فنا و بقا کی حقیقت اور عارف کی حقیقت و صورت سے عدم کے جدا ہونے اور مجاورت(ہمسائیگی) کی نسبت بہم پہنچانے کے بیان میں مولانا عبدالقادر انبالوی کی طرف صادر فرمایا ہے:۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ . اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اللہ رب العلمین کے لیے ہے اور حضرت سید المرسلین پر صلوۃ وسلام۔
اس فقیر کے علم میں حقائق ممکنات جیسے کہ بعض مکتوبات میں لکھا جا چکا ہے۔ ان عدمات سے مراد ہیں۔ جو ہرشرونقص کا موجب ہیں۔بمع حق تعالیٰ کے اسماء و صفات کی علمیہ صورتوں کے عکوس کے جوان عد مات میں ظاہر ہوئے ہیں۔
حاصل کلام یہ کہ وہ عدمات ہیولی(جسم) کی طرح ہیں( یعنی وہ مادہ اقسام جو صورت اختیار کرنے کے قابل ہے) اور وہ(عدمات) عکوس صورت کی طرح جو ہیولی میں حلول کیے ہوئے ہیں۔ عدمات کی تشخیص وتمیزان عکوس ظاہرہ کے ساتھ ہے اور ان عکوس کا قیام ان عد مات متمیزہ کے ساتھ ہے۔ یہ قیام عرض و جوہر کے قیام کی طرح نہیں ہے بلکہ جس طرح صورت کا قیام ہیولی کے ساتھ اورہیولی کا قیام صورت کے ساتھ ہوتا ہے جیسے کہ حکماء نے کہا ہے۔ جب سالک الله تعالیٰ کی توفیق سے ذکر و مراقبہ کے ساتھ حق تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دم بدم ماسوی(غیر حق) سے منہ پھیرتا جاتا ہے تو حق تعالیٰ کے اسماء وصفات کی علمیہ صورتوں کے عکوس ہرآن میں قوت و غلبہ پاتے جاتے ہیں اور اپنے قرین یعنی ساتھی پر جو عدمات ہیں غالب آتے جاتے ہیں۔ فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ (خبر دار اللہ تعالیٰ کا گروه غالب ہے) معاملہ یہاں تک جاتا ہے کہ عد مات جوان عکوس کے لیے اصل ومادہ کی طرح ہیں سب پوشیدہ ہونے لگتے ہیں بلکہ سب کے سب سالک کی نظر سے چھپ جاتے ہیں اور اپنے اصول کے عکوس کے بغیر اس کی نظر میں کچھ نہیں رہتا۔ بلکہ وہ عکوس بھی جو اپنے اصول کے آئینے ہیں۔ نظر سے پوشیدہ ہو جاتے ہیں، کیونکہ اس مقام میں آئینوں کامخفی ہونا ضروری ہے۔ یہ مقام مقام فنا ہے اور بہت بلند(مقام) ہے۔ اگر اس سالک فانی کو بقا بخشیں اور عالم کی طرف واپس لائیں تو اپنے عدم کو باریک پوست کی طرح جو بدن کا محافظ ہے۔ معلوم کرے گا اور نزدیک ہے کہ نہایت بے مناسبتی سے جو اس کو عدم کے ساتھ پیدا ہے۔ اس کی تعبیر پیراہن شعر( بالوں کے باریک کرتہ) سے کرے اور اپنے آپ سے الگ معلوم کرے لیکن درحقیقت اس مقام میں عدم اس سے الگ نہیں ہوا۔ بلکہ اس مقام میں انانیت(میں پن) کا ظن غالب ہے۔ غرض عدم اس مقام میں سالک کی مستور اور مغلوب جزو ہے اور اس اصالت سے جو اس کو حاصل تھی نیچے آ گیا ہے اور ان عکوس کے تابع بلکہ ان کے ساتھ قائم ہوا ہے جو اس کے ساتھ قیام رکھتے تھے۔ یہ فقیرکئی سال تک اس مقام میں رہا ہے اور اپنے عدم کو پیراہن شعرکی طرح اپنے سے جدا معلوم کیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی عنایت بیغایت اس کے شامل حال ہوئی ۔ دیکھا کہ وہ جزو مغلوب اس انحلال (کشادہ)یافتہ ترکیب سے جدا ہو گیا ہے اور وہ تشخیص جوان عکوس کے حاصل ہونے سے پیدا کی تھی مفقود کردی ہے اور گویا عدم مطلق کے ساتھ ملحق ہو گیا ہے۔ جس طرح کسی صورت کو سانچے پر درست کریں اور اس کو اس سانچے پر قائم رکھیں۔ جب صورت درست اور ثابت اور راسخ ہو جائے تو اس سانچے کو توڑ ڈالیں اور اس کے قیام کو سانچے سے دور کر کے اپنے آپ کے ساتھ قائم رکھیں ۔ صورت مذکورہ بالا میں بھی فقیر نے معلوم کیا کہ ان عکسوں نےجو اس کے ساتھ قیام رکھتے تھے۔ اپنے ساتھ بلکہ اپنے اصول کے ساتھ قیام پیدا کیا ہے۔ اس وقت انا(میں پن) کا لفظ ان عکوس اور ان عکوس کے اصول کے سواکسی پر اطلاق نہیں کرتا۔ گویا جز وعدم کو اس کے ساتھ کچھ مس تھا اور معلوم کیا کہ حقیقت فنااسی صورت کے مقام میں ہے سابقہ فناگویا اس فنا کی صورت تھی۔ اس مقام سے جب بقا میں لائے اور عالم کی طرف واپس لائے تو اس عدم کو جو جزئیت کی نسبت رکھتا تھا اور اصالت و غلبہ اس کے لیےتھا۔ واپس لا کر اس کا مجاور اور ساتھی بنا دیا۔ اس کی صورت و حقیقت سے الگ کر کے اس کو لفظ انا کے اطلاق سے باہر کر دیا اور حکمتوں اور مصلحتوں کے لیے اس کو پھر پیرا ہن شعر کی طرح پہنا دیا۔ اس حالت میں اگر چہ عدم کو واپس لے آ ئے ، لیکن ان عکوس کا قیام اس سے وابستہ نہ کیا۔ بلکہ عدم کو اس معکوس کے ساتھ قیام بخشا۔ جیسے کہ بقائے سابق میں گزر چکا۔ جب اس بقا میں یہ نسبت ہوتو اس جگہ جو بقا کی حقیقت ہےیہ نسبت کامل طور پر ہوگی۔
حاصل کلام یہ کہ کپڑا پہننے والے کو کپڑے کی تاثیر ہوتی ہے۔ یعنی اگر کپڑا گرم ہو تو پہننے والے کو اس کی گرمی پہنچتی ہے۔ اگرسرد ہو تو اس کی سردی سے متاثر ہوتا ہے۔ اسی طرح کپڑے کی مانند اس عدم کا تاثر اپنے آپ میں پایا اور اس کا اثر تمام بدن میں جاری و ساری دیکھا لیکن جانتا ہے کہ یہ تا ثیر دسرایت بیرونی ہے نہ درونی۔ عارضی ہے نہ ذاتی۔ خارجی ہمنشین کی طرف سے آئی ہے نہ داخل کے ہم جنس کی طرف سے اور شرونقص بھی جو اس عدم سے پیدا ہوا ہے۔ عرضی اور خارجی ہے نہ ذاتی و اصلی۔ اس مقام والا اگر چہ بشریت میں تمام لوگوں کے ساتھ مشارکت رکھتا ہے اور صفات بشریت کے صادر ہونے میں سب کے ساتھ شریک ہے۔ لیکن اس سے اور اس کی ابنائے جنس سے صفات بشریت کا صادر ہو تا عارضی ہے جو ہم نشین و مجاور کی طرف سے ہے اور دوسروں سے صفات بشریت کا صادر ہونا ذاتی ہے۔ شَتَّانِ مَا بَيْنَهُمَا ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ عوام لوگ ظاہری مشارکت کو ملاحظہ کر کے خواص بلکہ اخص خواص کواپنی طرح تصور کرکے مقام انکارو اعتراف میں آ جاتے ہیں اور محروم رہ جاتے ہیں۔ آیت کریمہ فَقَالُوا أَبَشَرٌ يَهْدُونَنَا فَكَفَرُوا (ان لوگوں نے کہا کہ کیا یہ انسان ہم کو ہدایت دے گا پس وہ منکر ہو گئے ) اور آیت کریمہ وَقَالُوا مَالِ هَذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ (انہوں نے کہا کہ اس رسول کو کیا ہے جو کھانا کھاتا اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ان کے حال کا نشان ہے۔
یہ فقیر صفات بشریت سے جو کچھ اپنے آپ میں دیکھتا ہے۔ معلوم کرتا ہے کہ ان صفات کا حاصل وہی عدم مجاور ہے جوکلیت یعنی تمام بدن میں اثر سرایت کیے ہوئے ہے اور اپنے آپ کو تمام و کمال طور پر ان صفات سے پاک و صاف معلوم کرتا ہے اور ان کا کچھ حصہ بھی اپنے آپ میں محسوس نہیں کرتا۔ اس پر الله تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے۔ یہ صفات جومجاورت کے سبب سے ظاہر ہوتے ہیں اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے سرخ لباس پہنا ہو اورلباس کی سرخی سے سرخ نظر آتا ہو۔ بیوقوف لوگ چونکہ تمیز نہیں کر سکتے ۔ لباسی سرخی کو اس شخص کی سرخی جان کر اس پر خلاف واقع حکم لگاتے ہیں۔مثنوی
ہر کہ افسانه بخواند افسانه است وانکہ نقدش وید خود مردانه است
آب نیل است و قبطی خوں نمود قوم موسی زانہ خوں بود آب بود
ترجمه مثنوی: جس نے افسانہ کہا افسانہ ہے جس نے دیکھا نقد وہ مردانہ ہے خون تھاقبطی کے حق میں آب نیل . موسویوں کو اب تھا بے قال و قیل
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (یااللہ تو ہدایت دے کر ہمارے دلوں کی ٹیڑھانہ کر اور اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما۔ تو بڑا بخشنے والا ہے۔) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى سلام ہو اس شخص پر جس نے ہدایت اختیار کی )
مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ301ناشر ادارہ مجددیہ کراچی