ظاہر انوار باطن اسرار ( باب  دہم)

ظاہر انوار باطن اسرار کے عنوان سے  باب  دہم میں  حکمت نمبر 104 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
ہرگز نہیں: ۔ ہرگز نہیں:۔ ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ جس کا ظاہر انوار سے گھرا ہوا ہو ۔ اور جس کا باطن اسرار الہٰی سے بھرا ہوا ہو وہ غیر اللہ کے مشاہدہ کی طرف کیسے مائل ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس حقیقت کو اپنے اس قول میں واضح فرمایا ہے:۔
104) أَنَارَ الظَّوَاهِرَ بِأَنْوَارِ آَثَارِهِ ، وَأَنَارَ السَّرَائِرَ بِأَنْوَارِ أَوْصَافِهِ؛
اللہ تعالیٰ نے ظاہر کو اپنے آثار کے انوار سے ، اور باطن کو اپنے اوصاف کے انوار سے روشن فرمایا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ظاہر کے انوار وہ ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی تاثیر، اور اس کی حکمت کی تحقیق ( پیدا کرنے ) سے مخلوقات کی تجلیوں پر ظاہر ہوئے ہیں۔ مثلا ، ستاروں ، اور چاند اور سورج، اور کامل مضبوطی ، اور ان صنعتوں سے آسمان کو آراستہ کرنا جو اس میں موجود ہیں۔ اور مثلاپھولوں، اور پھلوں ، اور درختوں اور سبزہ زار، اور میوہ جات سے زمین کو آراستہ کرنا۔ اور مثلاً آنکھ ، اور کان، اور کلام اور ان عجیب و غریب صفتوں سے انسان کو آراستہ کرنا ، جو اس میں موجود ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: (لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِیم) ہم نےانسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ہے۔ اور دوسرے مقام پر فرمایا: إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْضِ زِيْنَةٌ لَهَا بے شک جو کچھ زمین پر ہے ہم نے اس کے لئے زینت بنائی ہے۔
تو یہی ظاہر کے انوار ہیں ۔
اور باطن کے انوار، یعنی اوصاف کے انوار وہ علوم ، اور معارف واسرار ہیں ۔ اور اوصاف سے مراد : ربوبیت کے اوصاف ہیں۔ جیسے عزت و عظمت ، اور جلال و جمال ، اور کبریائی و کمال، اور ان کے علاوہ اس ذات عالیہ کے تمام اوصاف اور ذات صفات سے جدا نہیں ہوتی تو جب باطن صفات کی معرفت کے انوار سے روشن ہو جاتے ہیں تو وہ ذات کی معرفت کے انوار سے بھی روشن ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ذات اور صفات لازم ملزوم ہیں ۔
پھر ان باطنی انوار یعنی اوصاف کے انوار کے مشاہدہ کے معاملہ میں آدمیوں کی تین قسمیں ہیں۔
پہلی قسم :۔ وہ لوگ ہیں جو ان انوار کا مشاہدہ دور سے کرتے ہیں اور وہ لوگ مقام اسلام والے ہیں۔
دوسری قسم:۔ وہ لوگ ہیں جو ان انوار کا مشاہدہ قریب سے کرتے ہیں اور وہ لوگ مقام ایمان والوں میں سے اہل مراقبہ ہیں ۔
تیسری قسم وہ لوگ ہیں جو ان انوار کا مشاہدہ اتصال کے طریقے پر کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ مقام احسان والوں میں سے اہل معرفت ہیں ۔تو مقام اسلام والوں کے انوار ستاروں کی طرح کمزور ہیں ۔ اور مقام ایمان والوں کے انوار، چاند کی روشنی کی طرح درمیانی ہیں۔ اور مقام احسان والوں کے انوار سورج کی روشنی کی طرح بہت زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ انوار باطنی کی تین اقسام تو حاصل یہ ہوا کہ باطن کے انوار کی تین قسمیں ہیں: ایک نجوم الاسلام، دوسری: قمر التوحید، تیسری شمس المعرفت ۔ اور اسی حقیقت کی طرف ابن فارض نے اشارہ کیا ہے۔
لَهَا الْبَدْرُ كَاسٌ وَهِيَ شَمْسُ يُدِيرُهَا هِلَالٌ وَكَمْ يَبْدُوا إِذَا مُزِجَتُ نَجُمُ
شراب محبت کے لئے بدر ( چودھویں رات کا چاند ) پیالہ ہے۔ اور شراب محبت سورج ہے ۔ پیالہ کوبلال (نیا چاند ) چلاتا ہے۔ اور جب اس کو پینے کے لئے ملایا جاتا ہے تو بہت سے ستارے پیدا ہوتے ہیں۔
شراب محبت معرفت کا سورج ہے۔ جب پینے کے لئے لایا گیا۔ تو نجم الاسلام (اسلام کا ستارہ) ظاہر ہوا۔ اور جب پیالہ میں شراب رکھی گئی ۔ تو قمر التوحید ( توحید کا چاند ) یعنی ایمان طلوع ہوا۔ اور جب پیا گیا۔ تو شمس المعرفت (معرفت کا سورج ) روشن ہوا۔ اور پینے والوں پر پیالے کا دور چلانے والا، ہدایت کا بلال ہے۔ ابن فارض کے کلام کا یہی مفہوم ہے۔ اور باطنی انوار کی مشابہت ظاہری انوار سے صرف کھانے کے لئے ہے ۔ ورنہ قلوب کے انوار سب کے سب بڑےہیں۔
حضرت شیخ ابوالحسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے: اگر گناہگار مومن کا نور ظاہر کر دیا جائے تو آسمان اور زمین کی درمیانی فضانور سے بھر جائے ۔ تو اطاعت شعار مومن کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ حضرت شیخ ابو العباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ اگر ولی کی حقیقت ظاہر کر دی جاتی تو لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرنے جاتے اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب لطائف السنن میں فرمایا ہے: اگر اللہ تعالیٰ اپنے اولیائے کرام کے قلوب کے مشرقوں ( طلوع ہونے کی جگہوں ) کو ظاہر کر دیتا تو سورج اور چاند کے انوار ان کے قلوب کے انوار کے مشرقوں میں چھپ جاتے ، اور ان کے انوار کے مقابلہ میں سورج اور چاند کے انوار کی کیا وقعت ہے ۔ ؟ سورج اور چاند پر کسوف ( گرہن ) اور غروب لاحق ہوتا ہے (یعنی دونوں میں گرہن لگتا ہے۔ اور دونوں غروب ہوتے ہیں ) اور اللہ تعالیٰ کے اولیائے کرام کے انوار کے لئے نہ گرہن ہے نہ وہ غروب ہوتے ہیں۔
اور اسی حقیقت کو ایک عارف شاعر نے بیان کیا ہے
هَذِهِ الشَّمْسُ قَابَلَتْنَا بِنُورٍ وَلَشَمْسِ الْيَقِينِ أَبْهَرُ نُورًا
یہ آسمان کا سورج نور کے ساتھ ہمارے سامنے آیا۔ اور یقین کے سورج کا نور اس سےزیادہ روشن ہے۔
فَرَآيْنَا بِهَذِهِ النُّورِ لَكِنا بِهَاتِيكَ قَدْ رَأَيْنَا الْمُنِيرًا
تو آسمان کے سورج سے ہم نے صرف روشنی دیکھی۔ لیکن یقین کے سورج سے ہم نے روشنی دینے والے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ۔
پس اللہ تعالیٰ نے کائنات کے ظاہر کو ظاہری انوار سے روشن کیا ۔ اور وہ ستارے، اور چاند ، اورسورج ، اور مخلوق کی آرائش اور اس کی پیدائش، اور اس کو خصوصیت عطا کرنا ، اور پوشید و انوار میں معلوم شکل میں اس کو مقید کرنا ، اور باطنی انوار سے جسمانی اعضاء کی درستی ، اور پاکیزگی ہے۔ اور قلوب اور ارواح کو اپنے اوصاف کے انوار سے روشن کیا۔ اور وہ ربوبیت کے اوصاف کی عظمت ، اور اس کے سارے اوصاف ہیں۔ تو جب قلوب کے آسمان میں ساتھی (اللہ تعالیٰ ) کے انوار، اور پاکیزہ اسرار ظاہر ہوتے ہیں تو بندہ اغیار کے مشاہدہ سے تائب ہو جاتا ہے اور انوار کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے تو تسکیں اور نشانیاں فنا ہو جاتی ہیں اور صرف حی وقیوم اللہ تعالیٰ


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں