یہ پندرھویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پندرھویں مناجات
إِلٰهِي إِنَّكَ تَعْلَمُ وَإِنْ لَّمْ تَدُمِ الطَّاعَةُ مِنِّى فِعْلاً جَزْماً فَقَدْ دَامَتْ مَحَبَّةً وَعَزْماً
اے میرے اللہ ! بے شک تو جانتا ہے کہ اگر چہ مجھ سے عملی طور پر دائمی عبادت نہیں ہو سکی۔ لیکن عبادت کی محبت اور ارادہ ہمیشہ قائم رہا۔
بندے پر اپنے رب کی عبادت میں یہ واجب ہے کہ فعل اور محبت اور ارادہ کے ساتھ ہر لحظہ اور ہر وقت عبادت ہو۔ لیکن اگر وہ اس پر قادر نہ ہو ۔ (اگر وہ ایسا نہ کر سکے ) تو اس کو چاہیئے کہ وہ نیکی اور تقوی کا ارادہ کرے۔ اور نیک اعمال کی نیت کرے۔ کیونکہ مومن کی نیت اس کے عمل سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
إِن يَعْلَمُ اللَّهُ فِي قُلُوبِكُمْ خَيْراً یُؤتِكُمْ خَيْراً مِّمَّا أُخِذَ مِنْكُمْ
اگر اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب میں نیکی معلوم کرے گا تو وہ تم کو اس سے بہتر دے گا جو تم سے لیاگیا ہے
بعض عارفین نے فرمایا ہے: فعل جزم عمل اور محبت کا واقع ہونا ہے۔ اور عزم :۔ عمل کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اور بہت سے متوجہ ہونے والوں نے عمل نہیں کیا۔ اور بہت سے کوشش کرنے والے آگے نہیں بڑھے۔ لیکن عزم میں حقیقتیں ظاہر ہوئیں ۔ اور عزم ہی کے ساتھ شریعتیں آئیں ۔ اور بندے پر صرف قصد اور کوشش اور عزم واجب ہے۔ لیکن اس کا اثر کرنا یا آگے بڑھنا ، تو کبھی مقدر ہوتا ہے، اور کبھی نہیں ہوتا ہے:
وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهٖ اور اللہ تعالیٰ اپنے علم پر غالب ہے ۔
اور عزم سے مراد: قصد اور نیت ہے۔ اور وہ مطلوبہ کام کے لئے قلب کا متوجہ ہونا ہے۔ اور تم کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ علم کی پیروی اختیاری ہے اور حال کی پیروی اضطراری ( بے اختیاری) ہے۔ لہذا جب تک بندے کے پاس کچھ اختیار باقی رہتا ہے اس وقت تک علم کی اتباع اس کے اوپر واجب ہوتی ہے اور یہی سلوک کا مقام ہے۔ لیکن اگر حال غائب ہو جائے تو اس کی اتباع واجب ہو جاتی ہے اور یہ جذب کا مقام ہے۔ اور اس کی مثال سیدنا حضرت ابو بکر صدیق کا واقعہ ہے۔ جب وہ اپنا کل مال لے کر حاضر ہوئے ۔ تو حضرت رسول کریم ﷺ نے ان سے فرمایا: ما تركت لأهلك تم نے اپنے اہل وعیال کے لئے کیا چھوڑا ہے۔
حضرت ابو بکر صدیق نے جواب دیا: تَرَكْتُ لَهُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ میں نے ان لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کو چھوڑا ہے ۔ اور حضرت رسول کریم ﷺ کے اس قول کی طرف توجہ نہیں کی جو آنحضرت ﷺ نے تشریح کے حال میں فرمایا ہے:
إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ یہ کہ تم اپنے وارثوں کو دولتمند چھوڑو، اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑو ۔ کہ وہ ضروری خرچ کے لئے لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کریں ۔
لہذا جب حال علم پر غالب ہو جاتا ہے تو حکم حال کا ہوتا ہے۔ لہذا غور کرو کہ عارفین محققین کے نزدیک اس مقام کی شان کتنی عزیز اور اس کا مرتبہ کتنا اعلیٰ ہے۔
اس کے بارے میں ایک عارف کے اشعار ہیں:
وَحَاشَا هُمْ مِنْ قَادِحٍ فِي طَرِيقِهِمْ وَمَطْلُوبُهُمْ أَسْنَى الْمَطَالِبِ كُلِؔهَا
اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے طریقے میں نکتہ چینی کرنے والے سے دور رکھا ہے ۔ اور ان کا مقصدکل مقصد وں سے اعلیٰ ہے ۔
حَبَاهُمْ بِتَایِيْدٍ و عِز ٍّوَّ عِصْمَةٍ فَاكْرِم بِأَوْصَافٍ لَهُمْ مَا أَجَلَّهَا
اللہ تعالیٰ نے ان کو تائید اور عزت اور عصمت سے قریب کیا۔ لہذا تم ان کے اعلیٰ اور پاکیزہ اوصاف کی بناء پر ان کی تعظیم و تکریم کرو۔ اور تم یہ جان لو کہ نیکی کی نیت کرنے والا نیکی کرنے والا ہے ۔ اور وصول کی نیت کرنے والاواصل (پہنچنے والا) ہے۔ اور بندے کے اوپر صرف کوشش کرنی واجب ہے۔ لہذا جب اس نے اپنی کوشش صرف کی۔ اور اپنا مقصد حاصل کر لیا تو وہ اور واصل دونوں برابر ہیں۔ اور ہمارے شیخ الشیوخ فرماتے تھے۔ جس شخص نے اس حال میں انتقال کیا کہ وہ راستے میں تھا۔ تو تحقیقی طور پر موت کے بعد اس کو ولایت حاصل ہو جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولِئكَ مِنكُمْ
اور جولوگ بعد میں ایمان لائے ۔ اور انہوں نے ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا۔تو وہ لوگ تم میں سے ہیں ۔
اور حدیث شریف میں ہے۔
مَنْ مَّاتَ فِي طَرِيقِ الْحَجِّ فَهُوَ حَاجٌ، وَمَنْ مَاتَ فِي طَرِيقِ الْجِهَادِ فَهُوَ مُجَاهِدٌ
جو شخص حج کے راستے میں مرگیادہ حاجی ہے۔ اور جو شخص جہاد کے راستے میں مر گیا وہ مجاہد ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَنْ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمُوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرَهُ عَلَى اللَّهِ
اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف مہاجر ہو کر نکلے پھر اس کو موت آ جائے ۔ تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ پر لازم ہو گیا ۔
اور حدیث شریف میں ہے: مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَطْلُبُ الْعِلْمَ ، أَيِ النَّافِعَ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا دَرَجَةٌ واحِدَةٌ
جو شخص علم نافع طلب کرنے کی حالت میں مرگیا۔ اس کے درمیان اور نبوت کے درمیان صرف ایک درجے کا فرق ہے۔
وَمَنْ تَوَجَّة لأمْرٍ وَلَمْ يُدْرِكْهُ فَكَانَّمَا أَدْرَكَهُ
اور جس شخص نے کسی کام کی طرف توجہ کی ۔ لیکن اس کو حاصل نہیں کر سکا۔ تو گویا اس نے اس کو حاصل کر لیا۔
دونوں ایک ہی حدیث کے ٹکڑے ہیں۔
اور ان امور کی ابتداء میں مشقتوں پر صبر و برداشت کرنا ، اور خواہش اور آرام سے نفس کو روکنا ضروری ہے۔ اسی لئے جہاد کا نام جہا د رکھا گیا ہے۔ اور ارادہ کرنے والا صراط مستقیم تلاش کر لینے کے بعد دروازہ تلاش کرتا ہے۔ پھر جب وہ دروازے پر پہنچ جاتا ہے۔ تو اندر داخل ہونے کی خواہش کرتا ہے اور جب وہ اندر داخل ہو گیا۔ تو پہنچ گیا۔ اور جب پہنچ گیا۔
فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ تو کوئی شخص نہیں جاتا ہے کہ ان کے لئے کیا آنکھ کی ٹھنڈک پوشید ہ رکھی گئی ہے (جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ رکھی گئی ہے وہ کوئی شخص نہیں جانتا ہے )
اس سے متعلق ایک عارف کے اشعار ہیں :
مَنْ فَاتَهُ طَلَبُ الْوُصُولِ وَنَيْلُهُ مِنْهُ فَقُلْ لَهُ مَا الَّذِي هُوَ يَطْلُبُ
جس شخص سے وصول کی طلب اور وصول کا پانا فوت ہو گیا ۔ تم اس سے دریافت کرو ۔ اب وہ کیاچاہتا ہے ۔
حَسْبُ الْمُحِبِّ فَنَاءُ هُ عَمَّا سِوَى مَحْبُوبِهِ إِنْ حَاضِرٌ أَوْ غَائِبٌ
محبت کرنے والے کے لئے اپنے محبوب کے ماسوی سے فنا ہو جانا کافی ہے۔ خواہ وہ حاضر ہو یا غائب ہو۔
اور حقیقت کی حیثیت سے عبادت کے لئے بندے کی نیت اس کے اختیار میں نہیں ہے ۔ لیکن شریعت کی حیثیت سے وہ اس کیلئے حکم دیا گیا ہے۔