عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَامِتِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ یَقُوْلُ خَمْسُ صَلَوَاتٍ اِفْتَرَضَھُنَّ اﷲ ُعَلٰی عِبَادِہٖ فَمَنْ جَآءَ بِھِنَّ لَمْ ےَنْتَقِصْ مَنْھُنَّ شَےْئًا اِسْتِخْفَافًا بِحَقِّھِنَّ فَاِنَّ اﷲَ جَاعِلٌ لَہُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ عَھْدًا اَنْ ےُّدْ خِلَہُ الْجَنَّۃَ وَمَنْ جَآءَ بِھِنَّ قَدْ اِنْتَقَصَ مِنْھُنَّ اِسْتِخْفَافًابِحَقِّھِنَّ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ عِنْدَ اﷲِ عَھْدٌا اِنْ شَآءَ عَذَّبَہٗ وَاِنْ شَآءَ غَفَرَ لَہٗ (سنن ابن ماجہ کتاب الصلوۃ ما جا فی فرض الصلوات الخمس والمحافظہ علیھا۔ سنن ابوداؤد، سنن النسائی، مؤطا امام مالک)
حضرت عبادہ بن صامت صسے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲا سے سنا آپ ا نے فرمایا پانچ نمازیں ہیں جنہیں اﷲ ل نے فرض قرار دیا اپنے بندوں پر جوشخص انہیں پڑھے گا حقیر سمجھ کر ان کو نہ چھوڑے گا تو اﷲ ل اس کیلئے وعدہ کررکھا ہے کہ جنت میں اسے لے جائے گا اور جو کوئی انہیں حقیر سمجھ کرچھوڑدے گا تو اس کیلئے اﷲ ل کا عہد نہیں ہے چاہے عذاب دے چاہے بخش دے۔
نماز کو حقیر جاننا کفر ہے یعنی جو بھی اس کی فرضیت کا قائل نہ ہویا اسے استخفا فاً فالتوقسم کی چیز سمجھے ۔لیکن اس حدیث سے مراد کبھی پڑھنے والا اور کبھی چھوڑنے والا ہے ۔
استخفاف کیا ہے ؟
استخفاف کے معنی خفت ،سُبکی ،بے وقار جاننا، ہلکا سمجھنا،تحقیرکرنے، تنقیص کرنے ،استھزاء اور استہانت کرنے کے ہیں اسی طرح احترام میں کمی کرنے ہنسی مذاق میں کسی کے عیب بیان کرنے کے بھی ہیں ۔حقیر جاننا ،حقارت سے دیکھنا ذلیل یا نفرت کرنا نفرت انگیزی سے دیکھنا تمسخرو تضحیک استخفاف کہلاتا ہے انگریزی میں اسےDisdainکہتے ہیں ۔
جب یہ کام شریعت کے معاملات میں ارادے سے ہوتوکفر ہے رسول اﷲا اور انکی لائی ہوئی کتاب کا استخفاف بہت بڑا گناہ ہے اور کفر بالائے کفر ہے ۔اس میں رسول اﷲا کی قبر اطہر کے بھی شامل ہے یہی آداب علماء و مشائخ کی مجالس اور مساجدکے بھی ہیں۔کسی سنت کو ہمیشہ ترک کرنا بھی استخفاف میں شمار ہوتا ہے۔جیسا کہ بہار شریعت حصہ اول اسلامی عقائدباب 10میں ہے
’’نبی اکی توہین یا مصحف شریف یا کعبہ معظمہ کی توہین اور کسی سنت کو ہلکا بتانایہ باتیں یقینا کفر ہیں‘‘
امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دین کا مذاق اڑائے تو یہ اﷲ د کا کفر کیسے ہو گا ؟ خود ہی جواب فرماتے ہیں کہ ہنسی مذاق استخفاف کی علامت ہے اور اﷲ دپر ایمان لانے میں حد درجہ کی تعظیم ہو نا لازمی ہے تو جب کسی چیز کو ہنسی مذاق بنایا جا رہا ہو تو تعظیم ختم ہو جاتی ہے اس لئے یہ کفر ہے۔
اﷲد اس کے رسولوں کا استخفاف اور اﷲد کے فرائض کا استخفاف کفر ہے ۔جیساتفسیر فتح القدیر میں ہے و الاستھانۃ بانبیاء اﷲاستھانۃ باﷲ عزوجل
الاستھانۃ بالرسول استھانۃ بمن ارسلہ(تفسیرنظم الدرر البقاعی)
رسول ا کی استہانت جس نے رسول بنا کر بھیجا(اﷲد)کی استہانت ہے۔
حرام مال کھانا،صدقہ سے روکنا ،صدقات کا ضائع کرنا ،گناہ کو ہلکا (تخفیف)سمجھنا ،معصیت اور سرکشی میں منہمک ہونا ،بُرے لوگوں کی تعریف کرنا اور صالحین کی مذمت اور طعن کرنا برائی سے ساتھ محبت کرنے اور استخفاف میں شمار ہوتی ہیں۔
قرآن اور استخفاف
قرآن حکیم کی سورۃ الحجرات آیت نمبر 2میں ارشاد باری تعالیٰ ہے
ےٰآاَےُّھَا الَّذِّےْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَاتَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
اے ایمان والو!نہ بلند کیا کرو اپنی آوازوں کو نبی کریم اکی آواز سے اور نہ زور سے آپ ا کے ساتھ بات کیا کرو جس طرح زور سے تم ایک دوسرے سے بات کرتے ہو اس (بے ادبی) سے ضائع نہ ہو جائیں تمہارے اعمال اور تمہیں خبر تک نہ ہو ۔
علامہ سمر قندیؒ فرماتے ہیں ان تحبط اعمالکم میں کبیرہ نیکیاں ضائع ہوتی ہیں جب کہ حقیقت یہ کہ کبیرہ نیکیاں صرف کفر کی وجہ سے ضائع ہوتی ہیں جبکہ یہاں ان کا ضائع ہونا ثابت ہو رہا ہے کیونکہ یہاں نبی اکا استخفاف ہو رہا ہے جو کفر ہے اسی وجہ سے کبیرہ اعمال حبط ہو رہے ہیں۔
یہاں پر آواز کی بلندی اور جہر کی نہیں بلکہ استخفاف اور اہانت کی ممانعت ہے رسول اﷲا نے غزوہ حنین کے موقع پر حضرت عباسص کو فرمایا ’’اصرخ بالناس ‘‘چیخ کر لوگوں کو بلاؤ(تفسیر روح البیان از علامہ اسماعیل حقی)
احادیث مبارکہ اور استخفاف
ایک حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے :۔
’’جو کوئی جمعۃ المبارک کی نماز ترک کرے میری زندگی میں یا میرے بعد( استخفافا بھا او جحود الھا)خواہ جمعہ کو حقیر جان کر یا انکار کرکے اﷲد اس سے برکت چھین لے گا اس کی نماز، زکوۃ ۔حج ،روزہ ساری عبادات قبول نہ ہوں گی جب تک وہ توبہ نہ کرے (ابن ماجہ باب فرض الجمعۃ)
لا تزال لا الہ الا اﷲ تنفع من قالھاحتی یستخف بھا والاستخفاف بحقھاان یظھر العمل بالمعاصی فلا ینکروہ ولا یغیروہ (کنز العمال حدیث نمبر 223)
کلمہ طیب لا الہ الااﷲ اس وقت تک نفع دیتا رہے گا جس تک اس کا استخفاف نہ کیا جائیگا اور اس کے حق میں استخفاف یہ کہ معصیت کے ا عمال ظاہر ہوں اور کوئی انکو روکنے والا اور تبدیل کرنے والا نہ ہو ۔
من ترک ثلاث جمع تھاونا بھا طبع اﷲ علی قلبہ (سنن ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب التشدید فی ترک الجمعۃ۔سنن النسائی کتاب الجمعۃ)
جس نے سستی سے تین جمعہ نہ پڑھے اس کے دل پر اﷲلٰ مہر لگا دیتے ہیں ۔
اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی یہ کہے جمعہ کے بجائے ظہر ہی کافی ہے اس کے دل پر اﷲ ل نافرمانی کی مُہر لگا دیتا ہے لیکن اگر بجائے سستی کے استخفاف پایا جائے تو کفر ہو گاکیونکہ یہ ضروریات دین کا انکار ہے ۔
فقہی عبارات اور استخفاف:
استخفاف کا فقہی مفہوم جاننے سے پہلے استخفاف اور سنت کا فرق واضح ہونا ضروری ہے کیونکہ اکثر لوگ سنت کو چھوڑ کر کہتے ہیں کہ یہ سنت ہی ہے مگر اس فرق کو مد نظر نہیں رکھتے جسے مفتی محمد امین المشہور علامہ ابن عابدین نے یوں بیان کیا ۔
’’سنت دو قسم کی ہیں سنت مؤکدہ جس کا چھوڑنا کراہت اور گناہ میں شمار ہوتا ہے جیسے جماعت،اذان اور اقامت وغیرہ دوسری سنت الزوائدیا غیر مؤکدہ جس کا چھوڑنا گناہ میں شمار نہیں جیسے رسول اﷲا کی طرح اٹھنا ،بیٹھنا، بات چیت کرناوغیرہ کیونکہ یہ ضرویات دین اور شعائر اسلام میں نہیں اس کے کرنے والے کو ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے والے کو گناہ نہیں ہوتا دونوں میں فرق یہ ہے کہ سنت مؤکدہ عبادات میں شمار ہوتی ہے اور سنت غیر مؤکدہ عادات میں ۔سنت مؤکدہ واجب کے قریب ہے اس کا ترک کرنا گمراہی ہے کیونکہ اس کاچھوڑنا استخفاف دین ہے بخلاف سنت زوائد کے جو نوافل میں شمار ہوں گی جیسے نفلی حج اسے عمومی شعائر دین میں شمار کیا جاتا ہے‘‘(حاشیہ ردالمختار)
اس سنت کی حقیقت معلوم ہونے کے بعد اس کا حُکم ملاحظہ فرمائیں
’’جوشخص حضور اکی کسی بات یا کسی چیز کی توہین کرے یا حقیر جانے ،یا عیب لگائے،یا آپ اکے مقدس بال یا ناخن کی بے ادبی کرے یا آپ ا کے لباس مبارک کو گندہ یا میلا بتائے ،یا حضوراکی کسی سنت کی تحقیر کرے مثلا داڑھی بڑھانا، مونچھیں کم کرنا ،عمامہ باندھنا ،عمامہ کا شملہ لٹکانا،کھانے کے بعد انگلیوں کو چاٹ لینا ،یا حضورا کی کسی سنت کا مذاق اڑائے یا اس کو بُرا سمجھے تو وہ کافر ہو جائے گا‘‘
جنتی زیور حصہ اول کفر کی باتیں از حضرت علامہ الشیخ الحدیث عبد المصطفےٰ اعظمیؔ مجددیؔ
’’ایمان جب درست ہوتا ہے جب اﷲل اور اسکے رسول اکو سب باتوں میں سچا سمجھے اور ان سب کو مان لے اﷲل اور اس کے رسول ا کی کسی بات میں شک کرنا ،اس کو جھٹلانا اس میں عیب لگانا یا اس کا مذاق اڑانا ان سب باتوں سے ایمان جاتا رہتا ہے ‘‘
بہشتی زیور اشرفعلی تھانوی عقیدوں کا بیان عقیدہ نمبر 27
استخفاف کے بارے میں مزید اقوال
قال محمد بن سحنون اجمع العلماء ان شاتم النبی ﷺالمتنقص لہ کافروالوعید جار علیہ بعذاب اﷲ لہ وحکمہ عند الامۃقتل ومن شک فی کفرہ وعذابہ کفر (سبل الھدی والرشاد:کتاب الشفا )
محمد بن سحنونؒ فرماتے ہیں کہ علماء کا اجماع ہے کہ نبی اکو گالی دینے والا یا آپ اکی تنقیص کرنے والا کافر ہے اور اس پر عذاب الٰہی کی وعید جاری ہے اور امت مسلمہ کے نزدیک اس کا حکم قتل ہے اور جو اس کے کفر اور مستحق عذاب الٰہی ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے ۔ ابراہیم بن عمر بن حسن بن رباط البقاعی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
انا خیر منہ و منہ تنشاء الاستھانۃ باولیا ء اﷲبترک احترامھم ومنع حقوقھم والاعتداء علیھم والظلم لھم(تفسیرنظم الدرر البقاعی)
شیطان نے جو یہ کہا ’’ میں اس سے بہتر ہوں ‘‘ اس سے اولیاء اﷲ کی استہانت ان کے احترام کو چھوڑنا اور ان کے حقوق کو روکنا ان کے اوپر ظلم اور زیادتی ہے ۔(یہی استخفاف ہے)
مزید لکھتے ہیں کہ استخفاف کو عام سی بات نہ سمجھا جائے بلکہ اس کا معاملہ فرائض سے بھی نازک ہے ۔
فقال الاصفھانی قال ارباب المعاملات من ابتلی ترک الاداب وقع فی ترک السنن،ومن ابتلی ترک السنن وقع فی ترک الفرائض،من ابتلی ترک الفرائض وقع فی استحقار الشریعۃومن ابتلیٰ بذالک وقع فی الکفر(تفسیرنظم الدرر البقاعی)
’’حضرت اصفہانیؒ فرماتے ہیں کہ ارباب معاملات کا قول ہے جو شخص آداب چھوڑتا ہے وہ سنت کے ترک میں مبتلا ہوتا ہے جو سنت چھوڑتاہے وہ فرض کے ترک میں مبتلا ہوتا ہے جو فرض چھوڑتا ہے وہ شریعت کی تحقیر میں مبتلا ہوجاتا ہے اس میں مبتلا ہونے والے پر کفر واقع ہوتا ہے ‘‘۔
’’حضرت عثمان غنی صنے ایک شخص کو سزا کے طور پر مارا جس نے ایک تنازعہ میں حضرت عباس ص کی تحقیر کی تھی‘‘
(کنز العمال حدیث نمبر 37336)
أبو مصعب عن مالک فیمن سب من انتسب الی بیت النبی ﷺ یضرب ضربا وجیعا ویشھر ویحبس طویلا حتی تظہرت توبتہ لانہ استخفاف بحق الرسول ﷺ(کتاب الشفا)
حضرت ابو مصعبؒ نے امام مالکؒ سے اس شخص کے بارے میں روایت کی جس نے نبی کریم ا کے کسی اہل بیت کو گالی دی تھی کہ اسے خوب مارلگائی جائے جس سے اسے تکلیف ہو اور اس کی توبہ ظاہر ہو اس لئے کہ اس نے رسول اﷲا کے حق کا استخفاف کیا ۔
ایسے لوگ جو استخفاف کے مرتکب ہوں ایسے لوگوں کی شہادت اور فتویٰ بھی قبول نہ کرنا چاہئیے
ابوالمطرف شعبیؒ نے ایک شخص کے متعلق فتویٰ دیا جس نے ایک عورت سے رات کے وقت حلف لیتے وقت یہ کہا تھا کہ اگر سیدنا ابوبکر صدیق صکی صاحبزادی بھی ہوتی تو میں ان سے بھی دن کو حلف لیتا بعض فقہاء نے اس کی بات کو درست کہا لیکن ابو المطرفؒ نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر صدیق صکی صاحبزادی کا ایسے موقع پر ذکر کرنا ہی استخفاف ہے۔ لہذا اس شخص کو سخت مار اور طویل قید میں ڈالنا واجب ہے اورجن فقہاء نے اس کو درست کہا وہ فاسق ہیں آئندہ ان کا فتویٰ اور شہادت قبول نہ کی جائے (کتاب الشفاء:فتاویٰ السبکی)
ملا علی قاری ؒفرماتے ہیں کہ ’’کعبہ کی طرف منہ کر کے تھوکنا بھی استخفاف اور تحقیر میں شمار ہوتا ہے ‘‘
استخفاف اور دنیاوی امور
استخفاف بہرصورت ایسی قباحت ہے کہ ایمان والوں کا دین توبرباد ہوتا ہی ہے انسان کی دنیا کوبھی خراب کرتا ہے عقل و شعوروالوں کیلئے یہ مثالیں کافی ہیں عبد اﷲ خراسانیؒ فرماتے تھے
من استخف بالعلماء ذھبت آخرتہ ،ومن استخف باخوانہ قلت معونتہ ،ومن استخف بالسلطان ذھبت دنیاہ (الجلیس الصالح والانیس الناصح)
جس نے علماء کی تحقیر کی اس کی آخرت خراب ،جس نے بھائیوں کی تحقیر کی اس کی معاونت والا کوئی نہ ہو گا جس نے بادشاہ کی تحقیر کی اس کی دنیا خراب ہو گئی
حضرت ذوالنون مصریؒ فرماتے زہد تین اشیاء کی تحقیر میں ہے نفس ،مال اور مخلوق(نفس کی تحقیر اکیلا رہنے میں، مال کی تحقیر خرچ کرنے میں اورنفس کی تحقیر مخلوق کی خدمت کر نے میں ہے)۔
حکیم ابو الوفا البوزجانی ؒفرماتے ہیں
’’اس زندگی میں کوئی بھلائی نہیں جو صحت اور امن کے بغیر ہو اور اس ادب میں کوئی بھلائی نہیں جس میں استخفاف اور تحقیر ہو ‘‘
فنعوذ باﷲ من الاستخفاف بالمشائخ والذنوب ونسال اﷲ السلامۃ فی الدین