ذات حق تک پہنچنے کی دلیل کے عنوان سے سترھویں باب میں حکمت نمبر 156 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
سترہواں باب
اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اولیاء اللہ کی معرفت دونوں کے لازم ملزوم ہونے ، ولایت کے اسرار کی تشریح، عارف میں شہود حق تعالیٰ ، ہرشے سے فنا ہونے اور ہرشے سے اللہ تعالیٰ کی محبت زیادہ ہونے کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے فرمایا:-
156) سُبْحانَ مَنْ لَمْ يَجْعلِ الدَّليلَ على أولياؤِه إلا مِنْ حَيثُ الدَّليلِ عَلَيهِ وَلمْ يوصِلْ إليهمْ إلا مَنْ أراد أَنْ يوصِلَهُ إليهِ.
پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے اولیا تک پہنچنا، اپنی ذات تک پہنچنے کی دلیل بنائی۔ (یعنی اولیاء اللہ کی معرفت کو اپنی ذات کی معرفت کے لئے لازمی قرار دیا۔ اور وہ جس شخص کو اپنی ذات تک پہنچانا چاہتا ہے ، اسی کو اپنے اولیا تک پہنچاتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :- دلیل وہ ہے :۔ جو مقصود تک پہنچا دے۔ پس جب اللہ تعالیٰ تم کو کسی عارف باللہ ولی تک پہنچائے اور اس کی طرف تمہاری رہنمائی کرے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ وہ تم کو اپنی معرفت تک پہنچانا اور اپنی ذات کی طرف تمہاری رہنمائی کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے جب اُس نے تمہاری رہنمائی اپنے کسی ولی کی طرف کی اور تم کو اس کے راز سے آگاہ کیا۔ تو یقینی طور پر وہ تم کو اپنی معرفت کی طرف رہنمائی کریگا اور تم کو اپنی بارگاہ میں جلد پہنچائے گا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کی طرف رہنمائی اور اُن کے پاس پہنچنا ، اپنی معرفت کی دلیل بنائی ۔ اور جس کو اپنی معرفت تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کو اولیاء اللہ کے پاس پہنچا تا ہے۔ اس لئے دونوں کے ایک دوسرے سے لازم ہونے اور جدانہ ہونے کی بنا ء پر حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تعجب کا اظہار کیا۔ اور ہمارے شیخ رضی اللہ عنہ نے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ کے اس قول کے سلسلے میں فرمایا ہے :۔
تمہارا اللہ تعالیٰ تک پہنچنا تمہارا اس کے علم تک پہنچنا ہے۔ نیز فرمایا :- تمہارا اللہ تعالیٰ تک پہنچنا ، کسی عارف باللہ تک پہنچتا ہے۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تم کو کسی عارف باللہ تک پہنچا دیا اور اس سے تم کو آگاہ کر دیا۔ تو اس نے تم کو اپنی معرفت تک پہنچا دیا۔ اور جب تم کو عارفین سے محجوب کر دیا۔ تو تم کو اپنی معرفت سے محجوب کر دیا۔ لہذا اولیاء اللہ کی معرفت کے راستے کے سوا حق تعالی کی معرفت کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے اور اولیاء اللہ کی دلیل کے سوا اللہ تعالیٰ کی یعنی اس کی خاص یعنی معرفت کی کوئی دلیل نہیں ہے اور جس طرح اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی مقدس ذات کو اپنی عزت اور قہریت سے پوشیدہ کیا ہے۔ اسی طرح اس نے اپنے اولیاء عظام کو ان کے اوپر اوصاف بشریت ظاہر کر کے پوشیدہ فرمایا۔ لہذا ان کو وہی شخص پہچانتا ہے۔ جس کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سبقت کر چکی ہے۔ کیونکہ خواص کوصرف خواص ہی پہچانتے ہیں۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب لطائف المنن میں فرمایا ہے : اہل اللہ، وجود کی دلہنیں ہیں۔دلہنیں مجرموں سے پوشیدہ رہتی ہیں۔ لہذاوہ پردے ہی میں رہنے کے لائق ہیں۔ حضرت شیخ ابو العباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے :- ولی کا پہچاننا، اللہ تعالیٰ کے پہچاننے سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے جلال اور جمال کے کمال سے پہچانا جاتا ہے۔ اور وہ مشہور ہے۔ لیکن ایسی مخلوق کو تم کس طرح پہچان سکتے ہو۔، جو تمہاری ہی طرح کھاتی اور پیتی ہے۔ نیز فرمایا: جب اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء میں سے کسی دلی کو تمہیں پہچان کرانا چاہتا ہے۔ تو اس کی بشریت کو تمہاری نگاہ سے پوشیدہ کر دیتا ہے۔ اور اس کی خصوصیات تمہارے او پر ظاہر کردیتا ہے۔ نیز فرمایا ۔ ولی ظاہری صورت سے نہیں پہچانا جا سکتا ہے۔ بلکہ وہ صرف باطنی حقیقتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ظاہری صورت کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔
حدیث شریف میں ہے:- رُبَّ أَشْعَثَ أَغْبَرَ ذِي طِمْرَيْنِ تَنْبُو عَنْهُ أَعْيَنُ النَّاسِ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ
بہت سے بکھرے بال والے ( پریشان حال ) گرد آلود ( میلے کچیلے ) گدڑی پوش ( پھٹے پرانے کپڑے پہننے والے ) ایسے ہیں۔ کہ اگر وہ کسی کام کے لئے اللہ تعالیٰ کی قسم کھا لیں ۔ تو اللہ تعالیٰ اُن کی قسم کو پورا کرے گا۔ لہذا جو شخص ولی اللہ کو صورت سے پہچاننا چاہتا ہے۔ تو وہ اس کو نہیں پہچان سکتا ہے۔ کیونکہ وہ اس کو صرف بشر دیکھتا ہے۔ جو کھانا کھاتا ہے۔ اور بازاروں میں چلتا ہے اور آنکھ صرف کثیف اجسام کو دیکھتی ہے۔ جن پر وہی حالت طاری ہوتی ہے، جو اہل حجاب پر طاری ہوتی ہے اور ان لطیف حقائق اور پاکیزہ اسرار کو نہیں دیکھ سکتی ہے، جو صورت میں پوشید ہ کر دی گئی ہے۔
لہذا جس شخص کو اللہ تعالیٰ نیک بخت بنانا چاہتا ہے۔ پہلے اس کو اعتقاد اور تصدیق عطا فرماتا ہے، پھر اس کے بعد ہدایت اور توفیق مرحمت کرتا ہے۔ لہذا ولایت کے اسرار کی تصدیق پہلی معرفت ہے۔
اس لئے حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ ہماری طریقت کی تصدیق ہی ولایت ہے۔
اور بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ کچھ اللہ والے ایسے ہیں ۔ جن کو صرف خاص لوگ پہچانتے ہیں۔ اور کچھ اللہ والے ایسے ہیں، جن کو خاص و عام سبھی لوگ پہچانتے ہیں۔ اور کچھ اللہ والے ایسے ہیں ۔ جن کو نہ خاص لوگ پہچانتے ہیں ۔ نہ عام لوگ۔ اور کچھ اللہ والے ایسے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ ابتدا میں ظاہر کرتا ہے۔ اور انتہا میں چھپا دیتا ہے۔اور کچھ اللہ والے ایسے ہیں، جن کو ابتدا میں چھپاتا ہے۔ اور انتہا میں ظاہر کرتا ہے۔ اورکچھ اللہ والے ایسے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں پہچانتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اور اُن کے درمیان کے معاملے سے ان بزرگ حفاظت کرنے والےفر شتوں کے سوا کوئی آگاہ نہیں ہوتا ہے۔ جن کو سرائر کی حفاظت کی ذمہ داری سپرد کی گئی ہے۔ اور کچھ اللہ والے ایسے ہیں ، جن کو صرف اللہ تعالیٰ پہچانتا ہے، اور اللہ تعالی ان کے درمیان کی حقیقت سے محافظ فرشتے بھی واقف نہیں ہوتے ہیں۔ جب تک اُن کو القانہ کیا جائے۔
لہذا یہ لوگ ملکوت اعلیٰ کا مشاہدہ کرنے والے مقربین بارگاہ ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی روحیں اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے قبض کرتا ہے۔ اور یہی وہ لوگ ہیں۔ جن کے اجسام ان کی ارواح کی پاکیزگی سے پاکیزہ ہو گئے ہیں۔ اس لئے ان کے مقدس اجسا م کی طرف مٹی نہیں بڑھے گی۔ (مٹی ان کے اجسام کو نہیں کھائے گی )۔ یہاں تک کہ وہ اس حال میں اٹھائے جائیں گے ، کہ وہ اُس بقا کے انوار سے روشن ہوں گے۔ جو اللہ تعالیٰ باقی احد کی ابدی بقا کے ساتھ ، ان کو ودیعت کئے گئے ہیں۔ وہ لوگ انسیت کے حجاب کے نیچے بے قرار محبت اور قدس کے سمندروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ اس لئے ان کو اس کے غیر کے ساتھ قرار و سکون نہیں ہوتا ہے۔ اور نہ ان کو اپنی خبر ہوتی ہے۔ ان کے حالت کا کفیل اللہ تعالیٰ ہے۔ ( جس طرح چلائے چلتے ہیں، جو کھلائے کھاتے ہیں۔ جس طرح رکھے رہتے ہیں۔ ہر حال میں راضی بہ رضا ہیں )
وَ مَنْ يَتَوَلَّ اللَّه وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَالِبُونَ ) اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اور مومنوں کو دوست رکھتا ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب ہے۔