نعمت کا اعتراف ہی شکر (اکیسواں باب)

نعمت کا اعتراف ہی شکر کے عنوان سےاکیسویں باب میں  حکمت نمبر 200 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے۔
200) لا تُدْهِشْكَ وَارِدَاتُ النِّعَمِ عَنِ القِيَامِ بِحُقُوقِ شُكْرِكَ ، فَإِنَّ ذَلِكَ مِمَّا يَحُطُّ مِنْ وُجُودِ قَدْرِكَ .
نعمتوں کا کثرت سے ملنا ہم کو اپنے شکر کے ساتھ قائم ہونے سے مدہوش اور غافل نہ کر دے۔ کیونکہ یہ مدہوشی اور غفلت ان چیزوں میں سے ہے، جو تم کو تمہارے مرتبہ سے گرا دیتی ہیں ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں ۔ اگر انسان اپنے نفس (ذات) میں اور اپنے نفس کے حاصل شدہ نعمتوں میں غور وفکر کرے۔ تو وہ اپنے کوظاہری اور باطنی نعمتوں میں ڈوبا ہوا پائے گا۔ لہذادہ ، دیکھنے کی نعمت سننے کی نعمت ہو لکھنے کی نعمت ، چکھنے کی نعمت ، بات کرنے کی نعمت عقل کی نعت ، دو ہاتھوں کی نعمت ، دو پاؤں کی نعمت ، تندرستی اور عافیت کی نعمت ، کفائت ( ضرورت کے مطابق ملنے ) کی نعمت ، اہل وعیال کی نعمت، اسلام کی طرف ہدایت کی نعمت میں ، پھر ایمان کی نعمت ، عبادت کی نعمت علم کی نعمت، پھر برادران طریقت کی نعمت :۔ جن سے وہ مدد طلب کرتا ہے، پھر سب سے بڑی نعمت شیخ کی نعمت ہیں۔ پھر ان نعمتوں میں جو موت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تیار کی ہیں۔ اور جن کی کوئی حدو انتہا نہیں ہے۔ غور وفکر کرے۔ تو جب وہ اپنے کو نعمتوں میں ڈوبا ہوا پائے۔ تو اس سے مدہوش اور غافل نہ ہو۔ اور ان کی شکر گزاری میں قائم ہونے سے اپنے اندر کمزوری نہ پیدا ہو نے دیں کیونکہ ان نعمتوں کا اس طریقے پر اعتراف اور اقرار کرنا، کہ بغیر کسی شک وشبہ کے قطعی یقینی طور پر وہ بغیر کسی واسطہ اور ذریعہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ۔ یہی ان کاشکر ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام:-
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ جو کل عالموں کا رب ہے۔
زبان سے شکر ادا کرنے کے لئے کافی ہے۔ کیا تم کو معلوم نہیں ہے کہ جنت سب سے بڑی نعمت ہے۔ اور جنت میں اہل جنت کا شکر
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ہوگا ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ وَاخِرُ دَعْوَاهُمْ آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ اور اہل جنت کی آخری پکار یہی ہوگی :- سب تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں ۔ جو کل عالموںکا رب ہے۔
بعض اخبار میں وارد ہوا ہے ۔ سید نا حضرت داؤد علیہ السلام نے عرض کیا :- اے میرے رب ! میں تیرا شکر کس طرح ادا کروں۔ جبکہ میں تیرا شکر ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہوں ۔ مگر یہ کہ تیری کل نعمتوں میں سے صرف ایک نعمت کا شکر ادا کروں۔ کیونکہ تیری نعمت مجھ پر شکر کو واجب کرتی ہے۔ اور شکر بھی ایک نعمت ہے، جو شکر کو واجب کرتا ہے۔ اسی طرح یہ سلسلہ غیر محدودو بے انتہا چلتا رہے گا۔ ایک شکر دوسرے شکر کو اور دوسرا شکر، تیسرے شکر کو واجب کرتا رہے گا ۔ لہذا شکر کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا ہے۔
اس مفہوم میں ایک عارف شاعر کے یہ اشعار ہیں ۔
إِذَا كَانَ شُكْرُ اللَّهِ لِلْعَبدِ نِعْمَةٌ عَلَيْهَا مِنَ اللَّهِ لَهُ يَجِبُّ الشَّكْرَ
چونکہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا بندے کے لئے نعمت ہے۔ لہذا اس نعمت کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا اس پر واجب
فكيف لَهُ بِالشُّكْرِ وَالشُّكْرُ نِعْمَةٌ لَو وَالَتِ الْأَحْقَابُ وَاتَّصَلَ الْعُمُرُ
تو اللہ تعالیٰ کا شکر کیسے ادا ہو سکتا ہے۔ جبکہ شکر ادا کرنا بھی ایک نعمت ہے۔ اگر چہ صدیاں گذر جائیں اور عمر دراز بھی حاصل ہو جائے ۔ اور ایک دوسرے عارف کا کلام ہے۔
لَكَ الْحَمْدُ مَوْلَانَا عَلَى كُلِّ نِعْمَةٍ وَ مِنْ جُمْلَةِ النَّعْمَاءِ قَوْلِى لَكَ الْحَمْدُ
ا ے ہمارے مولا! کل نعمتوں پر سب تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں۔ اور میرا لک الحمد کہنا بھی سب نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔
فَلَا حَمدَ إِلَّا أَنْ تَمُنَّ بِنِعْمَةٍ فسبحَانَكَ لَا يَقْوى عَلَى حَمْدِكَ الْعَبْدُ
لہذا حمد کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تو ایک نعمت کا احسان اور کر ے۔ پس تیری ذات پاک ہے۔ تیری حمد بیان کرنا اور تیرا شکر ادا کرنا، بندے کی قوت سے باہر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف پھر وحی بھیجی ۔ جب تم نے یہ پہچان لیا کہ سب نعمتیں میری ہی طرف سے ہیں۔ اور سب نعمتوں کا مالک صرف میں ہوں۔ تو تم نے میرا شکر اداکردیا۔ اور میں تم سے اس شکر پر راضی ہوں ۔
اور ایک دوسری روایت ہے :۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے عرض کیا ۔ انسان کے جسم میں ہر بال کے اوپر اور نیچے ایک ایک نعمت ہے۔ تو وہ اتنی نعمتوں کا شکر کیسے ادا کر سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نےان کی طرف وحی فرمائی: اے دادو میں دیتا ہوں ، بہت زیادہ ، اور راضی ہو جاتا ہوں ، بہت تھوڑے پر ، اور اتنی نعمتوں کا شکربس یہی ہے کہ تم یہ پہچان لو ۔ جتنی نعمتیں تمہارے پاس ہیں سب میری طرف سے تم کوملی ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کے ایک گورنر نے ان کے پاس لکھا ۔ میں ایک ایسے ملک میں ہوں ، جہاں نعمتوں کی کثرت ہے اور میں اپنے دل سے یہ ڈرتا ہوں کہ وہ شکر کے ادا کرنے میں کمی نہ کرے ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اس کو جواب لکھا :۔ میں تم کو اب جتنا دیکھتا ہوں اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا عالم سمجھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو نعمت عطا فرماتا ہے ۔ پھر بندہ اس اللہ تعالیٰ کا حمد و شکر کرتا ہے۔ تو یہ حمد وشکر اس کی نعمت سے افضل ہو جاتا ہے۔ اور تم کو اس کا علم اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن کریم سے حاصل کرنا چاہئے ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :- وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُدَ وَ سُلَيْمَانَ عِلْماً وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّنَا عَلَى كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ
اور بے شک ہم نے داؤ داور سلیمان کو علم عطا فرمایا۔ اور ان دونوں نے کہا :- سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں۔ جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی۔
اور دوسری جگہ فرمایا :- وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا وہ لوگ جو اپنے رب سے ڈرے۔ جنت کی طرف گروہ در گروہ لیجائے جائیں گے۔
پھر تیسری جگہ فرمایا :-
وقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي صَدَقْنَا وَعْدَهُ اور وہ لوگ کہیں گے :۔ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے ہم سے کئے ہوئے اپنے وعدے کو سچا کر دکھایا۔
اور جنت میں داخل ہونے سے بڑھ کر کون سی نعمت ہے۔ اور چونکہ سب نعمتوں سے افضل اور اشرف نعمت قلب کی دوا اور اس کا شفا پانا ہے۔ اس نفسانی خواہش کے مرض سے، جس نے اس کو غفلت کے قید خانے میں مقید کر دیا ہے۔ اور اس کو اس کے مولائے حقیقی کے غضب کے سامنے پیش کر دیا ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں