یہ انتیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
انتیسویں مناجات
اِلٰهى إِنَّ رِجَائِي لَا يَنْقَطِعُ عَنْكَ وَإِنْ عَصَيْتُكَ، وَأَنَّ خَوْفِى لَا يُزَایِلُنِي وَإِنْ أَطَعْتُكَ ، قَدْ دَفَعَتْنِي الْعَوَالِمُ الْیْكَ، وَقَدْ أَوْقَفَنِى عِلْمِي بِكَرَمِكَ عَلَيْكَ
اے میرے اللہ ! میری رجاء (امید) تجھ سے منقطع نہیں ہوتی ہے اگر چہ میں تیری نافرمانی کروں۔ اور میرا خوف مجھ سے زائل نہیں ہوتا ہے۔ اگر چہ میں تیری اطاعت کروں۔ کائنات نے مجھ کو تیری ہی طرف دور کر دیا (لوٹا دیا ) اور تیرے فضل وکرم سے میرے علم نے مجھ کو تیرے حضور میں ٹھہر ایا
اِلٰهى إِنَّ رِجَائِي لَا يَنْقَطِعُ عَنْكَ وَإِنْ عَصَيْتُكَ، وَأَنَّ خَوْفِى لَا يُزَایِلُنِي وَإِنْ أَطَعْتُكَ ،
اے میرے اللہ ! میری رجاء (امید ) تجھ سے منقطع نہیں ہوتی ہے۔ اگر چہ میں تیری نافرمانی کروں۔ اور میرا خوف مجھ سے زائل نہیں ہوتا ہے۔ اگر چہ میں تیری اطاعت کروں ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : چونکہ سابقہ یعنی نوشتہ از لی ، پوشیدہ۔ اور خاتمہ یعنی موت کا حال نا معلوم ہے۔ اس لئے بندہ خوف ورجا ءکے درمیان ہے۔ اگر چہ جو پہنچتا ہے ۔ وہ پہنچے گا ۔ اور قلوب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ جس طرح چاہتا ہے۔ ان کو پھیرتا ہے اور بدلتا ہے۔ اور پیشانیاں اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ وہ جہاں چاہتا ہے۔ ان کو لے جاتا ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے:
حَسْبِيَ اللَّهُ تَوَكَّلْتُ عَلَيْهِ مَنْ نَوَاصِی الْخَلْقِ طُرًّا فِي يَدَيْهِ
میرے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے۔ میں نے اس پر بھروسہ کیا۔ وہ ذات اقدس جس کے ہاتھ میں کل مخلوق کی پیشانیاں ہیں۔
لَيْسَ لِلْهَا رِبِ فِي مَهْرَبِهِ اَبَداً لَامَلْجَا إِلَّا إِلَيهِ
بھاگنے والے کے لئے اس کے بھاگنے میں ۔ اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے
لہذا بندے کے لئے یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ اگر وہ اطاعت کرے تو اس کا خوف ختم ہو جائے۔ اور اگر وہ نا فرمانی کرے تو اس کی امید ختم ہو جائے ۔ عارفین کا خوف اور ان کی امید جلال اور جمال کے شہودے پیدا ہوتی ہے۔ اور جلال اور جمال تبدیل نہیں ہوتے ہیں۔ لہذا جوشے ان سے پیدا ہوتی اس میں بھی تبدیلی نہیں ہوتی ہے۔
اس وجہ سے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنی ذات کو اسی بزرگ حالت سے موصوف کیا ہے ۔ اور یہ ہمیشہ اعتدال کی حالت ہے ۔خواہ بندے سے اطاعت ظاہر ہو یا معصیت ۔ اس قول میں غور وفکر کرو۔ا گر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تمہارے سامنے آئے تو کوئی کبیر ہ کبیرہ نہیں ہے ۔
لہذا جب یہ ثابت ہو گیا کہ بندے کے لئے نافرمانی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے دروازے کے سوا بھاگنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور اطاعت کی حالت میں اس کے فضل و کرم اور احسان کے سوا کسی شے میں سکون نہیں ہے۔ تو اس نے یہ جان لیا کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہرشے سےدور کیا ہوا ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی معنی ہے:
قَدْ دَفَعَتْنِي الْعَوَالِمُ إِلَيْكَ کائنات نے مجھ کو تیری ہی طرف دور کر دیا (لوٹا دیا ۔
پس جب میں کائنات میں سے کسی شے کی طرف مائل ہوا تو اس نے مجھ کو اپنے سے دور کر دیا۔ یا جب میں نے کسی شے پر بھروسہ کیا۔ تو اس نے اپنے کو میرے اوپر منتشر ( نا گوار ) کردیا۔ یہاں تک کہ اس نے مجھ کو اپنے سے دور کر کے تیری طرف لوٹا دیا۔ لہذا میری عظیم جہالت کے باوجود تو میرے ساتھ کتنا بڑا رحیم ہے۔ اور یہ اپنے بندے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عنایت اور مہربانی کی علامت ہے۔ کیونکہ جب وہ دیکھتا ہے کہ بندہ کسی شے کے ساتھ ٹھہر گیا۔ یا کسی شے کی طرف متوجہ ہو گیا تو وہ اس شے کو اس پر پریشان کر دیتا ہے۔ اور اس کو اس شے سے منتقل کر دیتا ہے۔ ان تمام سزاؤں میں سے جن سے مرید کو سزا دی جاتی ہے مرید کو اس کے ارادے اور خواہش کے ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔
اور شیخ الشیوخ حضرت مولائے عربی رضی اللہ عنہ نے فرمایاہے جب تم کسی فقیر کو اس حال میں دیکھو کہ اس پر ہر طرف سے مصیبت اور پریشانی بر پا ہے۔ تو تم یہ جان لو کہ اس کو اللہ تعالیٰ اپنے قریب سکون کی جگہ عطا فر مانا چاہتا ہے ۔ یا انہوں نے ایسا کلام فرمایا
جس کا یہی مفہوم ہے۔ حاصل یہ ہے اللہ تعالیٰ غیور ہے وہ یہ نہیں پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے کا قلب اس کے سوا کسی دوسری شے کی طرف متوجہ ہو۔ اور یہ اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور احسان ہے۔
اس لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:
قَدْ أَوْقَفَنِى عِلْمِي بِكَرَمِكَ عَلَيْكَ اور تیرے فضل و کرم سے میرے علم نے تجھ کو تیرے حضور میں ٹھہرایا ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : جب کائنات نے بندے کو اپنے سے دور کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا دیا۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کریم نہیں پایا۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے علم نے اس کو اس کے دروازے پر پھیر دیا۔ اور اس نے اس کی بارگاہ میں پناہ لی ۔ اور وہ ایسا کریم ہے کہ امیدیں اس سے نہ تجاوز کرتی ہیں نہ سبقت کرتی ہیں۔ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے کرم کے یہ معنی ہیں
معنی: اس کا اپنے بندوں پر احسان کرنا ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے اس کے کرم سے ۔ کہ وہ مانگنے سے پہلے ہی عطا فرماتا ہے۔ حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ ایسا کریم ہے جو سوال کا محتاج نہیں بلکہ بغیر مانگے عطا فرماتا ہے۔ حضرت محاسبی نے فرمایا ہے : وہ ایسا کریم ہے کہ اس کو یہ پرواہ نہیں ہے کہ کس کو دیا۔ نہ پر داہ ہے کہ کتنا دیا۔
اور بیان کیا گیا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کے کرم کی سمجھ رکھتا ہے ۔ وہ قضا و قدر ( تقدیر ) کی خرابی سے غم نہیں کرتا اور بے صبر نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ مصیبت کو ایسی نعمت سمجھتا ہے جو مخلوق کی سمجھ سے پوشیدہ ہے۔
جیسا کہ سید نا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے جن مصیبتوں میں مجھ کو مبتلا فرمایا۔ میں نے اس میں اللہ تعالیٰ کی تین نعمتیں دیکھیں۔
پہلی نعمت یہ کہ وہ میرے دین نہیں واقع ہوئی۔
دوسری نعمت یہ کہ وہ جتنی واقع ہوئی۔ اس سے زیادہ بڑھی۔
تیری نعمت یہ کہ وہ خطاؤں کا کفارہ بن گئی۔
لہذا میں اس مصیبت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
اسی لئے عارفین نے فرمایا ہے: اس شخص پر تعجب نہیں ہے کہ جو نعمتوں میں لذت محسوس کرتا ہے بلکہ تعجب اس پر ہے جو دردناک عذاب میں لذت محسوس کرتا ہے ۔ اور یہ حالت اس وقت ہوتی ہے جب کہ نفس کی عادت ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس شے سے لذت حاصل کرتا ہے جس سے لوگ در دو تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ جیسا کہ ایک عارف نے فرمایا ہے:
أرِيدُكَ لَااُرِيدُكَ لِلثَّوَابِ وَلَكِنِي أُرِيدُكَ لِلْعِقَابِ
میں تجھ کو چاہتا ہوں۔ لیکن میں تجھ کو ثواب کے لئے نہیں چاہتا ہوں ۔ بلکہ میں تجھ کو سزا کےلئے چاہتا ہوں ۔
وَكُلُّ مَآرِبَى قَدْنِلْتُ مِنْهَا سِوَى مَلْذُوذٍ وَجْدِى بِالْعَذَابِ
اور اپنی کل حاجتیں میں نے حاصل کر لی۔ عذاب سے میرے حال کے لذیذ ہونے کےسوا۔
اور ایک دوسرے عارف نے فرمایا ہے:
إِذَا كَانَتِ الْأَقْدَا رُمِنْ مَالِكِ الْمُلْكِ فَسِيَّانِ عِنْدِى مَا يَسُرُّ وَمَایُبْكِى
جب کہ قضا و قدر مالک الملک کی طرف سے ہے۔ تو جوشے خوش کرتی ہے اور جوشے رلاتی ہے دونوں میرے نزدیک برابر ہیں ۔
حاصل یہ ہے کہ محبت جب کامل اور غالب ہو جاتی ہے تو وہ محبت کرنے والے کو تکلیفوں اور مصیبتوں سے غائب کر دیتی ہے ۔ ورنہ وہ محبت ناقص اور کمزور ہے۔ اور محبت کے پیدا ہونے کا سبب : کرم کا شہود ہے۔ اور جو شخص اپنے مولائے حقیقی کے کرم کے دروازے پر ٹھہر جاتا ہے تو وہ اس کی امید اور تمنا کو نا کام نہیں کرتا ہے۔