یہ دسویں دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
دسویں مناجات
إِلٰهِي قَدْ عَلِمْتُ بِاِخْتِلَافِ الْآثَارِ وَ تَنَقُّلَاتِ الْأَطْوَارِ أَنَّ مُرَادَكَ مِنِّى أَنْ تَتَعَرَّفَ إلَى َّفِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى لَا أَجْهَلَكَ فِي شَيْءٍ
اے میرے اللہ ! میں نے آثار کے اختلاف اور حالات کی تبدیلیوں سے یہ جان لیا ہے کہ میری ذات سے تیری مراد ( مقصود ) یہ ہے کہ تو مجھ کو ہرشے میں اپنی پہچان کرائے (یعنی میں ہرشے میں تیری معرفت حاصل کروں ) یہاں تک کہ میں کسی شے میں تجھ سے ناواقف نہ رہوں۔
قدرت کے آثار صرف اس لئے مختلف ہوئے ہیں تا کہ تم قادر مطلق اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچانو ۔
آثار کا اختلاف: اجسام میں مثلاً علوی و سفلی ، جمادات و مائعات (رقیق چیزیں)، نورانی و ظلمانی ، آبی وناری۔ اور حیوانات میں مثلاً آدمیوں، اور چوپایہ جانوروں، اور چڑیوں ، اوردرندوں ، اور وحشیوں ، اور حشرات ( زمین میں سوراخ کر کے رہنے والے جانور )۔ اور اعراض میں( عرض دوسری شے کی ذات سے قائم ہونے والی شے ) مثلاً سفیدی ، اور سیاہی اور سرخی ، اوزردی ، اور نیلا پن ، اور اشبھی (سیاہی مائل سفیدی ) اور ان کے علاوہ دوسرے رنگ۔ ان سب کے اندر اختلاف اس لئے ہے تا کہ تم اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کے علم کی وسعت اور اس کی ذات اقدس کی عظمت کو پہچانو ۔
حالات کی تبدیلیاں : مثلا جوانی اور اھیڑ پن اور بڑھاپا ، اور مرض و صحت اور محتاجی و دولتمند اور عزت وذلت، اور چھین لینا اور واپس کر دیتا اور محروم کرنا اور عطا فر مانا، اور تنگی و کشادگی ، اورجلال و جمال ، اور حیات و موت وغیرہ اس لئے ہیں۔ تا کہ تم اللہ تعالیٰ کو ان حالات میں سے ہر حال اور ان آثار کے جنسوں کے اختلاف میں پہنچانو ۔ یہاں تک کہ تم ان میں سے کسی شے میں اللہ تعالیٰ سے جاہل و ناواقف نہ رہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی مصنوعات کی جنسوں میں، اور اپنی قدرت کے احوال کے اختلاف میں اپنے بندوں کو اپنی پہچان کرائی ہے جس نے اس کو نہیں پہچانا۔ وہ جاہل رہا۔ اور جس نے اس کو پہچان لیا۔ وہ عارف ہو گیا۔ لہذا انسان اس وقت عارف کہلاتا ہے۔ جب کہ وہ کل اشیاء میں اس کے آثار کے اختلاف اور اس کے احوال کی تبدیلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ لہذا وہ ذلت میں بھی اسی طرح اس کی معرفت حاصل کرے، جس طرح عزت میں اس کی معرفت حاصل کرے۔ اور سلب میں بھی اسی طرح اس کی معرفت حاصل کرے۔ جس طرح عطا میں اس کی معرفت حاصل کرے اور مرض میں بھی اسی طرح اس کی معرفت حاصل کرے ، جس طرح صحت میں اس کی معرفت حاصل کرے۔ اور جلال میں بھی اسی طرح اس کی معرفت حاصل کرے، جس طرح جمال میں اس کی معرفت حاصل کرے۔ اسی طرح ان تمام اشیاء میں اس کی معرفت حاصل کرے ۔ اور وہ ہر رنگ کے ساتھ رنگ بدلتا ر ہے۔ اور ہر حال کے ساتھ حال اختیار کرتا رہے۔ لہذا عارف وہی ہے جو تمام احوال کے ساتھ حال اختیار کرتا رہے۔ تا کہ وہ کل احوال کو حاصل کر لے۔ اور اشیاء کے ساتھ بدلتے رہنا، یہی ان کے ساتھ ادب ہے ۔ اور یہی اشیاء میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ خضوع (عاجزی کرنا) ہے۔
لیکن جو شخص صرف جمال میں معرفت حاصل کرتا ہے ، اور جلال میں نہیں حاصل کرتا ہے۔ یا عطا میں معرفت حاصل کرتا ہے، اور محرومیت میں نہیں حاصل کرتا ہے۔ یا عزت میں معرفت حاصل کرتا ہے، اور ذلت میں نہیں حاصل کرتا ہے۔ یا صحت میں معرفت حاصل کرتا ہے، اور مرض میں نہیں حاصل کرتا ہے۔ یا عافیت میں معرفت حاصل کرتا ہے، اور محنت میں نہیں حاصل کرتا ہے ۔ یا دولتمندی میں معرفت حاصل کرتا ہے اور فاقہ میں نہیں حاصل کرتا ہے۔ یا آسانی میں معرفت حاصل کرتا ہے اور سختی میں نہیں حاصل کرتا ہے۔ تو یقینا وہ بہت بڑا جھوٹا ہے۔ تم ایک عارف کے اس قول میں غور کرو۔
حَبِيبِيْ وَ مَحْبُوبِي عَلَى كُلِّ حَالَةٍ وہ ہر حال میں میرا حبیب اور میرا محبوب ہے ۔
اور وہ شخص کتنا بدترین انسان ہے، جو خصوصیت اور معرفت اور غیر اللہ کی نفی کا دعوی کرتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ اپنے اسم پاک جلیل کے ساتھ اس کو اپنا تعارف کراتا ہے۔ تو وہ اس سے انکار کرتا ہے۔ اور بھاگ جاتا ہے۔ اور اپنے بندوں کے معاملے میں اللہ تعالیٰ کی یہی عادت ہے کہ جو شخص خصوصیت یا طاقت کا دعوی کرتا ہے تو وہ فورا اس کی آزمائش کرتا ہے:۔
ليَسأَلَ الصَّادِقِينَ عَن صِدْقِهِمْ وَأَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا أَلِيمًا تا کہ اللہ تعالیٰ صادقین سے ان کے صدق کے متعلق سوال کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
لہذا دعوی کرنے والے ذلیل در سوا ہو جاتے ہیں۔ اور صادقین ثابت قدم ہو جاتے ہیں ۔ اورمصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اس حال کے بعد کہ وہ بعض حالت میں معرفت حاصل کرتے تھے ، اور بعض حال میں نہیں حاصل کرتے تھے۔ اس حقیقت کا مزہ چکھا۔ پھر وہ اس حقیقت میں ثابت و قائم ہو گئے ۔ تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ آثار کے اختلاف اور احوال کی تبدیلی میں یہی راز ہے۔ کہ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی جائے ۔ لہذ ا فر مایا:
اے میرے اللہ ! بے شک میں نے جان لیا۔ یعنی قدرت کے آثار کے اختلاف اور اعراض و احوال کی تبدیلیوں سے میں نے یہ یقین کر لیا۔ کہ میری ذات سے تیرا مقصد یہ ہے کہ قدرت کے جنسوں کے اختلافات، اور ان کے احوال کی تبدیلیوں سے ہرشے میں تو مجھ کو اپنا تعارف کرائے ۔ تا کہ میں ان میں سے کسی شے میں تجھ سے جاہل اور نا واقف نہ رہوں ۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تنویر میں فرمایا ہے :۔ ہر حالت لا محالہ زائل ہونے والی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو مختلف احوال میں منتقل کرے۔ اور آثار کو اس کے اوپر مختلف کرتار ہے۔ تا کہ وہ ہر خاص حالت میں خاص تعارف کے ساتھ اس کو اپنا تعارف کرا تا ر ہے ۔ اور جو شخص ایک ہی حال چاہتا ہے وہ کمال حاصل کرنا نہیں چاہتا ہے۔ لہذا اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے صرف اپنی معرفت چاہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ اور ہم نے جن اور انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے تا کہ وہ میری عبادت کریں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیہ کریمہ کی تفسیر میں فرمایا ہے:۔ لِيَعْبُدُونَ کے معنی لِيَعْرِفُونَ کے ہیں تا کہ وہ مجھ کو پہچانیں، یعنی میری معرفت حاصل کریں۔ اور اللہ تعالیٰ کی معرفت صرف آثار کے اختلافات اور احوال کی تبدیلیوں میں حاصل ہوتی ہے۔ اور حضرت ابن عباس کے علاوہ دوسرے مفسرین نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر میں فرمایاہے:
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتَانِ اور اس شخص کے لئے جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں۔
دو جنتوں میں ایک جنت اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ اور وہ معارف کی جنت ہے۔ اور دوسری جنت ظاہری آرائش کی جنت ہے۔ اور جو شخص معارف کی جنت میں داخل ہو گیا۔ وہ پھر اس کے سوا کسی شے کا مشتاق نہیں رہ گیا۔ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ لوگ دنیا سے چلے گئے لیکن انہوں نے دنیا کی سب سے بہترین اور پاکیز ہ شے کا مزہ نہیں چکھا۔ ان سے دریافت کیا گیا: ۔ حضرت ، وہ کون سی شے ہے؟ انہوں نے جواب دیا وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔
روایت ہے: ایک پتھر پایا گیا۔ جس پر قدرت کے قلم سے لکھا ہوا تھا۔ جس شخص نے ہرشے کو پالیا لیکن اللہ تعالیٰ کو نہیں پایا تو اس نے کچھ نہیں پایا۔ جب تک وہ اللہ تعالیٰ کو نہ پہچانے پھر جب اس نے اللہ تعالیٰ کو پہچان لیا۔ تو اس نے ہرشے کو پا لیا۔ اور کوئی شے اس سے غائب نہیں ہوئی۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے اس کو روزی کی تلاش ، اور حرص کی تکلیف ، اور اس کی وجہ سے دل کی پریشانی، اور اس کے متعلق فکر سے آرام و سکون حاصل ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ اکثر مخلوق روزی ہی کی فکر میں پریشان رہتی ہے۔
اور اگر بندہ قناعت کرے، تو وہ ایسی غنا سے سرفراز ہو جاتا ہے جس کے بعد کوئی محتاجی نہیں ہے۔ اور اس اللہ حی و قیوم پر توکل کرنا جس کے لئے موت نہیں ہے۔ یہی وہ غنائے اکبر ہے، جس کو کوئی بھی محتا جی کبھی لاحق نہیں ہوتی ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، بندے کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ عافیت اور غناپر بھروسہ کرے۔ نہ یہ مناسب ہے کہ وہ کسی ایسی حالت پر بھروسہ کرے ، جس سے غیر اللہ خوش ہو ۔ اور اسی درمیان کہ بندہ آرام میں ہوتا ہے، تم اچانک اس کو مصیبت میں مبتلا دیکھتے ہو۔ اور اسی درمیان کہ وہ دولتمند ہوتا ہے، تم نا گہاں اس کو فقیر دیکھتے ہو۔ اور اسی درمیان کہ بندہ ہنستا ہوا ہوتا ہے، تم اس کو روتا ہوادیکھتے ہو اور اسی درمیان کہ وہ خوش نظر آتا ہے تم اس کو رنجید ہ دیکھتے ہو ۔ اور اسی درمیان کہ وہ زندہ ہوتا ہے، تم اس کو مردہ دیکھتے ہو ۔ جس شخص نے غیر اللہ پر بھروسہ کیا ، یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی شے کا سہارا لیا۔ وہ تباہ و برباد ہو گیا۔
حکایت:۔ ایک شخص روزی کی تنگی کی وجہ سے بہت پریشان حال ہو گیا ۔ روزی کی تلاش میں اس کی تکلیف بہت بڑھ گئی ۔ وہ پریشان اور بدحواس ہو کر گھر سے نکلا ۔ اور سیدھا اپنے منہ کے سامنے روانہ ہو کر میدان اور جنگل میں پہنچا۔ اس کو ایک ویران گرتا ہوا مکان ملا۔ ہوا نے اس کا بالوادھر ادھر اڑا دیا تھا۔ اس مکان کی چہار دیواری کے اندر اس نے سنگ مرمر کا ایک مکان دیکھا۔ اس میں یہ حکمت کے اشعار لکھے ہوئے تھے:۔
لَمَّا رَأَيْتُكَ جَالِساً مُسْتَقِبِلاً أَيْقَنْتُ أَنَّكَ لِلْهُمُومِ قَرِيْنُ
جب میں نے تم کو سامنے بیٹھا ہوا دیکھا۔ تو میں نے یہ یقین کر لیا کہ تم فکر میں مبتلا ہو۔
مَا لَا يُقَدَّرُ لَا يَكُونُ بِحِيْلَةٍ اَبَدًا، وَمَا هُوَ كَائِنَّ سَيَكُونُ
جو کچھ مقدر نہیں ہے۔ وہ کسی تدبیر سے کبھی حاصل نہ ہوگا اور جو ہونے والا ہے۔ وہ عنقریب ہوکر رہے گا ۔
سَيَكُونَ مَا هُوَ كَائِنَّ فِي وَقْتِهِ وَاَخُو الْجَهَالَةِ مُتَعَبٌ مَخْرُوْنٌ
جو ہونے والا ہے وہ اپنے وقت پر ضرور ہوگا۔ لیکن جاہل پریشان اور رنجیدہ ہوتا ہے ۔
يَجْرِى الْحَرِيصٌ وَلَا يَنَالُ بِحِرْصِهِ شَيْئًا وَيَحْظَى عَاجِزٌ وَ مَهِينٌ
حریص دوڑ دھوپ کرتا ہے۔ لیکن اپنے حرص سے کچھ نہیں پاتا ہے ۔ اور عاجز اور کمزور بغیر محنت کے پالیتا ہے ۔
فَدَعِ الْهُمُومَ تَعَرَّ مِنْ اَثْوَابِهَاٍ إِنْ كَانَ عِنْدَكَ بِالْقَضَاءِ يَقِينُ
لہذا تم فکر کر نا ترک کر دو ۔ اور اس کے کپڑے اتار دو۔ اگر تم کو قضا و قدر پر یقین ہے ۔
هَوِّنْ عَلَيْكَ وَكُنْ بِرَبِّكَ وَاثِقًا فَآخُو الْحَقِيقَةِ شَانُهُ التَّهْوِينُ
آہستگی اختیار کرو۔ اور اپنے رب پر بھروسہ کردو۔ کیونکہ اہل حقیقت کی شان آہستگی اختیارکرنا ہے۔
طَرَحَ الْأَذَى عَنْ نَّفْسِهِ فِي رِزْقِهِ لِمَا تَيَقَّنَ إِنَّهُ مَضْمُونَ
اہل حقیقت نے اپنی روزی کے بارے میں اپنے اوپر سے محنت و مشقت کو دور کر دیا۔ کیونکہ انہوں نے یہ یقین کر لیا ۔ کہ روزی کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے لی ہے۔ اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے کرم اور اس کے احسان کی وسعت کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی عاجزی اور محتاجی کی طرف دیکھا۔ اس نے اپنی پیٹھ سے غم اور فکر کا بو جھ گرادیا۔ اور اپنے مولائے حقیقی کے علم اور نظر کو کافی سمجھ لیا۔