دیدار الہی کی دو صورتیں ہیں۔
(1) آخرت میں آئینہ دل کی وساطت کے بغیر اللہ تعالی کے جمال کا دیدار کرنا اور
(2) دنیا میں آئینہ دل پر صفات خداوندی کا عکس ملاحظہ کرنا۔ دنیا میں دیدار دل کی آنکھ سے ہے۔ اور اس میں صفات خداوندی کا عکس آئینہ دل پر پڑتا ہے تو انسان دل کی آنکھ سے اس عکس کا مشاہدہ کر تا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد گرامی ہے۔
مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى (النجم :11)نہ جھٹلایادل نے جو دیکھا ( چشم مصطفی) نے“
نبی کریم ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ المُؤْمِنُ مِرْآةُ المُؤمِن مؤمن مؤمن کا آئینہ ہے
پہلے مؤمن سے مراد بندہ مومن کا دل ہے جبکہ دوسرے مؤمن سے مراد ذات باری تعالی ہے۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے۔
السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ (الحشر: 23 )سلامت رکھنے والا ، اما ن بخشنے والا نگہبان“
جس نے دنیا میں صفات خداوندی کا دیدارکر لیاوہ بلا کیف آخرت میں اللہ تعالی کی ذات کے دیدار کا شرف حاصل کرے گا۔ رہے وہ دعوے جو اولیاء کرام علیہم الرحمۃ نے دیدار خداوندی کے بارے کیے ہیں۔ مثلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا(رَاَیَ قَلْبِیْ رَبِّیْ بِنُوْرِ رَبِّیْ) میرے دل نے میرے رب کا دیدار کیا۔ یعنی میرے رب کے نور کے ذریعے ۔ حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہ نے فرمایا۔ (لَمْ اَعْبُدْرَبّا کم اَرَاہُ)
میں ایسے خدا کی عبادت نہیں کروں گا جسے میں نے دیکھانہ ہو۔ ان تمام دعوؤں کو مشاہدہ صفات پر محمول کریں گے۔ پس جو شخص شیشے میں سورج کا عکس دیکھے وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ میں نے سورج دیکھا۔ اسی طرح اللہ تعالی اپنے نور کو باعتبار صفات مشکوة سے تشبیہ دیتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے
كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ (النور :35)جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ ہو“
صوفياء فرماتے ہیں طاق سے مراد بندہ مو من کادل ہے اور المصباح یعنی چراغ باطن کی آنکھ ہے۔ یہی روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )ہے اور شیشے سے مراد جان ہے اس کی صفت دریت ہے جو شدت نورانیت کو ظاہر کرتی ہے۔ پھر اللہ تعالی اس نور کے معدن و ماخذ کا تذکرہ فرماتا ہے۔
يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ (النور :35)جوروشن کیا گیا ہے برکت والے زیتون کے درخت سے‘ ‘
یہاں درخت سے مراد تلقین کا درخت ہے (بوٹی جو مرشد دل کی زمین میں بوتا ہے) توحید خاص کا صدور زبان قدس سے بلاواسطہ ہوتا ہے جس طرح حضور ﷺکاقرآن کریم سے اصل تعلق ہے۔ پھر یہ قرآن حضرت جبرئیل علیہ السلام کی وساطت سے تدریجاً نازل ہو تا ہے۔ دوبارہ نزول بذریعہ جبرائیل عوام کے فائدہ کے لیے تھا۔ اور اس لیے بھی کہ کافر و منافق اس کا انکار نہ کر سکیں۔ اس پر دلیل رب قدوس کا یہ فرمان مبارک ہے۔
وَإِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْآنَ مِنْ لَدُنْ حَكِيمٍ عَلِيمٍ (النمل :6 )اور بیشک آپ کو سکھایا جاتا ہے قرآن حکیم بڑے داناسب کچھ جاننے والے کی جانب سے۔
اسی لیے حضورﷺپہلے ہی ایک قانون مرتب فرماتے اور اس کے بعد جبرائیل امین وحی لیکر حاضر ہوتے۔ حتی کہ یہ آیت کر یمہ نازل ہوئی۔ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهُ (طہ : 114) اور نہ عجلت کیجئے قرآن کے پڑھنے میں اس سے پہلے کہ پوری ہو جائے آپ کی طرف اس کی وحی“ یہی وجہ تھی کہ معراج کی رات جبرائیل امین سدرة المنتہی پر رک گئے اور ایک قدم بھی آگے نہ بڑھا سکے۔ اللہ تعالی نے درخت کی توصیف کی اور فرمایا :
لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ (النور :35)جو نہ شر قی ہے نہ غربی ہے۔
اسے حدوث ، عدم ، طلوع و غروب معارض نہیں آتے بلکہ یہ درخت ازلی ہے کبھی زائل نہیں ہوا۔ جس طرح کہ اللہ تعالی واجب الوجود ہے۔ قدیم ہے، از لی اور ابدی ہے۔ کیونکہ یہ صفات اللہ تعالی کا نور اور تجلیات(غیبی انوار جو دلوں پر منکشف ہوتے ہیں) ہیں۔ اور یہ ایک نسبت ہے جو اس کی ذات سے قائم ہے۔ ناممکن نہیں کہ نفس کا حجاب دل کے چہرے سے ہٹ جائے۔ دل ان انوار کے عکس سے زندہ ہو جائے اور روح اس طاق سے صفات حق کا مشاہدہ کرے۔ کیونکہ تخلیق کائنات کا اصل مقصد بھی اس مخفی خزانہ کو عیاں کرنا ہے جیسا کہ شعر گزر چکا ہے۔
رہاذات خداوندی کا دیدار تو وہ صرف آخرت میں ہو گا اور بلا واسطہ ہو گا۔ انشاء اللہ تعالی ۔ یہ دیدار باطن کی آنکھ سے ہوگا جسے طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) بھی کہتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القيامۃ :22 )کئی چہرے اس روز ترو تازہ ہوں گے اور اپنے رب کے .(انوار و جمال) کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔
حضور ﷺکا ارشاد ہے:
رأَيْتُ رَبِّي في صُورَةِ شَابٍّ أَمْرَدٍ میں نے اپنے رب کا ایک بے ریش نوجوان کی صورت میں دیدار کیا
شاید اس ارشاد گرامی میں نوجوان سے مراد طفل معانی ہو اور اللہ تعالی نے اس صورت میں آئینہ روح پربلا کسی واسطے کےتجلی فرمائی ہو۔ ورنہ اللہ تعالی تو صورت ، ماده، جسم کے خواص سے پاک ہے۔ صورت دکھائی دینے والے کے لیے آئینہ ہے۔ وہ نہ تو خودشیشہ ہے اور نہ خود دیکھنے والا ہے۔ پس اس نکتے کو سمجھنے کی کو شش کیجئے یہ بہت گہرا راز ہے۔ صفات کا انعکاس عالم صفات میں ہے عالم ذات میں نہیں کیونکہ عالم ذات میں تو سارے واسطے جل جاتے ہیں اورمحو ہو جاتے ہیں وہاں صرف اللہ تعالی کی ذات سماسکتی ہے کوئی غیر نہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عرفت ربي بربی ” میں نے اپنے رب کو ، اپنے رب کے ذریعے پہچانا‘‘ یعنی اپنے رب کے نور کے ذریعے۔ حقیقت انسان ہی اس نور کے لیے محرم ہے جیسا کہ حدیث قدسی ہے۔ الإنسانُ سرّي وأنا سرُّهُ
انسان میرا راز ہے اور میں اس کا راز ہوں‘‘ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: ۔ أنا من الله تعالى والمؤمون منی . میں اللہ تعالی سے ہوں۔ اور مؤ من مجھ سے ہیں“
ایک اور حدیث قد ی ہے۔ خلقت محمدا من نور وجهی میں نے محمد ﷺ کو اپنی ذات کے نور سے پیدا کیا
یہاں مقصود اللہ تعالی کی ذات مقدسہ ہے جو صفات رحمت میں تجلی فرماتی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالی نے فرمایا :
سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي”میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی‘اللہ تعالی نے اپنے نبی حضرت محمد سے ارشاد فرمایا وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (الانبیاء :107)
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو ، مگر سراپا رحمت بنا کر سارے جہانوں کے لیے ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ (المائدہ :15) بیشک تشریف لایا ہے تمہارے پاس اللہ تعالی کی طرف سے ایک نور اور ایک کتاب ظاہر کرنے والی‘‘ اللہ تعالی حدیث قدسی میں فرماتے ہیں۔ لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاكَ
اگر آپ (مقصود ( نہ ہوتے، تو میں افلاک کو پیدا نہ کر تا ۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ68 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور