کلام صوفیاء پر اعتراض اور دوسرے استفسار مکتوب نمبر77 دفتر دوم

ایک عریضہ کے جواب میں جس میں کلام صوفیاء پر اعتراض کیے ہوئے تھے اور آخر کتاب میں لکھا تھا کہ احکام شرعیہ میں سے ہر ایک حکم  ایک دریچہ ہے۔ جو شہر مقصود تک پہنچانے والا ہے اور دوسرے استفساروں کے جواب میں مولانا حسن برکی کی طرف صادر فرمایا ہے۔

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ  کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) برادرم حسن ( کہ خدا اس کے حال کو اچھا کرے )کاصحیفہ شریفہ آیا تشرع(شرعی اوصاف) واستقامت کا حال پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ 

آپ نے لکھا تھا کہ وہ سلوک جو مشہور ہے اور سالکوں کا معتقد جو ہمارا مفہوم ہے یہ ہے که مبتدی کو ذکر کرنا چاہیئے تاوقتیکہ دل گویا اور ذاکر ہو جائے۔ پھر یہاں تک کہ ذکر کو چھوڑ کر الہامات و تجلیات کامحل ہو جائے اور سالک مقام فنا تک پہنچ جائے۔ جوولایت کا قدم اول ہے اور صوفیہ نے کہا ہے کہ فنا یہ ہے کہ سالک کی دید و دانش سے مسمّٰی باالغیر(ہر وہ چیز  جو غیر کے نام سے موسوم ہے) دور ہو جائے اور واجب تعالیٰ  کے بغیر سالک کی دیدر ودانش میں کچھ  نہ ر ہے جس کو مشہودو مشاہدہ وغیرہ بھی کہتے ہیں جس سے مقصود یہ ہے کہ سالک اپنے زعم میں حق تعالیٰ  کو دیکھتا ہے اور مسمی باالغیر کونہیں دیکھتا۔ اور دوبین کو مشرک طریقت کہتے ہیں۔ 

اور آپ نے لکھا ہے کہ یہ معارف و غیر ہ فقیرکو بیقرار کردیتے ہیں کیونکہ اگر ان کامقصود یہ ہے کہ حق تعالیٰ  کو دنیا میں بصر دبصیرت سے دیکھا جاتا ہے تو پھر اگر اس شہود(مشاہدہ)  اور روایت کا شعور رکھتے ہیں۔ تو یہ بھی مشرک طریقت ہیں اور اگر یہ شعور نہیں رکھتے توپھرخبر کس کی دیتے ہیں اور کس طرح دیتے ہیں۔ 

اور آپ نے لکھا تھا کہ جو کچھ دیکھتے ہیں  اور جس طریقے سے بھی دیکھتے ہیں  خواہ تجلی صوری ہو یا معنوی خواه نوری وغیرہ اور اس مرئی(نظر آنے والی) کو حق تعالیٰ  کی ذات جانتے ہیں اور مسمی بالغیر کو اس کا ظہور جانتے ہیں۔ اس فقیر(مولانا حسن برکی) کے نزدیک(یہ باتیں) بے حاصل  اور دور از کار ہے اور آیت کریمہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (کوئی بھی اس کے مثل نہیں)کے برخلاف ہے۔ آیت کریمہ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ(آنکھیں اس کو نہیں پا سکتیں) اس مطلب پر گواہ ہے۔ 

پس یہ لوگ کیا دیکھتے ہیں اور کیا جانتے ہیں جو کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ  کے سوا کسی کو نہ ہم دیکھتے ہیں نہ جانتے ہیں جس کا نام انہوں نے شہود  و مشاہدہ رکھا ہے اور یہ سب فکرواندیشہ جو اہل وعیال کی تدبیر میں کہتے ہیں غیر ہے یا نہیں۔ 

آپ کو واضح ہو کہ یہ سب بیہودہ اعتراض اورزبان درازیاں ہیں جو آپ نے مشائخ طریقت قدس سرہم پر کی ہیں۔ ان کا باعث یہ ہے کہ آپ نے ان بزرگواروں کی مرادکرنہیں سمجھا۔ توحید شہود ی جس کے معنے ہیں ایک دیکھنا اور ماسوی کے نسیان پر وابستہ ہے ان بزرگواروں کے نزدیک طریقت کی ضرورت میں سے ہے۔ جب تک یہ حاصل نہ۔ اغیار کی گرفتاری سے خلاصی نہیں ہوتی اور آپ اس دولت اور دولت والوں پرہنسی اڑاتے ہیں۔ شہود روایت جوان بزرگواروں کی عبارات میں واقع ہے۔ اس سے مراد حضوربیچونی ہے جو مرتبہ تنزیہ کے مناسب اور عالم چون کے ادراک سے باہر ہے اور یہ دولت حضور دنیا میں باطن کے ساتھ مخصوص ہے۔ ظاہرکو ہر وقت دوبینی سے چارہ نہیں اسی واسطے کہتے ہیں کہ جس طرح عالم کبیر(کائنات)میں مشرک موحد ہے اسی طرح عالم صغیر(انسان) میں بھی مشرک موحد ہے۔ کامل کا باطن ہر وقت موحد ہے اور اس کا ظاہر مشر ک یعنی کامل کا باطن ہر وقت خداوند تعالیٰ  کی طرف لگا رہتا ہے اور اس کا ظاہر 

اہل وعیال کی تدبیر میں اس میں کوئی ڈر نہیں پر اعتراض بے سمجھی کے باعث ہے۔ 

آپ کو اس قسم کی باتیں نہ کرنی چاہئیں اور حق تعالیٰ  کی غیرت سے ڈرنا چاہیئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے مدعی آپ کو اس فتنہ و فساد پر آمادہ کرتے ہیں آپ کو بزرگوں کا لحاظ کرنا چاہیئے۔ اگر آپ ان مدعیوں کی بنی بنائی اور من گھڑت باتوں پر اعتراض کرتے تو بجا تھا، لیکن وہ امر جو قوم کے نزدیک مقرر اور طریقت میں ضروری ہے اس پر اعتراض کرنا نا مناسب ہے۔ آپ نے فقیر کے رسالوں اورمکتو بات میں دیکھا ہے کہ توحید شہود ی کی نسبت کیا کچھ لکھا ہے اور اس کو طریقت کی ضروریات سے مقرر کیا ہے۔ 

آپ کو چاہیئے تھا کہ اس کے معنے دریافت کرتے اور ادب سے سوال کرتے۔ یہ پہلا پھول ہے جو مولانا احمد علیہ الرحمتہ کی جدائی کے بعد کھلا ہے۔ مولانا کی زندگی میں اس قسم کی باتیں آپ سے بھی ظاہر نہ ہوئی تھیں۔ خیر اچھا ہوا کہ آپ نے لکھا اور آپ کو آگاہی ہوئی۔ آئندہ بھی جو کچھ ظاہر ہوتا رہے لکھتے رہا کریں اور صحت و سقم کاملاحظہ نہ کیا کریں۔ کیونکہ اگرصحیح ہوگا تو خوشی کا باعث ہے اور اگرسقم ہوگا و تنبیہ کا باعث ہوگا۔ بہر صورت لکھنے میں سستی نہ کیا کریں۔ سال کے بعد آپ کا خط قافلہ کے ہمراہ آتا ہے۔ سال میں ایک بار تو نصیحتوں کا لکھنا ضروری ہے جب تک آپ نہ لکھیں نہ پوچھیں تب تک گفتگوکاراستہ نہیں کھلتا۔

 آپ نے پوچھا تھا کہ قلب ظاہر کی قسم سے ہے یا باطن سے۔ عارف کے ظاہر و باطن کا حال ایک مکتوب میں لکھا ہوا ہے۔ ملا عبدالحی کو لکھوں گا کہ اس کی نقل آپ کو بھیج دے آپ وہاں سے ملاحظہ کر لیں۔ 

نیز آپ نے پوچھا تھا کہ وہ طریق جو تجلیات و کیفیات کے بغیر ہے اس طریق کےمنتہی و متوسط کی شناخت کا طریق کیا ہے۔ 

آپ کو واضح ہو کہ اگر یہ سالک جس کو اپنے احوال کا علم نہیں۔شیخ  کامل مکمل، راه داں، راہ بیں کی خدمت میں ہے تو اس کے حال پرشیخ کا علم ہی اس کے لیے کافی ہے اس کے بتلانے سے انتہاء وتوسط کو معلوم کریگا۔ نیز اگر وہ شیخ  اس کے خلق کے ارشاد کے لیے ایک قسم کی اجازت دے دے تو مریدوں کے احوال اس کے کمالات کے آئینے ہوں گے۔ جن میں اپنے نقص و کمال کو دیکھ لے گا۔ انتہا کے پہچاننے کے لیے دوسرا نشان یہ ہے کہ سالک کو حق تعالیٰ  کے سوا کسی سے تعلق نہیں رہتا اور اس کا سینہ تمام ماسوا کے تعلقات سے خالی و صاف ہوجاتا ہے۔ نہایت کے بہت سے مر تبے ایک دوسرے کے اوپر ہیں مگر نہایت میں پہلا قدم یہی ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔ والله سبحانه الموفق

نیز آپ نے لکھا تھا کہ وہ معارف جو اس بے سروسامان کوتسلی دیتے ہیں، معارف شرعیہ ہیں گویا احکام شرعیہ میں سے ہر ایک حکم دریچہ ہے جو شہرمقصود تک پہنچانے والا اور اس شہر بے نشان کا پتہ بتانے والا ہے اور بیت مدنظر ہے۔

مابسفرے رویم عزم تماشا کراست مابراومے رویم کز همه عالم و راست 

ترجمہ: ہم ہیں یہاں مسافر دیکھیں کیا تماشا جاتے ہیں اس طرف جو عالم سے ہے نرالا۔

 آپ کی یہ معرفت اصلی اور بہت اعلی اور بہت امید بخشنے والی ہے۔ اس معرفت کے مطالبہ نے بڑا خوش کیا۔ حتی کہ مکتوب کی پہلی پراگندگی کو بھی دور کر دیا۔ حق تعالیٰ  اس راہ سے آپ کو منزل مقصود تک پہنچائے۔ 

نیز آپ نے پوچھا تھا کہ بعض مرد اور عورتیں آ آ کر طریقہ سیکھنے کی التماس کرتے ہیں، لیکن اس کھانے پینے سے جو سود سے حاصل ہو۔ پر ہیز نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہم حیلہ شرعی  سے اس کو درست کر لیتے ہیں ان کو طریقت کی تعلیم دینے کی اجازت ہے یا نہیں۔ آپ ان کو طریقہ سکھائیں اورمحرمات سے بچنے کی ترغیب دیں۔ امید ہے کہ طریقہ کی برکت سے اس شبه سے نکل آئیں گے۔ 

نیز آپ نے ان دو سفید نشانیوں(جھنڈوں) کے بارے میں پوچھا تھا جو مشرق کی طرف ایک دوسرے کے پیچھے ظاہر ہوئے تھے۔ یاروں کے استفسار کے بعد اس بارے میں بھی ایک مکتوب(نمبر 68 دفتردوم) لکھا ہے۔ ملا عبدالحی کو کہا جائے گا۔ اس کی نقل انشاء الله آپ کو بھی ارسال کر دے گا۔ 

نیز آپ نے پوچھا تھا کہ کلام اللہ ختم کرنا اورنفل نماز کا پڑھنا اورتسبیح و تہلیل کرنا اور اس کا ثواب ماں باپ یا استاد یا بھائیوں کو بخشنا بہتر ہے یا کسی کو نہ بخشنا بہتر ہے۔ واضح ہو کہ بخشنابہتر ہے کیونکہ اس میں اپنا بھی نفع ہے اور غیر کا بھی اورعجب نہیں کہ اس عمل کو دوسروں کے طفیل قبول کر لیں اورنہ بخشنے میں اپنا ہی نفع ہے۔ والسلام۔ 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ275ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں