یہ اٹھارہویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اٹھارہویں مناجات
إِلٰهِي كَيْفَ يُسْتَدَلُّ عَلَيْكَ بِمَا هُوَ فِي وُجُودِهِ مُفْتَقِرْ إِلَيْكَ ايَكُونُ لِغَيْرِكَ مِنَ الظُّهُورِ مَا لَيْسَ لَكَ حَتَّى يَكُونَ هُوَ الْمُظْهِرُ لَكَ مَتَى غِبْتَ حَتَّى تَحْتَاحَ إِلَى دَلِيلٍ يَدُلُّ عَلَيْكَ وَمَتَى بَعُدْتَ حَتَّى تَكُونَ الْآثَارُ هِيَ الَّتِي تُوْصِلُ إِلَيْكَ
اے میرے اللہ ! تیری ذات پر اس شے سے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ جو اپنے وجود کے لئے تیری محتاج ہے؟ کیا تیرے غیر کے لئے ایسا ظہور ہے جیسا تیرے لئے نہیں ہے۔ تا کہ وہ تیری ظاہر کرنے والی ہو؟ تو غائب کہاں ہے کہ تو کسی ایسی دلیل کا محتاج ہو جو تیری طرف رہنمائی کرے؟ اور تو دور کہاں ہے کہ مخلوقات تیرے پاس پہنچانے والے وسیلہ بنیں ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اس شخص پر تعجب کیا ہے، جو اللہ تعالیٰ پر اس کے نورکے کامل ظہور کے بعد استدلال کرتا ہے۔ کیونکہ نور اپنے بخوبی ظاہر ہونے کے بعد کسی ایسی دلیل کا محتاج کیسے ہو سکتا ہے، جو اس کے وجود کی طرف رہنمائی کرے؟ اور اس ذات اقدس کا وجود کسی دلیل کا محتاج کیسے ہو سکتا ہے، جو خود ہر دلیل سے زیادہ ظاہر ہے؟ یا وہ وجود کسی دلیل کا محتاج کیسے ہو سکتاہے، جس نے دلیل کو قائم کیا ہے۔ ایک عارف شاعر نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے!
عَجِبْتُ لِمَنْ يَبْغِي عَلَيْكَ شَهَادَةً وَأَنتَ الَّذِي أَشْهَدُتَهُ كُلَّ شَاهِدٍ
میں نے اس شخص پر تعجب کیا جو تیرے وجود کی شہادت طلب کرتا ہے حالانکہ تو وہ ہے کہ تونے اپنی ذات اقدس کو ہر گواہ کا گواہ بنایا۔ حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ وہ ذات اقدس ، کس طرح معارف سے پہچانی جاسکتی ہے۔ جس کی ذات سے معارف پہچانے گئے ؟ یا کسی شے سے وہ کیسے پہچانا جا سکتا ہے جس کا وجود ہرشے سے مقدم ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: سخت تعجب ہے کہ فروع ، اصول سے زیادہ ظاہر کیسے ہو سکتے ہیں ۔ حالانکہ اگر اصول نہ ہوتے تو فروع حاصل ہی نہ ہوتے ؟یا سمندروں سے جاری ہونے والے نالے اور نہریں ، سمندروں سے زیادہ ظاہر کیسے ہوسکتے ہیں؟ اور ملکوت کے انوار جبروت کے سمندروں ہی سے جاری ہوئے ہیں۔ لیکن اندھی بصیرت آسمان کے افق میں سورج کو نہیں دیکھتی ہے تو اندھی آنکھ سورج کو کیسے دیکھ سکے گی ؟
ایک مرید نے اپنے شیخ سے دریافت کیا : یا حضرت اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ شیخ نے اس کو جواب دیا: اللہ تعالیٰ تجھ کو دور کرے۔ کیا تو حقیقت کے لئے جگہ تلاش کرتا ہے؟
ایک شخص نے حضرت جنید رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: اے ابوالقاسم ! کیا آپ نے اپنے رب کو اس وقت دیکھا ، جب آپ نے اس کی عبادت کی ۔ یا آپ نے اپنے دل سے اس کے پاس پہنچنے کا اعتقاد کرلیا؟
حضرت جنید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اے سائل ہم ایسے نہیں ہیں کہ ایسے رب کی عبادت کریں جس کو ہم نہ دیکھیں۔ اور ہم اس بات کے ساتھ نہیں ہیں، کہ جس کو ہماری آنکھیں دیکھتی ہیں ۔ ہم اس کی تشبیہ بیان کریں۔ اور ہم اس کے ساتھ نہیں ہیں کہ جس سے ہم نا واقف ہیں اس کی پاکیزگی کا یقین کریں۔ اس شخص نے ان سے پھر دریافت کیا: آپ نے اللہ تعالیٰ کو کس طرح دیکھا ؟ انہوں نےجواب دیا: کیفیت بشر کے حق میں معلوم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حق میں مجہول ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں عیاں مشاہدے کے ساتھ آنکھیں ہر گز نہیں دیکھ سکتی ہیں۔ لیکن قلوب اس کو ایمان کے حقائق کے ساتھ پہچانتے ہیں۔ پھر احسان کے نور کے مشاہدے کے ساتھ معرفت سے رؤیت کی طرف ترقی کرتے ہیں۔
لہذا اللہ تعالیٰ حقائق قدسیہ کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ وہ حادث صفات سے پاک ہے۔ وہ اپنے جمال کے ساتھ مقدس، اور اپنے کمال کے ساتھ موصوف ہے۔ قلب پر اپنی بخشش و کرم سے فضل کرنے والا ہے۔ اپنے عدل کے ساتھ اور اپنے فضل کے ساتھ موصوف ہے۔ جب اس شخص نے حضرت جنید کا یہ کلام سناتو وہ کھڑا ہوا۔ اور ان کے ہاتھ پر بوسہ دیا۔ اور توبہ کی۔ اور ان کی صحبت اختیار کی ۔ یہاں تک کہ اس پر بھلائی کے آثار ظاہر ہو گئے ۔ پھر وہ موت کے وقت تک ان کی صحبت میں رہا۔ رحمتہ اللہ علیہما۔
اور تم یہ جان لو کہ اہل دلیل صنعت سے صانع پر اور حاضر سے غائب پر استدلال کرتے ہیں۔ اور اہل عیاں کے نزدیک غیب شہادت ہو جاتی ہے اور مدلول ، دلیل بن جاتا ہے۔
لہذا پہلی قسم :۔ اہل علم الیقین ہیں۔ اور دوسری قسم :۔ اہل عین الیقین یاحق الیقین ہیں۔ پہلی قسم عوام ہیں ۔ اور دوسری قسم : – خواص ۔ یا خواص الخواص ہیں۔
حضرت شیخ ابوالحسن نے فرمایا ہے:۔ اہل شہود وعیاں کے نزدیک، اہل دلیل و برہان عوام ہیں۔ اہل شہود نے اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اس سے پاک سمجھا کہ وہ کسی دلیل کا محتاج ہو جو اس کی طرف رہنمائی کرے۔
لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی مفہوم ہے:۔ اے میرے اللہ تیری ذات پر اس شے سے یعنی اس مخلوق سے کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے جو اپنے وجود میں تیری محتاج ہے؟ کیا تیرے غیر کے وجود کے لئے اگر اس کا وجود فرض کر لیا جائے ، ایسا ظہور ہے جیسا تیرے لئے نہیں ہے؟ تو بصیرتوں اور آنکھوں سے غائب کہاں ہے کہ تو کسی ایسی دلیل کا محتاج ہو جو تیری طرف رہنمائی کرے۔ جب کہ وہ دلیل بھی تیری ہی ذات سے قائم ہے۔ یہ محال ہے کہ وجود میں تیرے نور کے سوا کوئی شے ظاہر ہو؟ اور تو ان اشیاء سے دور کہاں ہے جو تیرے ساتھ یعنی تیری قدرت کے ساتھ قائم ہیں ۔ کہ مخلوقات تیرے پاس پہنچنے کا وسیلہ بنیں؟ تیرے اور تیری مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ اور وہم کے وجود اور قاہریت کے حجاب کے سوا کوئی جدا کرنے والی شے نہیں ہے جو ان کو تجھ سے جدا کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اپنے فضل و کرم سے اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ اور اللہ تعالیٰ کے لئے غائب ہونا کیسے جائز ہو سکتا ہے ۔ جب کہ وہ رقیب ( نگہبان ) اورقریب ہے۔