عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا یَغْدُو یَوْمَ الْفِطْرِ حَتَّی یُغَذِّیَ أَصْحَابَہُ مِنْ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ (سنن ابن ماجہ کتاب الصیام )
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنھما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ا عید الفطر کے روز عیدگاہ کو نہ جاتے تھے جب تک اپنے صحابہ رضی اﷲ عنھم کو صدقہ فطر میں سے ناشتہ نہ کروا دیتے )جو صدقہ فطر آپ کے پاس جمع ہوتا نماز عید جانے سے قبل آپ مساکین صحابہ میں تقسیم فرما دیتے ۔
” حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ لہو و لعب کرتے (اور خوشیاں مناتے) تھے، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ ” یہ دو دن کیسے ہیں ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ” ان دونوں دنوں میں ہم زمانہ جاہلیت میں کھیلا کودا کرتے تھے ” ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان دونوں دنوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دئیے ہیں اور وہ عید الاضحی اور عید الفطر کے دن ہیں۔” (ابوداؤد)
تشریح
زمانہ جاہلیت میں اہل مدینہ کے لیے دو دن مقرر تھے جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے تھے اور خوشیاں منایا کرتے تھے ان میں سے ایک دن ” نوروز” تھا اور دوسرا دن ” مہر جان” ۔ نوروز کے دن آفتاب برج حمل میں جاتا ہے اور مہر جان کے دن برج میزان میں داخل ہوتا ہے۔ چونکہ ان دونوں دنوں میں آب و ہوا معتدل ہوتی ہے۔ اور رات دن برابر ہوتے ہیں اس لیے ان دنوں کو حکام نے خوشی منانے کی لیے مقرر کر لیا تھا چنانچہ وہی رسم لوگوں میں چلی آتی تھی۔ یہاں تک کہ جب اہل مدینہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو شروع میں پرانی عادت کے مطابق ان دونوں میں پہلے زمانے کی طرح خوشی منایا کرتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب ان دنوں کی حقیقت دریافت فرمائی تو وہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہ کر سکے صرف اتنا بتا سکے کہ پرانے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور ان دنوں سے ہم اسی طرح خوشی مناتے چلے آتے ہیں، تب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دنوں سے تمہیں اب کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان دنوں سے بہتر تمہیں عیدین کے دو دن عنایت فرما دئیے ہیں تم ان بابرکت دنوں میں خوشی منا سکتے ہو۔ گویا اس طرح آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک طرف تو یہ اشارہ فرمایا کہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ حقیقی عید اور خوشی عبادت کے دن منائے۔ لہٰذا اس حدیث میں عیدین کے دن لہو و لعب میں مشغول ہونے کی ممانعت ہے ۔ دوسری طرف یہ اشارہ خفی ہے کہ عیدین میں بہت معمولی طریقے پر کھیل کود اور اس انداز اور اس طریقے سے خوشی منانا کہ جس میں حدود شریعت سے تجاوز اور فحاشی نہ ہو جائز ہے۔
یہ حدیث بتا رہی ہے کہ غیر مسلموں کے تہوار کی تعظیم کرنا اور ان میں خوشی منانا، نیز ان کی رسموں کو اپنانا ممنوع ہے نیز یہ حدیث غیر مسلموں کی عید و تہوار میں شرکت و حاضری کی ممانعت کو بھی ظاہر کر رہی ہے۔ بعض علماء نے تو اسے سخت جانا ہے کہ اس عمل پر کفر کا حکم لگایا ہے چنانچہ ابو حفص کبیر حنفی فرماتے ہیں کہ جو آدمی نوروز کی عظمت و توقیر کے پیش نظر اس دن مشرکوں کو تحفہ میں انڈا بھیجے ( جیسا کہ اس روز مشرکین کا طریقہ ہے) تو وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس کے تمام اعمال نابود ہو جاتے ہیں۔
حضرت قاضی ابو المحاسن ابن منصور حنفی کا قول ہے کہ ” اگر کوئی اس دن وہ چیزیں خریدے جو دوسرے دنوں میں نہیں خریدتا ہے (جیسا کہ ہمارے یہاں دیوالی کے روز کھلیں اور مٹھائی بنے ہوئے کھلونے وغیرہ خریدے جاتے ہیں یا اس دن کسی کو تحفہ بھیجتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اس دن کی تعظیم ہو جیسا کہ مشرک اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو وہ آدمی کافر ہو جاتا ہے، اور اگر کوئی آدمی محض اپنے استعمال اور فائدہ اٹھانے یا حسب عادت کسی کو ہدیہ بھیجنے کی نیت سے خریدتا ہے۔ تو کافر نہیں ہوتا لیکن یہ بھی مکروہ ہے لیکن اس طرح کافروں کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اس لیے اس سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔
اس طرح اگر کوئی آدمی عاشورہ کے دن خوشی مناتا ہے تو خوارج کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے اور اگر اس دن غم والم ظاہر کرنے والی چیزیں اختیار کرتا ہے تو روافض کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے لہٰذا ان دونوں باتوں سے بچنا چاہیے۔ یہ بات بھی جانے لیجئے کہ نوروز کی عظمت و توقیر کے سلسلہ میں روافض مجوسیوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں اور اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ اسی دن حضرت عثمان شہید کئے گئے تھے اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی خلاف منعقد ہوئی تھی۔
فتاوی ذخیرہ میں لکھا ہے کہ جو آدمی ہولی اور دیوالی دیکھنے کے لیے بطور خاص نکلتا ہے وہ حدود کفر سے قریب ہو جاتا ہے کیونکہ اسی میں اعلان کفر ہوتا ہے لہٰذا ایسا آدمی گویا اپنے عمل سے فکر کی مدد کرتا ہے اسی پر ” نوروز” دیکھنے کے لیے نکلنے کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ بعض مسلمان ایسا کرتے ہیں ۔ یہ بھی موجب کفر ہے۔
” تجنیس” میں مذکور ہے کہ ہمارے مشائخ اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جس آدمی نے اہل کفار کے معتقدات و معاملات میں سے کسی چیز کے اچھا ہونے کا اعتقاد رکھا تو وہ حدود کفر میں داخل ہو جائے گا۔ اسی طرح ” نوادر الفتاوی” میں منقول ہے کہ جو آدمی غیر مسلموں کی رسومات کو اچھا جانے وہ کافر ہو جاتا ہے۔” عمدۃ الاسلام” ‘ میں لکھا ہے کہ جو آدمی کافروں کی رسومات ادا کرے مثلاً نئے مکان میں بیل اور گائے اور گھوڑے کو زردو سرخ رنگ کرے یا بندھن دار باندھے تو کافر ہو جاتا ہے۔”
حاصل یہ کہ ان معتقدات و رسومات سے قطعاً احتراز کرنا چاہے جن سے اسلام اور شریعت کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو بلکہ ان کی بنیاد خالص غیر اسلامی و غیر شرعی چیزوں پر ہے۔
نصیحت آمیزاشعار
لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْجَدِیْد َ اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ اٰمَنَ مِنَ الْوَعِیْدِ
لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ تَنَجَّرَ بِالْعُوْدِ اَنَّمَا الْعِیْدُ الِلتَّائِبِ الَّذِی لَا یَعُوْدُ
لَیْسَ الْعَیْدُ لِمَنْ تَزَیَّنَ بِزِیْنَۃِ الدُّنْیَا اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَزَوَّدَ بِزَادِ التَّقْویٰ۔
لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ رَکِبَ الْمَطَایَ اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ تَرَکَ الْخَطَایَا
لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ بَسَطَ الْبِسَاطَ اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ جَاوَزَ الصِّرَاطَ۔
” عید اس آدمی کے لیے نہیں ہے جو نئے کپڑے پہنے بلکہ اس کے لیے ہے جو عید سے امن میں (یعنی برے کاموں سے بچتا رہے تاکہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کا مستحق ہوا ور اس کے عتاب سے امن میں رہے) عید اس آدمی کے لیے نہیں ہے جو عود کی خوشبو سے معطر ہو بلکہ اس کے لیے ہے جو توبہ کرنے والا ہو کہ پھر گناہ نہ کرے عید اس آدمی کے لیے نہیں ہے جو آرائش دنیا کی زینت اختیار کرے بلکہ اس کے لیے ہے جو تقوی (پرہیزگاری) کو آخرت کے لیے زاد راہ بنائے۔ عید اس آدمی کے لیے نہیں ہے جو سواریوں پر سوار ہو بلکہ اس کے لیے ہے جو گناہوں کو ترک کرے۔ اور عید اس آدمی کے لیے نہیں جو ( آرائش و زیبائش کے) فرش بچھائے بلکہ اس کے لیے ہے جو پل صراط سے گذر جاے گا ” ۔
عید اور بخشش
حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، جب شب قدر آتی ہے تو اس رات میں حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے جلو میں اترے ہیں اور ہر اس بندے کے لئے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو کھڑا ہوا (نماز پڑھتا، طواف کرتا یا اور کوئی عبادت کرتا) ہوتا ہے یا بیٹھا ہوا (اﷲ عز و جل کی یاد اور اس کے ذکر میں مشغول ) ہوتا ہے پھر جب ان (مسلمانوں کا عید (یعنی عید الفطر) کا دن ہوتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنے ان بندوں کی وجہ سے اپنے ان فرشتوں کے سامنے فخر کرتا ہے (جنہوں نے آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت بنی آدم کو مطعون کیا تھا) اور فرماتا ہے کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کے لئے کیا اجر ہے جس نے اپنا کام پورا کر لیا ہو؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار اس کا اجر یہ ہے کہ اسے اس کے کام کی پوری پوری اجرت دی جائے! اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے فرشتو! (تو سنو کہ) میرے بندے اور میری بندیوں نے میرا وہ فرض ادا کیا جو ان پر تھا (یعنی روزہ ) پھر وہ (اپنے گھروں سے عید گاہ کی طرف) دعا کے لئے گڑ گڑاتے چلاتے نکلے، قسم ہے اپنی عزت اور اپنے جلال کی اپنے کرم اور اپنی بلند قدری کی اور اپنی بلند مرتبہ کی میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا، پھر اﷲ تعالیٰ بندوں سے فرماتا ہے کہ اپنے گھروں کو واپس ہو جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا ہے اور میں نے تمہاری برائیاں نیکیوں میں بدل دی ہیں تمہارے نامہ اعمال میں ہر برائی کے بدلہ ایک نیکی لکھ دی گئی ہے اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ، چنانچہ مسلمان عید گاہ سے اپنے گھروں کو اس حالت میں واپس ہوتے ہیں کہ ان کے گناہ بخشے جا چکے ہوتے ہیں۔ (بیہقی)
صدقہ فطر اور اس کے مسائل
عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ زَکَاۃَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْأُنْثَی وَالصَّغِیرِ وَالْکَبِیرِ مِنْ الْمُسْلِمِینَ وَأَمَرَ بِہَا أَنْ تُؤَدَّی قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَی الصَّلَاۃِ (صحیح بخاری:)
حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، غلام اور آزاد، مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے (غرضیکہ ہر) مسلمان پر فرض کیا ہے اور حکم دیا ہے کہ نماز سے نکلنے سے پہلے اسے ادا کردیا جائے۔
صدقہ اور نماز عید کا واجب قرار دیا جانا 2ھ واقعہ ہے
” زکوۃ” کو صدقہ بھی اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ فعل اپنے مال کا ایک حصہ نکالنے والے کے دعویٰ ایمان کی صحت و صداقت پر دلیل ہوتا ہے۔
حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہما اﷲ کے نزدیک صدقہ فطر فرض ہے، حضرت امام مالک رحمہ اﷲ کے ہاں سنت مؤکدہ ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں واجب ہے حدیث میں مذکور لفظ ” فرض” حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے نزدیک اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے، حضرت امام مالک فرض کے معنی بیان کرتے ہیں ” مقرر کیا ” حنفی حضرات فرماتے ہیں کہ صدقہ فطر چونکہ دلیل قطعی کے ذریعے ثابت نہیں ہے اس لیے صدقہ فطر عمل کے لحاظ سے تو فرض ہی کے برابر ہے لیکن اعتقادی طور پر اسے فرض نہیں کہا جا سکتا جس کا مطلب یہ ہے کہ واجب ہے فرض نہیں ہے۔
حضرت امام شافعی کے مسلک میں ہر اس شخص پر صدقہ فطر واجب ہے جو اپنے لیے اور ان لوگوں کے لیے کہ جن کی طرف سے صدقہ فطر دینا اس کے ذمہ ایک دن کا سامان خوراک رکھتا ہو اور وہ بقدر صدقہ فطر اس کی ضرورت سے زائد بھی حضرت امام اعظم رحمہ اﷲ کے مسلک کے مطابق صدقہ فطر اسی شخص پر واجب ہو گا جو غنی ہو یعنی وہ اپنی ضرورت اصلیہ (ضرورت اصلیہ سے مراد یہ چیزیں ہیں رہائش کا مکان، پہننے کے کپڑے، گھریلو کے اسباب ،سواری کی چیزیں مثلاً کار ، موٹر سائیکل وغیرہ استعمال کے ہتھیار، اہل علم کے لیے ان کی کتابیں کاریگر کے واسطے اس کے پیشہ کے اوزار وغیرہ، اگر مکان وغیرہ اپنی ضرورت و حاجت سے فارغ ہوں اور ان کی تجارت کی نیت نہ ہو تو پھر ان میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی)کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے بقدر اسباب وغیرہ کا مالک ہو یا اس کے بقدر سونا چاندی اپنی ملکیت میں رکھتا ہو اور قرض سے محفوظ ہو۔
صدقہ فطر کا وجوب عید الفطر کی فجر طلوع ہونے کے وقت ہوتا ہے لہٰذا جو شخص طلوع فجر سے پہلے مر جائے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اور اسی طرح جو شخص طلوع فجر کے بعد اسلام لائے اور مال پائے یا جو بچہ طلوع فجر کے بعد پیدا ہو اس پر بھی صدقہ فطر واجب نہیں۔
اولاد اگر چھوٹی ہو اور مالدار نہ ہو تو اس کی طرف سے اس کے باپ پر صدقہ فطر دینا واجب ہے ہاں اگر چھوٹی اولاد مالدار ہو تو پھر اس کا صدقہ فطر اس کے باپ پر واجب نہیں ہے بلکہ اس کے مال میں دیا جائے گا۔
بڑی اولاد جس پر دیوانگی طاری ہو اس کا حکم بھی چھوٹی اولاد کی طرح ہے، اسی طرح بڑی اولاد کی طرف سے باپ پر اور بیوی کی طرف سے خاوند پر ان کا صدقہ فطر دینا واجب نہیں ہے ہاں اگر کوئی باپ اپنی ہوشیار اولاد کی طرف سے یا کوئی خاوند اپنی بیوی کی طرف سے ان کا صدقہ ان کی اجازت سے از راہ احسان و مروت ادا کر دے تو جائز ہو گا۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث میں لفظ من المسلمین لفظ ” عبد” اور اس کے بعد کے الفاظ کا حال واقع ہو رہا ہے لہٰذا کسی مسلمان پر اپنے کافر غلام کی طرف سے صدقہ فطر واجب نہیں ہو گا۔ مگر صاحب ہدایہ نے لکھا ہے کہ غلام کافر کا صدقہ فطر بھی اس کے مسلمان مالک پر واجب ہوتا ہے ، انہوں نے اس کے ثبوت میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے جسے ہدایہ یا مرقات میں دیکھا جا سکتا ہے، حنفیہ کے یہاں صاحب ہدایہ ہی کے قول کے مطابق فتویٰ ہے۔ (علم الفقہ)
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ہی ادا کر دینا مستحب ہے اگر کوئی شخص اس سے بھی پہلے خواہ ایک مہینے یا ایک مہینے سے بھی زیادہ پہلے دے دے تو جائز ہے۔نماز عید کے بعد یا زیادہ تاخیر سے صدقہ فطر ساقط نہیں ہوتا بہر صورت دینا ضروری ہوتا ہے۔
صدقہ فطر کا وجوب
حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے روزوں کی بے ہودہ باتوں اور لغو کلام سے پاک کرنے کے لیے نیز مساکین کو کھلانے کے لیے صدقہ فطر لازم قرار دیا ہے۔ (ابو داؤد)
مطلب یہ ہے کہ صدقہ فطر کو اس لیے واجب کیا گیا ہے تاکہ تقصیرات و کوتاہی اور گناہوں کی وجہ سے روزوں میں جو خلل واقع ہو جائے وہ اس کی وجہ سے جاتا رہے نیز مساکین و غرباء عید کے دن لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچ جائیں اور وہ صدقہ لے کر عید کی مسرتوں اور خوشیوں میں دوسرے مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو جائیں۔ دارقطنی نے اس روایت کے آخر میں یہ الفاظ بھی ذکر کیے ہیں کہ ” جو شخص صدقہ فطر نماز عید سے پہلے ادا کرے گا اس کا صدقہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو شخص نماز عید کے بعد ادا کرے گا تو اس کا وہ صدقہ بس صدقوں میں سے ایک صدقہ ہو گا۔
غنی تو صدقہ فطر ادا کرے اور اگرفقیر بھی صدقہ فطر دے ۔ تو جس طرح اﷲ تعالیٰ غنی کو اس کے صدقہ فطر دینے کی وجہ سے پاکیزہ بنا دیتا ہے تو فقیر کو اس سے زیادہ دیتاہے جتنا اس نے صدقہ فطر کے طور پر دیا ہے، یہ بشارت اگرچہ غنی کے لیے بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کے مال میں بھی اس سے کہیں زیادہ برکت عطا فرماتا ہے جتنا کہ اس نے دیا ہے مگر اس بشارت کو فقیر کے ساتھ اس لیے مخصوص کیاجا تا ہے کہ اس کی ہمت افزائی ہو اور وہ صدقہ فطر دینے میں پیچھے نہ رہے۔
صدقہ واجبہ جیسے زکوٰۃ و صدقہ فطر غنی کو لینا حرام ہے اور صدقہ نافلہ جیسے خیرات وغیرہ غنی کو بھی جائز ہے، مگر میّت کی طرف سے جو صدقہ ہوتا ہے غنی نہ لے،نہ غنی کودیا جائے۔
مستحقین زکوۃ وفطر۔
زکوۃ وفطرکے مستحق فقیر ہیں اور اصطلاح شریعت میں ” فقیر” اس شخص کو کہتے ہیں جو نصاب سے کم مال کا مالک ہو مساکین بھی مستحق زکوۃ ہیں۔ مساکین ان لوگوں کو کہتے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ وہ شخص بھی زکوۃ کا مستحق ہے جو حاکم وقت کی طرف سے لوگوں سے زکوۃ وصول کرنے پر مقرر ہو اگرچہ وہ خود بھی غنی کیوں نہ ہولیکن ” ہاشمی” کے لیے وہ تنخواہ بھی جائز نہیں ہے جو زکوۃ وصول کرنے والے کو ملتی ہے وہ لوگ بھی زکوۃ کے مستحق ہیں جو جہاد یا سفر حج کے مسافر ہوں اور ان کے پاس روپیہ پیسہ نہ رہا ہو اگرچہ ان کے وطن میں ان کا کتنا ہی زیادہ روپیہ پیسہ کیوں نہ موجود ہو۔ اسی طرح دوسرے مسافروں کا بھی زکوۃ کا مال دینا درست ہے خواہ کسی مسافر کا اپنے وطن میں کتنا ہی مال و زر کیوں نہ ہوآج ہمارے ملک پاکستان میں جہاں سیلاب کی تباہ کاریاں ہوئیں ہیں لوگوں کے مال او اسباب تباہ ہوگئے ہیں اس وقت ان سے بڑھ کر صدقہ فطر اور زکوٰۃ کا کوئی اور مستحق نہیں ہے۔
فدیہ کی مقدار
ہر دن کے روزے کے بدلے فدیہ کی مقدار نصف صاع یعنی دو کلو گرام گیہوں یا اس کی مقدار ہے فدیہ اور کفارہ میں جس طرح تملیک جائز ہے اسی طرح اباحت طعام بھی جائز ہے یعنی چاہے تو ہر دن کے بدلے مذکورہ بالا مقدار کسی محتاج کو دے دی جائے اور چاہے ہر دن دونوں وقت بھوکے کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دیا جائے دونوں صورتیں جائز ہیں۔صدقہ فطر میں مسلمان فقیر کو دے کر مالک کر دینا شرط ہے، تو اگر غرباء کو دے کر مالک کردیں تو جائز ہے درمختار میں ہے:صدقۃ الفطر کالزکوٰۃ فی المصارف وفی کل حال صدقہ فطر مصارف اور تمام احوال میں زکوٰۃ کی طرح ہے
ردالمختار میں ہے :من اشتراط النیۃ واشتراط التملیلک فلا تکفی الاباحۃ کمافی البدائع۔یعنی نیت اور تملیک دونوں شرائط ہیں تو محض اباحت کفایت نہ کرے گی کما فی البدائع۔
قضاء روزے
قضاء روزے پے در پے رکھنا شرط اور ضروری نہیں ہے تاہم مستحب ضرور ہے تاکہ واجب ذمہ سے جلد اتر جائے اسی طرح یہ بھی مستحب ہے کہ جس شخص کا عذر زائل ہو جائے وہ فوراً روزے شروع کر دے کیونکہ اس میں تاخیر مناسب نہیں ہے ویسے مسئلہ یہ ہے کہ قضاء روزوں کا معا عذر زائل ہوتے ہی رکھنا بھی ضروری نہیں ہے اختیار ہے کہ جب چاہے رکھے۔ نماز کی طرح اس میں ترتیب بھی فرض نہیں ہے قضا روزے رکھے بغیر ادا کے روزے رکھے جا سکتے ہیں۔
اس موقع پر یہ بات بھی جان لیجئے کہ شریعت میں تیرہ قسم کے روزے ہیں جن میں سے سات قسم کے روزے تو وہ ہیں جو علی الاتصال یعنی پے در پے رکھے جاتے ہیں۔ (۱) رمضان کے مہینے کے روزے (۲) کفارہ ظہار کے روزے (۳) کفارہ قتل کے روزے ۔ (۴) کفارہ یمین کے روزے (۵) رمضان میں قصدا توڑے ہوئے روزوں کے کفارہ کے روزے (۶) نذر معین کے روزے (۷) اعتکاف واجب کے روزے۔
اور چھ قسم کے روزے ایسے ہیں جن میں اختیار ہے چاہے تو پے در پے رکھے جائیں چاہے متفرق طور پر یعنی ناغہ کے ساتھ۔ (۱) نفل روزے (۲) رمضان کے قضا روزے (۳) متعہ کے روزے (۴) فدیہ حلق کے روزے (۵) جزاء عید کے روزے (۶) نذر مطلق کے روزے۔
صحیح یہ ہے کہ نفل روزے کا بھی بغیر کسی عذر کے توڑ ڈالنا جائز نہیں ہاں اتنی بات ہے کہ نفل روزہ شروع ہو جانے کے بعد واجب ہو جاتا ہے لہٰذا وہ کسی بھی حالت میں توڑا جائے گا تو اس کی قضا ضروری ہو گی ہاں پانچ ایام ایسے ہیں جن میں اگر نفل روزہ بعد شروع کر چکے کے توڑ دیا جائے تو قضا واجب نہیں ہوتی ، دو دن تو عیدو بقر عید کے اور تین دن تشریق (ذی الحجہ کی ۱۱، ۲ا،۱۳، تاریخ) کے ، چونکہ ان ایام کے روزے رکھنے ممنوع ہیں لہٰذا ان ایام میں جب روزہ شروع ہی سے واجب نہیں ہو گا تو اس کے توڑنے پر قضا بھی واجب نہیں ہو گی۔
اگر کوئی شخص ان پانچوں ایام کے روزے کی نذر مانے یا پورے سال کے روزے کی نذر مانے تو ان دونوں صورتوں میں ان ایام میں روزے نہ رکھے جائیں بلکہ دوسرے دنوں میں ان کے بدلے قضا روزے رکھے جائیں۔
آخر میں ایک مسئلہ یہ بھی جان لیجئے کہ جب بچہ میں روزے رکھنے کی طاقت آ جائے تو اسے روزہ رکھنے کے لیے کہا جائے اور جب وہ دس برس کا ہو جائے تو روزہ نہ رکھنے کی صورت میں اس پر سختی کی جائے اور اسے روزہ رکھنے پر مجبور کیا جائے جیسا کہ نماز کے بارے میں حکم ہے۔