عَنْ َابِیْ ہُرَےْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺکَانَ یَقُوْلُ الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ وَالْجُمُعَۃُ اِلَی الْجُمُعَۃِ وَرَمَضَانُ اِلیٰ رَمَضَانَ مُکَفِّرَاتٌ مَّا بَیْنَھُنَّ اِذَا اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ(صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب الصلوات الخمس)
حضرت ابو ہریرہ ص بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲا نے فرمایا پانچ نمازیں اور ایک جمعہ سے لے کر اگلا جمعہ پڑھنے ،ایک رمضان المبارک سے دوسرے رمضان المبارک کے روزے رکھنے تک ان کے درمیان واقع ہونے والے گناہوں کے لئے کفارہ بن جاتے ہیں جب تک گناہ کبیرہ نہ کرے (اصرار نہ کرے کوئی غلطی ہو جائے تو فوراًاﷲ سے معافی کا طلبگا ر ہو )
ایک حدیث شریف میں ہے وضو کرنے سے بھی گناہ معاف ہوجاتے ہیں روزانہ کی پانچ نمازوں سے بھی ،جمعہ پڑھنے اور رمضان المبارک کے روزے رکھنے سے بھی اس حدیث میں رمضان المبارک سے جن گناہوں کے معاف کرنے کا ذکر ہو رہا ہے وہ سارے صغیرہ گناہ ہیں تو باقی عبادات سے کبیرہ گناہوں میں تخفیف ہو جائے گی نیز اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ عبادات سے صغیرہ گناہ اس وقت معاف ہوتے ہیں جب مسلمان کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرے کیونکہ صغیرہ گناہ اصرار سے کبیرہ ہوجاتے ہیں (جس طرح داڑھی منڈانا کبیرہ گناہوں میں شمار نہیں لیکن مسلسل منڈانایا کٹوانا اصرار ہے اس سے کبیرہ گناہ میں شامل ہو جاتی ہے )البتہ کبیرہ گناہ توبہ صحیحہ ،شفاعت یا محض اﷲ کے فضل سے معاف ہوتے ہیں ۔ (داڑھی منڈانے والا ان تینوں قسموں میں نہیں آتا کیونکہ نہ وہ سچی توبہ کرتا ہے رسول اﷲا کی نافرمانی اور شفاعت کیسے یکجا ہوں گی اور داڑھی منڈانا اﷲ کے فضل سے دوری کی پہچان ہے)گناہ سے معافی کیلئے سچی توبہ کے ساتھ اس گناہ پر اظہارِ ندامت اورآئندہ نہ کرنے کا پکا ارادہ ہونا بھی ضروری ہے ۔
ایک صحابی جن کا نام ابو الیسرہے نے ایک عورت کا بوسہ لیا اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے رسول اﷲا کے حضور پیش ہوئے حُکم ہو ااس بات کو چھپاؤ اور اﷲ کے حکم کا انتظار کرو۔رسول اﷲا کے ساتھ نماز عصر پڑھی تو یہ آیہ کریمہ نازل ہوئی ان الحسنات یذھبن السیئات آپ انے فرمایا تونے ہمارے ساتھ نماز عصر نہیں پڑھی عرض کی پڑھی ہے تو فرمایا یہ نماز تیرے گناہ کا کفارہ ہو گئی صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اﷲا کیا یہ حُکم ان کیلئے خاص ہے یا سب کیلئے فرمایا سب انسانوں کیلئے ہے (روح البیان)
یہ اﷲ تعالی کی شان کریمی ہے کہ اس نے مسلمانوں کی بخشش کیلئے بہت سے اسباب فراہم کر دئیے تاکہ اگر کسی ایک سبب کی وجہ سے گناہ نہ معاف کرا سکیں تو دوسرے اسباب سے اس کے گناہ معاف ہو جائیں اہلِ ایمان کیلئے اتنی آسانیاں پیدا فرما دیں ۔
رمضان المبارک کے دن گنتی کے چند دن ہیں اور عقل والوں کیلئے بڑی غنیمت ہیں کیونکہ انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ وقت ہے تو جو شخص بھی اس سعادت عظمیٰ کے حصول کا متمنی ہو اور آخرت کی کامیابی کا خواہشمند ہو اسے چاہیئے کہ آرام و سکون کو ایک طرف رکھے اور اپنی خواہشات اور کھیل تماشے کو چھوڑ دے بعض لوگ اس ماہ مقدس کو بھی صرف سونے اور فضول کاموں میں ضائع کرتے ہیں انہیں رمضان المبارک کی اہمیت اور روزے کی حکمت سے بے خبری ہے اور سب سے بڑی بات کہ نصیب جگانے کی توفیق ہی نہیں۔
حضرت ابو سعید الخدری ص سے روایت ہے رسول اﷲا نے فرمایامن صام رمضان وعرف حدودہ کفر ما قبلہ (ابن حبا ن۔ کتاب الصوم۔ باب فضل رمضان)
جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور اس کی حدود کو پہچانا اس کے پہلے گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں ۔
روزے کے آداب میں یہ بھی ہے کہ آدمی کھانے پینے میں میانہ روی اختیار کرے، اسراف سے بچے ،جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ بازاروں اور گھروں میں انواع واقسام کے کھانے ان دنوں میں پکتے ہیں جو رمضان المبارک کے بغیر نہیں ہوتے جسکا عمومی نتیجہ مال کاضیاع اور کھانے کی کثرت سے بدن کا آرام کی طرف لوٹنا ہوتا ہے ہماری ماؤں بہنوں کا زیادہ وقت عبادت کی بجائے کھانے پکانے میں صرف ہوتا ہے یہ کام حکمت صوم کے منافی ہے اسی لئے کہا گیا کلوا واشربوا ولا تسرفوا (کھاؤاور پیو لیکن فضول خرچی نہ کرو)علماء کہتے ہیں اس آیت میں ساری طب جمع کر دی گئی۔
اس سے بڑا گناہوں کا کفارہ کیا ہو گا کہ اس کے پہلے گناہ معاف ہو جائیں جس سے وہ جنت کا حقدار ہو جائے ۔
من صام رمضان ایماناواحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (بخاری و مسلم)
جس نے رمضان المبارک کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے اس کے پہلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔
رمضان المبارک نیکیوں اور اﷲ تعالیٰ کے قرب کا موسم ہے اور اﷲکے ذکر سے بڑھ کر کوئی دوسری شے نہیں جو اﷲ کے قریب کر سکے تما م شرعی عبادات کا مقصود اعظم اﷲ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنا ہے جس طرح نماز کا مقصد اقامۃ ذکر اﷲ ہے (فاعبدنی واقم الصلوۃ لذکری طہ :14) میری عبادت کرو اور نماز قائم کرو میری یاد کیلئے
اور دوسری تمام عبادات جو اعمالِ صالحہ میں شمار ہوتی ہیں اسی ذکر کے مظاہر ہیں یاایھا الذین امنوا اذکروا اﷲ ذکرا کثیرا (الاحزاب :41)اے اہلِ ایمان اﷲ کا ذکر کرو کثرت کے ساتھ
اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ انسان جو عبادات کرتا ہے اس میں سب سے اعلیٰ عبادت ذکر دائمی جس پر حضرت ابو ہریرۃصکی حدیث دلالت کرتی ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے کہ رسول اﷲ انے فرمایا سبق المفردون قالوا یا رسول اﷲ ومن المفردون ؟قال الذاکرون اﷲ کثیرا والذاکرات
مفردون سبقت لے گئے صحابہ نے عرض کی یارسول اﷲا وہ مفردون کون لوگ ہیں فرمایا کثرت سے اﷲ کا ذکر کرنے والے ۔
دوسری روایت ہے (حضرت ابی الدرداء صسے روایت ہے جسے امام الترمذی ،امام مالک نے مؤطا میں اور صاحبِ مشکوۃ نے ذکر کیا )
رسول اﷲا نے فرمایا کیا میں تمہیں بہترین اعمال کے بارے میں نہ بتاؤں جو بہت پاکیزہ ہیں تمہارے بادشاہ کے نزدیک اور درجوں کے لحاظ سے بہت بلند ہیں سونے اور چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہیں اور جہاد سے بھی بہتر ہیں صحابہ نے عرض کیا ضرور بتائیں تو فرمایا (ذکر اﷲ)
ذکر اﷲ کو راضی کرتا ہے ۔شیطان کو بھگاتاہے غم و پریشانی کو دور کرتا ہے اور خوشی اور سرور مہیا کرتا ہے اور وقت میں برکت عطا کرتا ہے۔
یہی ذکر رزق میں اضافے کا سبب ،قلب کو زندہ کرتا ،قساوت قلبی کو دور کرتا،اﷲ کی محبت کا حقدارٹھہراتااور اسکی معرفت اور محبت کا ذریعہ بنتا ہے ۔
ذکر برائیوں کو مٹاتا ہے سختی کے وقت انسان کو فائدہ دیتا ہے اﷲ تعالیٰ کے شکر کا ذریعہ اور لوگوں میں قابل عزت بناتا ہے ۔
اس کے مزید فوائد میں یہ بھی ہے کہ کل قیامت کے دن ندامت سے بچائے گا ۔دنیا میں غیبت ،چغل خوری اور بے حیائی کی باتوں سے بچاتا ہے اور اگر اﷲ کا کرم ہو جائے کہ دوران ذکر اگر رو پڑے تو یہ وہ نعمت ہے کہ جس کے سبب کل قیامت کے دن اﷲ کے عرش کے نیچے سایہ میسر ہو گا جس سائے کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہو گا۔
اگرروزہ دار اپنے معمولات میں ذکر کو شامل کر لے تو نفاق اور نسیان سے امان مل جائیگی اس کے ساتھ ہی تمام قسم کی پریشانیوں اور خوف کو دور کرنے میں اﷲ کے ذکر سے بڑھ کر کوئی دوسری شے نہیں۔
ذکر وہ عمل ہے جس سے جنت کیلئے بیج بویا جاتا ،ایسی عبادت جو کرنے میں آسان اور مشقت میں تھوڑی ،اس کا ثواب غلام آزاد کرنے کے برابر اور جزا اس قدر زیادہ کہ اس سے بڑھ کر کسی عمل کی بہتر جزا نہیں رمضان المبارک میں اسکی کثرت ہونا چاہیئے
حضرت عمر فاروق صکا قول ہے
من کثر اکلہ لم یجد لذکر اﷲ لذۃ جوزیادہ کھائے اسے اﷲ کے ذکر میں لذت میسر نہیں آتی۔(کتاب الحلم لابن ابی الدنیا)
نفس تو رغبت والی چیزوں کی طرف جائے گا جب اسے رغبت والی چیزیں کم دی جائیں گی تواس کی رغبت کم ہو گی اسے قناعت کہتے ہیں۔
جب مومن اپنے نفس پر سختی اور جبر کرکے اسے نیکی کے کاموں کی طرف راغب کرے تو جنت کے دروازے کھلنے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام اصول و ضوابط کے مطابق روزہ ہو نفس کا روزہ ہو صرف آنتوں کا نہیں یہ ماہ مبارک خوشی اور فرحت کا مہینہ ہے لیکن بہت کم لوگ اس حقیقی خوشی کو حاصل کرتے ہیں اے روزہ دار اصل خوشی تو قلب کو اس کے محبوب کی طرف راغب کرنے میں ہے اور اس سے دوری غم اور حزن کہلاتی ہے جسے آقا کریم ا نے ان الفاظ میں بیان فرمایا
لصائم فرحتان فرحۃ عند فطرہ وفرحۃ عند لقاء ربہ روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں ایک روزہ افظار کرتے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔
علامہ نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں ’’ملاقات کے وقت اس لئے خوشی ہو گی کہ وہ روزے کی جزا کو دیکھے گا اور اﷲ تعالیٰ کی نعمت اور توفیق کو دیکھے گا افطار کے وقت خوشی اس لئے ہوتی ہے کہ عبادت اور اﷲ کا حکم مکمل ہو چکا ہوتا ہے اور ثواب کی امید قوی ہو جاتی ہے ‘‘
روزہ تقویٰ والوں کیلئے لگام ،جنگجوؤں کیلئے ڈھال اور نیکوکاروں کیلئے مشق ہے ۔
امام ربانی مکتوبات میں فرماتے ہیں ’’یہ ماہ مبارک تمام خیر برکات کا جامع ہے جو خیر وبرکت پورے سال میں کسی شخص کو پہنچتی ہے خواہ وہ کسی راستے سے بھی پہنچے وہ اس ماہِ مبارک کی وافر برکتوں کے دریا کا ایک قطرہ ہے اس مہینے کی جمیعت تمام سال کی جمیعت ہے اور اس سال کا تفرقہ تمام سال کا تفرقہ ہے فطوبیٰ لمن مضی علیہ ھذا الشھر المبارک ورضی عنہ وویل لمن سخط علیہ فمنع من البرکات وحرم من الخیرات پس اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جس پر یہ مہینہ خوشی خوشی گذر گیا اور ہلاکت ہے اس شخص کیلئے جس پر یہ مہینہ ناراض گیا اور وہ اس کی نیکیوں اور برکات سے محروم رہا
اور قرآن مجید کا پڑھنا اس مہینہ میں اسی وجہ سے سنت ہوا کہ تمام اصلی کمالات اور ظلی برکات حاصل ہوں فمن جمع بینھما یرجیٰ ان لا یحرم من برکاتہ ولا یمنع من خیراتہ پس جس نے ان دونوں کو جمع کیا امیدہے کہ وہ اس مہینے کی خیر برکات سے محروم نہ رہے گا ‘‘
روزہ تین قسم کا ہے ایک عام دوسرا خاص اور تیسرا خاص الخاص عام روزہ یہ ہے کہ انسان پیٹ شرمگاہ اور تمام اعضا ء کو ان کے تقاضوں کو پورا کرنے سے روک لے خاص روزہ یہ ہے کہ آنکھ کان زبان ہاتھ پاؤں اور تمام اعضاء کو گناہ سے روک لے اور خاص الخاص روزہ صوم القلب وہ یہ کہ انسان دل میں بُرے خیالات بھی نہ آنے دے اور اﷲ کی مرضی کے سوا ہر خیال دل کے قریب بھی نہ آنے دے۔
عبد العزیز بن عمیر کہتے ہیں
الصلاۃ تبلغک نصف الطریق ،والصوم یبلغک باب الملک ،والصدقۃ تدخلک علیہ
نماز تمہیں آدھے راستے تک لے جاتی ہے ۔روزہ بادشاہ کے دروازے تک پہنچاتا ہے اور صدقہ اس میں تجھے داخل کرتا ہے ۔
وَفَّقَنَا اﷲ ُسُبْحَانَہٗ لِلْخَیْرَاتِ وَالْبَرَکَاتِ فِیْ ھَذَا الشَّھْرِ الْمُبَارَکِ وَرَزَقَنَا ﷲ ُسُبْحَانَہُ النَّصِےْبَ الْاَعْظَمَ
اﷲ تعالیٰ ہمیں اس مبارک مہینے کی خیرات وبرکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے نصیب میں زیادتی فرمائے