خلق کی ابتدا کا بیان مقدمہ

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جو قادر علیم ،بصیر ، حلیم، وہاب، رحمن اور رحیم ہے۔ وہ ساری کائنات کا پروردگار ہے۔ اسی ذات اقدس نے اپنے نبی کریم پر قرآن جیسی عظیم اور پُرحکمت کتاب نازل فرمائی ہے۔ اس کتاب میں دین قویم(درست) اور صراط مستقیم ہے۔ 

بے حدوبے حساب صلاة و سلام ہوں خاتم رسالت،ہادی برحق، صاحب عزت و تکریم ، صادق و امین ذات اقدس پر جو نبی امی، عربی الاصل ہیں اور عرب و عجم کی طرف بہترین کتاب لانے والے ہیں۔ جن کا اسم گرامی محمد ہے اور صلاة و سلام ہوں آپ کی آل اطہار پر اور عظمت کردار کے مالک فخر انسانیت صحابہ کرام پر۔ 

حمد و صلاۃ کے بعد عرض ہے کہ :۔ 

علم ایک عالی مرتبت ، قابل فخر، نفع اندوز اور بزرگ ترین دولت ہے۔ اسی دولت کے ذریعے انسان رب العالمین تک پہنچتا ہے اور انبیاء مرسلین صلوة اللہ و سلامہ علیہم کی تصدیق کر تا ہے۔ 

الله تعالی نے اپنے فضل و کرم سے بندگان خدا کی ہدایت و رہنمائی کیلئے جن برگزیده اشخاص کو منتخب فرمایا ان میں علماء کرام کو خصوصیت حاصل ہے۔ یہ لوگ انسانیت کے سرخیل اور ہادیان عالم کے چنیدہ ہیں۔ علماء انبیاء کرام کے وارث اور نائب ہیں۔ وہ مسلمانوں کے آقاو مولا ہیں۔ رب قدوس کا ارشاد پاک ہے۔ 

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَالَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ (فاطر:22)پھر ہم نے وارث بنایا اس کتاب کا ان کو جنہیں ہم نے چن لیا تھا اپنے بندوں سے۔ پس بعض ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعض درمیانہ رو ہیں اور بعض سبقت لے جانے والے ہیں نیکیوں میں حضورﷺکارشاد گرامی ہے : 

الْعُلَمَاءَ ‌وَرَثَةُ ‌الْأَنْبِيَاءِ بِالْعِلْم،ِ ‌يُحِبُّهُمْ ‌أَهْلُ ‌السَّمَاءِ وَيَسْتَغْفِرُ لَهُمُ الْحِيتَانُ فِي الْبَحْرِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ علماءعلم میں انبیاء کے وارث ہیں۔ آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں اور سمندر کی مچھلیاں قیامت تک ان کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہیں گی“ حضور اکر مﷺکا اور ارشاد مبارک ہے: يَبْعَثُ اللَّهُ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يُمَيِّزُ الْعُلَمَاءَ ، فَيَقُولُ : يَا مَعْشَرَ الْعُلَمَاءِ ، إِنِّي لَمْ أَضَعْ عِلْمِي فِيكُمْ إِلا لِعِلْمِي بِكُمْ ، وَلَمْ أَضَعْ عِلْمِي فِيكُمْ لأُعَذَّبَكُمُ ، انْطَلِقُوا فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ

قیامت کے دن اللہ تعالی جب اپنے بندوں کو دوباره زنده فرمائے گا تو علماء کرام کو ان سے الگ کرلے گا۔ اور فرمائے گا۔ اے علماء کے گروہ میں نے اپنا علم تمہارے سینوں میں ودیعت فرمایا کیونکہ میں تمہیں جانتا تھا۔ یہ نور تمہارے سینوں میں اس لیے تو نہیں رکھا کہ تمہیں عذاب دوں جاؤ تم سب جنتی ہو۔ میں نے تمہارے قصور معاف فرمادیئے 

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہیں جس نے جنت کو عابدوں کے لیئے انعام کی جگہ بنایا اور عارفوں کے لیے قربت(اسماء و صفات سے بندے کا علم و معرفت میں مستحکم ہو جانا اس طرح کہ کوئی چیز اسے مقصود سے دور نہ کر سکے) کا محل۔ 

اس ( تمہید) کے بعد ابتداء میں جب اللہ تعالی نے اپنے نور جمال سے محمدﷺکو پیدا فرمایا جیسا کہ حدیث قدسی ہے: 

خَلَقْتُ مُحَمَّداً أوّلاً منْ نُورِ وَجْهِي میں نے سب سے پہلے اپنی ذات کے نور سے محمد ﷺکو پیدا کیا‘‘ 

أوّلُ ماخلقَ الله ُروحِي ، وأوّلُ ماخلقَ اللهُ نوري ، وأوَّلُ ماخلقَ اللهُ القلمَ ، وأوّلُ ماخلقَ اللهُ العَقلَ سب سے پہلے اللہ تعالی نے میری روح کو پیدا فرمایا۔ سب سے پہلے اللہ تعالی نے میرے نور کو پیدا فرمایا۔ سب سے پہلے الله تعالی نے قلم کو پیدا فرمایا۔ سب سے پہلے اللہ تعالی نے عقل کو پیدا فرمایا 

ان تمام چیزوں کا مصداق ایک ہی ہے۔ یعنی سب سے پہلے اللہ تعالی نے حقیقت محمدیہ (اس سے مراد حیات روی اور حیات حیوی کا مصدر ہے۔ یہ اہل ایمان کے دلوں کی زندگی ہے۔ حقیقت محمد یہ خلق کی پیدائش کا سبب اور ماسوای اللہ کی 

اصل ہے)کو پیدا فرمایا۔ 

اسے نور کہا گیا ہے اس لیے کہ یہ ظلمانیت جلالیت سے پاک ہے۔ جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے : . 

قدْ جَاءَكُم مِّنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ (المائدہ :15 ( بیشک تشریف لایا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور ایک کتاب ظاہر کرنے والی حقیقت محمدیہ کو عقل کہا گیا ہے کیونکہ وہ تمام کلیات کا ادراک رکھتی ہے۔ 

اے قلم کہا گیا ہے کیونکہ یہ علم کی منتقلی کا سبب ہے۔ جس طرح عالم حروفات میں قلم انتقال علم کا سبب ہے۔پس روح میں ان تمام چیزوں کا خلاصہ ہے کائنات کی ابتداء اور اصل ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے۔ 

أناَ مِنَ الله ، والمُؤمِنونَ مِنِّي میں اللہ سے ہوں اور مومن مجھ سے ہیں“ 

عالم لاہوت(روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی  کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) میں تمام ارواح نور محمدی سے بہترین اعتدال پر پید اہوئیں عالم لاہوت میں اسی کا نام حجلۃ الانس(دلہن کا کمرہ) ہے اور یہی عالم انسان کا وطن اصلی ہے۔ 

جب ذات محمدی کی تخلیق پر چار ہزار سال کا عرصہ بیت گیا تو اللہ تعالی نے نور پاک مصطفیﷺسے عرش اور دوسری تمام کلیات کو پیدا فرمایا اور اس کے بعد ارواح کو عالم اسفل کی طرف لوٹا دیا۔ اور اس عالم میں یہ روحیں جسموں میں منتقل ہو گئیں جیسا ارشادباری تعالی ہے۔ 

ثُمَّ رَدَدْنَاهُ أَسْفَلَ سَافِلِينَ (التین :5)پھر ہم نے لوٹادیا اس کو پست ترین حالت کی طرف 

یعنی پہلے اسے عالم لاہوت سے عالم جبروت(عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں) کی طرف لوٹایا اور اسے ان دونوں حرموں کے در میان جبروت کے نور سے ایک لباس پہنایا۔ اس لباس کا نام روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت اور عالم جبروت کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )ہے۔ پھر روح کو اس لباس کے ساتھ عالم ملکوت کی طرف لوٹایا اور یہاں اسے نور ملکوت کا لباس پہنا دیا گیا۔ اس کا نام روح روانی (عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں)ہے۔ اس کے بعد روح عالم الملک(عالم شہادت یا عالم اجسام واعراض۔ اسی عالم میں روحیں جسموں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس کا دوسرا نام عالم سفلی ہے) کو لوٹی۔ الملک کے نور کا لباس پہنا اور روح جسمانی کا نام پایا۔ اس عالم میں اجساد تخلیق ہوئے جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے۔ 

مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ (طہ:55( اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا ۔

روح بحکم ایزدی اجساد میں داخل ہوئی۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

ونَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي (الحجر:29( اور پھونک دی اس میں اپنے فضل سے روح“ 

پس جب اجساد سے روحوں کا تعلق قائم ہو گیا تو وہ وعدہ الست کو بھول گئیں جو وعدہ انہوں نے اپنے رب سے عالم ارواح میں کیا تھا اور کہا تھا کہ ہاں تو ہمارارب ہے جیسا کہ اللہ تعالی اس کی حکایت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ 

 أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ (الاعراف :172)کیا میں نہیں ہوں تمہارارب ؟ 

پس وہ نسیان کی وجہ سےیہیں کی ہو کر رہ گئیں اور اپنے وطن اصلی کونہ لوٹیں۔ اللہ جو کہ بے حد رحم فرمانے والا اور انسان کا حاجت روا ہے اسے اپنی مخلوق پر رحم آگیا اور اس نے اپنی جناب سے ایک کتاب نازل کی تاکہ اسے پڑھ کر انسان کو وطن اصلی یاد آجائے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

وَذَكِّرْهُم بِأَيَّامِ اللَّهِ(ابراہیم :5)ور یاد د لاؤا نہیں اللہ کے دن“ 

یعنی وہ دن جب وہ واصل بحق تھے۔ نبوت ورسالت کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا بہت سارے انبیاء ، رسل اور کتابیں اپنے اپنے وقت پر آئیں تمام انبیاء ورسل کی بعثت اور تمام کتابوں کے نزول کی غرض و غایت ایک ہی تھی کہ بنی آدم کی روح کو وطن اصلی یاد آجائے۔ مگر بہت کم لوگوں کو وہ وطن یاد آیا معدودے چند روحیں تھیں جنہیں اس دنیا میں رہ کر یہ اشتیاق پیدا ہوا کہ وہ وطن اصلی کو لوٹ جائیں اور اپنے رب سے ملاقات کریں۔ نبوت ورسالت کا یہ سلسلہ روح اعظم خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی پر اختتام پذیر ہوا۔ آپ کسی ایک دوریا ایک خطے کے نبی نہیں تھے۔ پوری انسانیت کےبخت خفتہ کو بیدار کرنے کے لیے تشریف لائے اور ہر علاقے کے لوگوں کو خواب غفلت سے جگانا آپ کا منصب قرار پایا آپ کوحکم دیا گیا کہ دلوں کوبصیرت (وہ قوت جو اولیاء کے دل سے پھوٹتی ہے اور نور قدس سے منور ہوتی ہے۔ اس سے انسان اشیاء کی حقیقت اور ان کے باطن کو دیکھتا ہے۔ اسے قوت قدسیہ بھی کہتے ہیں)کا نور دیں اور روحوں کے سامنے تنے پردوں کو منکشف کریں جیسا کہ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي (يوسف:108)آپ فرمادیجئے یہ میرا راستہ ہے میں تو بلاتا ہوں صرف اللہ کی طرف۔ واضح دلیل پرہوں میں اور وہ بھی جو میری پیروی کرتے ہیں ۔

بصیرت روح کی آنکھ ہے جو اولیاء کے لیے مقام جان میں کھلتی ہے۔ یہ آنکھ ظاہری علم سےوا نہیں ہوتی اس کے لیے عالم لدنی چاہیئے جو باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ رب قدوس کا ارشاد ہے۔ 

وَعَلَّمْناهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْماً (الكہف :65)اور ہم نے سکھایا تھا اسے اپنے پاس سے (خاص) علم ۔

انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل بصیرت کی یہ آنکھ کسی ولی صاحب تلقین عالم لاہوت سے باخبر مرشد کامل کے ذریعے حاصل کرے۔ 

اے بھائیو ! ہوش میں آؤ اور توبہ کر کے اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو۔ اس راہ سلوک میں داخل ہو جاؤ اور روحانی قافلوں کے ساتھ اپنے رب کی طرف لوٹ جاؤ۔ قریب ہے کہ راستہ منقطع ہو جائے اور کوئی ہم سفر نہ رہے۔یاد رکھو! ہم اس کمینی دنیا کو بسانے نہیں آئے ہمیں اس خرابات سے آخر کوچ کرنا ہے۔ دوستو ! ہمیں خواہشات نفس کی پیروی نہیں کرنی چاہیئے۔ دیکھو ! تمہارے نبی کریم علیہ الصلوة والسلام تمہارے لیے چشم براہ ہیں۔ حضور ﷺنے فرمایا : 

غُمّيَ لأَجْلِ أُمَّتِي الّذينَ في آخِرِ الزَّمَانِ– میں اپنی امت کے ان لوگوں کے لیےغمگین ہوں جو آخری 

زمانہ میں ہوں گے“ 

جو علم ہمیں بارگاہ خداوندی سے عطا فرمایا گیا ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ علم ظاہر اور علم باطن(دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال، خواطر ، يقين ، اخلاص ، اخلاق اس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت، توبہ کی ضرورت، توبہ کے حقائق، توکل، زهد ، انابت ، فناء، علم لدنی۔ )۔ یعنی شریعت اور معرفت۔ شریعت کا حکم ظاہر پر لاگو ہوتا ہے اور معرفت کا علم باطن پر۔ ان دونوں علوم کو نازل کرنے کا مقصد علم حقیقت (اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں)کو پانا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَا يَبْغِيَانِ ( الرحمن:19،20( اس نے رواں کیا ہے دونوں دریاؤں کو جو آپس میں مل رہے ہیں۔ ان کے در میان آڑہے آپس میں گڈمڈ نہیں ہوتے ۔

صرف علم ظاہر ی سے علم حقیقت تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ اور نہ ہی مقصود آسکتا ہے کامل عبادت کے لیے علم ظاہری اور علم باطنی کی تحصیل ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرائی ہے۔ 

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (زاریات :56( 

اور نہیں پیدا فرمایا میں نے جن و انس کو مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں ۔

میری عبادت کریں“ سے مراد یہ ہے کہ میری معرفت حاصل کریں کیونکہ معرفت کے بغیر عبادت ممکن ہی نہیں۔ 

معرفت(یہ ولی اللہ کی صفت ہے جو حق سبحانہ تعالی کو اس کے اسماء صفات سے پہچانتا ہے۔ اور الله تعالی اس کے معاملات میں سچائی پیدا کر دیتا ہے۔ اور اس کو اخلاق رذیلہ اور اس کی آفات سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ اس تزکیہ کے بعد وہ اللہ تعالی کا ہو کر رہ جاتا ہے وہ سر میں اللہ تعالی کے ساتھ مناجات کر تا ہے اور یہاں اس کی حاضری دائمی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ ایسے میں وہ وقت کا ترجمان بن جاتا ہے۔ اس کے اسرار قدرت  کو بیان کر تا ہے۔ اور تصرفات کے بارے گفتگو کرتا ہے۔ معرفت کے حامل شخص کو عارف کہتے ہیں) کے حصول کا صرف ایک ذریعہ ہے کہ انسان آئینہ دل سے حجاب نفس کو ہٹا دے۔ جب حجاب سرک جاتا ہے تو انسان دل کی گہرائیوں میں چھپے راز کے حسن کو اس آئینے میں عیاں دیکھتا ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہے۔ 

 كُنْتُ ‌كَنْزًا ‌مَخْفِيًا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأَنْ أُعْرَفَ

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں سو میں نے مخلوق کو پیدا کیا کہ میری معرفت حاصل ہو جائے ۔

جب اللہ تعالی نے خود ہی بتادیا کہ تخلیق آدم کی وجہ معرفت خداوندی ہے تو پھر انسان پر لازم ہے کہ وہ معرفت حاصل کرے۔ 

معرفت کی دو قسمیں ہیں۔ معرفت صفات اور معرفت ذات معرفت صفات دارین میں جسم کیلئے خیر و فضل ہے اور معرفت ذات آخرت میں روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کے لیے نعمت ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ (البقرة : 87.) اور ہم نے تقویت دی ا سے روح القد س سے“ 

عارفین روح القدس سے مؤید(تائید کنندہ) ہوتے ہیں۔ 

 معرفت کی یہ دونوں قسمیں صرف اسی وقت حاصل ہو سکتی ہیں کہ انسان دونوں علم، علم ظاہر اور علم باطن کو حاصل کرے۔ حضورﷺکارشاد گرامی ہے۔ 

الْعِلْمُ عِلْمَانِ : عِلْمٌ باللّسان ، وذَلِكَ حُجَّةُ اللَّهِ تعالى عَلَى ابن آدمَ وعلم بالجنانِ ؛ فذلك العِلْمُ النّافِعُ علم کی دو قسمیں ہیں، علم لسانی اور علم کی یہ قسم الله تعالی کی طرف سے ابن آدم پر حجت ہے اور دوسری قسم علم جنانی ہے۔ اور یہ دوسری قسم ہی علم نافع ہے“ 

سب سے پہلے انسان کو علم شریعت کی ضرورت ہے۔ روح اس علم کے ساتھ جوارح کے کسب کو حاصل کرتی ہے۔ جوارح کا کسب درجات(شریعت  کےعلم ظاہری پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے انسان کو جو ثواب ملتا ہے اسے درجات کہا جاتا ہے) ہیں اس کے بعد اسے علم باطن کی ضرورت پڑتی ہے اور اس علم کے ذریعے روح علم معرفت میں معرفت خداوندی کے کسب کو حاصل کرتی ہے۔ علم معرفت کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ انسان ان رسوم کو ترک کر دے جو شریعت اور طریقت(سالکین کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا) کے مخالف ہیں اور نمود و نمائش سے بچتے ہوئے صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لیے نفسانی اور روحانی ریاضتوں کو قبول کرلے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔

فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلا صَالِحًا وَلا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا (الكہف:110( 

پس جو شخص امید رکھتا ہے اپنے رب سے ملنے کی تو اسے چاہیئے کہ وہ نیک عمل کرے اور نہ شریک کرے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو۔

 عالم معرفت یعنی عالم لاہوت انسان کا اصلی وطن ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ اس عالم میں روح قدسی کی بہتر ین اعتدال پر تخلیق ہوئی۔ 

روح قدسی سے مراد انسان حقیقی ہے۔ انسان حقیقی کا اظہار صرف اسی وقت ہوتا ہے جب توبہ کی جائے اور تلقین پر عمل کیا جائے۔ 

کلمہ لا الہ الا اللہ کا لزوم انسان حقیقی کے وجود کو ظاہر کر سکتا ہے بشرطیکہ یہ ذکر پہلے زبان سے، پھر حیات قلبی سے اور پھر لسان جنان(ہر شے کا جوف، اندرونی حصہ ،جِس سے انسان اپنی اصلیت کو پہچانے) سے کیا جائے۔ انسان حقیقی یاروح قدسی کا دوسرا نام طفل معانی (انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) ہے۔ کیونکہ اس کا تعلق قدسی معنویات سے ہے۔ اسے طفل کہنے کی کئی وجوہات ہیں۔

1 ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ روح قدسی قلب سے تولد ہوتی ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ ماں کی طرح اس کی پرورش قلب کر تا ہے۔ پھر بچے کی طرح روح قدسی پرورش پاتی ہے حتی کہ بلوغت کی عمر کوپہنچ جاتی ہے۔ 

2۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ تعلیم کا سلسلہ اکثر بچپن میں ہو تا ہے۔ بچوں کی طرح روح قدسی کو معرفت کی اکثر تعلیم دی جاتی ہے۔

 3۔ جس طرح بچہ گناہ کی آلائشوں سے پاک ہو تا ہے اسی طرح روح قدسی بھی گناه ، شرک غفلت اور جسمانیت سے پاک ہوتی ہے۔

4۔ جس طرح بچہ پاکیزہ صورت ہے اسی طرح روح قدسی بھی پاکیزہ صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواب میں ملا ئکہ یا دوسری پاک چیزیں بچے کی مثالی صورت میں نظر آتی ہیں۔ 

5۔ اللہ تعالی نے ابنائے جنت کو طفولیت کے وصف سے متصف فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد گرامی ہے۔ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُونَ (الواقعہ:17) گردش کرتے ہوں گے ان کے اردگرد نو خیز لڑ کے جو ہمیشہ ایک جیسے ر ہیں گے“ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ (طور :24)ان کے غلام (بچے )حسن کے باعث یوں معلوم ہوں گے گویاوہ چھپے موتی ہیں“ 

6۔ روح قدسی کو یہ نام لطافت اور نظافت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ 

7۔ یہ اطلاق مجازی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق بدن سے ہے اور یہ انسان کے ساتھ صورت میں مماثلت رکھتا ہے۔ اب روح قدسی کا طفل معانی پر اطلاق اس بنا پر ہے کہ بچے میں ملاحت ہوتی ہے ۔ یہ اطلاق صغر سنی کی وجہ سے نہیں ہے۔ اور اس اطلاق کی دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے شروع میں روح قدسی کی صورت اس سے ملتی ہے۔ بہر حال روح قدسی یا طفل معانی انسان حقیقی ہے۔ کیونکہ اسے اللہ تعالی کے ساتھ انسیت(دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا) حاصل ہے۔ جسم اور جسمانی طفل معانی کے محرم نہیں ہیں۔ جیسا کہ حضورﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

لِي‌ مَعَ اللَهِ وَقْتٌ لاَ يَسَعُنِي‌ فِيهِ مَلَكٌ مُقَرَّبٌ وَلاَ نَبِي‌ٌّ مُرْسَلٌ بارگاہ خداوندی میں مجھے ایک ایسا وقت بھی حاصل ہو تا ہے کہ جس میں نہ تو کسی مقرب فرشتے کی گنجائش ہوتی ہے اور نہ نبی مرسل کی‘‘ 

نبی مرسل سے مراد نبی کریمﷺکی بشریت اور مقرب فرشتے سے مراد حضور ﷺکی روحانیت جو کہ نور جبروت سے تخلیق ہوئی ہے۔ جیسے فرشتے نور جبروت سے ہیں اسی لیے یہ فرشتے نور لاہوت میں داخل نہیں ہو سکتے۔ رسول کریم ﷺنے فرمایا: 

إن لله جنة لا فيها حور ولا قصور ولا جنان ولا عسل ولا لبن بیشک اللہ تعالی کے ہاں ایک ایسی جنت بھی ہے جس میں نہ تو حور و قصور ہیں اور نہ باغ و بہارنہ شہد( کی نہریں) ہیں اور نہ دودھ( کے چشمے) وہاں صرف دیدار الہٰی کی دولت ہے“ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: 

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القيامۃ : 22 ، 23 ( کئی چہرے اس روز تروتازہ ہوں گے اور اپنے رب کے(انوار جمال) کی طرف دیکھ رہے ہوں گے“ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : ستَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ القَمَرَ لَيْلَةَ البَدْرِعنقریب تم اپنے رب کو اسی طرح (عیاں) دیکھو گے جس طرح چودھویں رات کے اس چاند کو دیکھ رہے ہو“ 

اگر فرشتہ اور جسمانیت اس عالم میں داخل ہوں تو جل جائیں جیسا کہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

لو كشفت سبحات وجهي جلالي لاحترق كل ما مد بصري اسی طرح حضرت جبریل علیہ السلام نے فرمایا : لو دنوت أنملة لاحترقت

اگر میں انگلی کے پورے کے برابر بھی آگے بڑھوں گا تو جل جاؤں گا“ 

یہ کتاب کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کے حروف کے عدد کے برابر چوبیس فصلوں پر مشتمل ہے۔ رات دن کی بھی چوبیس گھڑیاں ہیں۔ اس مناسبت سے کتاب کی فصلیں بھی چوبیس ہیں۔ 

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ16 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں