شرح صدر
تصوف کی روشنی میں شرح صدر (یا انشراح صدر) ایک ایسی روحانی کیفیت ہے جس میں سالک کا سینہ حق کی پہچان، قبولیت اور مشاہدہِ الٰہی کے لیے مکمل طور پر کھل جاتا ہے ۔
ذرائع کے مطابق اس کے اہم پہلو درج ذیل ہیں:
1. لطیفہ صدر کی حقیقت: اولیاء اللہ کی اصطلاح میں “صدر” ایک روحانی لطیفہ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انوارِ الٰہی بندے کے بدن سے متصل ہوتے ہیں۔ یہ انوار “مبدأ فیاض” کی جانب سے نازل ہوتے ہیں اور تمام روحانی روشنیوں کا صدور اسی مقام سے ہوتا ہے۔
2. ایمان اور ہدایت کا ثمرہ: شرح صدر کا براہِ راست تعلق حصولِ ایمان سے ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کے دل میں روشنی پیدا فرما دیتا ہے، جس سے اس کا سینہ ایمان کے لیے کشادہ ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس، ہدایت سے محرومی کی علامت سینے کا تنگ ہو جانا ہے، جس میں حق کو قبول کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔
3. شرح صدر کی علامات و اثرات:
- اعمالِ صالحہ کی رغبت: شرح صدر کے نتیجے میں سالک میں ایسا روحانی ارتقاء ہوتا ہے کہ نیک اعمال اس کی عادت بن جاتے ہیں۔ سالک کو نیکی چھوڑنے سے دلی تکلیف ہوتی ہے اور گناہوں سے فطری نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
- تعلق مع اللہ اور بے نیازی: حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے مطابق، شرح صدر پانے والا صوفی کشادہ سینہ رکھتا ہے اور اللہ سے مضبوط تعلق کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔
- آخرت کی طرف رجوع: شرح صدر کی ایک بنیادی علامت یہ ہے کہ بندہ “دارِ غرور” (دنیا) سے کنارہ کش ہو کر “دارِ خلود” (آخرت) کی طرف رجوع کرتا ہے اور موت سے پہلے اس کی تیاری میں مشغول ہو جاتا ہے۔
4. حصول کا طریقہ: شرح صدر حاصل کرنے کے لیے تزکیہ نفس، مجاہدہ اور دوامِ ذکر (مسلسل ذکر) لازمی ہیں ، جب ذکرِ الٰہی کے ذریعے دل کے آئینے سے گناہوں اور دنیاوی خواہشات کا زنگ دور ہوتا ہے، تو وہ انوارِ الٰہی کے نزول کے لیے موزوں بن جاتا ہے اور سینہ کھل جاتا ہے۔
تمثیل: شرح صدر کی مثال ایک ایسی اندھیری کوٹھڑی کی ہے جس میں اچانک روشن چراغ (نورِ الٰہی) لا کر رکھ دیا جائے؛ جس طرح چراغ کے آنے سے کوٹھڑی میں موجود ہر چھوٹی بڑی شے واضح ہو جاتی ہے، اسی طرح شرح صدر کے بعد سالک پر حقائقِ اشیاء اور خیر و شر کے راستے بغیر کسی دلیل و تفکر کے واضح ہو جاتے ہیں ۔
سینہ کو کھول دینا یا کھل جانا، (مراد) حقیقت واضح کر دینا، نورِ ایمان سے سینہ کو بھر دینا، عالم بالا کے فیضان یا علم لدنی کے لیے طبیعت کو مستعد اور آمادہ بنا دینا، انشراح قلب
دل کا کھلا ہونا، شک و شبہ سے دور ہونا، فراخدلی (شاذ)
عربی زبان میں “ضیق الصدر” یعنی سینہ کا تنگ ہوجانا یعنی نفسیاتی دباو، ذہنی دباو، غم ، فکر، ملال اور قلق اور اس کا علاج شرح الصدر یعنی سینہ کا کھل جانا، موسیٰ علیہ السلام نے دعاء کی (رب الشرح لی صدری) یا اللہ میرا سینہ کھول دے یعنی میری لکنت دور فرمادے اور مجھے اس قابل فرمادے کہ میں فرعون کا سامنا کرسکوں، نبی اکرم (ص) کا انعام عطاء فرمایا گیا (الم نشرح لک صدرک)
اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ(1)
ترجمہ: کنزالعرفان
کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کشادہ نہ کردیا ؟
تفسیر: صراط الجنان
{اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ: کیا ہم نے تمہاری خاطر تمہارا سینہ کشادہ نہ کر دیا؟ } اس سورت کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک روز سرورِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بارگاہِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی:اے اللّٰہ ! عَزَّوَجَلَّ ،تو نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنا خلیل ہونے کا شرف عطا فرمایا،حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے ساتھ کلام کرنے سے سرفراز کیا،حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلند مکان جنت تک رسائی دی،پہاڑوں اور لوہے کو حضرت داؤد عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا فرمانبردار کر دیا،جِنّات،انسان اور تمام حیوانات حضرت سلیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے تابع کر دئیے، تومجھے کس شرف اور کرامت سے خاص فرمایا ہے؟اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں گویا کہ ارشاد فرمایا گیا ’’اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ، اگر ہم نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کواپنا خلیل بنایا ہے تو آپ کی خاطر ہم نے آپ کا سینہ علم و حکمت اور معرفت کے نور سے کھول دیا تاکہ مُناجات کی لذّت،امت کا غم،اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذوق اور آخرت کے گھر کا شوق آپ کے دل میں سما جائے،آسمانی وحی کو اٹھانا آپ کے دل پر آسان ہو جائے، اللّٰہ تعالیٰ کی طرف رغبت دینے کی تبلیغ کرنے پر آنے والے مَصائب کو برداشت کر سکے اور ان خوبیوں اور کرامتوں کی بدولت آپ کو وہ مقام حاصل ہو کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خلیل ہونے کو اس سے کچھ نسبت نہ رہے اور اگر ہم نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بلند مکان تک رسائی عطا کی ہے تو آپ کو اس غم سے نجات دی جو آپ کی پُشت پر بہت بھاری تھا اور آپ کو لامکاں میں بلا کر اپنے دیدار سے مشرف کیا یہاں تک کہ ہم میں اور آپ میں (ہماری شایانِ شان)دو کمانوں کے برابر بلکہ ا س سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور آسمانوں کی پوری سلطنت میں آپ کی قربت اور منزلت کا شہرہ ہو گیا۔اگر ہم نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دنیا کی چند چیزوں پر حکومت بخشی ہے تو آپ کو عالَمِ عُلْوی یعنی آسمانوں پر قدرت دی ہے کہ وہاں کے فرشتے خادموں کی طرح آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے سپاہیوں کی طرح آپ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اور آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کی نبوت و رسالت سے واقف نہ ہو اور آپ کے حکم سے اِنحراف کرے۔( روح البیان، الم نشرح، تحت الآیۃ: ۱۱، ۱۰ / ۴۶۵، الکلام الاوضح فی تفسیر الم نشرح، ص۱۴، ملتقطاً)
اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اللّٰہ تعالیٰ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
اصالتِ کُل، امامتِ کل، سیادتِ کل، امارتِ کل
حکومتِ کل ،ولایتِ کل ،خدا کے یہاں تمہارے لئے
فرشتے خِدَم رسول حِشم تمامِ امم غُلامِ کرم
وجود و عدم حدوث و قِدم جہاں میں عیاں تمہارے لئے
یہ طور کجا سپہر تو کیا کہ عرشِ عُلا بھی دور رہا
جہت سے ورا وصال ملا یہ رفعتِ شاں تمہارے لئے
مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ’’یعنی اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ، ہم نے آپ کی خاطر آپ کے سینۂ اقدس کو ہدایت ، معرفت،نصیحت، نبوت اور علم وحکمت کے لئے کشادہ اور وسیع کر دیا یہاں تک کہ عالَمِ غیب اور عالَمِ شہادت اس کی وسعت میں سما گئے اور جسمانی تعلقات روحانی اَنوار کے لئے مانع نہ ہوسکے اور علومِ لدُنّیہ ، حکمِ الہٰیہ ، معارفِ ربّانیہ اور حقائقِ رحمانیہ آپ کے سینۂ پاک میں جلوہ نُما ہوئے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ظاہری طور پر سینۂ مبارک کا کھلنا مراد ہے ۔اَحادیث میں مذکور ہے کہ ظاہری طور پر نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کے سینۂ مبارک کا کھلنا بھی بار ہا ہوا ،جیسے عمر مبارک کی ابتداء میں سینۂ اَقدس کھلا ، نزولِ وحی کی ابتداء کے وقت اور شبِ معراج سینہ مبارک کھلا اور اس کی شکل یہ تھی کہ حضرت جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے سینۂ پاک کو چاک کرکے قلب مبارک نکالا اور زریں طَشت میں آبِ زمزم سے غسل دیا اور نور و حکمت سے بھر کر اس کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔(خزائن العرفان، الم نشرح ، تحت الآیۃ:۱، ص ۱۱۱۰، خازن ، الم نشرح ، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۳۸۸، روح البیان، الم نشرح ، تحت الآیۃ:۱، ۱۰ / ۴۶۱-۴۶۲، ملتقطاً)
آیت ’’ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ‘‘ سے حاصل ہونے والی معلومات:
اس سے دو باتیں معلوم ہوئیں :
(1)…دنیا کی حقارت اور آخرت کے کمال کے علم سے سینے کا کھل جانا اللّٰہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ یَّهْدِیَهٗ یَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِۚ-وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّهٗ یَجْعَلْ صَدْرَهٗ ضَیِّقًا حَرَجًا كَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ‘‘(انعام:۱۲۵)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جسے اللّٰہ ہدایت دینا چاہتا ہے تو اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنا چاہتا ہے اس کا سینہ تنگ ،بہت ہی تنگ کردیتا ہے گویا کہ وہ زبردستی آسمان پر چڑھ رہا ہے۔
اورحضرت عبد اللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’ تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ نے عرض کی: اس کھولنے سے کیا مراد ہے؟ارشاد فرمایا:’’ اس سے مراد وہ نور ہے جو مومن کے دل میں ڈالا جاتا ہے جس سے اس کا دل کھل جاتا ہے۔عرض کی گئی: کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے اس کی پہچان ہو سکے؟ارشاد فرمایا:’’ہاں ،(ا س کی تین علامتیں ہیں )
(1)آخرت کی طرف رغبت
(2) دنیا سے نفرت ،
(3) موت سے پہلے آخرت کی تیاری۔( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الزہد، ما ذکر عن نبیّنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی الزہد ، ۸ / ۱۲۶، الحدیث: ۱۴)
(2)… حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اللّٰہ تعالیٰ کے ایسے حبیب ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بن مانگے ان کا مقدس سینہ ہدایت اور معرفت کے لئے کھول کر انہیں یہ نعمت عطا کر دی۔







