مقامات کے انوار پر قلوب ٹھہرنا (سولہواں باب)

مقامات کے انوار پر قلوب ٹھہرنا کے عنوان سے سولہویں باب میں  حکمت نمبر 154 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور بندے سے مطلوب ، اثر کے دیکھنے والے نور سے ، صفات کے مشاہدہ کر نیوالے نور کی طرف اور پھر ذات کے مشاہدہ کرنے والے نور کی طرف ترقی کرنی ہے۔ اور کبھی بعض قلوب پہلے ہی نور میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے وہ دوسرے نور سے محجوب رہ جاتے ہیں اورکبھی دوسرے نور کے ساتھ ٹھہر جاتے ہیں۔ تو تیسرے نور سے محجوب رہ جاتے ہیں۔ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے۔
154) رُبَّمَا وَقَفَتِ الْقُلُوبُ مَعَ الأَنْوَارِ كَمَا حُجِبَتِ النُّفُوسُ بِكَثَائِفِ الأَغْيَارِ .
اکثر اوقات، قلوب انوار کے ساتھ ٹھہر جاتے ہیں۔ جیسا کہ نفوس اغیار کی کثافتوں کے ساتھ محجوب ہو جاتے ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں :۔ بعض قلوب مقامات کے انوار کے ساتھ ٹھہر جاتے ہیں۔ حالانکہ وہ ابھی انتہا تک نہیں پہنچے ہیں۔ (یعنی انتہا تک پہنچنے کے بغیر انوار میں مشغول ہو کر آگے بڑھنے سے رک جاتے ہیں) لہذاوہ پہنچنے سے محجوب ہو جاتے ہیں۔ جیسا کہ نفوس محسوسات کی کثافتوں کے سبب، معانی و مفہوم ( حقیقتوں اور مقصود ) کی باریکیوں کے سمجھنے سے محجوب ہوتے ہیں۔ اور ایسا، یا تو شیخ تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یا پھر ، ترقی کرنے سے ہمت کی کمزوری کی بناء پر ہوتا ہے۔
تو کبھی بعض قلوب پر تو حید افعالی کا سرظا ہر ہوتا ہے۔ تو وہ عمل میں فنا ہو جاتے ہیں اور اس کی شیرینی چکھتے ہیں۔ اس لئے وہ اس کے ساتھ ٹھہر جاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت کے غیبی آواز دینے والے فرشتے ان کو پکارتے ہیں کہ اس جگہ نہ ٹھہر و تم جس کو چاہتے ہو ۔ وہ ابھی اور آگے ہے اور کبھی بعض قلوب پر توحید صفاتی کا سر ظاہر ہوتا ہے۔ اور اُن کے سامنے مقامات کےانوار روشن ہوتے ہیں۔ مثلا زہد اور ورع اور توکل کا صحیح ہونا اور رضا و تسلیم ا ور محبت اور شوق کی شیرینی اور ان کے علاوہ دوسرے مقامات کی حقیقتیں تو وہ انہی پر قناعت کر لیتے ہیں۔ اور اسی مقام پرٹھہر جاتے ہیں ۔ حالانکہ مقصود، توحید ذاتی کے اسرار اور صفات کے انوار کا ظاہر ہونا ہے۔
وَ أَنَّ إِلَى رَبِّكَ الْمُنتَهى بے شک آخری ٹھکانہ تمہارے رب کے پاس ہے ۔ پس نور اس لذت اور قوت کو کہتے ہیں ۔ جسکو
مرید ایمان کی زیادتی اور یقین کی مضبوطی کی بنا پر اپنے باطن میں پاتا ہے۔
لہذا خدمت کی لذت فنافی الافعال والوں کے لئے ہے۔ اور زبانی یا قلبی محسوس ذکر کی لذت حجاب کے ساتھ فنافی الصفات والوں کے لئے ہے۔اور فکر و نظر کی لذت ، فنافی الذات والوں کے لئے ہے۔
اگر تم چاہو تو اس طرح کہو ۔ اکثر اوقات قلوب ، احوال کے انوار کے ساتھ ٹھہر جاتے ہیں۔ اس لئے وہ اللہ والوں کے مقامات سے محجوب ہو جاتے ہیں۔
یا اس طرح کہو :- مقامات کے انوار کے ساتھ ٹھہر جاتے ہیں۔ اس لئے ذات کی معرفت سے محجوب ہو جاتے ہیں۔
اس لئے حضرت شیخ ابن مشیش رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگرد ( خلیفہ ) حضرت شیخ ابو الحسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا :- میں اللہ تعالیٰ سے رضا و تسلیم کی سردی کی شکایت کرتا ہوں ۔ جس طرح تم تدبیر و اختیار کی گرمی کی شکایت کرتے ہو۔
حضرت رضی اللہ عنہ اس بات سے ڈرے:۔ کہ رضا و تسلیم کی لذت کی بنا پر ، ذات کے شہود سے محجوب نہ ہو جائیں۔ اور تم جان لو ۔ کہ احوال اور مقامات کے ساتھ ٹھہر جانا، صرف شیخ کامل تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص کامل کی صحبت میں رہتا ہے۔ یا اکثر اس کے پاس پہنچتا رہتا ہے۔ تو یہ ضروری ہے۔ کہ وہ اس کو سیر کرا کے مقصور تک پہنچا دے ۔ مگر اس صورت میں کہ شیخ یہ دیکھے کہ اس کی ہمت کمزور ہے۔ شہود کے انور کے برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے تو وہ اس کو اس کی حالت پر چھوڑ دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی ہمت معبود حقیقی کے شہود کے لئے طاقتور ہو کر بلند ہو جائے ۔ اور حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے ، انوار کے ساتھ قلوب کے محجوب ہونے کو ، اغیار کے ساتھ نفوس کے محجوب ہونے سے اس لئے مشابہت کی ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ سے محجوب ہونے میں دونوں مشترک ہیں۔ لیکن نفس کا اغیار کے ساتھ محجوب ہونا زیادہ سخت ہے۔ کیونکہ اغیار، ظلمت ہیں۔ اور ظلمت نور سے زیادہ سخت (مضبوط ) حجاب ہے۔
اور چونکہ قلوب نورانی ہیں۔ اس لئے نور کے ساتھ محجوب ہوتے ہیں اور نفوس ظلمانی ہیں۔اس وجہ سے ظلمت کے ساتھ محجوب ہوتے ہیں ۔ اور اغیار کی کثافتیں :۔ وہ دنیا کی وہ رونق اور نمائشی زینت اور مکر و فریب اور حسن و جمال ہے۔ جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہے اور اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنی اس آیت کریمہ میں اشارہ فرمایا ہے:۔
زينَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ  ۔

عورتوں اور بیٹوں اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے ڈھیروں ، وغیرہ کی خواہشات کی محبت لوگوں کے لئے مرغوب بنادی گئی ہے۔
اور انہی اغیار میں ، مرتبہ اور سرداری کی خواہش اور تعریف اور تعظیم کی آرزو اور ان کے علاوہ وہ تمام خواہشات و عادات جو نفس کے موافق اور اسکی پسندیدہ ہیں، داخل ہیں اور یہی وہ اغیار ہیں ۔ جنہوں نے اکثر لوگوں کو مقصود تک پہنچنے سے روک دیا ہے اور ان کو نا کامی اور محتاجی تک پہنچایاہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کے احسان اور کریم کے طفیل ، ان اغیار سے حفاظت کی دعا کرتے ہیں۔ آمین
اور عقلی اور زبانی علوم بھی اغیار میں داخل ہیں۔ لہذا ان علوم میں مشغول ہونا اور ان کی لذت کے ساتھ ٹھہرنا ، اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے ، یعنی خاص معرفت کے لئے سب سے زیادہ سخت حجاب (حجاب اکبر ) ہے۔ اور ظاہری کرامات ، جیسے ہوا میں اڑنا اور پانی پر چلنا بھی اغیار میں شامل ہیں ۔ لہذا اس کے ساتھ ٹھہر نا بھی سخت ترین حجاب ہے۔
اس لئے بعض عارفین نے فرمایا ہے : اللہ تعالیٰ سے محجوب ہونے میں زیادہ سخت علما ہیں ، پھر عابدین ہیں، پھر زاہدین ہیں۔
پس پاک ہے وہ ذات جس نے علما کو اُن کے علم کے سبب ان کے معلوم (اللہ تعالیٰ ) سے اور عابدین کو اُن کی عبادت کے سبب اُن کے معبود حقیقی سے ، اور صالحین کو ان کی صلاحیت کے سبب اُن کے مصلح سے محجوب کر دیا ہے اور اللہ تعالیٰ ان سب سے بالا تر اور آگے ہے۔ اور اس کےبارے میں حضرت ششتری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے:۔
تَقَيَّدْتَ بِالْأَوْهَامِ لَمَّا تَدَا خَلَتْ عَلَيْكَ وَ نُورُ الْعَقْلِ أَوْرَثَكَ السِّجْنَا
تم وہموں کے ساتھ پھنس گئے ۔ جب وہ تمہارے اندر داخل ہوئے۔ اور عقل کے نور نے تم کو مقیدکر دیا۔
وَهِمْتَ بِأَنْوَارٍ فَهِمْنَا أَصُولَهَا وَ مَنْبَعَهَا مِنْ أَيْنَ كَانَ فَمَا هِمْنَا
اور تم انوار کے عاشق ہو گئے ۔ لیکن ہم نے ان کے اصول اور سر چشمے کو سمجھ لیا ہے۔ کہ وہ کہاں سےآتے ہیں۔ اس لئے ہم ان پر عاشق نہیں ہوئے ۔
وَقَدْ تَحْجُبُ الْأَنْوَارُ لِلْعَبْدِ مِثْلَ مَا تُبَعِۤدُ مِنْ أَظْلَامٍ نَفْسٍ حَوَتْ ضِغْنَا
انوار بھی بندے کو اسی طرح روک دیتے ہیں۔ جس طرح وہ نفس کی تاریکی کی وجہ سے دور ہو جاتا ہے۔ جو کینہ اور دوسرے برے اوصاف کو شامل ہے۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں