یہ دوسری دعا ہے کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ کی جوتالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
دوسری مناجات
اِلٰهِىْ أَنَا الْجَاهِلُ فِي عِلْمِي ، فَكَيْفَ لَا أَكُونَ جَاهِلًا جُهُولًا فِي جَهْلِي?
اے میرے اللہ ! جب میں اپنے علم کے حال میں جاہل ہوں تو میں اپنی جہالت و نادانی کے حال میں کیسے جاہل نادان نہ ہوں گا ؟
میں اپنے اس عارضی علم کے حال میں جو تو نے مجھ کو تعلیم دی ہے، جاہل ہوں۔ تو میں اس اپنی اس اصلی اور مقامی جہالت و نادانی کے حال میں کیسے جاہل نہ ہوں گا جس میں تو نے مجھ کو قائم کیا ہے؟
یا :۔ جب میں اس علم سے جو تو نے مجھ کو تعلیم دی ہے، اپنی نسبت کے حال میں جاہل ہوں تو میں اپنی اصلی اور مقامی جہالت کے حال میں کیسے جاہل نہ ہوں گا ؟
اور ربوبیت کے علم کے ساتھ عبودیت کے علم کی نسبت ایسی ہی ہے، جیسے کہ سمندر سے چڑیا اپنی چونچ میں پانی بھرے۔
جیسا کہ حضرت خضر نے حضرت سید نا موسی علیہ السلام سے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ وَمَا أَوْ تِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلاً اور تم لوگوں کو تھوڑ اعلم دیا گیا ہے
اور اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ اور وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے علم میں سے کسی شے کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے ہیں۔
اور تیسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- وَاللهُ اَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَا تِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًااور اللہ تعالیٰ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہیں جانتے تھے ۔
لہذا عارضی ( لاحق ہونے والا ) علم ، اصلی جہالت کو دور نہیں کر سکتا ہے یہ حکمت ، اور بشریت کی اصلیت کی طرف دیکھنے کے اعتبار سے ہے۔
لیکن روحانیت :۔ تو اس کی اصل بہت زیادہ سمجھنے والی علامت ہے کیونکہ وہ ربانی نمونہ ، اور نورانی لطیفہ ہے۔ لیکن اس کو بشریت کی کثافت اور طبیعت کی ظلمت نے چھپالیا ہے جیسا کہ مباحث کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے۔
فَلَمْ تَزَلْ كُلَّ نُفُوسِ الْأَحْيَا عَلَامَةٌ دَرَّاكَةٌ لِلْاشْيَا
وَإِنَّمَا تَحْجُبُها الابْدَانُ وَالأنفُسُ النَّزُعُ وَالشَّيْطَانُ
فَكُلُّ مَنْ آذَا قَهُمْ جِهَادَهُ أَظْهَرُ لِلْقَاعِدِ خَرْقِ الْعَادَهُ
زندہ لوگوں کی تمام روحیں ہمیشہ اشیاء کیلئے بہت بڑی سمجھنے والی علامت ہیں
اور ارواح کیلئے صرف اجسام اور بہکانے والے نفوس اور شیطان حجاب بنے ہوئے ہیں
لہذا جس شخص نے ان کو اپنے مجاہدے کا مزہ چکھایا، اس نے بیٹھنے والے کیلئے خرق عادت ظا ہر کیا
لہذا جو شخص اپنی اصلی محتاجی کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے وہ عارضی غنا سے سکون نہیں پاتا ہے اور جو شخص اپنی اصلی جہالت کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے اس کو اپنے فرعی علم سے سکون حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تمام امور اور تمام قلوب غنی و کریم مدبر وحکیم اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں ۔