محبت کی ترغیب والے امور (چودھواں باب)

محبت کی ترغیب والے امور کے عنوان سے چودھویں باب میں  حکمت نمبر 135 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
:- وہ امر جو محبت کی ترغیب دیتا ہے۔ اور محبت اور دوستی کو مضبوط کرتا ہے۔ اور دوامور ہیں :- ایک امر : وہ ہے جو پہلے بیان کیا گیا ہے۔ کہ ساتھی ایسا ہونا چاہیئے ۔ جو تمہارے عیب کو اپنے برداشت سے ڈھانپ لے۔ دوسرا امر :- یہ ہے کہ ساتھی ایسا ہونا چاہیئے ۔ جو تم سے محبت کرے ۔ اور تم کو بغیر کسی غرض کے اپنی بارگاہ میں طلب کرے۔ اور تمہاری صحبت سے اُس کا کوئی فائدہ نہ ہو۔ اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے دوسرے امر کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے :-
خَيْرُ مَنْ تَصْحَبُ مَنْ يَطْلبُكَ لَا لِشَيْ يَعُودُ مِنْكَ إِليه تمہارا بہترین ساتھی وہ ہے ۔ جو تمہاری جانب سے اس کو کسی شے کے نفع پہنچنے کی امید کے بغیر تم کو طلب کرتا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ یہ بزرگ ترین (اعلی درجے کا ) وصف ،اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں نہیں پایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ وہ بے نیاز ، اور تعریف کا مستحق ہے۔ اپنے ارادے کو مکمل طریقے پر پورا کرنے والا ہے۔ وہ بغیر کسی علت اور سبب کے ، جس سے چاہتا ہے، محبت کرتا ہے۔ اور بغیر کسی نقصان اور تکلیف کے جس پر چاہتا ہے ، ناراض ہوتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے، بغیر کسی عمل کے قریب کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ، بغیر کسی لغزش کے دور کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:- لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ( جو کچھ اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ اُس کے بارے میں اُس سے کچھ سوال نہیں کیا جاسکتا ہے، یعنی وہ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے اور وہ لوگ ( یعنی مخلوق )سوال کئے جائیں گے (یعنی اُن کو اپنے افعال کی جوابدہ ہی کرنی ہوگی ) ( وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ) اگر تمہارا رب چاہتا۔ تو وہ لوگ ایسا نہ کرتے ، ( أَنْ لَّوْ يَشَاءَ اللهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ) اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت عطا فر ما دیتا۔ اور سارا کلام صرف اہل حقیقت کے اعتبار سے ہے۔ لیکن حکمت اور اہل شریعت کے اعتبار سے۔ تو تمہارا رب اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا ہے۔ لیکن سب کا پیدا کرنے والا، سب کے نتیجے کا بھی پیدا کرنے والا ہے۔ ( مَنْ وَجَدَ خَيْرٌ فَلْيَحْمَدُ اللهِ ، وَ مَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَالِكَ فَلَا يَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ ) جس شخص سے کوئی نیکی صادر ہوا تو اس کو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔ اور جس شخص سے نیکی کے علاوہ یعنی گناہ سرزد ہوا تو اسے اپنے نفس کو ملامت کرنی چاہیئے ۔
حضرت جیلی رحمہ اللہ کا شعر ہے:۔
إِذَا كُنتُ فِي حُكْمِ الشَّرِيعَةِ عَاصِيًّا فَإِنِّي فِي حُكْمِ الْحَقِيقَةِ طَائِعُ
جب میں شریعت کے حکم میں نافرمان ہوتا ہوں۔ تو بیشک میں حقیقت کے علم میں فرماں بردار ہوتا ہوں۔
پس اے انسان ! تمہارا بہترین ساتھی تمہارا مولائے حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ جو تم کو اپنی بارگاہ کے لئے طلب کرتا ہے۔ اور تم کو اپنی محبت کے لئے منتخب فرماتا ہے۔ بغیر کسی فائدے کے جو تمہاری ذات سے اُس کو پہنچتا ہو۔ اور در حقیقت یہ طلب اور انتخاب تمہارے اوپر اُس کا صرف احسان ہے۔ ہمیں تم اس کو کیسے چھوڑ دیتے ہو۔ اور اس کے غیر کے ساتھ محبت کرنا چاہتے ہو۔
حالانکہ اس کے غیر کی محبت کا نقصان اُس کے فائدے سے زیادہ قریب ہے۔ ایک عارف نے فرمایا: تم آدمیوں کو آزما کر دیکھو۔ تم ان کوبچھو پاؤ گے۔ لہذا اگر تم صحبت کرنا چاہتے ہو۔ تو ان عارفین کی صحبت اختیار کرو۔ جن کا حال تم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سیر کرنے کے لئے آمادہ کرے۔ اور جن کا قول اللہ تعالیٰ کی طرف تمہاری رہنمائی کرے۔ اللہ تعالیٰ عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ جنھوں نے اپنی کتاب عینیہ میں بہت خوب اشعار فرمائے ہیں۔
فَشَمَّرُ وَلُذْ بِالأَوْلِيَاء فَإِنَّهُمْ ل َهُمْ مِّنْ كِتَابِ الْحَقِّ تِلْكَ الْوَقَائِعُ
پس تم دوڑ کر اولیاء اللہ کی پناہ لو۔ کیونکہ بیشک وہ لوگ ایسے ہیں۔ کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کےکتاب سے یہ واقعات ثابت ہیں ۔
هم الذخر للملهوف والكنزورجا وَمِنهُم ینَالُ الصَّبْ مَا هُوَ طَامِع
وہ مظلوم اور مایوس کے لئے ذخیرہ (ڈھیر) اور فرمان اور امید ہیں ۔ اور انہیں کے میلے سے محبت کرنے والا اپنے محبوب تک پہنچتا ہے۔
بهم يهتدى للعین مَنْ ضَلَّ فِي العَمَى بِهِمْ يُجْذَبُ الْعشَّاقَ وَالربع شاسع
انہیں کے وسیلے سے میں ذات کی طرف وہ شخص ہدایت پاتا ہے۔ جو اندھے پن کی وجہ سے گمراہ ہو گیا ہے۔ انہیں کے ذریعےعاشقین کھینچ لئے جاتے ہیں۔ اگر چہ فا صلہ دور ہے۔
هُمُ القَصْدُ وَالْمَطْلُوبُ وَالسُّولُ وَالْمُنى وَاسْمُهُمْ لِلصَّبْرِ فِي الْحُبّ شَافِعُ
وہی مقصود ، اور مطلوب، اور سوال اور تمنا ہیں۔ اور اُن کا نام محبت میں ثابت قدم رہنے کے لئے مددگار ہے۔
هُمُ النَّاسُ فَالْزَمُ إِنْ عَرَفتَ جَنَابَهُمْ فَفِيهِمُ لِضُرِّ الْعَالَمِينَ مَنَافِعُ
وه کامل انسان ہیں۔ اگر تم اُن کی بارگاہ کو پہچان لو۔ تو و ہیں جم کر بیٹھ جاؤ۔ کیونکہ سارے جہانوں کی مصیبت کے لئے ان کے اندر فوائد ہیں اور غیر اولیاء غافلین عوام کی صحبت سے بچنے کےبارے میں فرمایا
وَقَاطِع لِمَنْ وَاصَلْتَ أَيَّامَ غَفْلَةٍ فَمَا وَاصَلَ الْعُذَالَ إِلَّا مُقَاطِعُ
اور غفلت کے زمانے میں تم نے جن لوگوں سے تعلق قائم کیا ہے۔ اُس کو توڑ دو۔ کیونکہ ملامت کرنے والوں سے وہی شخص تعلق قائم کرتا ہے۔ جو اپنے مقصود سے منقطع ہو جانے والاہے۔
وَجَانِبُ جَنَابَ الأَجْنَبِي لَوْ أَنَّهُ لِقُرْبِ انتسَابِ فِي الْمَنَامِ مُضَاجِعُ
اور اجنبی (غیر ) کے پہلو سے دور رہو۔ اگر چہ وہ منسوب ہونے کی قربت کی بنا پر تمہارے بستر پر تمہارے ساتھ ہوتا ہو۔
فَللِنَفسِ مِنْ جُلاَّسِهَا كُلُّ نِسْبَةٍ وَمِنْ خُلَّةٍ لِلْقَلْبِ تِلْكَ الطَّبَائِعُ
کیونکہ نفس کو اپنے ہم نشینوں سے گہری نسبت ہوتی ہے۔ اور قلب کو اپنے ساتھیوں کی عادتوں سےمحبت ہو جاتی ہے۔
حاصل یہ ہے : کہ اُس شخص کی صحبت ، جو اللہ تعالیٰ تک پہنچا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صحبت ہے۔ کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ نہیں ہے اور عارف باللہ کی طرف دیکھنا ، اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھنا ہے۔ اس لئے کہ اُس کے اندر ، اور اُس کے اوپر غیر اللہ کا کوئی اثر باقی نہیں رہ گیا ہے۔ لہذا وہ اللہ تعالیٰ کے نور سے خالص نور ہو گیا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے :-
إِنَّ اللَّهَ رِجَالاً مَنْ نَظَرَ إِلَيْهِمْ سَعِدَ سَعَادَةً لَا يَشْقَى بَعْدَ هَا أَبَدًا
بیشک اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے دوست ہیں۔ کہ جو شخص انکی طرف دیکھتا ہے۔ وہ ایسا نیک بخت ہو جاتا ہے۔ کہ اب اس کے بعد پھر کبھی بدبختی میں نہ مبتلا ہوگا۔
اور وہ لوگ یعنی اولیاء اللہ موجود ہیں۔ کبھی ختم نہ ہوں گے ۔ وہ سورج کے ظاہر ہونے کی طرح ظاہر ہیں۔ وہ پوشیدہ نہیں ہیں۔ وہ صرف انہیں لوگوں سے پوشیدہ رہتے ہیں۔ جن کو اللہ تعالیٰ اپنے سے دور رکھنا چاہتا ہے۔
اور عطا کے بعد سلب سے ( بخشش کے بعد اُس کے چھن جانے سے )، اور بری قضا سے ، اور دشمنوں کی ہنسی سے ، اور بیماری کی سختی سے، اور امید کی ناکامی سے ، اور نعمت کے زوال سے ، اور سزا کے اچانک آجانے سے ، میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں