عرش کی حقیقت کے بیان میں جو عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے اور دونوں کا رنگ رکھتا ہے اور زمین و آسمان کی قسم سے نہیں ہے اور کرسی اور اس کی وسعت کے بیان میں مولانا فرخ حسین کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) عرش مجید حق تعالیٰ کی عجیب و غریب مصنوعات میں سے ہے اور عالم کبیر میں عالم خلق اور عالم امر کے درمیان برزخ ہے اور دونوں کا رنگ رکھتا ہے اور وہ عالم خلق جو چھ روز میں پیدا ہوا ہے یعنی زمین و آسمان و پہاڑ وغیرہ جو آیت کریمہ خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ میں واقع ہے۔ عرش کا وجود ان کی پیدائش سے مقدم ہے۔
جیسے کہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وہ حق تعالیٰ جس نے آسمانوں اور زمین کوچھ دن میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا بلکہ اس آیت سے مفہوم ہوتا ہے کہ اس عالم خلق سے پانی بھی پہلے پیدا ہوا ہے۔ پس عرش مجید جس طرح زمین کی قسم سے نہیں ہے۔ آسمان کی قسم سے بھی نہیں ہے کیونکہ عرش عالم امر کا بہت حصہ رکھتا ہے اور یہ نہیں رکھتے چونکہ عرش کو زمین کی نسبت آسمانوں کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے اس لیے آسمانوں میں گنا جاتا ہے۔ ورنہ درحقیقت یہ وہ زمین کی قسم سے ہے نہ آسمان کی قسم سے۔ زمین و آسمان کے احکام و آثار جدا ہیں اور عرش کے جدا۔
باقی رہا معاملہ کرسی کا ۔ آیت کریمہ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَسے مفہوم ہوتا ہے کہ کرسی بھی آسمانوں سے جدا ہے اور ان سب سے زیادہ وسیع ہے اور شک نہیں کہ کرسی عالم امر سے نہیں کیونکہ اس کو عرش کےنیچےبتاتے ہیں۔ عالم امر کا معاملہ عرش کے اوپر ہے اور جب عالم خلق سے ہو کر اس کی پیدائش آسمانوں سے جدا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی پیدائش ان چھ دنوں کے سوا ہوگی اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ عالم خلق سب کا سب انہی چھ دنوں میں پیدا نہیں ہوا۔ کیونکہ پانی جو عالم خلق سے ہے ان چھ دنوں کے سوا پیدا ہوا ہے اور ان سے اول پیدا ہوا ہے جیسے کہ گزر چکا۔ چونکہ کرسی کا معاملہ اچھی طرح ہم پر کشف نہیں ہوا۔ اس لیے اس کی تحقیق کو دوسرے وقت پر موقوف رکھا ہے، کیونکہ الله تعالیٰ کے کرم سے بہت کچھ امید ہے۔ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا (یا اللہ تو میراعلم زیادہ کر)۔
اس تحقیق سے دوقوی اعتراض دفع ہو گئے۔ ایک یہ کہ جب زمین و آسمان نہ تھے تو چھ دنوں کی تعیین وتشخیص کہاں سے ہوئی اور یک شنبہ کا دن دوشنبہ سے کسی طرح الگ ہوا اور سہ شنبہ چہارشنبہ سے اورپنچ شنبہ سے جمعہ کیونکہ ممتاز ہوا۔ جب زمین وآسمان کی پیدائش سے پہلے عرش کی پیدائش معلوم ہو گئی تو زمانہ کا حصول متصور ہو گیا اور دونوں کا ثبوت واضح ہو گیا اور اعتراض دور ہو گیا ۔ یہ ضروری نہیں کہ دنوں کا امتیاز آفتاب کے طلوع غروب پر ہی مخصوص ، کیونکہ بہشت میں طلوع و غروب نہیں، لیکن دنوں کا امتیاز ثابت ہے۔ جیسے کہ اخبار میں وارد ہے۔
اور دوسرا اعتراض جو دفع ہوا۔ اور اس فقیر کے علم پر مخصوص ہے۔ وہ یہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے۔ لَا يَسَعُنِي أَرْضِي، وَلَا سَمَائِي، وَلَكِنْ يَسَعُنِي قَلْبُ عَبْدِي الْمُؤْمِنِ میں نہ اپنی زمین میں سما سکتا ہوں نہ آسمانوں میں لیکن مومن آدمی کے دل میں سما سکتا ہوں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کامل ظہورمومن آدمی کے قلب کے ساتھ مخصوص ہے اور اس کے سوا کسی اور کو یہ دولت حاصل نہیں ، لیکن مکتوبات میں اس کے برخلاف لکھا ہے کہ ظہور اتم عرش مجید کے لیے ہے اور ظہورقلبی ظہورعرشی کا ایک لمعہ ہے۔
اور پہلی تحقیق سے معلوم ہوا کہ عرش کےآثارواحکام زمین و آسمان کے آثار و احکام سے جدا ہیں یعنی زمین و آسمانوں میں حق تعالیٰ کی گنجائش نہیں اور عرش میں ہے۔ ہاں زمین و آسمان اس وسعت کی قابلیت نہیں رکھتے۔ یہ وسعت مومن آدمی کے دل کو حاصل ہے جو اس دولت کے لیے مستعد ہے پس وسعت قلبی کا حصہ زمین و آسمانوں کے اعتبار سے ہے نہ ان تمام مصنوعات کے اعتبار سے جو عرش کو بھی شامل ہیں، کہ حدیث قدسی کے مفہوم کے برخلاف متصور ہو۔ پس یہ دوسرا اعتراض بھی رفع ہو گیا۔
جاننا چاہیئے کہ جب زمین و آسمان و مافیہا کو عرش مجید کے مقابلہ میں ظہورتام کامحل ہے۔ ڈالتا ہوں تو بے توقف نیست و نابود ہو جاتے ہیں اوران کا کوئی اثر نہیں رہتا۔ ہاں قلب انسانی جو عرش کے رنگ سے رنگا ہوا ہے باقی رہتا ہے اورمحض لاشے نہیں ہو جاتا اسی طرح وہ ظہور جوفوق کی جانب میں ماوراء عرش یعنی صرف عالم امر سے تعلق رکھتا ہے۔ عرش کو اس ظہور اور اس مرتبہ سے وہی نسبت ہے جو زمین و آسمان کو عرش کے ساتھ تھی۔ فوق کو اپنے ماتحت کے ساتھ اس طرح کی نسبت ہے حتی کہ عالم امر ختم ہو جائے اس دائرہ کے تمام ہونے کے بعد معاملہ حیرت وجہل میں پڑتا ہے اگر معرفت ہے تو مجہول الکیفیت ہے جو حادث کے عقل وفہم سے برتر ہے۔ اب ہم انسان اور قلب انسان کے کچھ کمالات بیان کرتے ہیں۔
عیب مے جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو ترجمہ: عیب سب ہو چکے کچھ تو ہنراس کےکہو
عرش مجید اگر چہ زیادہ وسیع اور مظہراتم ہے لیکن اپنی اس دولت کے حاصل ہونے کا علم نہیں رکھتا اور ان کمالات کا شعور اس کو حاصل نہیں۔ برخلاف قلب انسانی کے کہ صاحب شعور ہے اور اپنے علم و معرفت سے معمور ہے۔ قلب کے لیے ایک اور بھی زیادتی ہے جس کو ہم بیان کرتے ہیں۔ غور سے سنیں مجموعہ انسان جس کو عالم صغیر کہتے ہیں اگر چہ عالم خلق اور عالم امر سے مرکب ہے لیکن اس کو ہیئت وحدانی(تمام لطائف اورجسم) حقیقی حاصل ہے جس پر آثارواحکام مترتب ہیں اور عالم کبیر کو یہ ہیئت وحدانی حاصل نہیں اور اگر ہے بھی تو اعتباری ہے۔ پس وہ فیوض جواس ہیئت وحدانی کی راہ سے انسان اور قلب انسان کو پہنچتے ہیں عالم کبیر اور عرش مجید جو اس عالم کبیر کے قلب کی طرح ہے۔ اس فیوض و برکات سے بے نصیب ہے۔ دوسری وجہ زیادتی قلب کی یہ ہے کہ جزو خا کی جو فی الحقیقت خلاصہ مخلوقات ہے اور باوجود دوری کے اقرب ظہورات ہے۔ اس جز وخاکی کے کمالات نے مجموعہ عالم صغیر میں سرایت کی ہے اور عالم کبیر میں چونکہ در حقیقت یہ مجموعہ نہیں اس لیے یہ سرایت مفقود ہے۔ پس قلب انسانی عرش مجید کے برخلاف یہ کمالات بھی رکھتا ہے۔
جاننا چاہیئے کہ یہ فضائل و کمالات جو قلب میں ثابت کیے جاتے ہیں جب اچھی طرح ملاحظہ کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فضل جزئی میں داخل ہیں اورفضل کلی ظہور عرش کے لیے معلوم ہوتا ہے۔ عرش اور قلب کی مثال اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ گویا ایک وسیع آگ ہے جس نے دشت و صحرا کو منور کر دیا ہے اور اس آگ سے ایک مشعل بنالیں جس میں بعض امور کے لاحق ہونے سے اس قسم کی اور نورانیت پیدا ہو جائے جو اس آگ میں نہیں تو کچھ شک نہیں کہ یہ زیادتی صرف فعل جزئی ہی ثابت کرتی ہے۔ ۔ وَاَللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى بِحَقَائِقِ الْأُمُورِ كُلِھَا تمام امور کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ یا اللہ ہمارے نور کو کامل کر اور ہم کو بخش۔ تو سب شے پر قادر ہے) وصلی الله تعالى على سيدنا محمد واله وأصحابه اجمعين و على جميع الأنبياء والمرسلين والمملكة المقرين وبارک وسلم.
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ271ناشر ادارہ مجددیہ کراچی