انسان کا پست ترین حالت (اسفل السافلین) کی طرف لوٹنا
جب الله تعالی نے عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناءہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) میں روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کو بہترین اعتدال پر پیدا فرمایا تو چاہا کہ اسے پست ترین حالت کی طرف لوٹائے۔ تا کہ وہ انسیت(دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا) اور قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے)میں ترقی کرے۔ جیسا کہ ارشاد رب العالمین ہے۔
فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ (القمر :55( میری پسندیدہ جگہ میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے پاس بیٹھے ہوں گے“
پہلے انسان عالم لاہوت سے عالم جبروت(عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں)میں آیا۔ اس کے پاس توحید کا بیج تھا۔ اس نے یہاں اپنی نورانیت کا بیج بویا اور روح قدسی کو جبروتی لباس پہنایا گیا۔ اس کے بعد اسے یکے بعد دیگرے عالم ملکوت، عالم الملک(عالم شہادت یا عالم اجسام واعراض۔ اسی عالم میں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے) کی طرف بھیجا گیا۔ اسے لباس عنصری(اربعہ عناصر آگ ،مٹی، پانی، ہوا کا جسمانی وجود) دیا گیا تا کہ وہ اس عالم کو جلانہ دے ۔ لباس عنصری سے مراد جسد کثیف ہے۔ جبروتی لباس کی وجہ سے اسے روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )، ملکوتی لباس کی وجہ سے اسے روح سیرانی (عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح روانی بھی کہتے ہیں) اور ملکی لباس کی وجہ سے اسے روح جسمانی کہتے ہیں۔
الاسفل کی طرف روح قدسی کے رجوع سے مقصود جسم اور دل کے واسطہ سے زیادہ درجہ اور قربت کا حصول ہے۔ یہ روح ارض قلب میں توحید کا بیج ہوتی ہے۔ اس سے توحید کا درخت اگتا ہے جس کا تنا باطن کی گہرائی میں پیوست ہو تا ہے اور اس درخت پر رضاء خداوندی کے لیے ثمرة توحید لگتا ہے۔ اسی طرح شریعت کا بیج جسم کی زمین ہوتی ہے جس سے شریعت کا درخت اگتا ہے اور اس سے ثواب کا پھل حاصل ہو تا ہے۔
اللہ تعالی نے تمام ارواح کو حکم دیا کہ ان اجساد میں داخل ہو جاؤ اور ہر ایک روح کیلئے جسم میں ایک خاص جگہ متعین فرمادیا۔
روح جسمانی کا مقام خون اور گوشت کی درمیانی جگہ قرار پائی روح روانی(عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں) کو قلب میں رکھا گیا۔ روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )کو جان میں جبکہ روح قد سی کا مقام باطن ٹھہرایا گیا۔
ہر ایک روح کی مملکت جسم کے اندر دکان ہے۔ ہر ایک سامان تجارت رکھے نفع کمارہا ہے۔ یہ کاروبار ہر قسم کے نقصان کے خدشے سے پاک ہے۔
ہر انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے وجود کے اندر جاری معاملات کو سمجھے کیونکہ یہاں جو کچھ وہ حاصل کرے گا اس کی گردن کا نو شتہ ہو گا۔ جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
أَفَلاَ يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ وَحُصِّلَ مَا فِي الصُّدُورِ(العاديات :9،10(
کیا وہ اس وقت کو نہیں جانتا جب نکال لیا جائے گا جو کچھ قبروں میں ہے اور ظاہر کر دیا جائے گا جو سینوں میں پوشیدہ ہے“ اسی طرح ایک اور آیت میں فرمایا : وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِِرَهُ فِي عُنُقِهِ (الاسراء :13( اور ہر انسان کی( قسمت کا ( نوشتہ اس کے گلے میں ہم نےلٹکار کھاہے ۔
سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ33 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور