرح اس رعایت کے ہوتے ہوئے نکاح وطلاق کا بھی ذکر ہے۔ رعایت شرعی کے ساتھ ان امور میں مشغول ہونے کے وقت آ مروناہی یعنی حق تعالیٰ ان امور کے کرنے والے کی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے۔ پھر غفلت کی کہاں گنجائش ہوتی ہے لیکن وہ ذکر جومذکور کی اسم وصفت کے ساتھ واقع ہو، وہ سریع التاثیر ہوتا ہے۔ اور مذکور کی زیادہ محبت بخشنے والا اور مذکور تک جلدی پہنچانے والا ہوتا ہے۔ برخلاف اس ذکر کے جو اوامر کے بجالانے اور نواہی سے ہٹ جانے پر واقع ہو۔ جو ان صفات سے بے نصیب ہے۔ اگرچہ یہ صفات بعض افراد میں جن کا ذکر اوامر کے بجا لانے اور شرعی منہیات سے ہٹ جانے پر ہے، شاذ و نادر طور پر پائے جاتے ہیں۔
حضرت خوب نقشبند قدس سرہ فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مولا زین الدین تائبادی قدس سرہ علم کی راہ سے خدا تک پہنچے ہیں اور نیز وہ ذکر جو اسم و صفت سے واقع ہواس ذکر کا وسیلہ ہے جوشرعی حدود کو مدنظر رکھنے سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ تمام امور میں شرعی احکام کا مدنظر رکھتا شارع علیہ الصلوة والسلام کی کامل محبت کے بغیر میسر نہیں ہوتا اوریہ کامل محبت حق تعالیٰ کے اسم و صفت کے ذکر پر موقوف ہے۔ پس پہلے ذکر چاہیئے تا کہ اس ذکر کی دولت سے مشرف ہوں لیکن عنایت الٰہی کا معاملہ جدا ہے۔ وہاں نہ کوئی شرط ہے نہ کوئی وسیلہ۔ اللَّهُ يَجْتَبِي إِلَيْهِ مَنْ يَشَاءُ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے برگزیدہ کر لیتا ہے۔
اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان تینوں معاملوں یعنی طریقت و حقیقت و شریعت کے آگے ایک اور معاملہ ہے جس کے آگے ان معاملوں کا کچھ اعتبار وشمار نہیں۔ جو کچھ مرتبہ حقیقت میں حاصل ہوا تھا اور اثبات سے تعلق رکھتا تھا، وہ اس معاملہ کی صورت تھی اور یہ معاملہ اس صورت کی حقیقت ہے جس طرح کہ شریعت کی صورت جو ابتداء میں عوام کے مرتبہ میں حاصل ہوئی تھی اور حقیقت و طریقت کے حاصل ہونے کے بعد اس صورت کی حقیقت حاصل ہوتی ہے تو پھر خیال کرنا چاہیئے کہ وہ معاملہ کہ جس کی صورت حقیقت ہو اور اس کا مقدمہ ولایت ہو گفتگو میں کس طرح آ سکتا ہے اور اگر بالفرض بیان کیا جائے تو کوئی اس کی حقیقت کو کیا معلوم کرے گا۔ یہ معاملہ اولوالعزم پیغمبروں کی وراثت ہے جو اقل قلیل کے نصیب ہوتا ہے۔ جب اس معاملہ میں اصول قلیل ہوں تو فروع ضرور ہی اقل وکمتر ہوں گے۔
سوال: ان معارف سے لازم آتا ہے کہ عارف بعض مراتب میں شریعت سے قدم باہر نکال لیتا ہے اور شریعت کے سوا عروج کرتا ہے۔
جواب: شریعت ظاہری اعمال کا نام ہے اور یہ معاملہ اس جہان میں باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ ظاہر ہمیشہ شریعت کے ساتھ مکلف ہے اور باطن اس معاملہ میں گرفتار ہے۔ چونکہ یہ جہان دارعمل ہے۔ باطن کو ظاہری اعمال سے بڑی مددملتی ہے اور باطن کی ترقیات شریعت کے بجالانے پر جو ظاہر سے تعلق رکھتی ہے مختصر اور موقوف ہیں۔ پس اس جہان میں ہر وقت ظاہر و باطن کے لیے شریعت کا ہونا ضروری ہے۔ ظاہر کا کام شریعت پرعمل کرنا ہے اور اس کے نتائج و ثمرات باطن کے نصیب ہیں۔
پس شریعت تمام کمالات کی ماں اور تمام مقامات کا اصل ہے۔ شریعت کے نتائج وثمرات صرف اسی دنیاوی جہان پر موقوف نہیں ہیں بلکہ آخرت کے کمالات اور دائمی ناز ونعمت بھی شریعت کے نتائج وثمرات میں سے ہیں۔ گویا شريعت شجره طیبہ ہے جس کے پھلوں اور میووں سے لوگ اس جہان میں بھی اور اس جہان میں بھی فائدہ اٹھارہے ہیں اور بہت سے فائدے اس سے حاصل کر رہے ہیں۔
سوال: اس بیان سے لازم آتا ہے کہ کمالات نبوت میں بھی باطن حق کی طرف اور ظاہرخلق کی طرف ہوتا ہے اور آپ نے اپنے رسالوں اور مکتوبات میں لکھا ہے اور اوپر بھی گزر چکا ہے کہ مقام نبوت میں جو دعوت کا مقام ہے کلی طور پرخلق کی طرف توجہ ہوتی ہے۔ اس میں تطبیق کی وجہ کیا ہے۔
جواب: وہ معاملہ عروج سے تعلق رکھتا ہے اور مقام دعوت ہبوط ونزول سے وابستہ ہے۔ پس عروج کے وقت باطن حق تعالیٰ کی طرف ہوتا ہے اور ظاہرخلق کی طرف تا کہ شریعت غرا کے موافق ان کے حقوق ادا ہوں اور ہبوط ونزول کے وقت کلی طور پرخلق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تاکہ خلق کو پورے طور پر خالق کی طرف دعوت کریں۔ اس میں کوئی منافات نہیں۔ اس مقام کی تحقیق یہ ہے کہ توجہ بخلق عین توجہ بحق ہے۔ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (جس طرف منہ پھیرو اسی طرف اللہ کی ذات ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ ممکن عین واجب ہے یا واجب کا آئینہ ہے ۔ممکن حقیر کی کیا طاقت ہے کہ واجب کا عین یا اس کا آئینہ بننے کے قابل ہو سکے بلکہ یوں کہہ سکتے ہیں کہ واجب تعالیٰ مسکن کا آئینہ ہے اور اشیاء واجب کے آئینہ میں اس طرح معلوم ہوتی ہے جس طرح اشیاء کی صورتیں صورت کے آئینہ میں جس طرح ان صورتوں کے لیے صورت کے آئینہ میں حلول وسریان(سرایت) نہیں ۔ اسی طرح ان اشیاء کا واجب کے آئینہ میں کوئی حلول وسريان نہیں۔ کس طرحلول متصور ہو سکے جب کہ آئینہ کے مرتبہ میں صورتوں کا وجود ہی نہیں ۔ صورتوں کا وجود صرف مرتبہ وہم و خیال میں ہے۔
پس جس جگہ آئینہ ہے وہاں صورتیں نہیں اور جہاں صورت ہے وہاں آئینہ کو ہزار عار ہے کیونکہ خیالی نمود کے سوا صورتوں کا کچھ ثبوت نہیں اور وہمی صورت کےتحقق کے سوا ان کا کوئی وجود نہیں۔ اگر مکان رکھتے ہیں مرتبہ وہم میں رکھتے ہیں اور اگر زمان رکھتے ہیں مرتبہ تخیل میں رکھتے ہیں لیکن چونکہ اشیاء کی نمود اورہستی حق تعالیٰ کی صنعت سے ہے، اس لیے خلل اورسرعت زوال سے محفوظ ہے اور معاملہ ابدی اور آخرت کا ثواب و عذاب ان پر موقوف ہے۔
جاننا چاہیئے کہ صورت کے آئینہ میں اول صورتیں ملحوظ ہوتی ہیں ۔ پھر آئینہ کے شہود کے لیے دوسری التفات درکار ہے اور حق تعالیٰ کے آئینے میں اول وہی آئینہ ملحوظ ہے۔ پھر اشیاء کے شہود کے لیے دوسری التفات درکار ہیں اور نیز صورت کے آئینہ میں صورتیں بھی آئینہ کے احکام و آثار کے آئینے ہیں یعنی اگر آئینہ لمبا ہے تو صورتیں بھی لمبی ظاہر ہوتی ہیں اور آئینہ کی لمبائی کا مظہر ہوتی ہیں۔ اسی طرح اگر آئینہ چھوٹا ہے تو چھوٹا پن صورتوں کے آئینوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ برخلاف واجب تعالیٰ کی ذات کے آئینہ کے کہ اشیاء اس کے احکام و آثار کے آئینے نہیں ہوسکتیں کیونکہ اس مرتبہ علیہ میں کوئی حکم واثر نہیں بلکہ تمام نسبتیں وہاں مسلوب ہیں۔ پھر اشیاء کس چیز کا آئینہ ہوں اور کیا چیز دکھائیں۔
ہاں مراتب تنزل میں جو اسماء و صفات کے ثبوت کا مقام ہے، اگر اشیاء واجب کے احکام کی صورتوں کے آئینے ہوں تو ہوسکتا ہے۔ سمع و بصر وعلم و قدرت جو اشیاء کے آئینوں میں ظاہر ہیں ۔ مرتبہ وجوب کے سمع بصر وعلم قدرت کی صورتیں ہیں جوان اشیاء کا آئینہ ہے۔ یہ سب آئینے کے احکام ہیں جو اشیاء ظاہری کے آئینوں میں ظاہر ہوئے ہیں اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ واجب کے آئینہ میں اول وہی آئینہ ملحوظ ہے۔ پھر آئینہ میں ان اشیاء کے شہو کے لیے جو صورتوں کی طرح ہیں، دوسری التفات درکار ہے۔ یہرجوع کے ابتداء حال میں ہے جب کہ وہ صورتیں نظر میں آتی ہیں جو پہلے پورے طور پرنظر سے دور ہو چکی تھیں۔ جب رجوع کا معاملہ تمام ہو جاتا ہے اور اشیاء میں دور دراز سیرواقع ہوتا ہے اور دائرہ امکان میں استقرارحاصل ہو جاتا ہے تو اس وقت شہودغیب سے بدل جاتا ہے اور ایمان شہود ی ایمان غیبی ہو جاتا ہے۔
حتی کہ جب دعوت کا معاملہ تمام ہوجاتا ہے اور الرحيل یعنی کوچ کا آوازه اس کو سنادیتے ہیں، اس وقت یہ غیب بھی دور ہو جاتا ہے اور سوائے شہود کے کچھ نہیں رہتا لیکن یہ شہود اس شہودسے جو رجوع سے اول حاصل ہوتا ہے، اتم و اکمل ہوتا ہے کیونکہ وہ شہود جو آخرت کے ساتھ تعلق رکھتاہے، اس شہود کی نسبت جو دنیا سے تعلق رکھتا ہے، زیادہ کامل ہے۔
ھنیئا لارباب النعيم نعيمها وللعاشق المسكين ما يجرع
ارباب نعمت کو یہ نعمت مبارک اور عاشقوں کو یہ رنج و حسرت مبارک
جاننا چاہیئے کہ تحقیق سابق سے واضح ہوا ہے کہ شے کی صورت جو آئینہ میں دکھائی دیتی ہے، اس کا ثبوت صرف خیال ہی میں ہے۔ آئینہ اس صورت کے حاصل ہونے سے اپنے محض و صرف وتجرد(جو مادہ سے پاک ہوں) پر ہے۔ ہاں کہہ سکتے ہیں کہ آئینہ اس صورت کے قریب ہے یا اس کو محیط ہے یا اس کے ساتھ ہے۔ یہ قرب واحاطہ معیت اس قسم کانہیں جیسے جسم کوجسم کے ساتھ یا جو ہرکوعرض کے ساتھ ہوتا ہےبلکہ یہ قرب واحاطہ اس قسم کاہے جس کے تصور و ادراک سے عقل و فہم عاجز و کوتاه ہیں۔ پس اس صورت میں قرب و معیت و احاطہ ثابت ہے لیکن کیفیت معلوم نہیں وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الْأَعْلَى اعلى مثال اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔
اسی طرح وہ قرب و احاطہ و معیت جوحق تعالیٰ کے عالم کے ساتھ ہے۔ وہ معلوم الآينہ(وجود معلوم) جبکہ مجہول الكيفیت (کیفیت مجہول)ہے ہم ایمان لاتے ہیں کہ حق تعالیٰ عالم کے قریب اورمحیط اور اس کے ساتھ ہے لیکن اس کے قرب و احاطہ و معیت کی حقیقت نہیں جانتے کہ کیا ہے کیونکہ وہ صفات اشیاء کی صفات سے جدا ہیں اور امکان وحدوث کے نشانات سے علیحدہ ہیں۔صرف ان کی تشبیہ تمثیل عالم مجاز میں جوحقیقت کا پل ہے، ظاہر کی گئی ہے اور آئینہ و صورت کے طور پر ان کا اظہار کیا گیا ہے تا کہ باریک بین اور دانا لوگ حق تعالیٰ کی عنایت سے مجاز سے حقیقت کا پتہ لگائیں اور صورت سے معنی کی طرف آ ئیں وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ169ناشر ادارہ مجددیہ کراچی