اللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدٍنَبِیِّ الرَّحْمَۃ ِیَا مُحَمّدُاِنِیّ اَتَوَجَّہُ بِکَ اِلٰی فِیْ ھٰذِہٖ لِتُقضیٰ اللّٰھُم فَشَفِّعْہُ فِیَّ (ترمذی شریف، ابن ماجہ شریف، مستدرک، صحیح ابن خذیمہ)
استفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ ذیل میں کہ زید موحد مسلمان جو خدا اور رسول کو جانتا ہے ، نماز کے بعد اور دیگر اوقات میں رسول ﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کلمہ یا ندا کرتا ہے اور ’’ اَلصَّلوٰ ۃُ وَالسَّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْ لَ اللّٰہِ اَ سْئَلُکَ الشَّفَا عَۃَ یَا رَسُوْ لَ اللّٰہِ‘‘ کہا کرتا ہے یا نہیں ؟ اور جو لوگ اسے اس کلمہ کی وجہ سے کافر و مشرک کہیں ان کا کیا حکم ہے ؟ بَیَّنُوْا بِالْکِتَابِ تُوْ جِرُوْا یَوْمَ الَحِسَابِ۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم
اَلحَمْدُ لِلّٰہِ وَکَفٰی وَالصَّلوٰ ۃُ وَالسَّلاَمُ عَلیٰ حَبِیْبِہِ الْمُصْطَفیٰ وَاٰ لِہٖ وَاَ صْحَا بَہٖ اُوْلیَ الصِّدْ قِ وَالصَّفَا۔
الجواب
کلمات مذکورہ بے شک جائز ہیں، جن کے جواز میں کلام نہ کرے گا مگر سفیہ جاہل یا ضال مضل، جسے اس مسئلے کے متعلق قدرے تفصیل دیکھنی ہو۔ شفاء السقام امام علامہ بقیۃ المجتہدین الکرام تقی الملہ والدین ابوالحسن علی سبکی و مواہب لدنیہ امام احمد قسطلانی شارح صحیح بخاری و شرح مواہب علامہ زرقانی و مطالع المسرات علامہ فاسی و مرقاۃ شرح مشکوۃ علامہ قاری ولمعات واشعۃ للمعات سروح مشکوۃ و جذب القلوب الی دیار المحبوب و مدارج النبوۃ ، تصانیف شیخ عبدالحق محدث دہلوی وافضل الفرٰی شرح ام القریٰ امام ابن حجر مکی و غیر ہا کتب و کلام علمائے کرام و فضلائے عظام رحمۃ العزیز العلام کی طرح رجوع لائے ۔ ’’اَلْاِ ھْلاَلُ بِغَیْضِ الْاَوْلِیَآءِ بَعْدَ الْوِصَالَ ‘‘کا مطالعہ کرے۔
یہاں فقیر بقدر ضرورت چند کلمات اجمالی لکھتا ہے۔ حدیث صحیح مذمل بطراز گراں بہائے تصحیح جسے امام نسائی و امام ترمذی و ابن ماجہ و حاکم و بیہقی وامام الائمہ ابن حزیمہ و امام ابو القاسم طبرانی نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے حسن غریب صحیح اور طبرانی و بیہقی نے صحیح اور حاکم نے بر شرط بخاری و مسلم صحیح کہا اور امام عبدا لعظیم منذری وغیر ہ ائمہ نقد و قصیح نے ان کی تصحیح کو مسلم و مقرر رکھا جس میں حضور اقدس سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک نابینا کو دعا فرمائی کہ بعد نمازیوں کہے:
اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَ تَوَ جَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّکَ مُحَمَّدُ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوجَّہُ بِکَ اِلیٰ فِیْ حَا جَتِیْ ھٰذِہٖ لِتُقْضیٰ اَللّٰھُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ۔
الہی ! میں تجھ سے مانگتا اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں بوسیلہ تیرے نبی محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کہ کر مہربان نبی ہیں ، یا رسول اﷲ ! میں حضور کے وسیلے سے اپنے رب کی طرف اس حاجت میں توجہ کرتا ہوں کہ میری حاجت روا ہو، الہی ان کی شفاعت میرے حق میں قبول فرما۔
(ابو عیسیٰ ترمذیؒ: ترمذی شریف ، محمدبن زید قزوینی ؒ: ابن ماجہ شریف ، امام حاکمؒ : مستدرک ، ابو بکر محمدبن اسحٰقؒ: صحیح ابن حزیمہ)
امام طبرانی کی معجم میں یوں ہے:
وَکَانَ عُثْمَانُ لاَ یَلْتَفِتُ اِلَیْہِ وَلاَ یَنْظُرُ فِیْ حَاجَتِہٖ فَلَقِیَ عُثْمَانُ بْنُ حَنِیْفٍ رَّضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فَشَکیٰ ذَالِکَ اِلَیْہِ فَقَالَ لَہُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِیْفٍ رَّضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اِئْتِ الْمِیْضَآءَ فَتَوَضَّا ثُمَّ اِئْتِ الْمسْجِد فِصِلِّ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قُلِ اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوَجَّہُ بِکَ اِ لیٰ رَبِّیْ فَیُقْضٰی حَا جَتِیْ وَ تَذْکُرْحَاجَتَکَ وَرُحْ اِلَیَّ اَرْوْحُ مَعَکَ ۔ فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ فَصَنَعَ مَا قَالَ لَہٗ ثُمَّ اِلیٰ باَبَ عُثْمَانَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فَجَآءَ الْبَوَّابُ حَتَّی اَخَذَہٗ بِیَدِہٖ فَاَدْ خَلَہٗ عَلیٰ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فَاْ جَلَسَہٗ مَعَہٗ عَلَی الطَّنْفَسَۃِ وَقَالَ مَا حَاجَتُکَ؟ فَذَکَرَ حَاجَتَہٗ فَقَضَا ھَا ثُمَّ قَالَ مَا ذَکَرْتَ حَاجَتَکَ حَتّٰی کَانَتْ ھٰذِہِ السَّاعَۃُ وَقَالَ ماَ کَانَ لَکَ مِنْ عِنْدِہٖ فَلَقِیَ عُثْمَانُ بْنُ حَنِیْفَ رَضِیَ اللّٰہُ
یعنی ایک حاجت مند اپنی حاجت کے لئے امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالی عنہ کی خدمت میں آتا جاتا، امیر المومنین نہ اس کی طرف التفات کرتے نہ اس کی حاجت پر نظر فرماتے ۔ اس نے عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالی عنہ سے اس امر کی شکایت کی ، انہوں نے فرمایا: وضو کر کے مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ ، پھر دعا مانگ !الہی میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف اپنے بنی محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے وسیلے سے توجہ کرتاہوں ، یا رسول اﷲ ! میں حضور کے توسل سے اپنے رب کی طر ف متوجہ ہوتا ہوں ، کہ میری حاجت روا فرمائے اور اپنی حاجت ذکر کر ، پھر شام کو میرے پاس آنا کہ میں بھی تیرے ساتھ چلوں ۔ حاجت مند نے (کہ وہ بھی صحابی یا اقل کبارتابعین سے تھے)یوں ہی کہا ، پھر آستان خلافت پر حاضر ہوئے، دربان آیا اور ہاتھ پکڑ کر امیرالمومنین کے حضور لے گیا،
فَقَالَ لَہٗ جَزَاکَ اللّٰہٗ خَبْراً مَاکَانَ یَنْظُرُ فَیْ حَاجَتِیْ وَ لاَ یَلْتَفِتُ اِلَیَّ حَتّٰی کَلَّمْتَہٗ فِیْ فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حَنِیْفٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ وَاللّٰہِ مَا کَلَّمْتَہٗ وَلٰکِنْ شَھِدتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعاَلیٰ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ اَتَاہُ رَ جُلٌ ضَرِیْرٌ فَشَکَا اِلَیْہِ ذِھَابَ بَصْرِہٖ فَقَالَ لَہٗ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ تَعاَلیٰ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ اِئْتِ الْمِیْضَاۃَ فَتَوَضَّاءَ ثُمَّ صَلّٰی رَ کْعَتَیْنِ ثُمَّ ادْعُ بِھٰذِہِ الدَّعْوَاتِ فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حَنِیْفٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فَوَاللّٰہِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِیْثَ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْنَا الرَّجُلُ کَاَنَّہٗ لَمْ یَکُنْ بِہٖ ضَرٌّ قَطُّ۔
;امیر المومنین نے اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا ، مطلب پوچھا ، عرض کیا، فوراً روا فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اتنے دنوں میں اس وقت تم نے اپنا مطلب بیان نہ کیا ، پھر فرمایا۔۔۔ جو حاجت وہاں سے نکل کر عثمان بنی حنیف رضی اﷲ تعالی عنہ سے ملے اور کہ اﷲ تعالیٰ تمہیں جزائے خیر دے۔ امیرالمومنین میری حاجت پر نظر اور میری طرف توجہ نہ فرماتے تھے یہاں تک کہ آپ نے ان سے میری شفارش کی، عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالی عنہ نے فرمایا: خدا کی قسم ! میں نے تمہارے معاملہ میں امیر المومنین سے کچھ بھی نہ کہا مگر ہوا یہ کہ میں نے سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا ۔ حضور کی خدمت اقدس میں ایک نابینا حاضر ہوا۔ نابینائی کی شکایت کی، حضورﷺ نے یونہی اس سے ارشاد فرمایا کہ وضو کر کے دو رکعت پڑھے پھر یہ دعا کرے، خدا کی قسم ! ہم اٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ باتیں ہی کر رہے تھے وہ ہمارے پاس آیا گویا کبھی اندھا نہ تھا۔
(مطبع امین کمپنی اردو بازاردہلی: ج۲، ص۱۹۷، احیاء التراث العربی:ج ا،ص۴۴۱، دارلفکر بیروت:ج ا، ص۵۱۹، امام طبرانی : معجم صغیر: ص۱۰۳)
امام طبرانی پھر امام منذری ہیں ، والحدیث صحیح امام بخاری کتاب الادب المفرد میں اور امام السنی و امام ابن شکوال روایت کرتے ہیں:
اِنَّ ابَنَ عُمَرَ رَضَیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْھُمَا خَدَ رَتْ رِجْلُہٗ فَقِیلَ لَہٗ اُذْکُرْ اَحَبَّ النَّاسِ اِ لَیْکَ فَصَا حَ یَا مُحَمَّدَ ا ہُ فَانْتَشَرَتْ۔
یعنی حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا پاؤں سو گیا ، کسی نے کہا: انہیں یاد کیجئے جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہیں، حضرت نے باآواز بلند کہا، یامحمد اہ! فوراً کھل گیا۔
•(محمد بن اسماعیل بخاری ، کتاب الادب مطبوعہ مکتبہ ص ۱۵۰ وَلَفْظُ الْبُخَارِیِّ ، ص ۱۹۳،خَدَرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ فَقَالَ لَہُ رَجُلٌ اُذْکُرْ اَحَبَّ النَّاسِ اِلَیْکَ فَقَالَ یَامُحَمَّدَ اَہُ،۱۲منہ)
امام نووی شارح صحیح مسلم رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے کتاب الاذکار میں اس حدیث کا مثل حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے نقل فرمایا : تو اس شخص کو یاد کر جو تمہیں سب سے زیادہ محبوب ہے، تو اس نے یَامُحَمَّدَ اہُ پکارا تو اس وقت سے یا محمداہ کہنے کی عادت چلی آتی ہے۔
علامہ شہاب الدین مصری نسیم الریاض شرح شفاء امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں:
ھٰذَامِمَّا تَعَاھَدَہٗ اَھْلُ الْمَدِیْنَۃِ۔
حضرت بلال بن الحارث مزنی سے قحط عام الرمادہ میں کہ خلافت فاروقی سنہ ۱۸ھ میں واقع ہوا، ان کی قوم بنی مزینہ نے درخواست کی کہ ہم مرے جاتے ہیں ، کوئی بکری ذبح کیجئے ۔ فرمایا: بکریوں میں کچھ نہیں رہا۔ انہوں نے اصرار کیا۔ آخر ذبح کی ، کھینچی تو نری ہڈی نکلی۔ یہ دیکھ کر بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ندا کی یَا مُحَمَّدَ ا ہُ ! پھر حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم نے خواب میں تشریف لا کر بشارت دی ’ذَکَرَہٗ فِی الْکَامِلِ‘‘۔
(شہاب الدین خفاجی، نسیم الریاض ، دارالفکربیروت، ج۳، ص۳۵۵)
امام مجتہد فقیہ اجل عبدالرحمن ہذلی کوفی مسعودی کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالی عنہ کے پوتے اور اجلہ تبع تابعین و اکابر ائمہ مجتہدین سے ہیں ، سر پر بلندٹوپی جس میں لکھا تھا مُحَمَّدٌ یَا مَنْصُوْرُ!اور ظاہر ہے کہ ’’ اَلْقَلَمُ اَحَدُلِّلسَانَیْنَ‘‘(ترجمہ )یا محمد اہ کہنا اہل مدینہ کا معمول تھا ۔ قلم دو زبانوں مین سے ایک ہے:
’’ رَاَیْتُ وَ عَلیٰ رَاْ سِہٖ قَلَنْسُوَ ۃٌ اَطْوَلُ مِنْ ذِرَاعٍ مَّکْتُوْب فِیْمَا مُحَمَّدٌ یَا مَنْصُوْرُ ذَکَرَہٗ فَیْ تَھْذِیْبِ التَّھْذِ یْبِ وَغَیْرِہٖ‘‘۔
میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنے سر پر ہاتھ سے بھی لمبی ٹوپی رکھتے تھے جس میں لکھا تھا ’’ مُحَمَّدٌ یَا مَنْصُوْر‘‘
(ابو عبد اﷲ محمد بن احمد، میزان الاعتدال ، دارالمعرفہ للطباعہ، بیروت ج۲، ص۵۷۴)
امام شیخ الاسلام شہاب رملی انصاری کے فتاویٰ میں ہے:
سُئِلَ عَمَّا یَقَعُ مِنْ الْعَامَّۃِ مِنْ قَوْلِھِمْ عَنْدَ الشَّدَآئِدِ یَا شَیْخَ فُلاَنٍ وَنَحْوَ ذٰلِکَ مَنَ الْاِسْتَغَاثَہِ بِا الْاَنْبِیَآءٍ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَالصَّالِحِیْنَ وَھَلْ لِلْمَشَاْئِخِ اِغَاثَہٌ بَعْدَ
یعنی ان سے استفتاء ہوا کہ عام لوگ جو سختیوں کے وقت انبیاء و مرسلین و اولیاء و صالحین سے فریاد کرتے ہیں اور یارسول اﷲ ﷺ، یا علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ، یاشیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ اور ان کے مثل کلمات کہتے
مَوْتِھَمْ اَمْ لاَ؟ فَاَ جَابَ بِمَانَصَّہٗ اَنَّ اْلاِ سْتَغَاثَۃَ بِالْاَنْبِیَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَالْاَوْلَیَاءِ وَالْعُلَمَآءِ الصَّالِحِیْنَ جَائِزَ ۃٌ وَللْانْبِیَآ وَالرُّسُلِ وَالْاَوْ لِیَاءِ وَلصَّالِحِیْنَ اَغَاثَہٗ بَعْدَ مَوْتِھِمْ۔۔۔الخ
‘ہیں ، یہ جائزہے یا نہیں اور اولیاء ؒبعد انتقال کے بھی مدد فرماتے ہیں یا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ بے شک انبیاء و مرسلین و اولیاء و علماء سے مدد مانگنی جائز ہے اور وہ بعد انتقال بھی امداد فرماتے ہیں۔
…(الشیخ حسن العدوی الحمزادی مشارق الانوار(المکتبہ اشرفیہ ، مصر)ص۵۹)
علامہ خیرالدین رملی استاذ صاحب در مختار فتاویٰ خیریہ میں فرماتے ہیں:
قَوْ لُھُمْ یَا شَیْخَ عَبْدِالْقَادِرِ نِدَ ا ءٌ فَمَا الْمُوْجِبُ لِحُرْ مَتِہٖ۔
لوگوں کا کہنا کہ یا شیخ عبدالقادر رحمۃ اﷲ علیہ یہ ایک ندا ہے ، بھی اس کی حرمت کا کیا سبب ہے؟
(علامہ خیرالدین رملی ، فتاویٰ خیریہ، مطبوعہ ارگ بازار قندھار ، افغانستان، ج۲،ص۲۸۲)
سیدی جمال بن عبداﷲ بن عمر مکی اپنے فتاویٰ میں فرماتے ہیں:
سُئِلْتُ عَمَّنْ یَّقُوْلُ فِیْ حَالِ الشَّدَ آئِدِ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اَوْ یَا عَلِیُّ اَوْیَا شَیْخَ عَبْدَالْقَادِرِ مَثَلاً ھَلْ ہُوَ جَائِزٌ شَرْ عًاَ امْ لاَ۔۔۔؟ اَجِبْتُ نَعَمْ اَلْاِسْتغَا ثَۃُ بِا لاْ َ نْبِیَآءِ وَنِدَاءُ وْ ھُمْ وَالتَّوَسُّلُ بِھِمْ اَمْرٌمَّشْرُوعٌوَ شَےْئیٌ مَّرْغُوْ بٌ لاَ یُنْکُرٗ اِلاَّ مُکَابِرٌ اَوْ مُعَانِدٌ وَقَدْ حَرُمَ بَرَ کَۃَ الْا َوْلِیَآءِ الْکِرَامِ۔۔۔ الخ
یعنی مجھ سے سوال ہو ا اس شخص کے بارے میں جو مصیبت کے وقت میں کہتا ہے یا رسول اﷲﷺ ، یا علی رضی اﷲ عنہ ، یا شیخ عبدالقادر رحمۃ اﷲ علیہ مثلاً!۔ آیا یہ شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ میں نے جواب دیا، ہاں! اولیاءؒ سے مدد مانگی اور انہیں پکارنا اور ان کے ساتھ توسل کرنا شرع میں جائز اور پسندیدہ چیز ہے جس کا انکار نہ کرے گا مگر ہٹ دھرم یا صاحب عناد اور بے شک وہ اولیاء کرامؒ کی برکت سے محروم ہے۔
امام ابن جوزیؒ نے کتاب عیون الحکایات میں تین اولیاء عظام کا عظیم الشان واقعہ بہ سند مسلسل روایت کیا کہ وہ تین بھائی سواران دلادر ساکنان شام تھے ، کہ ہمیشہ راہ خدا میں جہاد کرتے۔
فَاَ سَرَہٗ الرُّوْمُ مَرَّۃً فَقَالَ لَھُمْ الْمَلَکُ اِنِّیْ اَجْعَلُ فِیْکُمْ الْمُلْکَ وَاَزْوَاجُکُمْ بَنَاتِیْ وَتَدْ خُلُوْنَ فِیْ النَّصْرَانِیَّۃِ
یعنی ایک بار نصارائے روم انہیں قید کرکے لے گئے۔ بادشاہ نے کہا کہ میں تمہیں سلطنت دوں گا اور اپنی بیٹیاں تمہیں
فَاَبَوْا وَقَا لُوْا یَامُحَمَّدَاہُ۔
بیاہ دوں گا۔ تم نصرانی ہو جاؤ، انہوں نے نہ مانا اور ندا کی یا محمداہ۔
بادشاہ نے دیگوں میں تیل گرم کرا کر دو صاحبوں کو اس میں ڈال دیا، تیسرے کو اﷲ تعالیٰ نے ایک سبب پیدا فرما کر بچا لیا، وہ دونوں چھ مہینے کے بعد مع ایک جماعت ملائکہ کے بیداری ان میں کے پاس آئے اور فرمایا: اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تمہاری شادی میں شریک ہونے کو بھیجا ہے ۔ انہوں نے حال پوچھا ، فرمایا:
مَاکَانَتْ اِلاَّ الْغطْسَۃُ الَّتِیْ رَاَیْتَ حَتّٰی خَرَجْنَا فِی الْفِرْدُوْسِ۔
بس وہی تیل کاایک غوطہ تھا جو تم نے دیکھا ، اس کے بعد ہم جنت اعلیٰ میں تھے۔
امام فرماتے ہیں:
کَانُوامَشْھُوْرِیْنَ بِذَالِکَ مَعْرُوْفِیْنَ بِا لشَّامِ فِی الزَّمَنِ الْاَوَّلِ۔
یہ حضرات زمانہ سلف میں شام میں مشہور تھے اور ان کا یہ واقعہ معروف ہے۔
پھر فرمایا : شعراء نے ان کی منقبت میں قصیدے لکھے ، ازاں جملہ یہ بیت ہے:
سَیُعْطِیْ الصَّادِقِیْنَ بِفَضْلٍ صَدْقٍ نَجَاۃٍ فِی الْحَیٰوۃِ فِیْ الْمَمَاتِ۔
قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ سچے ایمان والوں کو ان کی سچائی کی برکت سے حیات و موت میں نجات بخشے گا۔
(جلال الدین سیوطی، امام: شرح الصدور :مطبوعہ خلافت اکیڈمی ، سوات ۔ص۸۹، ۹۰بحوالہ عیون الحکایات )
یہ واقعہ عجیب ، نفیس و روح پرور ہے ۔ میں بخیال تطویل اسے مختصر کر گیا، تمام و کمال امام جلال الدین سیوطی کی شرح الصدور میں ہے: ’’مَنْ شَآءَ فَلْیَرْجِعْ اِلَیْہِ‘‘یہاں مقصود اس قدر ہے کہ مصیبت میں ۔۔۔ یا رسول اﷲﷺ! کہنا شرک ہے تو مشرک کی مغفرت و شہادت کیسی اور جنت الفردوس میں جگہ پانی ، کیا معنی اور ان کی شادی میں فرشتوں کو بھیجنا کیونکر معقول؟ اور ان ائمہ دین میں یہ روایت کیونکر مقبول اور ان کی شہادت و ولادت کس وجہ سے مسلم رکھی اور وہ مردان خدا خود بھی سلف صالح میں تھے کہ واقعہ شہر طرطوس کی آبادی سے پہلے کا ہے ۔ ’’کَمَاَذَکَرَہُ الْاِمَامُ السُّیُوطِیُّ فَیْ تَارِیْخِ الْخُلَفَآءِ‘‘۔
(علامہ سیوطی فرماتے ہیں طرطوس کی تعمیر ابو مسلم نے کی،شرح الصدور عربی، ص۸۹،۱۲،۔۔۔قاری)
ہارون الرشید کا زمانہ زمانہ تابعین و تبع تابعین تھا تو یہ تینوں شہدائے کرام اگر تابعی نہ تھے لَااَقَلَّ تَبْعُ تَابِعِیْنَ سے تھے۔ وَاللّٰہُ الْھَادِیْ۔
حضور پر نور سیدنا غوث اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
مَنِ اسْتَغَاثَ نِیْ فَیْ کُرْبَۃٍ کُشِفَتْ عَنْہُ وَمَنْ نَّادٰی بِاسْمِیْ فِیْ شِدَّۃٍ فُرِجَتْ عَنْہُ وَمَنْ تَوَسَّلَ بِیْ اِلیَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فِیْ حَاجَۃٍ قَضِیَتْ لَہٗ وَمَنْ صَلَّی رَکَعَتَیْنِ یَقْرَئُو فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ بَعْدَ الفَاتِحَۃِ سُوْرَۃَالْاِخْلَا صِ اِحْدٰی عَشَرَۃَ مَرَّۃً ثُمَّ یَصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّم بَعْدَ الْاِسْلاَمِ وَیُسَلِّمُ عَلَیْہِ وَیَذْ کُرُنِیْ ثُمَّ یَخْطُوْاِلیٰ جِھَّۃِ الْعِرَاقِ اِحدٰی عَشَرَۃَ خُطْوَۃً یَّذْکُرْ فِیْھَا اِسْمِیْ وَیَذْ کُرْ حَاجَتَہٗ فَاِنَّھَا تُقْضٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ۔
یعنی جو کسی تکلیف میں مجھ سے فریاد کرے وہ تکلیف دفع ہو اور جو کسی سختی میں میرا نام لے کر ندا کرے وہ سختی دور ہو اور جو کسی حاجت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف مجھ سے توسل کرے وہ حاجت بر آئے اور جو دورکعت نماز اداکرے، ہر رکعت میں بعد فاتحہ کے سورہ اخلاص گیارہ بار پڑھے پھر سلام پھیر کر نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود بھیجے اور مجھے یادکرے ، پھر عراق شریف کی طرف گیارہ قدم چلے ، ان میں میرا نام لیتا جائے اور اپنی حاجت یاد کرے، اس کی وہ حاجت روا ہو۔ اﷲ کے اذن سے۔
اکابر علمائے کرام واولیاء عظام مثل امام ابوالحسن نورالدین علی بن لممی شطنوفی و امام عبداﷲ بن اسعد یا فعی مکی، مولانا علی قاری مکی صاحب مرقاۃ شرح مشکوۃ و مولانا ابوالمعالی محمد مسلمی قادری و شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی و غیر ہم رحمۃ اﷲ علیہم اپنی تصانیف جلیلہ بہجۃالاسرار و خلاصۃ المفاخرونزہۃ الخاطر و تحفہ قادریہ و زبدۃ الاثار وغیر ہا میں یہ کلمات رحمت آیات حضور غوث پاک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے نقل و روایت فرماتے ہیں :
یہ امام ابوالحسن نورالدین علی مصنف بہجتہ الاسرار شریف ، اعاظم علماء و ائمہ قرات و اکابر اولیاء و سادات طریقت سے ہیں ، حضور غوث الثقلین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تک صرف دو واسطے رکھتے ہیں۔ امام اجل حضرت ابو صالح نصر قدس سرہ سے فیض حاصل کیا، انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت ابو بکر تاج الدین عبدالرزاق نور اﷲ مرقدہ سے ، انہوں نے اپنے والد ماجد حضور پر نور سید السادات کتاب عظیم و شریف و مشہور ہے اور اس کے مصنف علماء قرات سے عالم معروف و مشہور اور ان کے احوال شریفہ(۱)کتابوں میں مذکورومسطور۔
(عبدالحق محدث دہلوی ،شیخ محقق: زبدۃالاثار، فارسی ، بکسلنگ کمپنی ، بمبئی ۱۳۰۴ھ،ص۲)
حضرت امام شمس الدین ذہبیؒ کہ علم حدیث واسماء الرجال میں جن کی جلالت شان عالم آشکار اس جناب کی مجلس درس میں حاضر ہوئے اور اپنی کتاب طبقات المقرئین میں ان کے مداح لکھے۔
حضرت امام محدث محمدبن الجزریؒ مصنف حصن حصین اس کے سلسلہ تلامذہ میں ہیں، انہوں نے یہ کتاب مستطاب بہجتہ الاسرار شریف اپنے شیخ سے پڑھی اور اس کی سند و اجازت حاصل کی۔
(عبدالحق محدث دہلوی ،شیخ محقق: زبدۃالاثار، فارسی ، بکسلنگ کمپنی ، بمبئی ۱۳۰۴ھ،ص۲)
ان سب باتوں کی تفصیل اور اس نماز مبارک کا دلائل شرعیہ و اقوال وا فعال علماء و اولیاء سے جلیل فقیر غفر اﷲ تعالیٰ کے رسالہ’’انہار الانوار من یم صلوۃ الاسرار‘‘ میں ہے ۔۔۔
فَعَلَیْکَ بِھَا تَجِدُ فَیْھَا یَشْفِی الصُّدُوْرَ وَیَکْشِفُ الْعَمٰی وَالْحَمْدُ لَلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔
حضرت امام عارف باﷲ سیدی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب مستطاب الواقع الانوار فی طبقات الاخیار میں فرماتے ہیں:
سیدی محمد غمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ایک مرید بازار میں جارہے تھے، ان کے جانور کا پاؤں پھسلا ، پکار ا یا سیدی محمد یا غمری، ادھر ابن عمر حاکم صعید کو بحکم سلطان چقمق قید کئے ہوئے لئے جارہے تھے، ابن عمر نے فقیر کاندا کرنا سنا، پوچھایہ سیدی محمد کون ہیں؟ کہا میرے شیخ، کہا میں ذلیل بھی کہتا ہوں ۔
یَاسَیِّدِیْ مُحَمَّدُ یَا غَمَرِیْ لاَ حِظْنِیْ
اے میرے سردار، اے محمد غمری مجھ پر نظر عنایت کر۔
ان کا کہنا کہ حضرت سیدی محمد غمری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تشریف لائے اور مدد فرمائی کہ بادشاہ اور اس کے لشکریوں کی جان پر بن گئی ، مجبورانہ ابن عمر کو خلعت دے کر رخصت کیا۔ (عبد الوہاب شعرانی امام: طبقات الکبریٰ مطبوعہ مکتبہ مصطفی، مصر،ج۲،ص۹۴)
اسی میں ہے:
سیدی شمس الدین محمد حنفی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے حجرہ خلوت میں وضو فرمارہے تھے ناگاہ ایک کھڑاؤں ہوا پر پھینکی کہ غائب ہوگئی حالانکہ حجرے میں کوئی راہ اس کے ہوا پر جانے کو نہ تھی۔ دوسری کھڑاؤں اپنے خادم کو عطا فرمائی کہ اسے اپنے پاس رہنے دے ، جب تک وہ پہلی واپس آئے، ایک مدت کے بعد ملک شام سے ایک شخص وہ کھڑاؤں مع اور ہدایاکے حاضر لایا اور عرض کیاکہ اﷲ تعالیٰ حضرت کو جزائے خیر دے،جب چور میرے سینے پر مجھے ذبخ کرنے بیٹھا ، میں نے اپنے دل میں کہا یا سیدی محمد یا حنفی! اس وقت یہ کھڑاؤں غیب سے آکر اس کے سینہ لگی کہ غش کھا کر الٹاہو گیااورمجھے بہ برکت حضرتِ موصوف یعنی حضرت شمس الدین محمد حنفیؒکی وجہ سے اﷲ عزوجل نے مجھے نجات بخشی۔(عبدالوہاب شعرانی، امام : طبقاب الکبریٰ ،مطبوعہ مکتبہ مصطفی، مصر،ج۲،ص۹۴)
اسی میں ہے:
الی ممدوح قدس سرہ کی زوجہ مقدسہ بیماری سے قریب مرگ ہوئیں تووہ یوں ندا کرتی تھیں ’’یَاسَیَّدِیْ اَحْمَدُ یَا بَدْوِیْ خَاطِرَ کَ مَعِیَ‘‘اے میرے سردار اے احمد بدوی، حضرت کی توجہ میرے ساتھ ہے۔ایک دن حضرت سیدی احمد کبیر بدوی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں دیکھا کہ فرماتے ہیں کب تک مجھے پکارے گی اور مجھ سے فریاد کرے گی تو جانتی نہیں کہ تو ایک بڑے صاحب تمکین (یعنی اپنے شوہر) کی حمایت میں ہے اور جو کسی ولی درگاہ میں ہوتا ہے ہم اس کی ندا ہر اجابت نہیں کرتے، یوں کہ یا سیدی یا حنفی! کہ یہ کہے گی تو اﷲ تعالیٰ تجھے عافیت بخشے گا۔ ان بی بی نے یونہی کہا، صبح کو خاصی تندرست اٹھیں ، گویا کبھی مرض نہ تھا۔
(عبدالوہاب شعرانی، امام : طبقاب الکبریٰ ،مطبوعہ مکتبہ مصطفی، مصر،ج۲،ص۹۴)
اسی میں ہے:
حضرت ممدوح رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے مرض موت میں فرمارہے تھے:
مَنْ کَانَتْ لَہٗ حَاجَۃٌ فَلْیَاتِ اِلیٰ قَبْرِیْ وَیَطلُبُ حَاجَتَہٗ اَقْضِھَا لَہٗ فَاِنَّ مَابَیْنِیْ وَبَیْنَکُمْ غَیْرَ ذِرَاعٍ مِّنْ تُرَابٍ وَکُلُّ رَجُلٍ یُحْجِبُہٗ عَنْ اَصْحَابِہٖ ذِرَاعٍ مِّنْ تُرَابٍ فَلَیْسَ بِرَجُلٍ۔
ƒجسے کوئی حاجت ہو وہ میری قبر پر حاضر ہو کر حاجت مانگے، میں روا فرمادوں گا کہ مجھ میں ، تم میں یہی ہاتھ بھر مٹی ہی تو حائل ہے اور جس مرد کو اتنی مٹی اپنے اصحاب سے حجاب میں کردے وہ مرد کا ہے کا؟
‘(عبدالوہاب شعرانی، امام : طبقاب الکبریٰ ،مطبوعہ مکتبہ مصطفی، مصر،ج۲،ص۹۴)
اسی طرح حضرت سیدی محمد بن احمد فرغل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے احوال شریفہ میں لکھا:
کَانَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ یَقُوْلُ اَنَا مِنَ الْمُصَرِّفِیْنَ فِیْ قُبُوْرِھِمْ فَمَنْ کَانَتْ لَہٗ حَاجَۃٌ فَلْیَاْتِ اِلیٰ قُبَالَۃِ وَجْھِیْ وَیَذْ کُرُھَالِیْ اَقْضِھَاَ لَہٗ۔
فرمایا کرتے تھے، میں ان میں ہوں جو اپنی قبور میں تصرف فرماتے ہیں جسے کوئی حاجت ہومیرے پاس چہرہ مبارک کے سامنے حاضر ہو کر مجھ سے اپنی حاجت کہے، میں روا فرمادوں گا۔
a(عبدالوہاب شعرانی، امام : طبقاب الکبریٰ ،ج۲،ص۹۴)
اسی میں ہے:
مروی ہے کہ ایک بار حضرت سیدی مدین ابن احمد اشمونی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ وضو فرماتے ہیں۔ ایک کھڑاؤں بلاد مشرق کی طرف پھینکی ، سال بھر کے بعد ایک شخص حاضر ہوئے اور وہ کھڑاؤں ان کے پاس تھی ، انہوں نے حال عرض کیا۔۔۔ کہ جنگل میں ایک بد وضع نے ان کی صاحبزادی پر دست درازی چاہی۔ لڑکی کو اس وقت اپنے باپ کے پیرو مرشد حضرت سیدی مدین کا نام معلوم نہ تھا ، یوں ندا کی: یاشیخ ابی لاحظنی !اے میرے باپ کے پیر مجھے بچائیے۔یہ ندا کرتے ہی وہ کھڑاؤں آئی ، لڑکی نے نجات پائی، وہ کھڑاؤں ان کی اولاد میں اب تک موجود ہے۔ (عبدالوہاب شعرانی، امام : طبقاب الکبریٰ ،ج۲،ص۹۴)
حضرت شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی ، اخبار الاخیار شریف میں ذکر مبارک حضرت سید اجل شیخ بہاء الحق و الدین بن ابراہیم وعطاء اﷲ الانصاری القادری الشطاری الحسینی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میں حضرت ممدوح کے رسالہ مبارک شطاریہ سے نقل فرماتے ہیں:
ذکر کشف ارواح یا محمد یا احمد ! درودوطریق است بگوید و دردل ضرب کند یا رسول اﷲ!طریق دوم آنست کہ یا احمد را در راست گوید و چپا یا محمد و دردل وہم کندیا مصطفی۔ دیگر ذکریا ا حمد یا علی یاحسن یا حسین یا فاطمہ شش طرفی ذکر کند کشف جمیع ارواح شود دیگر اسمائے ملائکہ مقرب ہمیں تاثیر دارند یا جبرئیل ، یامیکائیل ،یا اسرافیل یاعزرائیل چہار ضربی، دیگر ذکر اسم شیخ یعنی بگوید، یاشیخ یاشیخ ہزارباربگوید کہ حرف نداراازدل بکشد طرف راستابردولفظ شیخ رادردل ضرب کند۔(شاہ عبدالحق محدث دہلوی: اخبار الاخیار، مطبوعہ مکتبہ رحیمیہ دیوبند، ص۳۰۵)
حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی صاحبؒ انتباہ فی سلاسل اولیاء اﷲ میں قضائے حاجت کے لیے ایک ختم کی تر کیب یوں نقل کرتے ہیں:
’’اول دو رکعت نفل بعد ازاں یک صدویا زدہ درودبعد ازاں یک صدو یازدہ بار کلمہ تمجید و یک صد و یازدہ بارشَیْاءً لِلّٰہِ یَا شَیْخ عَبْدُالْقَادِر جَیْلَانِیْ‘‘۔
(اول دو رکعت نفل کہ بعد ایک سو گیارہ مرتبہ درود شریف پڑھے، پھر ایک سو گیا رہ مرتبہ کلمہ تمجید پڑھے۔ پھر ایک سو گیارہ مرتبہ پڑھے شَیْاءً لِلّٰہِ یَا شَیْخ عَبْدُالْقَادِر جَیْلَانِی)۔
اسی انتباہ سے ثابت کہ یہی شاہ صاحب اور ان کے شیخ استاذ حدیث مولانا طاہر مدنی جن کے خدمت میں مدتوں رہ کر شاہ صاحب نے حدیث پڑھی اور ان کے شیخ و استاذ والد مولانا ابراہیم کر دی اور ان کے استاذ مولانا قشاشی اور ان کے استاذ مولانا احمد شناوی اور شاہ صاحب کے استاذ الاستاذ مولانا احمد نخلی ، کہ یہ چاروں حضرات بھی شاہ صاحب کے اکثر سلاسل حدیث میں داخل اور شاہ صاحب کے پیرو مرشد شیخ محمد سعید لاہوری جنہیں انتیباہ میں’’شیخ معمر ثقہ‘‘ کہ اور اعیان مشائخ طریقت سے گنا اور ان کے پیر شیخ محمد اشرف لاہوری اور ان کے شیخ مولانا عبدالملک اور ان کے مرشد شیخ بایزید ثانی اور شیخ شناوی کے پیر حضرت سید صبغتہ اﷲ بروحی اور ان دونوں صاحبوں کے پیر و مرشد مولانا وجیہ الدین علوی شارح ہدایہ شرح وقایہ اور ان کے شیخ حضرت شاہ محمد غوث گوالیاری علیہم رحمتہ الملک الباری۔
یہ سب اکابر ناد علی کی سندیں لیتے اور اپنے تلامذہ و مستفیدین کو اجازتیں دیتے اور یاعلی یاعلی کا وظیفہ کرتے، وﷲ الحجتہ السامیہ ، جسے اس کی تفصیل دیکھنی ہو فقیر کے رسالہ انہار الانوار وحیاۃ الاموات فی بیان سماع الاموات کی طرف رجوع کرے۔
شاہ عبدالعزیز صاحب بستان المحدثین میں حضرت ارفع و اعلیٰ امام العلماء نظام الدین اولیاء حضرت سیدی احمد زروق مغربی قدس سرہ استاذحضرت امام شمس الدین القانیؒ و امام شہاب الدین قسطلانیؒ شارح صحیح بخاری کی مدح عظیم لکھی کہ وہ جناب ابدال سبعہ و محققین صوفیہ سے ہیں۔ شریعت و حقیقت کے جامع، باوصف علو باطن ان کی تصانیف علوم ظاہری میں بھی نافع و مفید و بکثرت ہیں، اکابر علماء فخر کرتے تھے کہ ہم ایسے جلیل القدر عالم و عارف کے شاگرد ہیں۔ یہاں تک کہ لکھا:
’’بالجملہ مردے جلیل القدرے ست کہ مرتبہ کمال او فوق الذکراست‘‘
پھر اس جناب جلالت ماب کے کلام پاک سے دو باتیں نقل کیں کہ فرماتے ہیں:
اَنَالِمُرِیْدِیْ جَامِعٌ لِشَتَاتِہٖ
اِذَا مَا سَطَا جَوْرُ الزَّمَانِ بِنَکْبَۃٍ
وَ اِنْ کُنْتَ فَیْ ضَیْقٍ وَّ کَرْبٍ وَّوَحْشَۃٍ
فَنَادِبِیاَ زَرُوقُ ٰاتِ بِسُرْعَۃٍ
x یعنی میں اپنے مرید کی پریشانیوں میں جمیعت بخشنے والا ہوں جب ستم زمانہ اپنی نحوست سے اس پر تعدی کرے اور تو اگر تنگی و تکلیف و وحشت میں ہو تو یو ں ندا کر، یا زروق!میں فوراً آموجود ہوں گا۔
(شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، بستان المحدثین: مطبوعہ سعید کمپنی ، کراچی ، ص ۳۲۵)
علا مہ زیادی صاحبؒ تصانیف کثیرہ مشہورہ ، پھر علامہ داؤدی محشی شرح منہج ، پھر علامہ شامی صاحب ردالمحتار حاشیہ دارالمختار گمشدہ چیز ملنے کے لیے فرماتے ہیں کہ بلندی پر جاکر حضرت سیدی احمد بن علو ان بمینی قدس سرہ کے لیے فاتحہ پڑھے پھر انہیں ندا کرے کہ یا سیدی احمد یا ابن علوان، شامی مشہورو مغرب کتاب ہے، فقیر نے اس کے حاشیہ کی یہ عبارت اپنے رسالہ حیاۃ المواب کے ہامش تکملہ پر ذکر کی۔ (ابن عابد ین الشامی، علامہ: ردالمختار، مطبوعہ دارالکتب العربیہ الکبریٰ ، مصر۔ج۳، ص۳۵۵)
غرض !یہ صحابہ کرام سے اس وقت تک کے اس قدرائمہ و اولیاء وعلماء ہیں جن کے اقوال فقیر نے ایک ساعت قلیلہ میں جمع کیے۔ اب مشرک کہنے والوں سے صاف صاف پوچھنا چاہیے کہ عثمان بن حنیف و عبد اﷲ بن عباس عبداﷲ بن عمر صحابہ کرام رضی اﷲ تعا لیٰ عنہم سے لے کر شاہ ولی اﷲ و شاہ عبد العزیز صاحب اور ان کے اساتذہ و مشائخ تک سب کو کافر و مشرک کہتے ہو کہ نہیں؟ اگر انکار کریں تو الحمد ﷲ ہدایت پائی اور حق واضح ہو گیا اور۔۔۔ بے دھڑک ان پر کفر و شرک کا فتویٰ جاری کریں تو ان سے اتنا کہئے کہ اﷲ تمہیں ہدایت کرے ذرا آنکھیں کھول کر کہ تُوکیا کہہ رہا ہے اور کسے کہہ رہا ہے اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآاِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘اورجان لیجئے کہ جس مذہب کی بناء پر صحابہ سے لے کر اب تک کے اکابر سب معاذا ﷲ مشرک و کافرٹھہریں وہ مذہب خدا و رسولﷺ کا کس قدر دشمن ہو گا۔
صحیح حدیثوں میں آیا کہ جو کسی مسلمان کو کافر کہے خود کافر ہے اور بہت ائمہ دین نے مطلقاً اس پر فتویٰ دیا ہے جس کی تفصیل فقیر نے اپنے رسالہ ’’ اَلنَّھیُ الْاَکِیْدُ عَنِ الصَّلوٰۃ وَرَاء عَدی التَّقْلِیْد‘‘ میں ذکر کی۔ہم اگرچہ بحکم احتیاط تکفیر کریں تاہم اس قدر کلام نہیں کہ ایک گروہ ائمہ کے نزدیک یہ حضرات کہ یارسول اﷲﷺ ویا علیؓ و یاحسین ؑو یاغوث الثقلین ؒکہنے والے مسلمانوں کو کافر و مشرک کہتے ہیں ، خود کافر ہیں تو ان پر لازم ہے کہ نئے سرے سے کلمہ اسلام پڑھیں اور اپنی عورتوں سے نکاح جدید کریں۔
در مختار میں ہے: مَافِیْہِ خِلاَ فٌ یُّوْ مَرُ بِا لْاِ سْتِغْفَارِ وَ التَّوْ بَہِ وَ تَجْدِیْدِ النِّکَاحِ ۔
فائدہ: حضور سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ندا کرنے کے عمدہ دلائل سے ’’ التحیات‘‘ ہے جسے ہر نمازی ہر نماز کی دو رکعت پر پڑھتا ہے اور اپنے نبی کریم علیہ افضل الصلوٰۃ والتسلیم سے عرض کرتا ہے۔ ’’ اَ لَسَّلاّمُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ وَرَ حْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَ کَا تُہٗ ۔ سلام حضورﷺ پر اے نبی ! اور اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں۔
اگر ندا معاذ اﷲ شرک ہے تو یہ عجیب شرک ہے کہ عین نماز میں شریک و داخل ہے۔ ’’ وَلاَ حَوْ لَ وَلاَ قُوَّۃَ اِ لاَّ بِا للّٰہِ الْعَلِیِّ العَظِیْمُ‘‘ اور یہ جاہلانہ خیال محض باطل کہ التحیات زمانہ اقدس سے ویسے ہی چلی آتی ہے تو مقصود ان لفظوں کا ادا ہے نہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ندا ، حاشاو کلا شریعت مطہرہ نے نماز میں کوئی ذکر ایسا نہیں رکھا جس میں صرف زبان سے لفظ نکالنے چاہییں اور معنی مراد نہ ہوں، نہیں نہیں بلکہ قطعاً یہی درکار ہے کہ’’اَلتَّحِِیَّا تُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ‘‘ سے حمد الہیٰ کا قصدر رکھنے ۔۔۔اور ’’ اَ لَسَّلاَمُ عَلَیْکَ اَ یُّھَا النَّبِیُّ وَرَ حْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَ کَا تُہٗ ۔‘‘ سے یہ اراد ہ کرے کہ اس وقت میں اپنے نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو سلام کرتا ہوں اور حضور سے بالقصد عرض کر رہا ہوں کہ سلام حضورﷺ پر اے نبی اور اﷲ کی رحمت اس کی رحمت اور اس کی برکتیں ۔ فتاویٰ عالمگیری میں شرح قدوسی سے ہے:
لاَ بُدّاَنْ یَّقْصُدَ بِاَلْفَاظِ التَّشَھُّدِ مَعَا نِیْھَا الَّتِیْ وُضِعَتْ لَھَا مِنْ عِنْدِہٖ کَاَّنَہٗ یُحْیِ اللّٰہُ تَعَالیٰ وَ یُسَلِّمُ عَلیَ النَّیِّ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ عَلیٰ نَفْسِہٖ وَ عَلیٰ اَوْلِیَآءِ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ (فتاویٰ عالمگیر ی ، مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ، ج ا، ص۷۲) تنویر الابصار اور اس کی شرح در مختار میں ہے:
(وَیَقْصُدُ بِاَلْفَاظِ التَّشَھُّدِ) (مُعَانَیْھَا مُرادُہٗ لَہٗ عَلیٰ وَجْہِ الْاِنْشَاءِ) کَاَ نَّہٗ یُحْیِی اللّٰہُ تَعَالیٰ وَ یُسَلِّمُ عَلیٰ نَبِیِّہٖ وَعَلیٰ نَفْسِہٖ وَ اَوْ لِیَاءِ ہٖ (لاَ الْاَ خْبَار)عَنْ ذَالِکَ ذَکَرَہٗ فِیْ الْمُجْتَبیٰ۔(تنویر الابصار مع دزردالمحتار م مطبوعہ بیروت ، ج ا، ص ۳۴۲)
پیغمبراسلام صلی اﷲ علیہ وسلم کا مسلمانوں سے رابطہ
مسلمانوں کو حضور سید عالم ، فخر موجودات، نبی رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات والاصفات سے جو شغف اور تعلق روحانی ہے ، دنیا میں اس کی کوئی نظیر نہیں۔
عہد صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے آج تک مسلمان اپنے اس خصوصی کردار میں ممتاز رہے ہیں کہ دنیا کی کوئی قوم اپنے رہنما سے وہ عشق اور شیفتگی نہیں رکھتی جو اہل اسلام کو اپنے پیغمبر صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سارے مسلمان دل وجا ن سے ان پر شید اور مجازی معنی میں نہیں حقیقی معنی میں ان کا کلمہ پڑھتے ہیں، ان کو اپنے روحانی کرب و اضطراب کا مسیحا تصور کرتے ہیں اور جسمانی دردو الم کا مرہم سمجھتے ہیں۔ خلوت و تنہائی ہو یا جلوۃ و انجمن ، مسرت ہو یا رنج و محن، وہ ہر عالم میں ان کو پکارتے ہیں اور ان کے نام کا نعرہ لگاتے ہیں، انہیں تصور میں اپنے پاس پاتے ہیں تو انہیں خطاب کرتے ہیں اور ان سے التجا اور فریاد کرتے ہیں۔
اور اس عالم میں چودہ صدیوں کے دبیز پردے ، ہزاروں میل کی مسافتیں ، شجر وحجر ، بحروبر ، موت و حیات اور شہود وغیاب کے حجاب ہیچ اور درماندہ ہوتے ہیں کہ، بعد منزل نہ بودورسفر روحانی۔۔۔یا
اے غائب از نظر کہ شدی ہم نشین دل
می بینمت عیاں و دعاء می فرستمت
(نگاہوں سے غائب اور دل میں پوشیدہ میں تجھ کو علی الاعلان دیکھ رہا ہوں اور دعا بھیج رہا ہوں )
شرک نظر آتا
جب کہ بعض حضرات کو اس خطاب و ندا استغاثہ فریاد سے سخت وحشت ہوتی ہے، وہ اس کو اسلام کی تعلیمات کے سخت خلاف، بلکہ شرک و کفر تک کہا کرتے ہیں ۔
اس غلط فہمی کی اصل وجہ یہ ہے کہ خطاب کے سلسلہ میں عام گمان یہ ہے کہ جو سامنے ہوتو اسی کو ہم پکاریں اور جس کو دیکھ رہے ہوں اسی کو خطاب کریں اور آواز دیں ، حالانکہ یہ کلمہ نہ عقلاً درست ہے اور نہ نقلاً ۔
ندا وخطاب کا اصول
حقیقت امریہ ہے کہ جس شخص کو یہ بھروسہ ہو کہ میرا مُخاطَب میرے خطاب و ندا کو سنتا ہے یا اس سے مطلع ہو جائے گا وہ بلا جھجک اس کو قریب اور دور اور غیبت و حضور سے پکارے گا۔ خواہ اس طرح کہ اس کی آواز میں اتنی طاقت ہو کہ وہ اپنی آواز دور دراز سے پہنچا سکے ، خواہ اس طرح کہ سننے والے کے کان میں اتنی طاقت ہو کہ وہ دور دراز کی آواز سن سکتا ہو ، خواہ اس طرح کہ اس کا پیغام کوئی لے جا کر مخاطب تک پہنچا دے۔
ان تینوں ہی صورتوں کی مثالیں عالم روحانیت اور عالم محسوسات دونوں ہی میں موجود ہیں۔ ہر آدمی روزانہ اپنے رشتہ داروں ، دوستوں اور ملنے والوں کو سینکڑوں خطوط، ساری دنیا کے بے شمار مقامات پر روانہ کرتا ہے اور ٹھیک اسی طرح خطاب کرتا ہے۔ جیسے آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کر رہے ہوں اس اعتماد پر کہ ڈاک کا محکمہ اس کو مخاطب تک پہنچا دے گا ۔
عام الرماد میں فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا خط
عام الرماد میں جب کہ مدینہ مقدسہ اور اس کے ماحول کو ایک بھیانک قحط نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ نے مصر میں اپنے گورنر حضرت عمر و بن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو ایک خط لکھا :
اَمَّا بَعْدُ فَلِعُمْرِیْ یَا عَمْرُ تَبَّالِّیْ اِذَا اِشْبَعْتَ وَمَنْ مَّعَکَ اِنْ اَھْلَکَ اَنَا وَمَنْ مَّعِیَ فَیَا غَوْثاَہُ فَیَاغَوْثَاہُ فَیَاغَوْثَاہُ
بعد حمدو صلوۃ کے اے عمروؓ! جب آپؓ اورآپؓ کے ساتھی آسودہ حال ہیں توآپؓ کو اس کی پرواہ نہیں کہ میں اور میرے ساتھ ہلاک ہو جائیں فوراً مدد کو پہنچیں ، فوراً مدد کو پہنچیں۔
عالم مادیات میں یہ تیسری صورت کی مثال ہوئی کہ پیغام رسانی پر اعتماد کر کے خطاب و ندا ہوئی۔
(۲) انسان کے گلے سے آواز کو جو لہریں نکلتی ہیں اتنی تحیف و ناتواں ہوتی ہیں کہ فرلانگ دو فرلانگ بھی ان کا پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔
ریڈیو اور ندائے غیر اﷲ :
لیکن جب انہیں لہروں کو ’’ریڈیو اسٹیشن ‘‘ برقی اور ریڈیائی لہروں میں تبدیل کر دیتا ہے، تو ان میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ ہوا کے دوش پر سوار سارے عالم میں گردش کرتی رہتی ہیں اور پوری فضا ان سے معمور رہتی ہے ، لیکن پھر انہیں لہروں کو ہوا کی لہروں میں تبدیل ہو کر ہمارے کانوں کی سماعت کے لائق ہونے کے لئے ’’ ریڈیو سیٹ‘‘ کی مقناطیسی طاقت درکار ہوتی ہے جس سے ہم اب بکھری ہوئی آوازوں کو گرفتار کرتے اور سنتے ہیں۔
اس انتظام کے بعد ایک آدمی دنیا کے انتہائی کناروں سے دوسرے کنارے کے انسانوں کو خطاب کرتا ہے۔ بلکہ سارے عالم کے انسانوں کو پکارتا ہے اور انہیں اپنا پیغام سناتا ہے جیسے وہ قریب بیٹھ کر اس کا ایک ایک لفظ سن رہے ہیں۔ اس مثال کو اگر ’’ریڈیو اسٹیشن ‘‘ کی طرف دیکھئے تو ہماری بیان کی ہوئی صورتوں میں پہلی صورت کی مثال ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنی آواز اتنی طاقتور بنالی ہے کہ ایک جگہ بیٹھ کر سارے عالم کو اپنی آواز پہنچا سکے اور اگر’’ریڈیوسیٹ‘‘ کی طرف سے مشاہدہ کیا جائے تو یہ اس امر کی مثال ہے کہ ایک شخص نے مقناطیسی طاقت کی مدد سے اپنے کان اتنے طاقتور بنا لیے ہیں کہ دنیا کے کسی گوشہ میں رہ کر پوری دنیا کی آواز سن سکے۔اس امر کا کوئی استعجاب نہیں کہ میں اتنی دور دراز کے لوگوں کو خطاب کر رہا ہوں، نہ سننے والے ہی حیرت و افکار کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اتنی دور سے آواز کیوں دے رہا ہے۔
فاروق اعظم رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی ندائے غائبانہ :
عالم روحانیت میں پہلی صورت کی مثال حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاوہ واقعہ ہے جس میں آپؓ نے مسجد نبوی کے ممبر سے سیکڑوں میل دور لڑتے ہوئے حضرت ساریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو مقام ’’ نہاوند‘‘ میں خطاب کیا جسے امام جلال الدین سیوطی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ نے حسب ذیل الفاظ میں نقل فرمایا ہے:
اَخْرَجَ الْبَیْھَقِیْ وَاَبُوْ نُعَیْمٍ کِلآ ھُمَا فِیْ دَلاَ ئِلِ النُّبُوَّۃِ وَالاَّ لکَا ئِی فِیْ شَرْ حِ السُّنَّۃِ وَابْنُ الْعَرَبِیِّ فِیْ کَرَامَاتِ الْاَوْلِیَاءِ وَالْخَطِیْبُ رَوَاہُ مَالِکٌ عَنْ نَّافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ وَجَھَرَ عُمَرُ جَیْشاً وَ رَاسٌ عَلَیْہِ رَجُلاً یَّدق عِیْ سَارِیَۃً فَبَیْنَا عُمَرُ یَخْطُبُ جَعَلَ یَنَادِیْ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَدَمَ رَسُوْلُ الْجَیْشَ سَاَ لَہٗ عُمَرَ فَقَالَ یَا اَمِیْرَ الْمُوْمِنِیْنَ ھَزَمْنَا فَبَیْنَا نَحْنُ کَذَالِکَ اِذْ سَمِعْنَا مَوْ تاً یُّنَادِیْ یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ ثَلاَ ثاً وَاَسْنَدْ نَا ظُھُوْرَنَا اِلیَ الْجَبَلِ نَھَرَ ھُمُ اللّٰہُ وَقَالَ قِیْلَ لِعُمَرَ اِنَّکَ کُنْتَ یَفْتَعُ بَذٰلِکَ وَذَالِکَ الْجَبَلُ الَّذِیْ کَانَ سَارِیَۃٌ عِنْدَہٗ بَنِھَاوَنْدَ مِنْ اَرْضِ الْعَجَمِ قَالَ ابْنُ حَجَرٍ فِیْ الْاِصَا بَۃِ اِسْنَادٌہٗ حَسَنٌ۔(تاریخ الخلفاء، ص۸۵)
بیہقی اور ابو نعیم نے دلائل النبوہ الکائی نے شرح السنہ ابن عربی نے کرامات اولیاء میں اور خطیب نے مالک ، انہیں
نے نافع ، انہوں نے حضرت ابن عمرؓ سے روایت کیا کہ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک لشکر پر ساریہؓ کو امیر بنا کر روانہ کیا تو ایک دفعہ حضرت عمرؓ خطبہ دے رہے تھے کہ پکارنے لگے ’’ اے ساریہؓ !پہاڑ ‘‘ تین بار پکارا کچھ دنوں کے بعد ساریہؓ کے پاس سے قاصد آیا اور اس نے بیان کی کہ ہم شکست کھا رتھے کہ ہم نے ایک آواز تین بار سنی کہ ’’ اے ساریہ!پہاڑ‘‘ تو ہم نے پہاڑ کو اپنی پثت کے پیچھے کر لیا اور اﷲ نے دشمنوں کو شکست دے دی، تب لوگوں نے حضرت عمرفاروق ؓ سے کہا کہ اسی لیے اس روز آپ ؓساریہؓ کو چیخ چیخ کر بلا رہے تھے اور وہ پہاڑ تو بہت دور عجم کے شہروں میں تھا۔ ابن حجرؒ نے کتاب اصابہ میں اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے۔
غوث پاک کا صدائے غائبانہ سننا اور مدد کوپہنچنا
(۲)اور دوسری صور ت کی مثال وہ روایت ہے جس کو امام ابوالحسن نورالدین علی ابن یوسف نے اپنی کتاب بہجتہ الاسرار میں مندرجہ ذیل سند کے ساتھ بیان کیا ہے:
اَخْبَرَنَا اَبُو الْعَفَافِ مُوْسَی بْنُ عُثْمَانَ الْبُقَاعَ بِا لْقَا ھِرَۃِ ۶۶۲ھ قَالَ اَخْبَرَنَا وَالِدِیْ بِدِ مَشْقَ قَالَ اَخْبَرَنَا الشَّیْخَانُ اَبُوْ عَمْرٍو عَثْمَانَ الصَّرِیْفِیْنِیْ وَاَبُوْ مُحَمَّدٍعَبْدُالْحَقِّ الْحَرِیْمِیِّ بِنُغْدَادَ سَنَۃَ ۵۵۹ھ قَالَ کُنَّا بَیْنَ یَدِیِ الشَّیْخ مُحْیِ الدِّینَ عَبْدُالْقَادِرِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بِمَدْ رَسَۃِ یَومَ الْاُحُدِ ثَالَثْ صَفَرَ ۵۵۵ھ
}ہم ابو العفاف موسیٰ بن عثمانؒ نے قاہرہ میں ۶۶۳ھ میں بتایا کہ ان کے والد ؒنے دمشق میں یہ خبر دی تھی کہ مجھ سے یہ واقعہ دو بزرگوں ابو عمرؒو عثمانؒ اور ابو محمد عبدالحقؒ ۵۵۹ھ میں بغداد میں بیان کیا کہ ہم دونوں غوث پاک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے مدرسے میں ۵۵۵ھ میں صفر کی تیسری تاریخ اتوار کے دن حاضرتھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔
واقعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ عجم کے کسی دور دراز علاقہ میں کسی جنگل کے اندر ایک قافلہ کو ڈاکوؤں نے لوٹ لیا ، اس وقت قافلہ والوں نے آپس میں مشورہ کیا:
قُلْنَا لَوْ تَذَکَّرْنَا الشَّیْخَ عَبْدَالْقَادِرِ فِیْ ھٰذَا الْوَقْتِ وَنَذَرْ نَالَہٗ شَیْئاً اِنْ سَلَّمْنَا۔
ہم نے کہا: اگر ہم اس وقت غوث پاک کو یاد کرتے اور اگر ان بلاسے سالم و محفوظ رہتے تو انہیں کچھ نذر کرتے۔
(بہجتہ الاسرار)
آپؒ نے بغداد میں رہ کر ان کی فریاد سن لی اور اپنی کھڑاؤں ان کی سرکوبی کے لیے فضا میں اچھال دیا اور ہیبت ناک نعرہ مارا جس کی آواز جنگل میں سنی گئی ۔ کھڑاؤں نے وہاں پہنچ کر ڈاکوؤں کے سردار کو مارا ڈالا اور ڈاکوؤں نے ڈر کر لُوٹا ہوا مال واپس کر دیا۔
اس تاریخی واقعہ میں دونوں صورتوں میں مثالیں ہیں۔ آپؒ نے اس مظلوم کی آواز دور سے سن لی اور اپنی آواز اتنی دور جنگل میں پہنچا دی۔ (جاری ہے۔)
ایک شبہ ازالہ
یہاں بھی بعض حضرات کو یہ وسوسہ لا حق ہوتا ہے کہ نماز کے قعدہ میں مسلمان رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اے نبی کہہ کر خود خطاب نہیں کرتا، بلکہ اس مخاطبہ کی نقل اور حکایت کرتا ہے جو معراج میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے پروردگار میں ہوا تھا۔ اس لیے ائمہ اعلام اور اساطین اسلام کی تشریحات سے اس امر کو ثابت کرتے ہیں کہ نماز کا یہ خطاب صرف حکایت اور نقل ہی نہیں ہے ، خاص نبی کریم علیہ افضل الصلوہ التسلیم کو یہ سمجھ کر خطاب کرنا ہے کہ وہ سن رہے ہیں اور جواب دیں گے چنانچہ در مختار اور فقہ حنفی کی ایک معتبر کتاب ہے اس میں تحریر ہے:
یَقْصُدُ بَاَلْفَاظِ التَّشَھُّدَ مُعَانِیْھَا مُرَادُہٗ لَہٗ عَلٰی وَجْہِ الْاِنْشَاءِ کَاَنَّہٗ یُحْیِ اللّٰہُ وَ یُسَلِّمُ عَلیٰ نَبِیِّہٖ وَعَلیٰ نَفْسِہٖ وَاَوْلِیَآئِہٖ۔
( الفاظ تشہد سے اس کے معنی مراد لیے یعنی وہ خود رب العالمین کو تحیۃ بھیج رہا ہے اور اپنے پیغمبر کو سلام کر رہا ہے اور مسلمان اور اولیاء کرام کو بھی۔
C (درمختار ، جلد اول ، ص۳۵)
محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :
’’و بعضے ازعرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریاں حقیقت محمدیہ است در ذوائر موجودات و افراد ممکنات، بس آنحضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است، پس مصلی راباید کہ ازایں معنی آگاہ باشدوازیں شہودوغافل نہ بود تابانوار قرب و اسرار معرفت متنوروفائز گردد۔ (اشعتہ اللمعات جلد اول، ص۴۱۶)
کچھ عرفاء کہتے ہیں کہ یہ خطاب اس وجہ سے ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے ذروں اور ممکنات کے افراد میں ساری ہے ۔ پس آنحضرت مصلیوں کی ذات میں موجودو حاضر ہیں تو مصلیوں کو چاہیے کہ اس معنی سے غافل نہ رہیں اور قرب کے انوار اور معرفت کے بھید سے روشن اور کامیاب ہوں۔
حجتہ الاسلام حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وَاَحْضِرْ فَیْ قَلْبِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ شَخْصَہُ الْکَرِیْمَ وَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ وَیُصَدِّقُ اَمْلَکَ فِیْ اَنَّہٗ یُبَلِّغُہٗ وَیَرُدُّ مَا ھُوَ دَنیٰ مِنْہُ۔ (احیاء العلوم ، جلد اول ، ص۱۰۷)
” اپنے دل میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حاضر کرو اور کہو کہ سلام ہو آپ پر اے نبی ار اﷲ کی رحمت اور اس کی برکت ہو اور یہ سچی امید رکھے کہ سلام حضور تک پہنچ رہا ہے اور وہ مناسب جواب دے رہے ہیں۔
عہد رسالت میں قریب سے ندائے یا رسول اﷲ
اس امر کے ثبوت کے لیے یہ بتادینا کافی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا طرز خطاب ہی یہی تھا۔ کبھی کچھ عرض کرنا ہو تو یارسول اﷲ ، کچھ طلب کرنا ہو تا یارسول اﷲ، کسی بات کا جواب دینا ہو تو رسول اﷲ، سلام کرنا ہو تو یا رسول اﷲ الغرض!صحابہ کرام نے آیت شریف ’’ لَا تَجْعَلُوْ اَلْاٰیَۃ‘‘کے حکم کو اپنا حرز جان بنا لیا ار عام طور سے سرکارابد قرار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسی طرح خطاب کرتے تھے۔
ہم نے اس نقطہ نظرسے بخاری شریف کا یک سرسری جائزہ لیا تو صرف دو پاروں میں چون بار آپ کا نام نامی اسی ادب و احترام سے خطاب یا رسول اﷲ کے ساتھ مذکور ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف ایک کتاب بخاری میں لگ بھک آٹھ سو مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو لفظ’’یا‘‘ کے ساتھ مخاطب کیا گیا اور ندادی گئی، اسی سے دیگر کتاب احادیث اور صحابہ کرام کے ایک عام طرز عمل کا اندازہ ہو سکتا ہے، بلکہ میرا دعویٰ تو یہ ہے کہ انسان یہ نہیں شجر و حجر، خشک وتر کا بھی انداز خطاب یہی تھا۔
عَنْ بِرَّ ۃَ بِنْتَ اَبِیْ تَجْرَاۃٍ قَالَتْ اِنَّ رَسُوْل اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلِّمَ حِیْنَ اَرَادَاللّٰہُ کَرَامُۃً وَاِبْتِدَاء بِالنُّبُوَّۃِ کَانَ اِذَا خَرَجَ لِحَا جَتِہِ الْعَدَّ حَتّٰی لَا یُرٰی بَیْتًا وَیَقْفِی الشِّعَابَ وَبُطُوْنَ الْاَوْدِیَۃِ فَلَا یَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلاَ شَجَرٍ اِلاَ قَالَتْ
Óبرہ بنت ابی تجراہ کہتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کے پروردگار نے جب نبوۃ سے سرفراز فرمانا چاہا اور نبوت کی ابتداء ہوئی تو آپ ضروریات کے لیے آبادی سے دور چلے جاتے اور گھاٹیوں اور وادیوں سے گزرتے تو کسی درخت اور
÷اَ لسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَانَ یَلْتَفِتُ مِنْ یَّمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ وَخَلْفِہٖ فَلاَ یُرٰی اَحَدٌ۔
Õپتھر کے پاس سے گزرے تو وہ کہتا سلام ہو آپ پر یارسول اﷲ! آپ آگے پیچھے دائیں دیکھتے تو کسی کو نہ پاتے۔
3 (مستدرک لحاکم،جلد۴، ص۷۰)
عہد رسالت میں دور سے صدائے یا رسول اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام
یہ حدیث شریف امام نسائی، امام ترمذی، ابن ماجہ نے تخریج کی اور امام بیہقی اور حاکم نے روایت کی اور اس کی تصحیح اس طرح دو اماموں نے اس حدیث کو صحیح کہا اور صحاح ستہ میں سے تین کتابوں میں یہ حدیث مذکور ہے:
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَنِیْفٍ اَنَّ اَعْمٰی قَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّکْشِفَ لِیْ عَنْ بَصَرِیْ قَالَ فَانْطَلَقَ فَتَوَضَّآ ثُمَّ صَلِّ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قُلِ اللّٰھّمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَ تَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیَّ مُحَمَّدٍ نَبِیَّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوَجَّہُ بِکَ اِلیٰ رَبِّہٖ اَنْ یَّکْشِفَ عَنْ بَصَرِیْ اَللّٰھُمَّ شَفِّعْہُ فِیَ قَالَ فَرَجَعَ وَقَدْ کَشَفَ اللّٰہُ عَنْ بَصَرِہٖ۔
(شفائے قاضی عیاض، جلد۱،ص۲۷۳)
ä عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اندھے نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اﷲ! آپ اﷲ پا ک سے دعا کیجئے کہ وہ میری آنکھ کھول دے ۔ آپ نے فرمایا: جاؤ وضو کرو، دورکعت نماز پڑھو، پھر یہ دعا مانگو، اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا وہں اور تیری بارگاہ میں تیرے نبی رحمت کے وسیلہ سے توجہ کرتاہوں، اے محمد! میں آپ کو آپ کے رب کی بارگاہ میں وسیلہ سے لاتا ہوں کہ میری آنکھ کھل جائے یا اﷲ ! ان کی سفارش میرے بارے میں قبول فرمالے ، تو وہ اس حال میں لوٹا کہ اس کی آنکھ روشن ہو گئی۔
¦ ابن ماجہ نے اپنی سنن کے باب الصلوۃ الحاجتہ میں یہ حدیث ذکر کر کے یہ تحریر کیا: قَالَ اِسْحَاقُ ھٰذَاالْحَدِیْثُ صَحِیْحٌ ابواسحاق کا قول ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ، اس کی سند میں امام الحسن محمد بن الہادی حنفی ہے۔
فِیْہِ جَوَازُ النِّدَآءِ بِاِسْمِہٖ فِیْ مَقَامِ التَّشَفُّعِ بِہٖ لِاَنَّ الْمَقَامَ یُؤَدِّیْ بِہٖ مِنِ التَّعْظِیْمِ مَا یُؤَ دِّیْ ذَکَرَہٗ بَالْقَلْبِ وَفِیْہِ اِحْضَارُہٗ فِیْ اِثْنَاءِ الدُّ عَآءِ وَالْخِطَاب
J حدیث مذکور میں حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام سے ندا جائز ہے جب کہ حضور سے سفارش کا مقام ہو کیونکہ اس طرح مقام حضور کو تعظیم کے اس مرتبہ پر پہنچا دے گا
ِ مَعَہٗ فِیْہِ جَآئَزٌ کَاِحْضَارِہٖ فِیْ اَثْنآءِ الصَّلٰوۃِ وَالْخِطَابِ فِیْہِ۔
(ابن ماجہ ، جلد اول، ص۴۱۹)
Mجس پر قلب سے ذکر کرنے پر پہنچا دے گا۔ اس طرح دعا اور حضور سے خطاب کے درمیان حضور کو حاضر کرنے کا جواز معلوم ہوا ۔ جس طرح نماز کے درمیان سے خطاب میں حاضر کرنا جائز ہے۔
gاس حدیث عظیم و جلیل صحیح و رجیح کا سیاق و سباق اور اس کے متعدد الفاظ مثلاً’’ اِنْطَلَقَ جَآءَ‘‘ اور’’ثُمَّ رَ جَعَ‘‘ پکارپکار اعلان کر رہے ہیں کہ یہ دعا دور سے پڑھ کر اپنی حاجت روائی کی درخواست کی گئی ۔ نماز پڑھ کر حضور کے پاس آکر ’’یَامُحَمَّدُ اَنِّیْ اَتَوَجَّہُ بِکَ اِلیٰ رَبِّکَ‘‘ پرھنے کی تلقین کی۔
اس عالم کی آواز برزخ میں پہنچتی ہے:
(۳) رہ گئی تیسری صورت کی مثال کہ روحانی ذریعہ سے کوئی کسی کی بات دوسرے تک پہنچائے تو یہ اتنی واضح ہے کہ صرف مسلمان کے لیے ہی نہیں، کافروں تک کے لیے اس کا ذکر احادیث کریمہ میں ہے:
وَمَامِنْ مَّیِّتٍ یَّمُوْتُ فَیَقُوْمُ بَا کِیْھِمْ فَیَقُوْلُ وَاجَبَلاَہُ وَاسَیِّدَاہُ وَنَحْوَ ذٰلِکَ اِلاَّ وَکَّلَ اللّٰہُ بِہٖ مَلَکَیْنِ
Ð کافر کے مرنے کے بعد جب اس کے رشتہ دار اس کو واجبلاہ واسیداہ کہہ کر روتے ہیں تو اﷲ پاک دو فرشتے اس پر
_یُلْھِزَانِہٖ وَ یَقُوْ لاَنِ اَھٰکَذَا کُنْتَ۔
(مشکوۃ ص ۱۵۶)
مقرر فرماتا ہے جو اس کو ٹھونگے مار مار کر کہتے ہیں کہ کیا ایسا ہی سردار اور پہاڑ تھا۔
j الغرض !عالم مادیات ہو یا عالم روحانیت ہر جگہ اطلاع و آگاہی اورنداوخطاب کی یہ تینوں قسمیں جاری و ساری ، متداول ور معمول بہا ہیں جس کا انکار زیادتی مکابرہ ہے، یہی ہٹ دھرمی اور تعصب ہے۔ اب نہ صرف یہ واضح کرنا رہ گیا ہے کہ خاص بارگاہ رسالت جناب نبی کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم میں بھی اطلاع و آگاہی کے یہ تینوں طریقے وقوع پذیر اورمعمول بہاہیں یا نہیں تو الحمد ﷲ! کہ احادیث کریمہ میں ان کی تفاصیل بھی موجود ہیں اور مشہور و مقبول ہیں۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام سب کے سلام کا جواب دیتے ہیں:
قاضی عیاض رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حدیث ذکر فرمائی:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالیٰ عَلَیہِ وَ سَلَّمَ قَالَ مَا مِنْ اَحَدٍ یُّسَلِّمُ عَلَیَّ
ßحضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے سید عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی۔ آپ نے فرمایا: جو بھی مجھ
“ اِلاَّ رَدَّ اللّٰہُ عَلَی رُوْحِیْ حَتّٰی اَرُدَّ عَلَیْہِ السَّلاَمُ۔
(شفائے ، قاضی عیاض، ص۶۹، ۷۰)
à پر سلام بھیجتا ہے تو اﷲ میری روح مجھ پر لوٹاتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔
þ وَ عَنِ الْحَسَنِ عَنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَصَلُّوْا فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ تُبَلِّغُنِیْ۔
(شفائے قاضی عیاض ، ص۶۹،۷۰)
J حضرت حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے تم جہاں ہو وہیں سے مجھے درود بھیجو کہ تمہارا درود مجھ تک پہنچ جاتاہے۔
” ان احادیث کریمہ میں اس امر سے قطع نظر کہ رد روح سے حدیث نبوی ﷺمیں کیا مراد ہے؟ یہ امر بالکل واضح ہے کہ حضورﷺہر سلام کرنے والے کا جواب دیتے ہیں قریب سے سلام کرے یا دور سے، بلند آواز سے سلام کرے یا پست آواز سے اور درودوسلام ان کی بارگاہ عظمت میں پہنچتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خود سن لیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ فرشتے پہنچاتے ہوں۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام تک درودوسلام پہنچائے جاتے ہیں:
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ اِنَّ لِلّٰہِ مَلٰٓئِکَۃٌ سَیَّاحِیْنَ فِی الْاَرْضِ یُبَلِّغُونَ عَنْ اُمَّتِی اَ لسَّلامُ (شفائے قاضی عیاض، ص۶۹)عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ لَیْسَ اَحَدٌ مِّنْ اُمَّۃِ مُحَمَّدٍ یُّسلِّمُ عَلَیْہِ اِلاَّ بَلَغَہٗ۔ (شفائے قاضی عیاض، ص۷۰)وَعَنِ ابْنِ شِھَابٍ بَلَغَنَا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلِمَ قَالَ اَکْثِرُوْا مِنَ الصَّلوٰۃِ عَلَیَّ فِیْ اللَّیْلَۃِ الزَّھْرآءِ وَالْیَوْمِ الْاَزْھَرِ فَاِنَّھُمَا یُوْدِّ یَانِ عَنْکُمْ وَاِنَّ الْاَرْضَ لَا ثَا
کُلُ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ وَمَا مِنْ مُّسْلِمٍ یُّسَلِّمُ عَنْ حَمْلِھَا مَلَکٌ حتّٰی یُؤْ دِّ یَھَا اِلَیَّ وَیُسَمِّہِ حَتّٰی اَنَّہٗ لِیَقُوْلَ اِنَّ فُلاَ ناً یَّقُوْلُ کَذَاوَکَذَا۔
(شفائے قاضی عیاض، ص۷۰)
¦ حضرت ابن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اﷲ کے کچھ فرشتے عالم میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام میری بارگاہ تک پہنچاتے ہیں۔ حضر ت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں امت محمدیہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جو فرد بھی آپﷺ پر سلام بھیجتا ہے تو وہ آپﷺ پر پیش کیا جاتا ہے۔ امام زہری رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنی بلاغات میں حضور ﷺکا یہ قول ذکر کیا کہ سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روشن دنوں اور منور راتوں میں مجھ پر درود بھیجا کرو تمہارے درود مجھ تک پہنچائے جاتے ہیں اور زمین پیغمبروں کے جسم کو کبھی نہیں کھاتی اور جو مسلمان بھی مجھے سلام کرتا ہے، فرشتے اسے میری بارگاہ عالی تک پہنچاتے ہیں اور اس کا نام لے کر کہتے ہیں یا رسول اﷲ ! آپﷺ کے فلاں غلام نے بار گاہ رفعت میں یہ عرض کی ہے۔
– ان احادیث کریمہ میں کئی امور ’’روح ایمان‘‘ میں بالیدگی پیدا کرنے والے ہیں ، لیکن خاص ہمارے موضوع سے متعلق تو یہ مژدہ جاں نواز ہے کہ فرشتوں کی ایک پوری فوج اس خدمت پر امور ہے کہ پوری دنیا کے غلاموں کا سلام پیش کرے۔ اﷲ ! اﷲ! اس بزم عالی میں اور ہم سوختہ سامانوں کا ذکر وہ بھی نام بنام۔ مجھ سے بہتر ہے کہ میرا ذکر اس محفل سے ہے
پاس والوں کا سلام خود سنتے ہیں
جان می دہم در آرزو اے قاصد آخر باز گو
در مجلس آں نازنین حرفے گراز مامی رود
ذَکَرَ اَبُوْ بَکْرِبْنُ شَیْبَۃَ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ رَسُوْلَ
wابن شیبہ ؓنے حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی
اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مَنْ صلَّی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُۃٗ وَمَنْ صلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا بَلَغَِہٗ۔
(شفائے قاضی عیاض، ص۶۹)
Kکہ سرکار دو عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جو میری قبر کے پاس مجھ پر سلام کر ے اس کا سلام خود سنتا ہوں اور جو دور سے سلام کر ے اس کا سلام پہنچایا جاتاہے۔
ˆ وَعَنْ سُلیْمَانَ بْنِ سُحَیْمٍ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّم فِیْ النَّوْمِ فَقُلْتُ یُسَلِّمُوْنَکَ عَلَیْکَ اِتَّفَقَہٗ اِسْلَامُھُمْ قَالَ لَھُمْ وَاَرُدَّ عَلَیْھِمْ۔
(شفائے قاضی عیاض، ص۷۰)
ùسلیمان بن سحیمؓ سے روایت ہے کہ میں نے حضور جان نور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا عرض کی یارسول اﷲ! جو لوگ آپﷺ کی جناب مقدس میں حاضر ہو کر سلام کرتے ہیں تو کیا آپ ﷺان کے سلام سے آگاہ ہوتے ہیں۔ فرمایا: کہ ہاں اور میں جواب بھی دیتا ہوں۔
e ہر چند کہ آخر الذکر حدیث منامی ہے لیکن اس میں کوئی امر’’احادیث قولی‘‘ اور ’’ اقوال مسندہ‘‘ کے خلاف نہیں، اس لیے یہ بھی رویائے صادقہ اور مبشرات نبوۃ میں داخل ہے اور ان روایتوں میں اس امر کی تفصیل ہے ۔۔۔ کہ پا س والوں کا سلام خود سنتے اور قبول فرماتے ہیں اور دور والوں کا سلام فرشتوں کے ذریعہ پیش ہوتا ہے۔
اہل محبت کا سلام حضور علیہ الصلوۃ والسلام خود سنتے ہیں :
اَسْمَعُ صَلَا ۃً اَھْلَ مَحَبَّتِیْ اَیْنَ مَاکَانَ۔
(مطالع المسرات)
t میں اپنے اہل محبت کا سلام خود سنتا ہوں وہ جہا ں کہیں ہوں
– اس حدیث مقدس میں عاشقان مصطفی ﷺاور شیدایان کوئے مدینہ کے لیے ایک بشارت جاں نواز ہے جس پر ہر چاہنے والے کا جی قربان ہونے کو چاہے کہ مجھے چاہنے والے جہاں سے بھی مجھے درودوسلام کریں ، میں خود بھی سنتا ہوں۔
القصہ!ہماری مذکورہ بالا گزارشات سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ خطاب و ندا کا دارومدار اس امر پر ہے کہ مخاطب ہمارے خطاب اور حضور سید المرسلین ﷺہماری ندا سے مطلع اور ان حدیثوں سے یہ امر واضح ہو کہ حضورسید المرسلین ، رسول رب العالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہر سلام کرنے والے کے سلام سے نہ صرف آگاہ ہوتے ہوں، بلکہ سب کا جواب دیتے ہیں ، پس اس مسئلہ میں اب کون ساشبہ رہ جاتا ہے ؟ کہ ہم ان کو اخلاص و عقیدت ، عشق و محبت کے جذبات صادقہ سے دنیا کے جس کو نہ سے چاہیں پکار سکتے ہیں اور صدا دے سکتے ہیں۔ بلاشبہ ہماری آواز میں اتنی طاقت نہیں کہ ہماری کمزور صدائیں مدینہ پہنچیں لیکن ان کی رحمت نے صدا دی ہے کہ میں سب سے باخبر ہوں اور اہل محبت کی آواز ہر جگہ سے سنتا ہوں۔
?ہند میں بیٹھ کر دے رہا ہوں ندا
;ہے یقین سن رہے ہیں میرے مصطفی
5یہ سلامت رہے عشق کا رابطہ
9میں نے مانا مدینہ بہت دور ہے
Mندائے یا رسول اﷲ نصوص کی روشنی میں :
اوراق سابقہ کی تشریحات سے ’’ مسئلہ ندائے یارسول اﷲ‘‘ دن کے اجالے میں آگیا اور امر حق واضح ہو گیا لیکن آئندہ اوراق میں ہم خاص ’’ ندائے یارسول اﷲ‘‘ شرع مطہرہ کی واضح نصوص پیش کر رہے ہیں ، تاکہ شکوک و شبہات کا کوئی تار بھی لگا نہ رہے۔ آسانی کے خیال سے ہم نے اس مسئلہ کو مندرجہ ذیل عنوانوں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ ندائے مطلق جو کسی قید و زمانہ کے ساتھ مقید نہ ہو۔
۲۔ عہد رسالت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریب رہ کر خطاب یارسول اﷲﷺ ۔
۳۔ عہد رسالت میں دور سے ندائے یارسول اﷲ ﷺ۔
۴۔ پردہ رسالت کے بعد قبر انور کے پا س ندائے یارسول اﷲﷺ ۔
۵۔ بعد وصال دور سے یا رسول اﷲﷺ کا خطاب۔ (جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ (مشکوۃ ص ۱۵۶) 2۔(شفائے ، قاضی عیاض، ص۶۹، ۷۰)
3۔(مطالع المسرات)
بعد وصال قبر انور کے پاس سے خطاب
اَبُوْحَنِیْفَۃَ عَنْ نَّافِعٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ مِنَ السُّنَّۃِ اَ نْ تَاْتِیْ قَبْرَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِ الْقِبَلَۃِ یَجْعَلُ ظَھْرَکَ اِلیَ الْقبْلَۃِ وَاسْتَقْبَلَ الْقَبْرَ بِوَجْھِکَ ثُمَّ تَقُوْلُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔ (مسند امام اعظم،ص۱۰۳)
óحضرت ابو حنیفہ نافع اور وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ سنت یہ ہے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر انور پر قبلہ کی طرف سے آئے۔ پیٹھ قبلہ کی طرف کر لے اور رخ قبر انور کی طرف، پھر کہے سلام ہو آپ پر اے نبی ! اور اﷲ کی رحمت اس کی برکت۔
^ ثُمَّ یَقُوْلُ فِیْ مَوْقِفِہٖ اَلسَّلاَ مُ عَلَیْکُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَخَلْقِ اللّٰہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاخَیْرَۃ اللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ خَلْقِہٖ ثُمَّ یَسْأَ لُ النَّبِیَّ شَفَاعَۃً فَیَقُوْلُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَسْئَلُکَ الشَّفَاعَۃَ۔ (فتح القدیر،جلد اول،ص۶۰۴)
1مواجہہ اقدس میں کھڑے ہو کر کہے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ، اَلسَّلَا مُ عَلَیْکَ یَا خَیْرَ خَلَقِ اللّٰہِ‘‘ سلام ہوآپ پر اے سب مخلوق سے اچھے اور منتخب ، پھر رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے شفاعت طلب کر کے کہے یا رسول اﷲ ! میں آپ کی شفاعت کا خواستگار ہوں۔
È ثُمَّ یَقُوْلُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الْاَمَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْا ُ مَّۃَ۔ (قاضی خان، جلد اول ، ص۱۴۸)
Iپھر کہے سلام ہو آپ پر اے اﷲ کے نبی اور اس کی رحمت و برکت، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں۔ آپ نے رسالت پہنچائی، امانت اداکی اور امت کی خیر خواہی کی۔
È وَیَقِفُ کَمَا یَقِفُ فِیْ الصَّلوٰۃِ وَتَمْثِیْلَ صُوْرَتَہ الْکَرِیْمِ الْبَھْیَۃَ کَاَنَّہٗ نَآ ئِمٌ فِیْ لَحْدِہٖ عَالِمٌ بِہٖ وَیَسْمَعُ کَلاَمَہٗ ثُمَّ یَقُوْلُ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَانَبِیَّ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ
Mاور اس طرح کھڑا ہو جس طرح نماز میں کھڑا ہو جاتاہے اور آپ کی صورت پاک کا تصور جمائے ، گویا کہ حضور قبر میں لیٹے ہوئے اس کا کلام سن رہے ہیں، پھر کہے سلام ہو آپ پر اے
وَبَرَکَاتُہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ قَدْ بَلَّغْتَ الرِّسَالَۃَ وَاَدَّیْتَ الاَ مَانَۃَ وَنَصَحْتَ الْا ُمَّۃَ۔
(عالمگیر ی جلد اول ، ص۱۳۶)
Aاﷲ کے رسول اوراﷲ کی رحمت اور اس کی برکت ، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اﷲ کے رسول ہیں ۔ آپ نے رسالت کا حق اداکیا اور امانت پہنچائی اور امت کی خیر خواہی کی۔
| ثُمَّ تَنْھَضُ مُتَوَجِّھًا اِلیٰ قَبْرِ الشَّرِیْفِ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَۃِ مُحَاذِیًا لِراْسِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَجْھَہُ الْاَکْرَمُ وَاِلاَّ حَظَّا نَظَرَہٗ السَّعِیْدَ اِلَیْکَ وَسَمَاعَہٗ کَلَامَکَ وَرَدَّہٗ عَلَیْکَ سَلَامَکَ وَ تَاْمِیْنَہٗ عَلیٰ دُعَا ئِکَ وَتَقُوْلُ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاسَیِّدِیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَانَبِیَّ اللّٰہِ اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ۔۔۔ الخ
(مراقی الفلاح، ص۴۴۸)
9پھر قبلہ کی طرف پشت اور قبر انور کی طرف رخ کر کے حضور کے سر مبارک کے مقابل کھڑا ہو کہ ان کی نگاہ تجھ پر پڑ رہی ہے۔ وہ تیرا کلام سن رہے ہیں اور تیری دعا پر آمین کہہ رہے ہیں اور زائر تویوں کہے کہ سلام ہو آپ پر اے میرے سردار! یا رسول اﷲ سلام ہو آپ پر اے اﷲ کے نبی اور اس کے حبیب ۔
Ö وَاَنْ یَّاتِیَ قَبْرَ الْکَرِیْمِ فَیُسَلِّمُ وَیَدْعُوْوَیَسَالُ لَہٗ اَنْ یُّوْ صِلَہٗ اِلیٰ اَھْلِہٖ سَالِمًا وَّیَقُوْلُ غَیْرَ مُوْدِعٍ یَّارَسُوْلَ اللّٰہِ وَیَجْتَھِدُ فِیْ خُرُوْجِ الدَّمْعِ فَاِنَّہٗ اِمَارَاتُ الْقُبُوْلِ۔
(شامی، جلد۲، ص۲۶۴)
حضور کی قبر انور پر آکر سلام کرے دعا کرے اوراﷲ سے یہ التجا کرے کہ اپنے گھر والوں میں صحیح و سالم واپس ہو اور کہے یا رسول اﷲ اور اس بات کی کوشش کرے کہ کچھ آنسو نکل پڑیں کہ یہ دعا کی قبولیت کی علامت ہے۔
, ’’ یقین داند کہ آنحضرت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم از حضور وے و قیام اودرزیارت حاضرو آگاہ است و بصورت معتدل بہ صفت حیاء وقار سلام گوید اَ لسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! سلام کے آخری صیغہ تک جو زیارت کی کتابوں میں تحریر ہے‘‘۔
وَیَقُوْلُ اَ لسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ
Eاور السلا م علیک یا رسول اﷲ کہے۔
O(احیاء العلوم للغزالی ، جلد اول ، ص۱۶۸)
آثار صحابہ ، نصوص فقہیہ اور اعیان اسلام کی یہ عبارتیں نمو نتاذ کر کی گئی ہیں جن کا بالاتفاق یہی حکم ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر انور پر غایت خشوع و حضور اطمینان و سکینہ کے ساتھ’’َ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ یَا نَبِیَّ اللّٰہ‘‘ یَا خَیر خلق اللّٰہکہہ کر ندا کرے ، سلام عرض کرے۔ پھر کوئی کہتا ہے کہ سمجھو گویا سرکار لیٹے ہوئے تمہاراسلام سن رہے ہیں، کوئی کہہ رہا ہے بس تو انہیں کی طرف متوجہ رہ اور ان کی نگاہ کو اپنی طرف متوجہ دیکھ۔
کوئی کہتا ہے تو یہ دیکھ کر تیرا سلام سن رہے ہیں ۔ جواب دے رہے ہیں، تیری دعا پر آمین کہہ رہے ہیں ۔ کوئی کہہ رہا ہے تو یقین کر کہ وہ تیری زیارت ، تیرے حضور ، تیرے قیام سے آگاہ ہیں۔ عبارتیں مختلف ہیں منشاء سب کا ایک ہے کہ حضور سید الرسل، رسول رب العالمین کے قبر انور پر حاضر ہو کر ’’ یا نبی سلام علیک‘‘ کہنے والے سے باخبر ہیں اور حاضری بارگاہ عزت پناہ کا یہ طریقہ نداردوخطاب ہی طریق مسلوکہ فی الدین ہے۔
بعد وصال دور سے خطاب
اس حدیث کو طبرانی اور ابو نعم ابن مندہ اور ابن ابی الدنیا نے کتاب’’ من عاش بعد موت‘‘ میں ذکر کیا ہے اور شرح شفائے ملا علی قاری جلد اول ص۶۴۹اور شرح شفائے ملاعلی قاری جلد اول ۶۴۹ کے الفاظ یہ ہیں:
وَذَکَرَ عَنْ نُّعْمَانَ بْنِ بَشِیْرٍ اَنَّ زَیْدَ بْنَ خَارِجَۃَ خَرَّمَیْتًا فِیْ اَزِنَۃِ الْمَدِیْنَۃِ فَرُفِعَ وَسَجِیْئَی اِذْ سَمِعُوْہُ بَیْنَ الْعِشَائَیْنِ وَالنِّسَاْءَ یَصْرَخْنَ حَوْلَہٗ یَقُوْلُ اُنْصُمُوْا اُنْصُمُوْا
¦ حضرت نعمان بن بشیر سے روایت کرتے ہیں کہ زید بن خارجہ یک بیک مدینہ شریف کی کسی گلی میں گرے اور روح پرواز کر گئے، اٹھا کر گھر لائے گئے اور کپڑے سے ڈھک دئیے گئے مغرب اور عشاء کی درمیان اس حالت میں کہ عورتیں ان کے
ûفَحَسَرَ عَنْ وَجْھِہٖ فَقَالَ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہِ النَّبِیَّ الْاُمَّمِیْ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ وَکَانَ ذَالِکَ فِی الکِتَابَ الاَوَّلَ ثُمَّ قَالَ السَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ ثُمَّ عَادَمَیْتًا۔
(شفاء، جلد اول، ص۲۷۱)
éارد گرد رو رہی تھیں سنا گیا کہ وہ کہ رہے ہیں کہ چپ رہو، چپ رہو ، پھر چادر الٹ دی اور بولے! محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ و سلم اﷲ کے رسول نبی، امی خاتم النبین ہیں۔ یہ پہلی کتاب میں مذکور ہے، پھر بولے ! سچ کہا، سچ کہا، پھر ابو بکر ، عمر رضی اﷲ تعالی عنہما کا ذکر کیا پھر کہا اَلسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَ رَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ، پھر وہ مردہ ہو گئے ۔
¾ ملا علی قاری رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب شرح شفاء میں اس روایت کے بارے میں فرمایا ہے:
اِعْلَمْ اَنَّ صَاحِبَ الْاِسْتِیْعَابِ ذَکَرَ فِیْ زَیْدِ بْنِ خَارِجَۃَ اَنَّہٗ ھُوَالَّذِیْ تَکَلَّمَ بَعْدَ الْمَوْتِ لاَ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْ ذَالِکَ قَالَ الذَّھَبِیُّ ھُوَالصَّحِیْحُ۔
(شرح شفائے اول، ص۶۵۰)
صاحب استیعاب نے زید بن خارجہ کے بارے میں فرمایا کہ موت کے بعد کلام کرنے والے یہی ہیں اس میں اختلاف نہیں اور امام ذہبی نے فرمایا صحیح ہے۔
È اَنَّ رَجُلاً کَانَ یَخْتَلِفْ اِلیٰ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِیْ حَاجَۃٍ لَّہٗ وَکَانَ عُثْمَانَ لاَ یَلْتَفِتُ اِلَیْہِ وَلاَ یَنْظُرُ فِیْ حَاجَۃٍ فَلَقِیْ عُثْمَانَ بْنَ حَنِیْفٍ فَشَکیٰ ذَالِکَ اِلَیْہِ فَقَالَ لَہٗ عُثْمَانُ بْنُ حَنِیْفٍ اِیْتِ الْمِیْضَاۃَ فَتَوَضَّا ثُمَّ اِیْتِ السَّجْدَۃَ فَصَلِّ فِیْہِ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قَالَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ نَبِیَّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوَجَّہُ بِکَ اِلیٰ رَبِّیْ فَیُقْضیٰ حَاجَتِیْ وَتَذَکِّرْ حَاجَتَکَ۔ معجم اللطبرانی۔ (بحوالہ انوارالانتباہ، ص۳۳)
ùایک شخص حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں کسی ضرورت سے بار بار حاضر ہوتا اور حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے اس شخص نے حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مل کر یہ ماجرا بیان کیا تو آپ نے اس سے کہا کہ وضو کے بعد یہ دعا مانگو اے اﷲ تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری جناب میں اپنے نبی محمد نبی رحمت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے واسطے سے رجوع کرتاہوں ۔ یا محمد میں آپ کے ذریعہ اپنے رب کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں پس میری یہ حاجت پوری کی جائے اور اپنی ضرورت کا ذکر کر دینا۔
h اس کے بعد حدیث کی پوری تفصیل ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس عمل کے بعد اس شخص کے ساتھ بڑی مہربانی سے پیش آئے، اس کی ضرورت پوری کی، اس آدمی نے عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے دوبارہ ملاقات کی اور شکریہ ادا کیاکہ آپ نے میری سفارش حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کردی جس کے نتیجہ میں وہ پوری توجہ سے ملے اور حاجت روائی فرمائی۔حضرت عثمان بن حنیف نے فرمایا: میں نے سفارش تو نہیں کی مگر میں نے دیکھا کہ حضور ایک نابینا کو یہ دعا بتا رہے تھے تو میں نے تم کو یہ دعا بتادی اور مولا تعالیٰ نے اس کی برکت سے تمہارا یہ کام پورا کر دیا ۔ امام طبرانی اور امام منذری فرماتے ہیں والحدیث صحیح۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بعد وصال دور سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو پکارنے کا جواز اسی حدیث سے فراہم کیا جبھی تو ایک ضرورت مند کو اسی حدیث کے حوالے سے یہ دعا تلقین فرمائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالاجات:
(مسند امام اعظم،ص۱۰۳) (فتح القدیر،جلد اول،ص۶۰۴)
(قاضی خان، جلد اول ، ص۱۴۸) (عالمگیر ی جلد اول ، ص۱۳۶)
(مراقی الفلاح، ص۴۴۸) (شامی، جلد۲، ص۲۶۴)
(احیاء العلوم للغزالی ، جلد اول ، ص۱۶۸) (شفاء، جلد اول، ص۲۷۱)
(شرح شفائے اول، ص۶۵۰) بحوالہ انوارالانتباہ، ص۳۳
ایک شبہ ازالہ
یہاں بھی بعض حضرات کو یہ وسوسہ لا حق ہوتا ہے کہ نماز کے قعدہ میں مسلمان رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اے نبی کہہ کر خود خطاب نہیں کرتا، بلکہ اس مخاطبہ کی نقل اور حکایت کرتا ہے جو معراج میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور ان کے پروردگار میں ہوا تھا۔ اس لیے ائمہ اعلام اور اساطین اسلام کی تشریحات سے اس امر کو ثابت کرتے ہیں کہ نماز کا یہ خطاب صرف حکایت اور نقل ہی نہیں ہے ، خاص نبی کریم علیہ افضل الصلوہ التسلیم کو یہ سمجھ کر خطاب کرنا ہے کہ وہ سن رہے ہیں اور جواب دیں گے چنانچہ در مختار جو فقہ حنفی کی ایک معتبر کتاب ہے اس میں تحریر ہے:
یَقْصُدُ بَاَلْفَاظِ التَّشَھُّدَ مُعَانِیْھَا مُرَادُہٗ لَہٗ عَلٰی وَجْہِ الْاِنْشَاءِ کَاَنَّہٗ یُحْیِ اللّٰہُ وَ یُسَلِّمُ عَلیٰ نَبِیِّہٖ وَعَلیٰ نَفْسِہٖ وَاَوْلِیَآئِہٖ۔
( الفاظ تشہد سے اس کے معنی مراد لیے یعنی وہ خود رب العالمین کو تحیۃ بھیج رہا ہے اور اپنے پیغمبر کو سلام کر رہا ہے اور مسلمان اور اولیاء کرام کو بھی۔
C (درمختار ، جلد اول ، ص۳۵)
محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں :
’’و بعضے ازعرفاء گفتہ اند کہ ایں خطاب بجہت سریاں حقیقت محمدیہ است در ذوائر موجودات و افراد ممکنات، بس آنحضرت در ذات مصلیان موجود و حاضر است، پس مصلی راباید کہ ازایں معنی آگاہ باشدوازیں شہودوغافل نہ بود تابانوار قرب و اسرار معرفت متنوروفائز گردد۔ (اشعتہ اللمعات جلد اول، ص۴۱۶)
کچھ عرفاء کہتے ہیں کہ یہ خطاب اس وجہ سے ہے کہ حقیقت محمدیہ موجودات کے ذروں اور ممکنات کے افراد میں ساری ہے ۔ پس آنحضرت مصلیوں (نمازیوں)کی ذات میں موجودو حاضر ہیں تو مصلیوں کو چاہیے کہ اس معنی سے غافل نہ رہیں اور قرب کے انوار اور معرفت کے بھید سے روشن اور کامیاب ہوں۔
حجتہ الاسلام حضرت امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
وَاَحْضِرْ فَیْ قَلْبِکَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ شَخْصَہُ الْکَرِیْمَ وَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ وَیُصَدِّقُ اَمْلَکَ فِیْ اَنَّہٗ یُبَلِّغُہٗ وَیَرُدُّ مَا ھُوَ دَنیٰ مِنْہُ۔ (احیاء العلوم ، جلد اول ، ص۱۰۷)
” اپنے دل میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو حاضر کرو اور کہو کہ سلام ہو آپ پر اے نبی ار اﷲ کی رحمت اور اس کی برکت ہو اور یہ سچی امید رکھے کہ سلام حضور تک پہنچ رہا ہے اور وہ مناسب جواب دے رہے ہیں۔
عہد رسالت میں قریب سے ندائے یا رسول اﷲ
اس امر کے ثبوت کے لیے یہ بتادینا کافی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا طرز خطاب ہی یہی تھا۔ کبھی کچھ عرض کرنا ہو تو یارسول اﷲ ، کچھ طلب کرنا ہو تا یارسول اﷲ، کسی بات کا جواب دینا ہو تو رسول اﷲ، سلام کرنا ہو تو یا رسول اﷲ الغرض!صحابہ کرام نے آیت شریف ’’ لَا تَجْعَلُوْ اَلْاٰیَۃ‘‘کے حکم کو اپنا حرز جان بنا لیا ار عام طور سے سرکارابد قرار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اسی طرح خطاب کرتے تھے۔
ہم نے اس نقطہ نظرسے بخاری شریف کا یک سرسری جائزہ لیا تو صرف دو پاروں میں چون بار آپ کا نام نامی اسی ادب و احترام سے خطاب یا رسول اﷲ کے ساتھ مذکور ہوا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف ایک کتاب بخاری میں لگ بھک آٹھ سو مرتبہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو لفظ’’یا‘‘ کے ساتھ مخاطب کیا گیا اور ندادی گئی، اسی سے دیگر کتاب احادیث اور صحابہ کرام کے ایک عام طرز عمل کا اندازہ ہو سکتا ہے، بلکہ میرا دعویٰ تو یہ ہے کہ انسان یہ نہیں شجر و حجر، خشک وتر کا بھی انداز خطاب یہی تھا۔
عَنْ بِرَّ ۃَ بِنْتَ اَبِیْ تَجْرَاۃٍ قَالَتْ اِنَّ رَسُوْل اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلِّمَ حِیْنَ اَرَادَاللّٰہُ کَرَامُۃً وَاِبْتِدَاء بِالنُّبُوَّۃِ کَانَ اِذَا خَرَجَ لِحَا جَتِہِ الْعَدَّ حَتّٰی لَا یُرٰی بَیْتًا وَیَقْفِی الشِّعَابَ وَبُطُوْنَ الْاَوْدِیَۃِ فَلَا یَمُرُّ بِحَجَرٍ وَلاَ شَجَرٍ اِلاَ قَالَتْ
Óبرہ بنت ابی تجراہ کہتی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کے پروردگار نے جب نبوۃ سے سرفراز فرمانا چاہا اور نبوت کی ابتداء ہوئی تو آپ ضروریات کے لیے آبادی سے دور چلے جاتے اور گھاٹیوں اور وادیوں سے گزرتے تو کسی درخت اور
÷اَ لسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَکَانَ یَلْتَفِتُ مِنْ یَّمِیْنِہٖ وَشِمَالِہٖ وَخَلْفِہٖ فَلاَ یُرٰی اَحَدٌ۔
Õپتھر کے پاس سے گزرے تو وہ کہتا سلام ہو آپ پر یارسول اﷲ! آپ آگے پیچھے دائیں دیکھتے تو کسی کو نہ پاتے۔
5 (مستدرک لحاکم،جلد۴، ص۷۰)
عہد رسالت میں دور سے صدائے یا رسول اﷲ علیہ الصلوۃ والسلام
یہ حدیث شریف امام نسائی، امام ترمذی، ابن ماجہ نے تخریج کی اور امام بیہقی اور حاکم نے روایت کی اور اس کی تصحیح اس طرح دو اماموں نے اس حدیث کو صحیح کہا اور صحاح ستہ میں سے تین کتابوں میں یہ حدیث مذکور ہے:
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَنِیْفٍ اَنَّ اَعْمٰی قَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُدْعُ اللّٰہَ اَنْ یَّکْشِفَ لِیْ عَنْ بَصَرِیْ قَالَ فَانْطَلَقَ فَتَوَضَّآ ثُمَّ صَلِّ رَکْعَتَیْنِ ثُمَّ قُلِ اللّٰھّمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ وَاَ تَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبِیَّ مُحَمَّدٍ نَبِیَّ الرَّحْمَۃِ یَامُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوَجَّہُ بِکَ اِلیٰ رَبِّہٖ اَنْ یَّکْشِفَ عَنْ بَصَرِیْ اَللّٰھُمَّ شَفِّعْہُ فِیَ قَالَ فَرَجَعَ وَقَدْ کَشَفَ اللّٰہُ عَنْ بَصَرِہٖ۔
(شفائے قاضی عیاض، جلد۱،ص۲۷۳)
ä عثمان بن حنیف رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اندھے نے بارگاہ رسالت میں عرض کی یا رسول اﷲ! آپ اﷲ پا ک سے دعا کیجئے کہ وہ میری آنکھ کھول دے ۔ آپ نے فرمایا: جاؤ وضو کرو، دورکعت نماز پڑھو، پھر یہ دعا مانگو، اے اﷲ! میں تجھ سے سوال کرتا وہں اور تیری بارگاہ میں تیرے نبی رحمت کے وسیلہ سے توجہ کرتاہوں، اے محمد! میں آپ کو آپ کے رب کی بارگاہ میں وسیلہ سے لاتا ہوں کہ میری آنکھ کھل جائے یا اﷲ ! ان کی سفارش میرے بارے میں قبول فرمالے ، تو وہ اس حال میں لوٹا کہ اس کی آنکھ روشن ہو گئی۔
¦ ابن ماجہ نے اپنی سنن کے باب الصلوۃ الحاجتہ میں یہ حدیث ذکر کر کے یہ تحریر کیا: قَالَ اِسْحَاقُ ھٰذَاالْحَدِیْثُ صَحِیْحٌ ابواسحاق کا قول ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے ، اس کی سند میں امام الحسن محمد بن الہادی حنفی ہے۔
فِیْہِ جَوَازُ النِّدَآءِ بِاِسْمِہٖ فِیْ مَقَامِ التَّشَفُّعِ بِہٖ لِاَنَّ الْمَقَامَ یُؤَدِّیْ بِہٖ مِنِ التَّعْظِیْمِ مَا یُؤَ دِّیْ ذَکَرَہٗ بَالْقَلْبِ وَفِیْہِ اِحْضَارُہٗ فِیْ اِثْنَاءِ الدُّ عَآءِ وَالْخِطَاب
J حدیث مذکور میں حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے نام سے ندا جائز ہے جب کہ حضور سے سفارش کا مقام ہو کیونکہ اس طرح مقام حضور کو تعظیم کے اس مرتبہ پر پہنچا دے گا
ِ مَعَہٗ فِیْہِ جَآئَزٌ کَاِحْضَارِہٖ فِیْ اَثْنآءِ الصَّلٰوۃِ وَالْخِطَابِ فِیْہِ۔
(ابن ماجہ ، جلد اول، ص۴۱۹)
Mجس پر قلب سے ذکر کرنے پر پہنچا دے گا۔ اس طرح دعا اور حضور سے خطاب کے درمیان حضور کو حاضر کرنے کا جواز معلوم ہوا ۔ جس طرح نماز کے درمیان سے خطاب میں حاضر کرنا جائز ہے۔
h اس حدیث عظیم و جلیل صحیح و رجیح کا سیاق و سباق اور اس کے متعدد الفاظ مثلاً’’ اِنْطَلَقَ جَآءَ‘‘ اور’’ثُمَّ رَ جَعَ‘‘ پکارپکار اعلان کر رہے ہیں کہ یہ دعا دور سے پڑھ کر اپنی حاجت روائی کی درخواست کی گئی ۔ نماز پڑھ کر حضور کے پاس آکر ’’یَامُحَمَّدُ اَنِّیْ اَتَوَجَّہُ بِکَ اِلیٰ رَبِّکَ‘‘ پرھنے کی تلقین کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔(درمختار ، جلد اول ، ص۳۵)
2۔ (اشعتہ اللمعات جلد اول، ص۴۱۶)
3۔(احیاء العلوم ، جلد اول ، ص۱۰۷)
دربار رسالت کے سرکاری شاعر حضرت حسان بن ثابت آپ کے فراق میں کہتے ہیں
مَابَالَ عَیْنَکَ لاَ تَنَامُ کَاَ نَّمَا کَحَلَتْ مَا فِیْھَا بِکَحْلِ الْاَرْمَدِ جَزْعاً عَلیَ الْمَھْدِیْ اَصْبَحَ ثَاِویًا یَاخَیْرِ مَنْ وَطِئیَ الْحَصٰی لاَ تَعْبُدْ یَوْماً یَّقِیْکَ التُّرْابَ لِحَفِیٍّ لَیْتَنِیْ غِبْتَ قَبْلَکَ فِیْ بَقِیْحِ الْغَرْقَدِ۔
(سیرت ابن ہشام، جلد۴،ص۶۶۹)
d تیری آنکھوں کو کیا ہو گیا ہے جو سو تی نہیں ہیں۔ اس کے گوشوں میں بے خوابی کا سرمہ لگا دیا گیا ہے۔ یہ گھبرائی ہوئی ہے اس ہادی پر جسے قبر میں دفن کر دیا گیا ہے۔ اے ان سب میں بہترین جونا مانوس راستوں پر چلے جس دن مٹی نے آپ کو اپنے دامن میں محفوظ کیا۔ اے کاش! آپ سے پہلے ہی میں مٹی میں دفن کر دیا گیا ہوتا۔
عہد تابعین میں یا رسول اﷲ
عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ اِذَادَ خَلْتُ الْمَسْجِدَ اَقُوْلُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ۔
(شفا، جلد ۲،ص۷۸)
h حضرت عبداﷲ ابن مسعود کے شاگرد رشید حضرت علقمہ کہتے ہیں۔ میں جب مسجد نبوی شریف میں داخل ہوتا ہوں تو کہتا ہوں سلام ہو آپ پر اے اﷲ کے نبی آپ پر سلام اور اﷲ کی رحمت و برکت ہو۔
یہ واقعہ تاریخ کی متعدد کتابوں میں ہے۔ یہاں ہم کامل ابن اثیر کے حوالے سے تحریر کر رہے ہیں :
فَاحْتَازَوَبِھِمْ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ وَاصْحَابُہٗ مَرْعٰی فَصَاحَ النِّسَآءُ وَلَطَھُنَّ خُدُوْدَھُنَّ وَصَاحَتْ زَیْنَبُ اُخْتُہٗ مُحَمَّدَاہٗ صَلَّی عَلَیْکَ مَلٰئِکَۃَ السَّمَاءِ ھٰذَا الْحُسَیْنُ بَالعَرَآءِ مُزَّمِلٌ بِالدِّمَاعِ مَقْطَعُ الْاَعْضَآءِ وَبَنَاتکَ سَبَایًا وَذُرِیَّتُکَ مَقْتَلَتُہٗ تُسْفٰی عَلَیْھَا الصَّبَاءٗ۔
(کامل ابن اثیر، جلد ۴، ص۴۲)
~ جب کربلا کے قیدیوں کو لے کر چلے تو حضرت امام عالی مقام اور ان کے شہید ساتھیوں کے لیے بے گوروکفن لاشوں پر ان کا گزر ہوا تو عورتوں کی چیخ نکل گئی اور اضطراب میں منہ پیٹ لیا ۔ اس وقت حضرت زینب بنت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے اپنے نانا کو صدا دی یَا مُحَمَّدَاہُ ! آپ پر آسمان کے فرشتے درود پڑھیں، یہ حسین ویرانے میں پڑے ہیں، خون میں لتھڑے ہیں ۔ اعضاء پارہ پارہ اور آپ کی لڑکیاں قید میں، آپ کی ذریت مقتول پڑی ہیں جس پر ہوا خاک دھول اڑا رہی ہے۔
ž حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اپنے قصیدہ ہمزیہ میں فرماتے ہیں:
یَاسَیِّدَ السَّادَاتِ جِئْتُکَ قَاصِدًا
اَرْجُوْ رِضَاکَ وَاحْتَمِیْ بِحِمَاکَ
وَاللّٰہِ یَا خَیْرَ الْحَقِّ اِنَّ لِیْ
قَلْبًا مَّشُوْقًا لاَ یَرُوْمُ سِوَاکَ
ƒاے سید السادات میں آپ کا قصدوار ادہ کر کے آیا ہوں۔ میں آپ کی رضا تلاش کرتاہوں اور آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ اﷲ کی قسم ! اے سب میں اچھے ! میرا ہر شوق دل آپ کے سوا کسی اور کاقصد ہی نہیں کرتا۔
= (بحوالہ فیصلہ حق و باطل ص ۷۴)
عہد تبع تابعین میں ندائے یا رسول اﷲ
امام جوزی نے کتاب العیون اور امام سیوطی نے شرح الصدور میں نقل فرمایا ہے:
اِنَّ ثَلٰثَۃَ اِخْوَۃٌ مِّنْ الشَّامِ کَانُوْا یَقِزُّوْنَ وَکَا نُوْا فُرْسَانًا لَھُمُ الْمَلِکُ اِنِّیْ اَجْعَلُ فِیْکُمُ الْمُلْکُ وَاَزْوَاجُکُمْ بَنَا تِیْ وَتَدْ خُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ النَّصْرَانِیَّۃِ فَاَبَوْاوَقَالُوْا یَامُحَمَّدُ فَاَمَرَ الْمَلِکُ بِثَلاَثَۃِ قُدُوْرٍ نُصِبَ فِیْھَا الزَّیْتُ ثُمَّ اَوْقَدَ تَحْتَھَا ثَلاَثَۃَ اَیَّامٍ یُّعْرِضُوْنَ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ عَلیٰ تِلْکَ الْقُدُوْرِ یَدْعُوْنَ اِلیٰ دِیْنِ النَّصْرَانِیَّۃِ فَیَابُوْنَ فَاُلْقِیَ الْاَکْبَرُ فِی الْقِدْرِ ثُمَّ الثَّانِیْ۔
(شرح الصدور، ص۷۹)
„ شام کے تین بھائی غزوہ کر تے تھے اور بہادر شہسوار تھے۔ رومیوں نے انہیں قید کر لیا۔ باد شاہ نے انہیں لالچ دلائی میں تمہیں جاگیر بھی دوں گا اور اپنی لڑکیوں سے شادی بھی کروں گا شرط یہ کہ عیسائیت قبول کر لو۔ ان لوگوں نے صاف انکار کر دیا اور یا محمد اہ کانعرہ مارا تو بادشاہ نے مایوس ہو کر تین برتنوں میں تیل گرم کرنے کا حکم دیا اور ہر دن ان بھائیوں کو یہ منظر دکھایا جاتا، تیسری روز بڑے بھائی پھر منجھلے بھائی کو تیل کے کھولتے ہوئے برتن میں ڈال دیا گیا۔
~ واقعہ کا بقیہ حصہ اس طرح ہے کہ تیسری کی سفارش ایک درباری نے کی کہ میں اس کو راہ راست پر لاؤں گا۔ اس نے یہ کام اپنی ایک حسین و جمیل لڑکی کے سپرد کیا مگر وہ نوجوان کی عبادت و ریاضت اور اس لڑکی کی طرف عدم توجہ سے متاثر ہوئی اور مسلمان ہو کر اس کے ساتھ فرارکا منصوبہ بنایا اور دونوں اس میں کامیاب ہو گئے، دو دن چھ مہینہ کے بعد ایک روز عالم بیداری میں وہ دونوں شہید بھائی فرشتوں کی ایک جماعت کے ساتھ آئے اور اس لڑکی کا نکاح اس چھوٹے بھائی سے کردیا۔
مجددمائتہ حاضرہ مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی ارشاد فرماتے ہیں:
یہ واقعہ شہر طرطوس کی آبادی سے پہلے کا ہے۔ ’’ کَمَاذَکَرَہٗ السُّیُوْطِیُّ فِیْ الرَّوَایَہِ نَفْسَھَا‘‘ ہارون الرشید کا زمانہ تابعین و تبع تابعین کا ہے۔ تو یہ تینوں شہدائے کرام لا اقل تبع تابعین سے تھے۔ واﷲ الہادی۔(انوار الانتباہ، ص۳۷)
اس تاریخی واقعہ سے کئے امر ثابت ہوئے:
(۱) تبع تابعین میں سے تین شہیدوں نے مصیبت کے وقت یا محمداہ کا نعرہ لگایا۔
(۲) کم از کم امام جوزی اور امام جلال الدین سیوطی نے اس واقعہ کو ثابت اور بر قرار رکھ کر مصیبت کے وقت یا رسول اﷲ کے نعرے کے جواز کی تائید کی۔
مولانا روم کے استاذ پیر مولانا شمس فرماتے ہیں:
عہد مابعد میں ندائے یا رسول اﷲ
یارسول اﷲ حبیب خالق یکتا توئی
برگزیدہ ذوالجلال پاک و بے ہمتا توئی
(یا رسول اﷲ آپ ہی اپنے خالق کے خاص حبیب ہیں ، آپ خدائے پاک اور بے مثل کے برگزیدہ ہیں )
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:
’’خرابم در غم ہجر جمالت یا رسول اﷲ جمال خود نما حمے بجان زادوشید کن بہر صورت کہ باشدیارسول اﷲ کرم فرمابہ لطف خود سرو ساماں جمع بے سروپاکن‘‘۔ (اخبار الاخیار، ص۳۲۳)
’’ یا رسول اﷲ ! آپ کے جمال کی جدائی کے غم میں، میں برباد ہوگیا۔ اپنا جمال دکھائیے اور اس جان زار پر رحم کیجئے یارسول اﷲ جس صورت سے بھی ہو کرم فرمائیے اپنی مہربانی سے اس گروہ بے سامان کے اسباب فراہم فرمائیے‘‘
عارف باﷲ عالم حق آگاہ حضرت مولانا عبدالرحمن جامی فرماتے ہیں:
ز مہجوری برآمد جان عالم و
ترحم یا نبی اﷲ ترحم
نہ آخر رحمتہ للعالمینی
ز محر و ماں چرا فارغ نشینی
تو ابر رحمتی آں بہ کہ گاہے
کنی بر حال لب خشکان نگا ہے
’’جدائی سے دنیا کی جان نکل گئی، اے اﷲ کے نبی! رحم فرمائیے، اے اﷲ کے نبی ! رحم فرمائیے ، آپ تو رحمتہ اللعالمین ہیں ۔ محروموں سے آپ کیوں فارغ ہو کر بیٹھ گئے۔ آپ رحمت الہٰی کا دل ہیں، یہی بہتر ہے کہ کبھی کبھی خشک لب والوں کے حال پر ایک نگاہ کر ڈالیے‘‘۔
ایونان فارسی کے رکن اعظم ، دریائے معرفت کے شناور اور علم ظاہری کے بحرذخارحضر ت مصلح الدین سعدی شیرازی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں:
چہ کم گردہ اے صد فرخندہ پے
ز قدر رفیعت بدرگاہ حے
کہ باشد مشتے گدایان خیل
بہ مہان دارالسلام از طفیل
چہ وصف کند سعدی ناتمام
علیک الصلوہ امی نبی والسلام
’’ خدا وند قدوسی کی بارگار فیع میں آپ کی جو قدر ومنزلت ہے، اس میں سے اے میرے سردار کیا ہوگی (کچھ نہ ہو گی) اگر تھوڑے سے آپ کی جماعت کے بھکاری آپ کے طفیل میں آپ کے مہمان خانہ جنت میں داخل ہو جائیں ، آپ کی تعریف سعدی جو ناقص ہے ، کیا کر سکتا ہے، پس آپ پر بے شمار درود ہوں اے نبی اور سلام ہو‘‘۔
شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اپنے قصیدہ ہمزیہ میں فرماتے ہیں:
یُنَادِیْ ضَارِعَ فَخُضُوْعُ قَلْبٖ
وَذَلَّ وَالتِبْھَالَ وَالتِّجَاء
رَسُوْلُ اللّٰہِ یَا خَیْرَ الْبَرَایَا
نَوَالُکَ اَبْتَغِیْ یَوْمَ الْقَضَاءٖ
’’ایک مصیبت زدہ فریادی آپ کو دلی فرومائیگی کے ساتھ پکار رہا ہے اور گڑ گڑا کر التجا کر رہا ہے ، اے اﷲ کے رسول ! آپ کا انعام اور نوازش قیامت کے دن چاہتا ہوں‘‘۔
بہر کیف ! مندرجہ بالا حوالہ جات اور حقائق و معلومات کے اجالے میں بخوبی واضح ہو گیا کہ مسئلہ یا رسول اﷲ کو ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے اور عہد صحابہ سے لے کر اس وقت ہر زمانے اور ہر قرن میں ندائے یا رسول اﷲ کی گونج سنائی دیتی ہے۔ یہاں ہم نے ہر عہد کے صرف چند حوالے ہی بطور نمونہ پیش کیے ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سے واقعات اور حوالہ جات پیش کیے جا سکتے ہیں مگر اختصار کے پیش نظر قم زد کیے جا رہے ہیں۔
اب یہ اور بات ہے کہ آج کا نام نہاد مسلمان اور خود ساختہ توحید کا متوالا اسلام کی اس چودہ سو سالہ تاریخ کو ملیا میٹ کرنے کے لئے کمر بستہ ہو اور عامتہ المسلمین کا جادۂ حق سے ہٹانے کے لیے نئے فتنے جگائے اور علماء و صلحاء ائمہ و مجتہدین، صحابہ و تابعین ، مفتی و قاضی، خواص و عام، خطباء اور مختلف طبقات اسلامی کو مشرک و کافر کہنے کی جرات کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
سیرت ابن ہشام، جلد۴،ص۶۶۹
شفا، جلد ۲،ص۷۸
کامل ابن اثیر، جلد ۴، ص۴۲
فیصلہ حق و باطل ص ۷۴
شرح الصدور، ص۷۹
اخبار الاخیار، ص۳۲۳