حقیقی تواضع (پچیسواں باب)

حقیقی تواضع کے عنوان سے پچیسویں باب میں  حکمت نمبر 239 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے کامل تواضع کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:-
239) لَيْسَ المُتَوَاضِعُ الَّذِي إِذَا تَوَاضَعَ رَأَى أَنَّهُ فَوْقَ مَا صَنَعَ ، وَلَكِنَّ المُتَوَاضِعَ الَّذِي إِذَا تَوَاضَعَ رَأَى أَنَّهُ دُونَ مَا صَنَعَ.
وہ شخص تواضع کرنے والا نہیں ہے کہ جب وہ تواضع اختیار کرے تو وہ یہ سمجھے کہ میر امر تبہ تواضع سے بلند ہے۔ بلکہ تواضع کرنے والا وہ شخص ہے، کہ جب وہ تواضع کرے تو سمجھے کہ میرا مرتبہ تواضع سے کمتر ہے ۔ (یعنی جیسی تو اضع مجھ کو کرنی چاہیئے تھی ویسے میں نے نہیں کی۔)
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ حقیقی تواضع :۔ وہ ہے۔ جو اس شخص سے ظاہر ہوتی ہے، جو کل اشیاء کو اپنے سے بہتر دیکھتا ہے۔ تو جب وہ ان کے ساتھ تواضع کرتا ہے، تو وہ یہ سمجھتا ہے، کہ وہ اس سے زیادہ تعظیم کی مستحق ہیں، جتنی میں نے کی ہے۔ اور یہ کہ میرا نفس اس سے زیادہ پست اور ذلیل ہے۔ جتنی میں نے تواضع کی ہے۔
اور تواضع کرنے والا :- وہ شخص نہیں ہے ، جو اپنے نفس کو دوسری اشیاء سے بہتر سمجھتا ہے کیونکہ ایسا شخص جب ان کے ساتھ تواضع کرتا ہے، تو وہ سمجھتا ہے۔ کہ میرا نفس اس تواضع سے بہتر ہے جو میں نے کی ہے۔ لہذا وہ شخص متکبر ہے۔ کیونکہ وہ اپنے نفس کے لئے ایسی تواضع ثابت کرتا ہے۔ جس کا وہ مستحق ہے۔ اور یہ حکمت، گویا کہ اپنے سے پہلے بیان کی ہوئی حکمت کی تشریح اور تکمیل ہے۔
حکایت :۔ حضرت جنید رضی اللہ عنہ کے استاد، حضرت شیخ ابوالحسن کر بنی رضی اللہ عنہ کو ایک شخص نے کھانے کے لئے تین مرتبہ دعوت دی ۔ جب وہ اس کے یہاں تشریف لے جاتے تو وہ ان کو واپس کر دیتا ہے۔ وہ پھر لوٹ کر اس کے یہاں تشریف لاتے۔ جب وہ چوتھی مرتبہ اس کے یہاں تشریف لائے۔ تو وہ ان کو اپنے گھر میں لے گیا۔ اور اس کے متعلق ان سے دریافت کیا کہ میں نے بار بار آپ کو واپس کیا۔ لیکن آپ پھر تشریف لائے ۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا :- میرانفس بیس سال سے ذلت ورسوائی کیلئے راضی ہو گیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ کتے کی طرح ہو گیا ہے۔ اس لئے جب وہ بھگا دیا جاتا ہے۔ تو بھاگ جاتا ہے۔ اور جب پھر بلایا جاتا ہے تو واپس آ جاتا ہے۔ اور اس کے سامنےہڈی پھینکی جاتی ہے۔ تو وہ اس کو قبول کر لیتا ہے۔ لہذا اگر تم مجھ کو پچاس مرتبہ واپس کرتے اور پھر بلاتے تو میں ضرور آتا ۔
حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :- ایک صوفی کے بارے میں بیان کیا گیا وہ ایک شخص کے پاس جو کھانا کھا رہا تھا، کھڑے ہو گئے ۔ اور اپنا ہاتھ اس کے سامنے پھیلا کر کہا:- اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ عطا کرو ۔ اس شخص نے کہا:- تشریف رکھیے اور میرے ساتھ کھائیے ۔ انہوں نے کہا:- آپ مجھ کو میرے ہاتھ میں دے دیجئے۔ اس شخص نے کھانا ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ اس جگہ کھاتے ہوئے بیٹھ گئے ۔ اس شخص نے ان سے اپنے ساتھ نہ بیٹھنے کا سبب دریافت کیا ۔ انہوں نے جواب دیا :- میرا حال اللہ تعالیٰ کے ساتھ ذلت اور عاجزی کا ہے۔ اور مجھے کو یہ پسند نہیں ہے، کہ میں اپنے اس حال کو چھوڑ دوں ۔
حضرت سہروردی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ میں نے اپنے شیخ حضرت ضیاء الدین ابو نجیب سہروردی رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ جبکہ وہ ملک شام کی طرف سفر کر رہے تھے ۔ اور میں ان کے ساتھ تھا۔ ایک اہل دنیا نے فرنگی قیدیوں کے سامنے ان کے لئے کھانا بھیجا۔ وہ سب اپنی بیڑ یوں میں بندھے ہوئے تھے۔ جب دستر خوان بچھایا گیا۔ تو حضرت نے خادم سے فرمایا:- فقرا کے ساتھ قیدیوں کو بھی کھانا کھلاؤ۔ لہذا خادم نے ان لوگوں کو لا کر ایک صف میں دستر خوان پر بٹھا دیا۔ پھر حضرت شیخ اپنے مصلے سے اُٹھے ، اور ان کے پاس آکر ان لوگوں کے ساتھ اس طرح بیٹھ گئے گویا کہ وہ بھی انہیں لوگوں میں سے ایک شخص ہیں۔ اور انہوں نے اور سب قیدیوں نے کھانا کھلایا۔ اللہ تعالیٰ کے لئے اُن کی تواضع ، اور اُن کے نفس کی انکساری ، اور فقرا اور قیدیوں کے ساتھ تکبر سے علیحدگی کی جو کیفیت ان کے باطن میں پیدا ہوئی ، وہ ہمارے سامنے اُن کے چہرہ مبارک پر نمایاں ومنکشف ہوئی۔
ایک عجیب حکایت حضرت شیخ فقیہ عبدالرحمن بن سعید با عمل فقہا و علماء میں سے تھے ۔ ایک دن وہ موسم سرما کی بارش میں چل رہے تھے ۔ کیچڑ بہت تھی۔ اسی درمیان اُن کے سامنے اُسی راستے پر چلتا ہوا ایک کتاآیا، جس راستے پر وہ چل رہے تھے ۔ جس شخص نے اُن کو اس حال میں دیکھا ہے ۔ اُس نے بیان کیا ۔ میں نے حضرت شیخ کو دیکھا، کہ وہ دیوار سے چمٹ کر کھڑے ہو گئے ۔ اور کتے کے لئے راستہ چھوڑ دیا۔ اور اُس کے گذرنے کا انتظار کرنے لگے۔ جب کتا اُن کے قریب پہنچا۔ تو جس جگہ وہ کھڑے تھے ، اُس کو چھوڑ کر اس سے نیچے اُتر گئے۔ اور کتے کے چلنے کے لئے اوپر کا راستہ چھوڑ دیا۔ دیکھنے والے شخص کا بیان ہے :۔ جب کتا اُن کے سامنے سے آگے بڑھ گیا۔ تو میں حضرت شیخ کے پاس آیا۔ میں نے ان کو اس حال میں دیکھا، کہ اُن کے جسم مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی ہے۔ میں نے شیخ سے کہا:- یا حضرت! آپ نے اس وقت جو حرکت کی ہے اس پر مجھ کو سخت حیرت اور تعجب ہے آپ نے اپنے کو کیچڑ میں کیسے ڈالدیا۔ اور کتے کے لئے راستہ چھوڑ دیا ، کہ وہ صاف ستھری جگہ میں چلے؟ حضرت شیخ نے مجھ کو جواب دیا:- جب میں کتے کے لئے راستہ چھوڑ کر دیوار سے چمٹ کر کھڑا ہوا۔ تو میں نے اپنے دل میں سوچا۔ میں نے اپنے آپ کو کتے سے بہتر سمجھا۔ اور اُس کے اوپر اپنی فوقیت ظاہر کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قسم، کتا مجھ سے بہتر اور بزرگی کا زیادہ حق ہے۔ کیونکہ میں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے۔ اور میں بہت بڑا گنہگار ہوں ۔ اور کتے کے پاس کوئی گناہ نہیں ہے اس لئے میں کتے کیلئے اپنی جگہ نیچے اتر گیا اور اُس کے چلنے کے لئے راستہ چھوڑ دیا۔ اور اب میں اللہ تعالیٰ سے اس بات کے لئے ڈرتا ہوں، کہ ایسانہ ہو کہ وہ مجھ کو معاف نہ کرے۔ کیونکہ میں نے اپنے کو اس سے بہتر سمجھا، جو مجھ سے بہتر ہے۔
اس واقعہ کو حضرت شیخ ابن عباد رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا ہے۔ بعض تو اضع مجاہدہ اور تصنع ہوتا ہے۔ اور وہ سائرین میں سے اہل یمین کا مجاہدہ ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں