ایک استفسار کے جواب میں جس میں قاب قوسین او ادنی کے اسرار دریافت کیے گئے تھے مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید کی طرف صادر فرمایا:۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) مقام قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى میں سر عظیم یہ ہے کہ جب انسان کاسیرالی اللہ کے تمام ہونے کے بعد سیر فی اللہ(اس سے مراد اَسماء و صفات، شیونات اور اعتبارات اور تقدیسات و تنزیہات کے مراتبِ وجوب میں حرکت علمی یا سیر علمی ہے اس سیر کو بقا باللہ بھی کہتے ہیں یہ سیر ولایتِ کُبریٰ میں واقع ہوتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کی ولایت ہے۔) کے ساتھ محقق ہو جاتا ہے۔ تو اخلاق الہی سےمتخلق ہو جاتا ہے اور جب مجمل طور پر اس سیر کو بھی نام کر لیتا ہے اور اسماء و صفات کے عکسوں کے ظہور کا دائره جو سیرفی اللہ کے ساتھ وابستہ ہے۔تمام کر لیتا ہے۔ تو اس امر کے لائق ہو جاتا ہے کہ محبوب ظلیت کی آمیزش اور حالیت ومحلیت کے وہم کے بغیر اصالت کے طور پر اس میں ظہور فرمائے۔ چونکہ محبوب کی صفات ذاتیہ اس کی ذات سے الگ نہیں ہیں اس لیے عاشق کی نظروں میں ذات کے ظہور کے ساتھ صفات کا ظہور بھی ہو گا اور دو قوسین یعنی قوس ذات ا ور قوس صفات حاصل ہو جائیں گی۔ یہ مقام اعلی قاب قوسین ہے۔ جو ظہور اصلی کے متعلق ہے جس میں ظلیت کی آمیزش نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی عنایت سے عاشق صادق کا تعلق و گرفتاری معشوق ذات کے ساتھ یہاں تک ہو جائے کہ اسم وصفت سے گزر جائے تو اس وقت اسم وصفت بالکل اسی کی نظر سے دور ہو جاتے ہیں اورذات کے سوا اس کو کچھ ملحوظ و مشہود نہیں ہوتا۔ اگرچہ صفات موجود ہوں، لیکن اس کو مشہودنہیں ہوتے۔ تب او ادنے کا ستر ظاہر ہوتا ہے اور قوسین کا کچھ اثر نہیں رہتا۔ اس مقام اعلی سے جب ہبوط واقع ہوتو قدم اول عالم خلق میں بلکہ عنصر خاک میں آ پڑتا
ہے جو باوجود دوری اورمہجوری(جدائی) کے تمام موجودات کی نسبت عالم قدس سے زیادہ قریب ہے۔ عجب معاملہ ہے کہ اگر عروج (عروج سے مراد سالک کا حق تعالیٰ کی ذات و صفات عالیہ کے مشاہدہ میں مستغرق ہو جانا اور مخلوق سے منقطع ہونا ہے) وصعود کا اعتبار کریں تو عالم امر کو بلکہ عالم امر کےا خفی کو تمام موجودات کی نسبت عالم قدس سے زیادہ قریب معلوم کرتے ہیں اور جب نزول و ہبوط کی طرف نظر کرتے ہیں تو قرب کی دولت عالم خلق بلکہ عنصر خاک کے نصیب جانتے ہیں۔ ہاں جب عروج کی جانب میں دائرہ کے نقطہ اول کو ملاحظہ کریں تو جانب عروج میں اس نقطہ سے زیادہ قریب اس دائرہ کا دوسرا نقطہ ہے اور جب ہبوط کی جانب میں ملاحظہ کیا جاتا ہے تو اس نقطہ اول سے زیادہ قریب دائرہ کا اخیر نقطہ معلوم ہوتا ہے۔ اس قدرفرق ہے کہ نقطہ ثانی عروج میں نقطہ اول سے معرض یعنی روگرداں(مخالف سمت) ہے اور یہ نقطہ اخیر نقطہ اول کی طرف مقبل یعنی متوجہ ہے اور معرض ومقبل میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ نقطہ ثانیہ نقطہ ادنے کے ظہورات کی خواہش رکھتا ہے اور نقطہ اخیر ظہورات کی طرف پشت کر کے ظاہر کی ذات کا خواہاں ہے۔فاین ھو من ذاک پھر دونوں کس طرح آپس میں برابر ہو سکتے ہیں۔
رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے ہدایت و بھلائی ہمارے نصیب کر وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ291ناشر ادارہ مجددیہ کراچی