حق تعالیٰ کابعض کاملین کے ساتھ بالمشافہ و روبرو کلام کرنے کے بیان میں خواجہ محمد صدیق کی طرف صادر فرمایا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کے لیے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔) برادرم محمدصدیق کو واضح ہو کہ حق تعالیٰ کی کلام بندے کے ساتھ کبھی روبرو بلاواسطہ ہوتی ہے۔ اس قسم کی کلام انبیاء علیہم الصلوة والسلام میں سے بعض افراد کے لیے ثابت ہے اور کبھی انبیاءعلیہم الصلوة والسلام کے کامل تابعداروں کے لیے بھی ہوتی ہے جو وراثت و تبعیت کے طور پر ان کے کمالات سے مشرف ہوتے ہیں۔ جب اس قسم کی کلام ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بکثرت ہو تو ایسے شخص کو محدث کہتے ہیں۔ جیسے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ کلام الہام اور القاء روحانی اور قلبی اور اس کلام سے جو فرشتہ کے ساتھ ہوتی ہے، الگ ہے۔ اس قسم کی کلام کے ساتھ انسان کامل مخاطب ہوتا ہے جو عالم امر و عالم خلق اور روح ونفس اور عقل و خیال کا جامع وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِالله تعالیٰ جس کو چاہتا ہے برگزیدہ کرلیتا ہے اور الله تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔
روبرو کلام کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کلام کرنے والا سننے والے کو دکھائی دیتا ہے
کیونکہ ہو سکتا ہے کہ سننے والے کی آنکھیں کمزور وضعیف ہوں جومتکلم کے انوار کی چمک برداشت نہ کرسکتی ہوں جیسے کہ رسول الله ﷺنے اس سوال کے جواب میں جو رؤیت کی بابت آپ سے پوچھا گیا تھا، فرمایا کہ نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ۔ وہ نور ہے، میں اس کو کیسے دیکھ سکوں نہ کہ وجودی، فافہم ۔یہ معرفت شریفہ اس قسم کی ہے کہ آج تک کسی نے بیان نہیں کی۔ وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ187ناشر ادارہ مجددیہ کراچی