یہ ستائیسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
ستائیسویں مناجات
اِلٰهِي إِنَّ الْقَضَاءُ وَالْقَدَرَ قَدْ غَلَبَنِي ، وَإِنَّ الْهَوَى بِوَثَائِقِ الشَّهْوَةِ أَسَرَنِي، فَكُنْ أَنتَ النَّاصِرَ لِي حَتَّى تَنْصُرَنِي وَ تَنْصُرَبِي ، وَ أَغْنِنِي بِفَضْلِكَ حَتَّى أَسْتَغْنِى بِكَ عَنْ طَلَبِىْ، أنتَ الَّذِي أَشْرَقْتَ الْأَنْوَارَ فِي قُلُوبِ أَوْلِیَائِكَ ، وَأَنْتَ الَّذِي أَزَلْتَ الْأَغْيَارَ عَنْ قُلُوبِ أَحِبَّاءِ كَ ، وَأنْتَ الْمُوْنِسُ لَهُمْ حَيْثُ أَو حَشْتَهُمُ الْعَوَالِمَ، أَنْتَ الَّذِى هَدَيْتَهُمْ حَتَّى اسْتَبَانَتْ لَهُمُ الْمَعَالِمُ ، مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدَكَ وَمَا الَّذِي فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَ لَقَدْ خَابَ مَنْ رَضِيَ دُونَكَ بَدَلاً ، وَلَقَدْ خَسِرَ مَنْ بَغَى عَنْكَ مُتَحَوِّلًا، كَيْفَ يُرْجٰى سِوَاكَ وَأَنتَ مَا قَطَعْتَ الْإِحْسَانَ أَمْ كَيْفَ يُطْلَبُ مِنْ غَيْرِكَ وَأَنْتَ مَابَدَلْتَ عَادَةَ الْإِمْتِنَانِ ، يَا مَنْ أَذَاقَ أَحْبَابَهُ حَلَاوَةً مُوَانَسَتِهِ فَقَامُوا بَيْنَ يَدَيْهِ مُتَمَلَّقِينَ ، يَا مَنُ الْبَسَ أَوْلِيَاءَ ہُ ملابسَ هَيْبَتِهِ فَقَامُوا بِعِزَّتِهِ مُسْتَعِزِيْن، أنتَ الذَّاكِرُ مِنْ قَبْلِ الذَّاكِرِينَ، وَأَنتَ الْبَادِى بِالْإِحْسَانِ مِنْ قَبْلِ تَوَجُهِ الْعَابِدِينَ، وَأَنْتَ الْجوَادُبِا الْعَطَاءِ مِنْ قَبْلِ طَلْبِ الطَّالِبِينَ، وَانتَ الْوَهَّابُ ثُمَّ أَنتَ لِمَا وَهَبْتَنَا مِنَ الْمُسْتَقْرِضِينَ
اے میرے اللہ ! بے شک قضا و قدر میرے اوپر غالب ہے اور بے شک خواہش نے شہوت کی رسیوں سے مجھ کو باندھ دیا ہے۔ لہذا تو ہی میرا مددگاربن ۔ یہاں تک کہ تو میری مدد کرے۔ اور میرے ذریعے مدد کرے۔ اور مجھ کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ تا کہ میں تیرے ساتھ اپنی طلب سے بے نیاز ہو جاؤں۔ اپنے اولیائے کرام کے قلوب میں انوار کو تو نے ہی روشن فرمایا ہے۔ اور اپنے دوستوں کے قلوب سے اغیار کو تو نے ہی زائل فرمایا۔ اور تو ہی ان لوگوں کا مونس اور غمخوار ہے۔ اس طریقے پر کہ تو نے ان کو کائنات سے متنفر کر دیا۔ تو نے ہی ان کو ہدایت فرمائی ۔ یہاں تک کہ ان کے سامنے علامات ظاہر ہو گئیں ۔ اس شخص نے کیا پایا جس نے تجھ کو کھودیا ؟ اور اس شخص نے کیا گم کیا جس نے تجھ کو پالیا؟ البتہ وہ شخص محروم و بد نصیب ہے جو تیرے عوض دوسری شے سے راضی ہوا اور البتہ وہ شخص خسارے میں ہے جس نے تجھ سے روگردانی کر کے سرکشی کی۔ تیرے غیر سے کیسے امید کی جائے جب کہ تو نے احسان کو ختم نہیں کیا ہے؟ یا تیرے غیر سے کیسے مانگا جائے جب کہ تو نے احسان کرنے کی عادت تبدیل نہیں کی ہے؟ اے وہ ذات پاک جس نے اپنے دوستوں کو اپنی انسیت کی شیرینی چکھائی ۔ لہذا وہ اس کے سامنے محبت اور چاپلوسی کرتے ہوئے کھڑے ہوئے۔ اے وہ ذات پاک ! جس نے اپنے اولیائے عارفین کو ہیبت کا لباس پہنایا ۔ لہذا وہ اس کی عزت سے عزت حاصل کر کے عزت کے مقام میں قائم ہوئے تو ذکر کرنے والوں سے پہلے ذاکر ہے۔ اور عابدین کی توجہ سے پہلے تو احسان کرنے والا ہے۔ اور تو طالبین کی طلب سے پہلے عطا کے ساتھ فیاض ہے۔ اور تو ہی عطا فرمانے والا ہے۔ پھر تو نے جو کچھ ہم کو عطا فرمایا ۔ اس کو ہم سے قرض مانگنے والا ہے ۔
اِلٰهِي إِنَّ الْقَضَاءُ وَالْقَدَرَ قَدْ غَلَبَنِي
اے میرے اللہ ! بے شک قضا و قدر میرے اوپر غالب ہے۔ لہذا میں اطاعت کے لئے کتنا ارادہ کرتا ہوں۔ لیکن قضا مجھ پر غالب ہو جاتی ہے؟ اور میں نا فرمانیوں سے کتنا دور بھاگتا ہوں ۔ لیکن قدر مجھے کو کمزور اور مجبور کر دیتا ہے؟ لہذا تیرے اختیار اور قوت سے امید کے سوا میرے پاس کوئی تدبیر نہیں ہے۔
وَإِنَّ الْهَوَى بِوَثَائِقِ الشَّهْوَةِ أَسَرَنِي، اور بے شک خواہش نے شہوت کی رسیوں سے مجھ کو قید کر دیا ہے۔۔ یعنی خواہش نے شہوت کی رسیوں سے مجھے کو پابند دیا ہے۔ اور تیری بارگاہ کی طرف روانہ ہونے سے اور تیری جنت میں داخل ہونے کی کامیابی سے مجھ کو روک دیا ہے۔
فَكُنْ أَنتَ النَّاصِرَ لِي تو ہی میرا مددگار بن یعنی اپنے غیر سے کسی واسطے کے بغیر تو ہی میرا مددگار بن ۔
حَتَّى تَنْصُرَنِي یہاں تک کہ تو میری مدد کرے
یعنی ان اشیاء کا مقابلہ کرے جو مجھ کو تیری طرف چلنے سے روکتی ہیں:
وَ تَنْصُرَبِي) اور میرے ذریعے مددکرے
یعنی میرے وسیلے . ان لوگوں کی مدد کرے جنہوں نے مجھ سے تعلق قائم کیا۔ یا میرے وسیلے سے پناولی ۔
اور یہ ویسا ہی ہے جیسا کہ حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ۔ اے اللہ تو ہم کو بغیر کسی سبب کے غنی کر دے۔ اور ہم کو اپنے اولیائے کرام کے لئے غنا کا وسیلہ اور ان کے اور اپنے دشمنوں کے درمیان برزخ یعنی حائل بنا دے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے غنائے اکبر کی درخواست کرتے ہوئے فرمایا
وَ أَغْنِنِي بِفَضْلِكَ حَتَّى أَسْتَغْنِى بِكَ عَنْ طَلَبِىْ اور تو مجھ کو اپنے فضل سے غنی کر دے تا کہ میں تیرے ساتھ اپنی طلب سے بے نیاز ہو
جاؤں۔
کیونکہ جب بندے کا قلب اللہ تعالیٰ سے آباد ہو جاتا ہے تو وہ اس کے ساتھ ہر شے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی طلب سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات ادب طلب کے ترک کی طرف اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور یہی سعادت عظمی اور ولایت کبری ہے۔۔ جیسا کہ حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
حقیقی سعید (نیک بخت ) وہ ہے جس کو تو نے اپنے سے بھی سوال کرنے سے بے نیاز بنادیا ہے۔ اور یہ ولایت کے ان انوار کا نتیجہ ہے جو عارفین کے قلوب میں روشن کئے گئے ہیں۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا بھی یہی مفہوم ہے۔
أنتَ الَّذِي أَشْرَقْتَ الْأَنْوَارَ فِي قُلُوبِ أَوْلِیَائِكَ ، اپنے اولیائے کرام کے قلوب میں انوار کو تو نے بھی روشن فرمایا ہے ۔
یہاں تک کہ حق ظاہر ہوا۔ اور باطل ان کے اندرفنا ہو گیا۔ لہذا انہوں نے تجھ کو پہچان لیا ۔ اور تیری توحید کا یقین کر لیا۔
وَأَنْتَ الَّذِي أَزَلْتَ الْأَغْيَارَ عَنْ قُلُوبِ أَحِبَّاءِ كَ ، اور اپنے دوستوں کے قلوب سے اغیار کو تو نے ہی زائل فرمایا
پھر تو نے ان کے قلوب کو اپنے شہود کے انوار سے بھر دیا۔ لہذا انہوں نے صرف تجھ سے ہی محبت کی۔ اور تیرے سوا کسی شے سے محبت نہیں کی۔ اس لئے کہ انہوں نے کسی شے کو دیکھا ہی نہیں۔
وَانتَ الْمُؤْنِسُ لَهُمْ اور توہی ان لوگوں کا مونس دین خوار ہے
اپنے ذکر کی حلاوت اور اپنے نور کے ذریعے حَيْثُ أَو حَشْتَهُمُ الْعَوَالِمَ اس طریقے پر کہ تو نے ان کو کائنات سے متنفر کر دیا لہذادہ کسی شے سے مانوس نہیں ہوئے ۔ بلکہ وہ ان سے ان کے مخلوق ہونے کی حیثیت سے متنفر ہو گئے۔ اور ان کے خالق اور ان کے اندر جلوہ گر سے مانوس ہوئے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے خلوتوں میں اپنے ساتھ ان کی انسیت ، اور چٹیل میدانوں میں اپنے ساتھ ان کی ہمنشینی کو مشاہدہ اور مکالمہ اور مساورہ(سرگوشی) اور مناجات سے تبدیل فرمادیا۔ اور یہی ہمیشہ قائم رہنے والی نعمت اور بڑی کامیابی ہے ۔
حضرت ذوالنون مصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: میں میدان میں جا رہا تھا۔ اسی درمیان اتفاقا میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی۔ اس عورت نے مجھ سے دریافت کیا: آپ کون ہیں؟ میں نے جواب دیا: میں ایک غریب الوطن مسافر ہوں۔ اس نے کہا: کیا آپ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہونے کی حالت میں بھی غریب الوطنی محسوس کرتے ہیں؟
حضرت مطرف بن عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے پاس یہ مکتوب لکھا: تمہاری انسیت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور تمہارا جدا ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف ہونا چاہیئے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جو اس سے مانوس ہیں۔ لہذا لوگ اپنی کثرت یعنی محفل سے جتنا مانوس ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ اپنی تنہائی سے مانوس ہیں۔ اور جن اشیاء سے لوگ زیادہ مانوس ہوتے ہیں ان سے وہ بہت متنفر ہیں اور جن اشیاء سے لوگ زیادہ متنفر ہوتے ہیں، ان سے وہ بہت مانوس ہیں۔
أنتَ الَّذِي هَدَيْتَهُمْ حَتَّى اسْتَبَانَتْ لَهُمُ الْمَعَالِمُ تو نے ہی ان کو ہدایت فرمائی۔ یہاں تک کہ ان کے سامنے علامات ظاہر ہو گئیں۔ یعنی تو نے ہی اپنی بارگاہ تک پہنچنے کے راستے کی ان کو ہدایت کی ۔ یہاں تک کہ ان کے سامنے حقیقت کی علامات ظاہر ہو گئیں۔
اور یہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ کی طرف سے سوال کے لئے کنایہ ہے ۔ اور یہ واضح طریقے پر کہنے سے بہتر اور فصیح ہے۔ گویا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) عرض کرتے ہیں۔ اے میرے اللہ ! جس طرح تو نے اپنے اولیائے کرام کے قلوب میں انوار کو روشن فرمایا یہاں تک کہ انہوں نے تجھ کو پہچان لیا۔ اور جس طرح تو نے اپنے دوستوں کے قلوب سے اختیار کوزائل فرمایا۔ یہان تک کہ انہوں نے صرف تجھ سے محبت کی۔ اور جس طرح تو نے ان کو اپنے سے مانوس کیا۔ اس طریقے پر کہ ان کو کائنات سے متنفر کر دیا۔ اور جس طرح تو نے ان کو ہدایت فرمائی، یہاں تک کہ ان کے سامنے علامات ظاہر ہو گئیں۔
اسی طرح تو اپنے معارف کے انوار میرے قلب میں روشن فرمادے۔ تا کہ میں تجھ کو پہچان لوں۔ اور تو میرے قلب سے اغیار کو دور فرمادے تا کہ میں صرف تجھ سے محبت کروں۔ اور تو مجھے کو اپنے سے اس طریقے پر مانوس فرما لے، کہ مجھ کو کائنات سے متنفر کر دے۔ اور تو مجھ کو حقیقت کے راستے کی ہدایت فرما۔ تا کہ میرے سامنے علامات ظاہر ہو جائیں۔ لہذا میں تیرے سوا ہرشے سے بے
نیاز ہو جاؤں۔ اور ہرشے میں تجھی کو پاؤں ۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:
مَاذَا وَجَدَ مَنْ فَقَدْ كَاس شخص نے کیا پایا جس نے تجھ کو کھودیا ؟
اگر چہ وہ پوری دنیا کا مالک ہو جائے۔ پھر بھی وہ سب محتاجوں سے زیادہ محتاج ہے ۔ جیسا کہ ایک عارف نے فرمایا ہے:
لِكُلُّ شَيْءٍ إِذَا فَا رَقْتَهُ عِوَضٌ وَلَيْسَ لِلَّهِ إِنْ فَارَقْتَ مِنْ عِوَضُ
اگر تم نے ہرشے کو چھوڑ دیا ہے تو اس کا بدل ہے۔ لیکن اگر تم نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیا ہے تو اس کا کوئی بدل نہیں ہے ۔
حضرت شبلی رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا: سب سے بڑا نقصان کون سا ہے؟ انہوں نے جواب دیا جس شخص سے جنت فوت ہو گئی ۔ اور وہ دوزخ میں داخل ہوا۔ یہی سب سے بڑا نقصان ہے۔
پھر جب انہوں نے انتقال فرمایا۔ تو ایک شخص نے ان کو خواب میں دیکھا ۔ اس نے ان سے دریافت کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ انہوں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے صرف ایک شے کے لئے دلیل پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ وہ یہ کہ میں نے ایک دن یہ کہا تھا جنت کے کھو جانے اور دوزخ میں داخل ہونے سے بڑا کوئی نقصان نہیں ۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا: میری ملاقات یعنی میرے شہود اور میری معرفت کے کھو جانے سے بڑا کون سا نقصان ہے؟
وَمَا الَّذِي فَقَدَ مَنْ وَجَدَكَور اس شخص نے کیا کم کردیا جس نے تجھ کو پالیا ؟
یقینا وہ کل وجود کا مالک ہوا اور وہ ایسی غنا سے غنی ہوا جس کے بعد آخری زمانے تک کوئی محتا جی نہیں ہے۔
لَقَدْ خَابَ مَنْ رَضِيَ دُونَكَ بَدَلًا البتہ وہ شخص محروم اور بد نصیب ہے جو تیرے عوض دوسری شے سے راضی ہوا
یعنی جس نے تیرے سوا کسی دوسری شے سے محبت کی اور تیرے عوض اس کو پسند کیا۔ وہ بد نصیب اور محروم ہو گیا۔
کسی عارف کے اشعار ہیں۔
سَهْرُ العُيُوْن ِلِغَيْرِ وَجْهِكَ بَاطِلٌ وَبُكَائُهُنَّ لِغَيْرِ فَقْدِكَ ضَائِعُ
تیرے غیر کے دیدار کیلئے آنکھوں کا جاگنا بے سود ہے اور تیرے سوا کسی دوسری شے کےکھوجانے پر ان کا رونا بے کا ر ہے۔
اَيَظُنُّ اَنيِّ فِيكَ مُشْتَرَكُ الْهَوَى هَيْهَاتَ قَدْ جَمَعَ الْهَوَى بِكَ جَامِعُ
کیا یہ گمان کیا جاتا ہے کہ میں تیری محبت اور تیرے سوا دوسری شے کی محبت میں مشترک ہوں۔
ایسے گمان پر افسوس ہے کیو نکہ جمع کرنے والے نے محبت کو تیرے ساتھ جمع کر دیا ہے۔
بَصْرِى وَسَمْعِي طَائِعَانِ وَإِنَّمَا أَنَا مُبْصِرُبكَ فِي الْحَيَاةِ وَسَامِعُ
میری آنکھ اور میرا کان دونوں فرمان بردار میں اور میں اپنی زندگی میں صرف تجھی کو دیکھتا ہوں اور صرف تیری باتیں سنتا ہوں۔
وَلَقَدْ خَسِرَ مَنْ بَغَى عَنْكَ مُتَحَوِّلًا اور البتہ وہ شخص خسارے میں ہے جس نے تجھ سے رو گردانی کر کے سرکشی کی۔
یعنی وہ شخص یقینا نا کام ہوا جس کو تو نے اپنے دروازے پر کھڑا کیا پھر اس نے تیرے غیر کا دروازه تلاش کیا اور اس کی طرف متوجہ ہوا اور تیرے غیر کی بارگاہ میں پناہ لی لہذا اس سے زیادہ نقصان اٹھانے والا ، اور اپنی تجارت کے معاملے میں اس سے زیادہ خسارے میں پڑنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ اس نے سخی و کریم اللہ تعالیٰ کا درواز و ترک کیا اور بخیل ترین بندے کے پاس پناہ حاصل کی۔
لہذا تیری مقیم بارگاہ اور کریم دروازے سے پھر کر جس نے تیرے غیر سے کچھ چاہا وہ سخت خسارہ میں پڑا۔
كَيْفَ يُرْجٰى سِوَاكَ وَأَنتَ مَا قَطَعْتَ الْإِحْسَانَ تیرے غیر سے کیسے امید کی جائے جبکہ تو نے احسان کو ختم نہیں کیا ہے۔ اور نہ تو اپنا احسان انسان سے کبھی منقطع کرے گا۔
، أَمْ كَيْفَ يُطْلَبُ مِنْ غَيْرِكَ وَأَنْتَ مَابَدَلْتَ عَادَةَ الْإِمْتِنَانِ یا تیرے غیر سے کیسے مانگا جائے جبکہ تو نے اپنی احسان کرنے کی عادت تبدیل نہیں کی ہے۔ بلکہ تیرا احسان و کرم حقوق پر جاری ہے اور وہ ان کو ہمیشہ ہی رہا ہے۔ عارفین نے اس کو پہچانا اور جاہلوں نے اس کا انکار کیا۔
يَا مَنْ أَذَاقَ أَحْبَابَهُ حَلَاوَةً مُوَانَسَتِهِ ، اےذات پاک جس نے اپنے دوستوں کو اچھی انسیت کی شیر ینی چکھائی۔
اور یہ اس وقت چکھائی جب وہ اس کے غیر کی انسیت سے متنفر ہو گئے
فَقَامُوا بَيْنَ يَدَيْهِ مُتَمَلَّقِينَ لہذا وہ اس کے سامنے محبت اور چاپلوسی کرتے ہوئے کھڑے ہوئے
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔حدیث شریف میں ہے۔
إذَا اَحَبَّ اللهُ عَبْدًا قَالَ لِلْمَلَئكَةِ إِذَا دَعَا اَخِرُوا حَاجَةَ عَبْدِي ، فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَ صَوْتَهُ
جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو وہ فرشتوں سے اس وقت فرماتا ہے جب دہ بندہ دعا کرتا ہے اس کی حاجت کو مؤخر کرو۔ (یعنی اس کی حاجت پوری کرنے میں دیر کرو ) کیونکہ اس کی آواز سننا پسند کرتا ہوں ۔ لہذا دوست کے سامنے خوشامد اور قریب سے سرگوشی کل مرغوب اشیاء سے بڑی اور سب مقصد وں سے افضل ہے اور اس کو صرف اہل شوق و اشتیاق ہی سمجھتے ہیں ۔
جیسا کہ ایک عارف نےفرمایا ہے۔
سَفِينَةُ الْحُبِّ فِي بَحْرِ الْهَوَى وَقَفَتْ فَامْنُنْ عَلَيَّ بِرِيحٍ مِنكَ يُجْرِيهَا
محبت کی کشتی خواہش کے سمندر میں ٹھہر گئی ہے۔ لہذا تو میرے اوپر احسان کر کہ اپنی طرف سے ایسی ہوا چلا دے جو اس کو جاری کر دے۔
لَا يَعْرِفُ الشَّوْقِ إِلَّا مَنْ يُكَابِدُہُ وَلَا الصَّبَابَةَ إِلَّا مَنْ يُعَانِيهَا
شوق کو دہی شخص پہچانتا ہے، جو اس کی تکلیفوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ اور محبت کو وہی جانتا ہے۔ جو اس کی سختیاں جھیلتا ہے۔
لَا أَوْحَشَ اللَّهُ مِنْكُمْ مَنْ يُحِبُّكُمْ وَآنَسَ اللَّهُ دَارًا أَنتُمْ فِيهَا
اللہ تعالیٰ تم سے اس شخص کو متنفر نہ کرے جو تم سے محبت کرتا ہے۔ اور تم کو اس گھر سے مانوس کر دے جس میں تم رہتے ہو۔
يَا مَنُ الْبَسَ أَوْلِيَاءَ ہُ ملابسَ هَيْبَتِهِ – اے وہ ذات پاک جس نے اپنے اولیا ئےعارفین کو اپنی ہیبت کالباس پہنایا۔ یہاں تک کہ ہرشے ان سے خوفزدہ و مرعوب ہوگئی۔ اور وہ کسی شے سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔
حدیث شریف میں ہے
مَنْ خَافَ اللهَ خَافَ مِنْهُ كُلُّ شَيْءٍ، وَمَنْ لَمْ يَخِفِ اللَّهَ أَخَافَهُ كُلُّ شَيْءٍ
جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ہرشے اس سے ڈرتی ہے ۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا ہے ہر شے اس کو ڈراتی ہے
اور جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی ہیبت کا لباس پہنایا۔
فَقَامُوا بِعِزَّتِهِ مُسْتَعِزِيْن لہذ اوہ اس کی عزت سے عزت حاصل کر کے عزت کےمقام میں قائم ہوئے ۔
جب ان لوگوں نے مخلوق سے اپنی ہمت اٹھالی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت عطا فرمائی۔ اورجب ان لوگوں نے دنیا سے اپنی ہمت اٹھالی تو مخلوق نے ان کی عزت کی۔ اور جب اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ اپنے ولی کو اپنی مخلوق کی طرف واپس کرے تا کہ اس کےذریعے اپنے بندوں کو فائدہ پہنچائے۔ تو اس کو دو لباس پہناتا ہے۔ ایک لباس زیبائش اور جمال کا لباس ہے۔ تا کہ لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت اور وصال حاصل کرنے کے لئے اس کی طرف بڑھیں تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے ان لوگوں کو فیضیاب فرمائے ۔ دوسر الباس: ہیبت اور جلال کا لباس ہے تا کہ جب وہ لوگوں کو حکم دے تو وہ اس کے حکم کی تعمیل کریں۔ اور جب وہ منع کرے تو وہ اس کے منع سے پر ہیز کریں۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے ولی کو یہ دونوں لباس رسوخ و تمکین میں قائم ہونے کے وقت پہناتا ہے۔
اسی کی طرف بعض عارفین نے اشارہ فر مایا ہے۔
إِنَّ عِرْفَانَ ذِى الْجَلَالِ لِعَزَّ وَضِيَاء وَبَهْجَةٌ وَ سُروْرُ
بے شک اللہ ذو الجلال کا عرفان عزت اور روشنی اور خوشی اور سرور ہے۔
وَعَلَى الْعَارِفينَ أَيْضًا بَهَاءٌ وَعَلَيْهِمْ مِنَ الْمَحَبَةِ نُورُ
اور عارفین کے چہرے پر بھی رونق اور محبت کا نور ہے
فَهَنِیْئًا لِمَنْ عَرَفَکَ اِلٰهِى هُوَ وَاللَّهِ دَهْرُہُ مَسْرُوْرُ
لہذا اے میرے اللہ! جس شخص نے تیری معرفت حاصل کی اس کے لئے مبارک بادی ہے۔ اور اللہ کی قسم اس کی ساری زندگی خوشی ہے کیا وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ
لہذا جب وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اور اللہ تعالیٰ سے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عزت عطا فرمائی ۔ اور ان لوگوں کو بھی عزت عطا فر مائی جنہوں نے ان کی عزت کی ۔
اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر میں بیان کیا گیا ہے: (تُعِزُّ مَن تَشاءُ) تو جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے
مفسرین عارفین نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ اس طریقے پر عزت عطا فرماتا ہے کہ وہ تمہارے لئے تم سے تمہارے ساتھ تمہارے سامنے ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے عزت کا سبب اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ۔
جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:
أنتَ الذَاكِرُ مِنْ قَبْلِ الذَّاكِرِينَ ذکر کرنے والوں سے پہلے ذاکر ہے
تو یعنی تو ان کا ذکر اس سے پہلے کرتا ہے کہ وہ تیرا ذ کر کریں۔ کیونکہ اگر تو ان کا ذکر نہ کرتا تو وہ تیرا ذکر نہ کرتے ۔
حضرت ابو یزید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، میں نے اپنی ابتدائی حالت میں چار اشیاء میں غلطی کی:
میں نے خیال کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہوں اور اس کو پہچانتا ہوں ۔ اور اس سے محبت کرتا ہوں ۔ اور اس کو طلب کرتا ہوں۔ پھر جب میں ہوشیار ہوا۔ تو میں نے یہ دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر میرے ذکر سے پہلے، اور اس کی معرفت میری معرفت سے پہلے، اور اس کی محبت میری محبت سے پہلے، اور میرے لئے اس کی طلب میری طلب سے پہلے ہے۔ پھر میں نے بعد میں اس کو طلب کیا ۔
وَأَنتَ الْبَادِى بِالْإِحْسَانِ مِنْ قَبْلِ تَوَجُهِ الْعَابِدِينَ، اور عابدین کی توجہ سے پہلے تو احسان کرنے والا ہے
لہذا جب تو نے ان کے اوپر پہلے احسان فرمایا۔ تو وہ اطاعت اور یقین کے ساتھ تیری طرف متوجہ ہوئے
وَأَنْتَ الْجوَادُبِا الْعَطَاءِ مِنْ قَبْلِ طَلْبِ الطَّالِبِينَ ا ور تو طالبین کی طلب سے پہلے عطا کے ساتھ فیاض ہے ۔
کیونکہ ازل کا حکم اس سے بلند ہے کہ وہ اسباب اور علتوں سے متعلق ہو
وَانتَ الْوَهَّابُ ثُمَّ أَنتَ لِمَا وَهَبْتَنَا مِنَ الْمُسْتَقْرِضِينَ اور تو ہی عطا فرمانے والا ہے پھر تو نے جو کچھ ہم کو عطا فرمایا۔ اسی کو ہم سے قرض مانگنے والا ہے
پس اللہ تعالیٰ ہی نے ہم کو نعمتیں عطا فرمائیں۔ اور اسی نے ہم کو سعادت اور بخشش کا حکم دیا۔ اور اس نے ہم کو عطا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائی ۔ اور اس نے اس پر ہم کو بڑی بڑی نعمتیں دینے کا وعدہ فرمایا۔ لہذا بندے نے جو کچھ دیا۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے اور جو کچھ لیا وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔ لہذا جب بندے نے یہ پہچان لیا تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم کے سوا کوئی و سیلہ باقی نہیں رہا۔ جس سے وہ وسیلہ پکڑے۔ حضرت جنید رضی اللہ عنہ کی مناجات میں ہے اے ذاکرین کے اس شے کے ساتھ ذکر کرنےوالے جس کے ساتھ انہوں نے ذکر کیا۔ اے عارفین کی اس شے کے ساتھ ابتدا کرنے والے جس شے میں انہوں نے تیری معرفت حاصل کی۔
اے عابد ین کو نیک عمل کی توفیق دینے والے!
کون ہے جو تیری اجازت کے بغیر تیرے پاس شفاعت کرے؟
کون ہے جو تیرے فضل کے بغیر تیراذ کر کرے۔
اور اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے سے اس کی کا قرض مانگتن جو اس نے اس کو عطا فرمایا ہے اس کے مرتبے کو انتہائی بلندی پر پہنچانا اور اس کی شرف اور بزرگی کو ظا ہر کرنا ہے اور پھر اس پر بہترین ثواب کا وعدہ کرنا بندے پر اللہ تعالیٰ کا انتہائی فضل و کرم ہے۔ ایک عارف نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے تم کو مالک بنایا۔ پھر اس نے جس شے کا تم کو مالک بنایا۔ اس کو تم سے خریدا۔ تا کہ وہ اپنے ساتھ تمہاری نسبت ثابت کرے۔ پھر جوشے اس نے تم سے خرید لی اس کو تم سے قرض کے طور پر مانگا۔ پھر اس پر اس نے کئی گنا ثواب کا وعدہ فرمایا۔
عارف نے اسی بیان میں فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کی نعمتیں اور بخششیں اس سے بلند ہیں کہ اسباب کے بدلے میں دی جائیں ۔ حضرت ابن عباد رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: چونکہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا چاہنا بندے کے چاہنے پر مقدم ہے ۔ لہذا اللہ تعالیٰ سے مصنف نے یہ استدعا کی ہے کہ وہ ان کوچا ہے ۔ تا کہ مصنف کی طرف سے چاہنا ثابت ہو جائے