اوراد کا پھل اسرار کے انوار کے عنوان سے بارھویں باب میں حکمت نمبر 113 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
پھر مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ورد کا پھل اور اس کا نتیجہ بیان فرمایا۔ اور وہ امداد الہی ہے۔ اس لئے کہ صلاحیت کے مطابق امداد حاصل ہوتی ہے۔ اور صلاحیت، اور اد کی دائمی پابندی سے حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا :۔
113) وُرودُ الإمْدادِ بِحَسَبِ الاسْتِعْدادِ.
امدادالہی، استعداد کے مطابق وارد ہوتی ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: امداد سے مراد : سائرین کے لئے انوار توجہ ۔ اور واصلین کے لئے ، انوار مواجہت ہیں۔ اور یہ انوار بندوں کے قلوب پر آمادگی ، اور صلاحیت کے مطابق برابر وارد ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ مجاہدہ کی مطابقت سے مشاہدہ ہوتا ہے۔ اور تخلیہ (قلب کے ماسوی سے خالی ہونے ) کی موافقت سے تحلیہ ( قلب کا معرفت کے انوار سے آراستہ ہونا ) ہوتا ہے۔ اور اس امداد کا فائدہ:۔ اغیار سے قلوب کی پاکیزگی ، اور ظاہر کی کثافتوں ، اور کدورتوں سے اسرار کی صفائی ، اور انوار کے ساتھ ٹھہرنا ہے۔
پس امداد کی بارشیں :۔ ہمیشہ نفوس طیبہ اور قلوب مطہرہ ، اور ارواح منورہ اور اسرار مقدسہ پر نازل ہوتی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ حقیقت کے انوار سے پر نور ہو جاتی ہیں۔ تو اس وقت ان کے لئے ذات سبحانہ تعالی کے اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ اور ان کے ساتھ صفات الہیہ کے انوار متعلق ہوتے ہیں۔ تو وہ صفات کے اثر سے ذات کے مشاہدہ میں غائب ہو جاتی ہیں ۔ پھر ذات کے ساتھ صفات کے مشاہدے کی طرف ، اور صفات کے ساتھ ذات کے مشاہدے کی طرف لوٹائی جاتی ہیں ۔ اور ان کا جمع ہو نا ، ان کے جدا ہونے سے ، اور ان کا جدا ہونا، ان کے جمع ہونے سے ، ان کو نہیں روکتا ہے وہ ہر حق والے کو اس کا حق عطا کرتی ہیں۔ اور ہر حصہ والے کو اس کا حصہ پورا پورا دیتی ہیں۔ ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولائےعربی رضی اللہ عنہ نے اپنے بعض رسالوں میں فرمایا ہے: پس اگر تم کہو : کسی وقت تم مضبوط پہاڑ کی طرح ہو گے؟
تحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ تم پہاڑوں کو مضبوط جما ہوا سمجھتے ہو۔ حالانکہ وہ بدلی کی طرح چلیں گئے۔
ہم کہتے ہیں:۔ اگر تم دنیا سے پوری طرح زہد اختیار کر لو اور اس کی طرف رجوع ہونے سےامید منقطع کر لو۔ پھر تم اپنے شیوخ کرام کے بارے میں یہ اعتقاد رکھو کہ وہ کامل ہیں۔ اور وہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے نقش قدم پر ہیں۔ اور حضرت نبی کریم ﷺ کے وارثوں میں سے ہیں۔ تو اللہ عزو جل کی قسم تمہارے اوپر رات اور دن اور ہر وقت، اور ہر گھنٹہ، اور ہر منٹ امداد ضرور نازل ہو گی۔ یہاں تک کہ تمہارے قلوب اللہ تعالی کی معرفت سے بھر جائیں گے۔ اور تمہارے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے مطمئن ہو جائیں گے۔ اور تم مضبوط پہاڑ کی طرح ہو جاؤ گے۔ حضرت شیخ رضی اللہ عنہ کے کلام کا مفہوم مختصر ا یہی ہے ۔ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح انہوں نے فرمایا ہے۔ اس لئے کہ دنیا میں زاہد : جب اس کا قلب کدورتوں سے خالی، اور انوار کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے تو جب امداد نازل ہوتی ہے۔ تو وہ قلب کو وسیع ، اور پاک وصاف پاتی ہے تو وہ اس کو اپنے انوار سے بھر دیتی ہے۔ اور اپنے اسرار کے زیور سے آراستہ کر دیتی ہے۔ اور اس کے خلاف حالت میں ، جب قلب دنیا کے اغیار سے آباد ہوتا ہے۔ تو امداد کوئی ایسی جگہ نہیں پاتی ہے جس میں وہ نازل ہو۔ تو وہ جہاں سے آئی تھی ،و ہیں لوٹ جاتی ہے۔
اور شیوخ کے کامل ہونے کا اعتقاد،عین صدق ہے۔ اور صدق کے اندازے کے مطابق امداد جاری ہوتی ہے۔ اور یہ ممکن نہیں ہے کہ وہم منقطع ، اور ظاہر ترک ہو جائے ۔ مگر زہد کے ساتھ صدق سے۔ پس زہد کے ذریعے وہ امداد کے لئے تیار ہوتا ہے۔ اور صدق سے اس کے اوپر امداد کا فیضان ہوتا ہے۔ تو جب امداد کا پانی پہنچتا ہے تو وہم کی کثافت کو دھو کر صاف کر دیتا ہے۔ پھر جب وہم کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا ہے تو معرفت کے سمندر میں ڈوبنا نصیب ہو تا ہے واللہ تعالی اعلم۔
پھر حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے امداد ، اور استعداد کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
وَشُرُوقُ الْأَنْوَارِ ، عَلَى حَسْبِ صَفَاءِ الْأَسْرَارِ اور انوار کا ظاہر ہونا، اسرار کی صفائی کے مطابق ہوتا ہے ۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ۔ قلوب کے آسمان کے افق پر معرفتوں کے انوار کا ظاہر ہونا آثار اور اغیار کی بدلیوں، اور انوار کے حجابوں سے ان کے صاف ہونے کے مطابق ہوتا ہے۔جیسا کہ شاعر نے کہاہے:
إِنْ تَلاشَى الْكَوْنُ عَنْ عَيْنِ قَلْبِي شَاهَدَ السِّرُّ غَيْبَةَ فِي بَيَانِ
اگر مخلوق میرے قلب کی آنکھ سے غائب ہو جائے ۔ تو سر اپنے غیب ( اللہ تعالیٰ ) کا علانیہ مشاہدہ کرنے ۔
فَاطْرَحِ الْكُونَ عَنْ عَيَّانِكَ وَامْحُ نَقطَةَ الْغَيْنِ إِنْ أَرَدْتُ تَرَانِي
پس مخلوق کو اپنی آنکھوں سے گرا دو ۔ اورغین (تاریکی۔ بدلی ) کے نقطہ کو مٹا دو (عین بن جاؤ )اگر مجھے دیکھنا چاہتے ہو۔
تو قلوب کی صفائی کے مطابق ، معرفت کے نور کا ظہور حاصل ہوتا ہے۔ تو جب قلوب کے ۔آسمان سے آثار، اور اغیار کی بدلیاں چھٹ کر صاف ہو جاتی ہیں۔ تب ان میں فنا کا نور چمکتا ہے پھر قلب اور روح رسوم ( مخلوق کی صفائی ) سے غائب ہو جاتے ہیں۔ اور صرف حی و قیوم اللہ تعالیٰ اللہ تعالی باقی رہ جاتا ہے۔ اور جب اسرار سے انوار کا حجاب دور ہو جاتا ہے۔ تب ان میں بقاء کا نور چمکتا ہے۔ پھر جو کچھ فانی ہے، وہ فنا ہو جاتا ہے۔ اور صرف وہی سبحانہ تعالی باقی رہتا ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگا۔ اس حقیقت کے بارے میں عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ کے چند اشعار درج ذیل ہیں:
فَنِيتُ بِهَا عَيْنِى فَمَالِي آنيةٌ هَوِيَّةٌ لَيْلَى لِلْانيَّةِ قَاطِعُ
اس کے ساتھ میری ذات فناہوگئی تو اب میرے پاس انا (خودی) نہیں ہے۔ لیلی کی محبت خودی کو ختم کرنے والی ہے ۔
وَكُنتُ كَمَا انُ لَمُ أَكُنْ وَهُوَ أَنَّهُ كَمَا لَمْ يَزَلْ فَرْداً وَلِلكُلِّ جَامِعُ
اب میں ویسا ہوں جیسا کہ میں نہ تھا۔ اور وہ ایسا ہے جیسا کہ ہمیشہ سے ہے۔ فرد ( تنہا ) ہے اور سب کا جامع ہے۔
فشَمْسيَ فِي افُقِ الألوهِةِ مُشْرِقٌ وَبَدْرِى فِي شَرْقِ الرَّبُوبِيَّةِ طَالِعُ
پس میرا سورج الوہیت کے افق میں چمکتا ہے۔ اور میرا چاند ربوبیت کے مشرق میں طلوع ہوتاہے۔
فَافْنَيْتُهَا حَتَّى فَنَتْ وَهِيَ لَمْ تَكُن وَلَكِنَّنِي بِالْوَهُم كُنتُ أَطَالِعُ
پس میں نے اپنی ذات کو فنا کر دیا۔ یہاں تک کہ وہ فنا ہوگئی اور وہ موجود بھی نہ تھی ۔ لیکن میں وہم کی بناء پر اس کو موجود سمجھتا تھا۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی