یہ گیارھویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
گیارھویں مناجات
إِلٰهِي كُلَّمَا أَخْرَسَنِي لُؤْمِي اَنْطَقَنِي كَرَمُكَ ، وَكُلَّمَا اَیْاَسَتْنِي أَوْصَا فِي اَطْمَعَتْنِي مِنَنُكَ
اے میرے اللہ ! جب میری پستی و حقارت نے مجھ کو گونگا کر دیا تو تیرے کرم نے مجھ کو گویائی عطا فرمائی۔ اور جب میرے اوصاف نے مجھ کو مایوس کر دیا تو تیرے احسانات نے مجھ کوامید دلائی۔
بندہ جب اپنے پست اور ذلیل اوصاف اور برے افعال کو دیکھتا ہے تو وہ اس بات سے شرمندہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجت پیش کرے۔ لہذا اپنی حاجت بیان کرنے سے اس کی زبان گونگی ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اپنے نفس کی اس ذلت و حقارت کو دیکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ سزا پانے اور بھگادیئے جانے کا مستحق ہے۔ لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کے لطف وکرم ، اور احسان و بخشش کی وسعت کی طرف نظر کرتا ہے۔ تو سوال کرنے کے لئے اس کی زبان گویا ہو جاتی ہے۔ اور وہ اس عطا اور بخشش کا امیدوار ہو جاتا ہے جو اس کے لئے ہے۔
اگر تم یہ چاہتے ہو کہ تمہارے لئے رجاء یعنی امید کا دروازہ کھل جائے تو تم اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ان احسانات کی طرف نظر کرو ۔ جو اس نے تمہارے اوپر کئے ہیں۔ اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے لئے غم کا دروازہ کھلے تو تم اپنے اس گناہ اور بداعمالی کی طرف دیکھو جو تم نے کر کے اس کی بارگاہ میں بھیجا ہے۔ اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ جو شخص انصاف کی نظر سے اپنے نفس کی طرف دیکھے گا۔ تو وہ اس کو سزا اور عذاب ہی کے لائق پائے گا ۔ یا تو غفلت اور کوتاہی کی بنا پر، یا حمد وشکر کی کمی کی بناء پر ۔
اسی لئے بعض دعاؤں میں وارد ہوا ہے:
اللّٰهمَّ افْعَلْ بِنَا مَا أَنتَ لَهُ اَهْلٌ وَلَا تَفْعَلْ بِنَا مَا نَحْنُ أَهْلُه اے میرے اللہ ! تو ہمارے ساتھ وہ سلوک کر جس کا تو اہل ہے۔ اور ہمارے ساتھ وہ سلوک نہ کر جس کے ہم اہل ہیں ۔
عابدین میں سے بعض سختی اختیار کرنے والوں نے فرمایا ہے:۔ بندے کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ اپنی ذات کو نجس کے مثل دیکھے۔ یعنی سراپا نجس سمجھے۔ اگر وہ دعا کرنے والوں کے ساتھ بیٹھے تو یہ خیال کرے کہ وہ لوگ اس کی وجہ سے قبولیت سے روک دیئے گئے ہیں۔ اور اگر وہ آگ کے انگارے پر سجدہ کرے۔ تو بھی وہ اپنے عمل کو قبولیت کے لائق نہ سمجھے اور اگر اس کا نفس انتہائی پاکیزہ ہو جائے تو بھی اس کو مدح وثنا کے لائق نہ سمجھے اور اگر لوگ اس کے کپڑے کو تبرک کے طریقے پر چھو ئیں یا چو میں تو وہ اپنے نفس کو اس کنواری لڑکی کی طرح تصور کرے جو شب زفاف میں اپنے شوہر کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ حالانکہ وہ بدکاری سے ذلیل ہو چکی ہے۔ جتنا لوگ اس کے گرد طواف کرتے ہیں اور اس کی شان بڑھاتے ہیں اتناہی رسوائی کے خوف سے اس کا رنج بڑھتا ہے۔
جس شخص کی اس کے نفس سے فنا، اور اس کے رب کے ساتھ بقا ثابت ہوگئی ہے۔ اس کی مدح وثنا میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اب وہ ممدوح نہیں ہے۔ بلکہ اب ممدوح وہ ذات اقدس ہے جس کا فضل و کرم اس کے اوپر غالب ہے۔ اور جس شخص نے اپنا ہاتھ چومنے کے لئے بڑھایا لیکن اس کو اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہیں تصور کیا ۔ وہ اس کے حق میں منقطع ہوتا ہو جاتا ہے۔
إِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ بے شک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں ۔
اور بندے کا ہاتھ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نہیں ہوتا ہے جب تک کہ زمین میں اس کی خلافت نہ ثابت ہو جائے۔ اور اس کی خلافت اس وقت تک ثابت نہیں ہوتی ہے جب تک کہ وہ عرش سے فرش تک کل موجودات پر غالب نہ ہو جائے ۔ اور اس کے قلب میں کل موجودات زمین میں ایک حلقہ کی طرح نہ ہو جائے۔ لہذا جب وہ اس طرح ہو جاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی زمین میں اس کا خلیفہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہو جاتا ہے۔ تو اب جو شخص اس کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے۔ وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
يَدُ اللَّهِ فَوقَ ايْدِيهِمْ وَاللَّهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيمِ ان لوگوں کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل کا مالک ہے۔
اوراسی کے بارے میں عارفین کے اشعار ہیں۔
قَدِ اسْتَقَامَ عَلَى الْمِنْهَاجِ يَسُلُكُهُ وَلَمْ يَزِغْ حَائِدًا مِنْهُ وَلَا عَدَلَا
وہ اس راستے پر مضبوطی سے قائم ہوا۔ جس راستے پر وہ چلتا ہے ۔ اور اس سے ہٹ کر اور ادھر ادھر مائل ہو کر نہیں ہو گا ۔
مَنْ حَالَہُ يُعْمِرُ الدُّنْيَا بِظَاهِرِهٖ وَقَلْبُهُ فِي أَعَالِي الْخُلْدِ قَدْ نَزَلَا
اس شخص کا کیا حال ہو گا جو اپنے ظاہر یعنی جسم سے دنیا کو آباد کرتا ہے۔ لیکن اس کا قلب خلد کے اعلیٰ مقامات میں اترا ہوا ہے۔
وَاَبْصَرَ الْأَمْرَ يَجْرِى فِي مَسَالِكِہٖ مِنْ أَوَّلِ النشَّا حَتَّى شَبَّ وَاكْتَهَلَا
اور اس نے پیدائش کی ابتداء سے جوانی اور بڑھاپے تک یہی دیکھا کہ حکم اپنے ہی راستوں پر جاری رہتا ہے۔
وَنَا طَقَتْهُ الْبَرَايَا وَهِيَ صَامِتَةٌ وَمَيَّزَ الضِّدَّ وَالْأَرْوَاحَ وَالْعِلَلَا
اور مخلوق نے اس سے کلام کیا لیکن وہ خاموش ہے۔ اور اس نے ضد اور ارواح اور منتوں کو جدا جدا کر دیا۔
وَأَظْهَرَ الصُّورَةَ الْعُلْيَا بِصُورَتِهَا الْ حُسْنَى وَمِنْ قَبْلُ كَانَتْ الْبِسَتْ ظُلَلا
اور اس نے اعلی صورت کو اس کی بہتر صورت کے ساتھ ظاہر کیا۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ پوشیدہ تھی۔
ایک بزرگ نے فرمایا ہے۔ میں نے ایک کالی لونڈی خریدی۔ جب رات ہوئی اور میں نے سونے کا ارادہ کیا۔ تو اس لونڈی نے کہا اے میرے آقا! آپ کو شرم نہیں آتی ہے۔ آپ کا مولائے حقیقی نہیں سوتا ہے۔ اور آپ سورہے ہیں ؟ پھر وہ کھڑی ہوئی اور نماز پڑھنے لگی۔ جب میں بیدار ہوا تو میں نے اس کو سجدہ کی حالت میں دیکھا۔ میں نے سنا کہ وہ اپنے سجدے کی حالت میں یہ کہہ رہی ہے۔ اے میرے رب! مجھ سے اپنی محبت کے طفیل تو مجھ کو عذاب نہ دے۔ میں نے اس سے کہا: تو نے غلط کہا ہے تم اس طرح کہو: اپنی ذات سے میری محبت کے طفیل تو مجھ کو عذاب نہ دے۔ جب اس نے سلام پھیرا تو کہا: اے میرے آقا! میں نے غلط نہیں کہا ہے۔ بلکہ صحیح کہا ہے اگر اللہ تعالیٰ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی تو وہ آپ کو نہ سلاتا اور مجھ کو کھڑا نہ کرتا۔ میں نے اس سے کہا: تم جاؤ۔ تم اللہ تعالیٰ کے لئے آزاد ہو۔ اس نے کہا: یہ چھوٹی آزادی ہے اور بڑی آزادی ابھی باقی ہے۔
اور بعض عاشقین اپنی بعض مناجات میں کہتے تھے ۔ اے میرے اللہ ! اگر تو مجھ کو ذلیل کرنا چاہتا، تو مجھ کواپنی عبادت کی توفیق نہ عطا فرما تا ۔ اور اگرتو مجھ کو رسوا کرنا چاہتا تو اس وقت تو میری پردہ پوشی نہ فرماتا، جب میں نے تیری نافرمانی کی۔ اے میرے اللہ ! اگر میرا گناہ نہ ہوتا، تو میں تیرےعذاب سے نہ ڈرتا۔ اور اگر تیرا کرم نہ ہوتا تو میں ثواب کی امید نہ کرتا۔