انسان کامل کے ظاہر و باطن کے بیان میں مخدوم زاده مجدالدین محمد معصوم کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)ا نسان عالم خلق اور عالم امر کے مجموعہ سے مراد ہے۔ عالم خلق کو انسان کی صورت اور ظاہر تصور کرتے ہیں اور عالم امر کو اس کا باطن اور حقیقت جانتے ہیں اور اعیان ثابتہ (ممکنہ حقائق صور علمیہ) کو جو ممکنات کے حقائق کہتے ہیں۔ اس اعتبار سے ہے کہ ممکنات ان اعیان کے ظلال ہیں اور وہ اعیان ان ظلال کے اصول ہیں۔ کیونکہ ممکنات کی حقیقت و ماہیت اعیان کے وہی ظلال ہیں کہ ممکنات جن کے ساتھ ممکنات بنے ہیں اور وجودظلی پیدا کیا ہے۔ برخلاف اعیان کے کہ وہاں تعینات و جوبی ثابت کرتے ہیں اور ان کو مراتب امکان کے اوپر جانتے ہیں، کیونکہ تعین وحدت اور تعین واحدیت کو کہ اعیان ثابت کا مرتبہ ہے۔ تعین وجوبی کہتے ہیں اور باقی تین تعینوں یعنی تعین روحی اور تعین مثالی او تعین جسدی کوتعین امکانی جانتے ہیں۔ پس تعین و جوبی کو تعین امکانی کی حقیقت کہتے ہیں، تجوز(آسانی) کے طور پر ہے۔ کیونکہ حقیقت امکانی(انسان کا عالم خلق اور عالم امر کے ساتھ تعلق انسان کی حقیقت امکانی ہے) عالم امکان سے ہے۔ نہ کے مرتبہ وجوب سے شے کااصل گویا شے کی حقیقت ہے۔ (عالم وجوب میں انسان کے مبدأ فیض(حق تعالیٰ ٰ) کو اس کی حقیقت وجوبی کہا جاتا ہے)
پس یہ جو کہتے ہیں کہ مومن کائن بائن ہوتا ہے۔ یعنی ظاہر میں خلق کے ساتھ اور باطن میں خالق کے ساتھ تو ظاہر سے مراد عالم خلق ہے اور باطن سے مراد عالم امر اور اس مقام کو جودونوں توجہوں کا جامع(جمع بین التوجہین) ہے۔ بڑاعالی کہتے ہیں اور تکمیل و ارشاد کے مقام اور دعوت کا مرتبہ خیال کرتے ہیں۔
اس فقیر کو اس مرتبہ میں معرفت خاص حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص اخص خواص میں سے ہو۔ جس کے نزدیک عالم خلق اور عالم امر دونوں صورت و ظاہر کی طرح ہوں اور اس کی حقیقت و باطن وه اسم ہے جو اس کا مبداءتعین ہے۔ بمعہ دوسرے اسماء و شیونات(جمع الجمع کا صیغہ ہے اس کا مُفرد شان ہے اور شیون اسکی جمع ہے شان کا معنیٰ حال اور امر ہے) کے جو اس اسم کے اصل کی طرح ہیں حتی کہ اس حضرت ذات تک پہنچ جائیں جو شیون و اعتبارات سے مجرد (خالی)ہے۔ یہ کامل معرفت والا عارف چونکہ تمام مراتب امکانیہ کو طے کر کے اس اسم تک پہنچ جاتا ہے جو اس کا قیوم
ہے اور مراتب امکانیہ سے اس کی انانیت دور ہوکر اس اسم کے ساتھ منطبق ہو چکی ہے اور ترتیب وار عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) کے طور پر دمبدم مراتب فوق پر جواس اسم کے اصل کی طرح ہیں اور وہاں سے احدیت مجردہ تک پہنچ چکتی ہے۔ پس اس کی انانیت کےمنطبق(موافق) ہونے کے یہ مراتب اس کی حقیقت ہے کہ اس کا عالم امر اس کے عالم خلق کی طرح اس حقیقت کی صورت بن گئی ہے۔ یہ صورت اس حقیقت کے لیے ایسی ہے جیسے کپڑا پہننے والے شخص کے لیے کپڑا۔ دوسروں نے چونکہ انا کا اطلاق عالم خلق اور عالم امر پر موقوف رکھا ہے۔ اس لیے ان کی صورت وحقیقت بھی عالم خلق اور عالم امر ہے اوروہ اسماء جو ان کے تعینات کے مبادی ہیں۔ ان کے قیوم ہیں۔
سوال: عارف خواہ کتنا ہی کمال معرفت حاصل کرے۔ پھربھی ممکنات ہی سے ہے امکان ہے نکل کر وجوب کے ساتھ متصف نہیں ہوتا۔ پس وہ اسم جو اس کا قیوم ہے اور مرتبہ وجوب سے ہے۔ کس طرح اس کی حقیقت اور جزء ہوسکتا ہے۔
جواب: حقیقت باعتبار شہود(مشاہدہ) کے ہے۔ نہ باعتبار وجود کے تا کہ محظور(ایک حال سے دوسری حالت میں پھرنا) لازم آئے جس طرح کہ بقا باللہ کہتے ہیں۔ یہ شہود صرف تخیل ہی نہیں بلکہ بہت سے ثمرات ونتائج اس سے حاصل ہوتے ہیں۔
فریاد حافظ ایں ہمہ آخر بہرزہ ہم قصہ غریب و حدیث عجیب است
ترجمہ: نہیں بے فائدہ حافظ کی فریاد عجب ہے ماجرا اس کا سراسر
پس ثابت ہوا کہ جو کچھ دوسروں کی صورت و حقیقت کا مجموعہ ہے۔ وہ اس عارف کی صورت ہے۔ اس صورت کو اس کی حقیقت کے ساتھ وہ نسبت ہوتی ہے جو کپڑے کو پہننے والے شخص کے ساتھ ہوتی ہے۔ پھر دوسرے اس کی حقیقت کو کیا پاسکیں اور اپنی صورتوں اورحقیقتوں کی مانندسمجھنے کے سوا اور کیا تصور کریں۔ اس عارف کی معرفت حق تعالی کی معرفت کو مستلزم ہے۔ إِذَا رُؤُوا ذُكِرَ اللَّهُ (جب لوگ ان کو دیکھتے ہیں خدا یاد آتا ہے ان کا نشان ہے۔
الہی یہ کیا ہے جو تو نے اپنے دوستوں کو عطا کیا ہے کہ جس نے ان کو پہچانا۔ اس نے تجھ کو پالیا اور جب تک تجھ کو نہ پایا ان کونہ پہچانا۔
اور یہ جو فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے کہ تام المعرفت عارف رجوع کے بعد کلی طور پر عالم کی طرف متوجہ ہوتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا ظاہر خلق کی طرف ہے اور اس کا باطن خالق کی طرف بلکہ مراد اس سے یہ ہے کہ عالم خلق اور عالم امر دونوں سے کلی طور پر عالم کی طرف متوجہ ہے جیسے کہ قوم کے نزدیک متعارف اورمشہور ہے یعنی عالم خلق وعالم امر دونوں کی طرف دعوت کے ساتھ متوجہ ہوتاہے۔
اور وہ حقیقت و باطن جو فقیر نے اوپر لکھا ہے اس سے اسم قیوم اور مافوق مراد لیا ہے اس کا حق کی طرف توجہ کرنا کچھ معنے نہیں رکھتا، کیونکہ وہ عالم وجوب سے ہے جیسے کہ گزر چکا بہر صورت رجوع کے وقت عارف کامل کی توجہ کامل طور پرخلق کی طرف ہوتی ہے اور وہ شخص کہ جس کی ایک توجہ خلق کی طرف ہے اور دوسری توجہ خالق کی طرف دو سیر کے وسط میں ہے لیکن یہ شخص اس سالک سے بلند تر ہے جس کی توجہ کامل طور پر حق تعالیٰ کی طرف ہے کیونکہ یہ شخص بندوں کے حقوق ادا کرنے میں ناقص ہے اور وہ شخص حتی المقدور خالق کےحق بھی اورمخلوق کے حق بھی بجالاتا ہے اورخلق کو خالق کی طرف بلاتا ہے، پس اس کی نسبت اکمل ہوگی۔
جاننا چاہیئے حق تعالیٰ کی طرف توجہ کرنا بعد اور دوری طلب کرنا ہے اور بعد و دوری اس عارف کے میں دوسروں کے نصیب ہو چکی ہے جو توجہ کے محتاج ہیں۔ کیا کسی نے دیکھا ہے کہ کوئی شخص اپنی طرف متوجہ ہو تو پھر اس شخص کی طرف جو اپنے آپ سے بھی زیادہ نزدیک ہے اس کی توجہ کرنے کے کیا معنے۔ یہ عدم توجہ اس عارف کے مخصوصہ کمالات میں سے ہے۔ عجب نہیں کہ دوربیں لوگ اس کونقص خیال کریں اور توجہ کو عدم توجہ کی نسبت زیادہ کمال تصور کریں۔ حق تعالیٰ ان کو انصاف دے تاکہ اپنے جہل مرکب پرحکم نہ کریں اور ہنرکوعیب نہ جانیں۔
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ264ناشر ادارہ مجددیہ کراچی