بیان کرنے کی تاثیر کی حکمت (بیسواں باب)

بیان کرنے کی تاثیر کی حکمت کے عنوان سے بیسویں باب میں  حکمت نمبر 182 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کو اپنے قول میں بیان فرمایا ہے ۔
182) تَسْبِقُ أَنْوَارُ الْحُكَمَاءِ أَقْوَالَهُمْ ، فَحَيْثُ صَارَ التَّنْوِيرُ وَصَلَ التَّعْبِيرُ.
حکیموں کے انوار، ان کے اقوال سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ تو جس قدر نور پہنچتا ہے ، اسی قدر بیان اثر کرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں – حکما :- عارفین باللہ ہیں۔ جو اللہ تعالی کے ساتھ کلام کرتے ہیں اور اللہ تعالی کے ساتھ خاموش رہتے ہیں۔ وہ اپنے نفوس سے غائب ہوتے ہیں۔ اور صرف اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، جو اللہ تعالی کی طرف سے اللہ تعالی کی طرف ہے۔ لہذا جب وہ ان علوم و معارف کو بیان کرنا چاہتے ہیں ، جو ان کو ان کے مولائے حقیقی اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے۔ تو ان کے شہود کا نور سننے والوں کے قلوب کی طرف پہلے ہی بڑھ جاتا ہے اور ان کے صدق و اخلاص کے مطابق ان کے اندر سرایت کرتا ہے۔ (اثر انداز ہوتا ہے )
پھر ان سننے والوں میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کے قلب کی گہرائی میں وہ نور داخل ہو جاتا ہے۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کے قلب کے ظاہر پر وہ نور ٹھہر جاتا ہے ۔ اور ان میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کے قلب کے کنارے پر وہ نور چمکتا ہے۔ لہذا جب عارف مقامات و احوال کو بیان کرتا ہے۔ تو اس کا بیان نور کی تاثیر کے مطابق اثر انداز ہوتا ہے۔ لہذا جس شخص کے قلب کی گہرائی میں نور داخل ہو جاتا ہے ، وہ فوراً اپنے رب کی طرف بڑھ جاتا ہے۔ اور جس شخص کے قلب کے ظاہر پر وہ نور ٹھہرتا ہے، وہ خشوع و خضوع اختیار کرتا ہے اور نیکی و تقوی کا پختہ ارادہ کرتا ہے اور جس شخص کے قلب کے کنارے پر وہ نور چمکتا ہے۔ وہ اللہ تعالی کو پہچانتا اورتصدیق کرتا ہے۔ لہذا جس حد تک نور پہنچتا ہے، اسی حد تک بیان کا اثر ہوتا ہے۔ اور حکماء کی تفسیر میں ہم نے کہا ہے ۔ کہ وہ عارفین ہیں۔ اس کے لئے ہماری سند حضرت نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث شریف ہے۔
رَأْسَ الْحِكْمَةِ ‌مَخَافَةُ ‌اللَّهِ حکمت کی بنیاد اللہ تعالی کا خوف ہے ۔
اور لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالی کا پہچاننے والا وہی ہے، جو سب سے زیادہ اللہ تعالی کا خوف کرنے والا ۔ انہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءِ اللہ تعالی کے بندوں میں سے صرف اللہ تعالی کا علم رکھنے والے ( عارفین ) ہی اللہ تعالی سے ڈرتے ہیں۔
حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ سے حکمت کے متعلق دریافت کیا گیا ۔ حضرت امام مالک نے جواب دیا:۔ جب کوئی بندہ زہد تقوی اختیار کرتا ہے۔ تو اللہ تعالی اس کی زبان پر حکمت کی باتیں جاری کر دیتا ہے۔
پھر حضرت امام نے فرمایا ۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالی اس کے قلب کی آنکھ کھول دے تو اس کو پوشیدہ عمل علانیہ عمل سے زیادہ کرنا چاہیئے ۔ اس لئے کہ پوشیدہ عمل ، اخلاص کا سرچشمہ ہے اور اخلاص حکمت کا سر چشمہ ہے۔
پھر جب دوبارہ ان سے حکمت کے بارے میں پوچھا گیا ۔ تو انہوں نے فرمایا ۔ حکمت ایک نور ہے، جو اللہ تعالی مومن بندے کے قلب میں عالم ملکوت ہے ڈالتا ہے۔ لہذا اہل نورہی حکماء اور عارف باللہ ہیں۔ اللہ تعالی جزائے خیر دے اس شاعر کو جس نے ان کی شان میں یہ اشعار فرمائےہیں ۔
هَيْنُونَ لَيْنُونَ ايْسَارٌ بَنُو يَسَرٍ سُوَّاسُ مُكْرَمَةٍ أَبْنَاءِ أَيْسَارٍ
وہ نرم طبیعت ، نرم مزاج ، خوش حال، بزرگی پر قائم رہنے والے ، خوشحال لوگوں کی اولاد ہیں ۔
لَا يَنْطِقُونَ بِغَيْرِ الْحَقِّ أَنْ نَطَقُوا وَلَا يُمَارُونَ إِنْ مَارُوا بِاكثار
اگر وہ بات کرتے ہیں ، تو حق بات کرتے ہیں ۔ اور اگر جنگ کرتے ہیں، تو ظلم و زیادتی نہیں کرتے ہیں۔
مَنْ تَلْقَ مِنْهُمْ تَقُلْ لَا قَيْتُ سَيِّدُهُمْ مِثْلُ النُّجُومِ الَّتِي يَسْرِیْ بِھَا السَّارِى
ان میں سے جس شخص سے تم ملو گے ، تو یہی کہو گے کہ میں ان کے سردار سے ملا ہوں ۔ وہ ان ستاروں کے مانند ہیں ۔ جن سے اندھیری رات میں چلنے والا رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ اور حکما، یعنی عارفین کے بارے میں جو ہم نے کہا :- وہ صرف اسی کا مشاہدہ کرتے ہیں ،
جو اللہ تعالی کی طرف سے اللہ تعالی کی طرف ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ اپنے نفوس سے غائب ہوتے ہیں۔ وہ صرف اللہ تعالی کی تصرف کو اس کے انوار کے مظہروں میں مشاہدہ کرتے ہیں۔
حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :۔ آدمی ، تین قسم کے ہیں ۔ پہلی قسم : وہ لوگ ہیں ۔ جو اس کو دیکھتے ہیں ، جو ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی طرف پہنچتا ہے ۔ (یعنی اپنے اعمال )
و دوسری قسم : وہ لوگ ہیں جو اس کا مشاہدہ کرتے ہیں ، جو اللہ تعالی کی طرف سے ان کی طرف پہنچتے ہیں ۔ (یعنی اللہ تعالی کے احسانات ) تیسری قسم وہ لوگ ہیں جواس کا مشاہدہ کرتے ہیں ، جو اللہ تعالی کی طرف سے اللہ تعالی کی طرف ہے۔
پہلی قسم کے لوگ ۔ غم اور فکر میں مبتلا رہتے ہیں ۔ دوسری قسم کے لوگ خوشی اور شکر گزاری میں مشغول رہتے ہیں۔ تیسری قسم کے لوگ ۔ ان کو نہ دوزخ کا خوف اللہ تعالی سے غافل کرتا ہے نہ جنت کی خوشخبری۔
پہلی قسم کے لوگ :- محنت اور تکلیف میں مصروف رہتے ہیں ۔ دوسری قسم کے لوگ مہربانی اور تعریف میں مشغول رہتے ہیں ۔ تیسری قسم کے لوگ :- اللہ تعالی کے مشاہدے میں محوہوتے ہیں۔
پھر حضرت شیخ نے فرمایا:۔ بیان کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالی کے مشاہدے کے ساتھ تھوڑ اعمل اپنے نفس کی کوتاہی دیکھنے کے ساتھ زیادہ عمل سے بہتر ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں