نورانی ستون اور دم دار ستارہ کے بیان میں جوشرق کی جانب سے طلوع ہوئے
تھے اور قیامت کی علامتوں کے بیان میں خواجہ شرف الدین حسین کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الله تعالیٰ کے لیے حمد ہے جس نے ہم کو ہدایت دی اور اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم بھی ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے اللہ تعالیٰ کے رسول حق کے ساتھ آئے ہیں)۔
صحیفہ شریفہ جو فرزند عزیز نے مولانا ابوالحسن کے ہمراہ روانہ کیا تھا پہنچا پڑھ کر بڑی خوشی ہوئی ۔تم نے ستون کی نسبت جومشرق کی طرف سے پیدا ہوا تھا دوباره دریافت کیا ہے۔
سو جاننا چاہیئے کہ خبر میں آیا ہے کہ جب عباسی بادشاہ جو حضرت مہدی کے ظہور کے مقدمات میں سے ہے۔ خراسان میں پہنچے گا۔ مشرق کی طرف قرن ذوالسنین ( دو دندانہ والا سینگ) طلوع کرے گا۔ اس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ستون مذکور کے دوسر ہوں گے۔ پہلے پہل اس وقت طلوع ہوا تھا جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم ہلاک ہوئی تھی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کے زمانہ میں طلوع ہوا تھا۔ جب کہ ان کو آگ میں ڈالا گیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کے ہلاک ہونے کے وقت بھی طلوع ہوا تھا اور حضرت یحی علیہ الصلوة والسلام کےقتل کے وقت بھی ہوا تھا جب اس کو دیکھیں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں فتنوں کے شر سے پناه ما نگیں۔ یہ سفیدی جو مشرق کی طرف سے طلوع ہوئی تھی۔ اول ستون منور کی صورت میں تھی۔ بعدازاں ٹیڑھی ہو کر سینگ کی مانند ہوگئی۔ شاید اسی اعتبار سے فرمایا ہو کہ اس سینگ کے دونوں طرف دانتوں کی طرح باریک ہو گئے تھے۔ ان دونوں طرفوں کو دوسرا اعتبار کیا ہے۔ جیسے کہ نیزہ کے دونوں طرف بار یک ہوں اور ان کو دوسرا اعتبار کریں۔ .
برادرم محمد طاہر بدخشی جونپور سے آیا ہے اور کہتا ہے کہ اس ستون کے اوپر کی طرف دانتوں کی طرح دوسر تھے۔ جن میں تھوڑا سا فاصلہ تھا جنگل میں اس بات کو تشخیص کیا تھا اور لوگوں نے بھی اسی طرح خبر دی ہے۔
یہ طلوع اس طلوع سے الگ ہے جو حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کے وقت پیدا ہو گا۔ کیونکہ حضرت مہدی رضی الله عنہ صدی کے بعد آئیں گے اور ابھی سو میں سے اٹھائیس سال گزرے ہیں۔
نیز حدیث میں حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ کی علامتوں میں آیا ہے کہ مشرق کی طرف سے ایک ستارہ طلوع ہوگا جس کا دم نورانی ہوگا۔ یہ ستاره جوطلوع ہوا ہے شاید وہی ہے یا اس کی مثال ہے اور اس ستاره کودمدار اس واسطے کہتے ہیں کہ حکماء نے لکھا ہے کہ ثوابت(علم نجوم کی اصطلاح میں قمر، عطارد، زہرہ ،شمس ،مریخ ،مشتری اورزحل سات سیارے ہیں باقی ثوابت کہلاتے ہیں) ستاروں کا سیر مغرب سے مشرق کی طرف ہے۔ پس اس ستارہ کا رخ اپنی سیر میں مشرق کی طرف ہے اور پیٹھ مغرب کی طرف۔ پس وہ لمبی سفیدی جو اس کے پیچھے دم کے مناسب ہے اور مشرق سے مغرب کی طرف ہر روز بلند ہوتا جاتا ہے۔ یہ اس کا سیرقسری ہے جو فلک اعظم(فلک الافلاک جو تمام افلاک پر محیط ہے جس کی حرکت پر دن رات طلوع و غروب ہوتے ہیں اسے حرکت قسری یعنی غیر طبعی کہتے ہیں) کے سیر سے وابستہ ہے۔ والله سبحانه أعلم بحقيقة الحال (اللہ تعالیٰ حقیقت حال کو بخوبی جانتا ہے)۔
غرض امام مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کا وقت نزدیک ہے دیکھیں صدی تک جواس کے ظہور کا وقت ہے کیا کیا مقدمات و مبادی ظہور میں آئیں گے۔ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کے ظہور کے یہ مقدمات و مبادی ہمارے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے ارہاصات(وہ خوارق جو نبی کےاعلان نبوت سے پہلے ظاہرہوں) کی طرح ہیں جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نورنبوت کے ظہور سے اول ظاہر ہوئے تھے۔
چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت عبداللہ کے نطفہ نے جو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی صورت کا مادہ تھا۔ آمنہ کے رحم میں قرار پکڑا تمام روئے زمین کے بت سرنگوں ہو گئے اور تمام شیطان اپنے سے کام بند ہو گئے۔ فرشتوں نے ابلیس کے تخت کو اوندھا کر کے دریا میں ڈال دیا اور چالیس دن تک عذاب کیا اور آنحضرت ﷺکی ولادت کی رات کو کسری کے محل میں زلزلہ آ گیا اور اس کے چودہ کنگرے گر گئے اور فارس کی آگ جو ہزار سال سے روشن تھی اورکبھی نہ بجھتی تھی یکدم بجھ گئی۔
جب حضرت مہدی رضی اللہ عنہ بڑے ہو جائیں گے اور ان کے سبب اسلام اور مسلمانوں کو بھی تقویت حاصل ہوگی اور ظاہر و باطن میں ان کی ولایت کا تصرف عظیم ہو گا اور کئی طرح کے خوارق و کرامات ان سے ظاہر ہوں گے اور عجیب وغریب نشان ان کے زمانہ میں پیدا ہوں گے تو ممکن ہے کہ ان کے وجود سے پہلے نبی ﷺکے ارہاصات کی طرح مختلف قسم کے خرق عادات ظاہر ہوں جو ان کے ظہور کے مبادی ہوں جیسا کہ احادیث سے مفہوم ہوتا ہے۔
واضح ہو کہ حدیث میں آیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان ظاہر نہ ہوں گے جب تک کفر غالب نہ ہوگا یعنی اس وقت کفرو کا فری غالب ہوگی اور اسلام ومسلمان زبون ومغلوب۔ اب وہی وقت ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے اہل اسلام کے غرباء کوطوبیٰ فرمایا ہے اور بشارت دی ہے اور فرمایا ہے کہالْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ یعنی فتنہ کے وقت عبادت کرنا گویا میری طرف ہجرت کرنا ہے۔ تم کو معلوم ہے کہ سپاہی فتنہ و فساد کے وقت اگر تھوڑی سی بھی دلیری اور بہادری دکھائی تو اس قدر اعتبار اور مقدار رکھتی ہے کہ فتن فرو ہونے کے وقت اس قسم کی ہزار ہا بہادری اور دلیری اتنا اعتبار و مقدارنہیں رکھتی۔ پس کام کرنے اور قول ہونے کا وقت بھی فتنہ و فساد کا وقت ہے۔ ہمہ تن حق تعالیٰ کی مرضیات میں مشغول ہو جاؤ اورسنت سنیہ کی متابعت کے بغیر کچھ اختیار نہ کرو۔ اگر چاہتے ہو کہ مقبولوں میں اٹھائے جاؤ اصحاب کہف ایک ہی ہجرت سے جو فتنہ کے غلبہ کے وقت ان سے ظہور میں آئی۔ بلند درجہ تک پہنچ گئے۔
تم تو خودمحمدی ہو (ﷺ ) اور بہترین امت میں داخل ہو ا پنے وقت کوکھیل کود میں ضائع نہ کرو اور بچوں کی طرح جوز و مویز(اخروٹ و منقی) پر فریفتہ نہ ہو۔ بیت
دادیم تراز گنج مقصود نشاںماگرنرسیدم تو شاید برسی
ترجمہ تجھے گنج مقصود بتلایا ہم نے ملاگرنہیں ہم کو شاید تو پالے
نورانی ستون جو اس دمدار ستارہ کے ظہور سے پہلے طلوع ہوا تھا۔ اس میں کوئی ظلمت و کدورت مفہوم نہ ہوتی تھی اور سوائے خیر و برکت کے اس میں کچھ نظر نہ آتا تھا، لیکن ستاره دم دار میں کدورت کی آمیزش تھی۔ لا بل النافع والضارھو الله (نہیں بلکہ نفع دینے والا اورضرر پہنچانے والا اللہ تعالیٰ ہے) کسی ستارہ کے متعلق کسی شخص کی موت یا زندگی نہیں ہے جو چھی قرآن مجید سے مفہوم ہوتا ہے۔ تین غرضیں ستاروں سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَبِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ یعنی بری اور بحری سفر میں ستاروں کے ذریعے راستہ معلوم کر لیتے ہیں) دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِلشَّيَاطِينِ ۔ یعنی دنیا کے آسمان کو ہم نے ستاروں سے آراستہ کیا تیسری غرض شیطانوں کا رجیم یعنی سنگساری ان پر وابستہ ہے تا کہ باتوں کو نہ چرائیں۔ ان تین غرضوں کے سوا جو کچھ کہتے ہیں اس کا بھی ثبوت نہیں۔ سب وہم و خیال میں داخل ہے۔ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا ۔ (ظن سے کوئی حق بات ثابت نہیں ہوتی بلکہ ہم کہتے ہیں کہ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ (بعض ظن گناہ ہوتا ہے)۔
عزیزا۔ بار بار لکھا جاتا ہے کہ اب توجہ وانابت اورتبتل و انقطاع میں یعنی خلق سے الگ ہونے کا وقت ہے۔ جوفتنوں کے وارد ہونے کا زمانہ ہے اور نزدیک ہے کہ فتنے ابر بہاری کی طرح برسیں اور جہان کو گھیر لیں۔
مخبر صادق علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا ہے کہ قیامت آنے سے پہلے سیاہ رات کی طرح فتنے برپا ہوں گے۔ اس وقت آدمی اگرصبح کو مومن ہو گا تو شام کو کافر ہو گا اور اگر شام کو مومن ہو گا تو صبح کو کافر ہو گا۔ اس وقت بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے اچھا ہوگا۔ اس وقت تم اپنی کمانوں کو توڑ ڈالو اور اپنی تلواروں کو پتھروں سے کند کر دو ۔ اگرتم میں سے کوئی کسی کے پاس جائے تواس کے پاس آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں میں سے بہتر کی طرح جائے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ صحابہ نے پوچھا کہ ہم کیا کریں۔ فرمایا اس وقت تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہو اور دوسری روایت میں ہے کہ اپنے گھروں کے اندروں کو لازم پکڑو۔
تم کو معلوم ہوگا کہ انہی دنوں میں دارالحرب کے کفار نے نگر کوٹ کے گردونواح میں مسلمانوں اور ان کے شہروں پر کیا کیا ظلم وستم کئے ہیں اور کیسی اہانت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو خوار کرے ۔ اس قسم کے بدبودار پھول زمانہ کے آخر ہونے کے باعث بہت کھلیں گے۔ ثبتنا الله و إياكم وجميع المؤمنين على متابعة سيد المرسلين عليه وعليهم الصلوة والسلام وعلى ال کل و على ملئكة المقرين (اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کو سید المرسلین علیہ الصلوة والسلام کی متابت پر ثابت قدم رکھے۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ250ناشر ادارہ مجددیہ کراچی