قبض و بسط کے آداب کے عنوان سے باب نہم میں حکمت نمبر 80 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جیسا کہ حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اس کی طرف اشار فرمایا ہے۔
80) بَسَطَكَ كيْ لا يُبْقِيَكَ مَعَ القَبْضِ وَقَبَضَكَ كَيْ لا يَتْرُكَكَ مَعَ البَسْطِ وَأَخْرَجَكَ عَنْهُمَا كَيْ لا تَكُونَ لَشَيءٍ دُونَهُ.
اللہ تعالیٰ تم کو بسط کی حالت میں کرتا ہے۔ تا کہ وہ تم کوقبض کی حالت میں باقی نہ رکھے ۔ اور تم کو قبض کی حالت میں کرتا ہے، تا کہ تم کوبسط کی حالت میں نہ چھوڑے، اور پھر تم کو ان دونوں حالتوں سے نکالتا ہے۔ تا کہ تم اس کے سوا کسی شئے کے لئے نہ رہو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : بسط : ۔ وہ خوشی کی حالت ہے جو قلوب اور ارواح پر طاری ہوتی ہے یا محبوب حقیقی کے مشاہدہ کے قرب کے سبب، یا اس کے جمال کے سبب ، یا اس کے کمال کے اوصاف سے حجاب کے اٹھنے ، اور ان کے سامنے اس کی ذات کی تجلی کے سبب ، یا بغیر سبب کے۔
قبض:۔ وہ غم اور تنگی کی حالت ہے، جو قلب پر طاری ہوتی ہے۔ یا پسندیدہ چیزوں کے قوت ہونے کے سبب یا مطلوب کے حاصل نہ ہونے کے سبب یا بغیر کسی سبب کے۔ اور یہ دونوں حالتیں آگے پیچھے ، رات اور دن کے آگے پیچھے آنے کی طرح سالک کے اوپر آتی ہیں۔ پس عوام :۔ جب ان کے اوپر خوف غالب ہوتا ہے تو وہ مسکین اور تنگ دل ہوتے ہیں۔ اور جب ان کے اوپر امید غالب ہوتی ہے تو وہ خوش دل ہوتے ہیں۔ اور خواص: جب اللہ تعالیٰ ان کے سامنے اپنے جمال کی صفت کے ساتھ تجلی کرتا ہے تو ان کے قلب کو بسط وفرحت ہوتی ہے اور جب ان کے سامنے اپنے جلال کی صفت کے ساتھ تجلی کرتاہے۔ تو ان کے قلب کو قبض اورتنگی ہوتی ہے۔
اور خواص الخواص: تو ان کے نزدیک جلال اور جمال دونوں برابر ہیں۔ پس واردات کے احوال ان کے اندر کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ، اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں۔ اور اس کے سوا کسی شے کے لئے نہیں ہیں۔ پس عوام اور خواص کے مالک احوال ہیں ۔ اور وہ احوال کے قبضے میں ہیں۔ اور خواص الخواص: احوال کے مالک ہیں اور احوال ان کےقبضے میں ہیں۔ پس اے سالک! تمہارے اوپر اللہ تعالیٰ کا لطف وکرم ہے۔ کہ تم کو اغیار سے نکالا اور تم کو اسرار کے حضور میں پہنچایا۔ پس جب تم کو قبض لاحق ہوتا ہے۔ اور تمہارے او پر خوف غالب ہوتا ہے۔ اور تم اس کے قہر و غلبہ کے نیچے سکونت رکھتے ہو۔ اور اس کے حکم کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہو تو تم کو قبض کی حالت سے نکال کر بسط کی حالت میں پہنچاتا ہے۔ تا کہ تمہارا اقلب جل نہ جائے ۔ اور تمہارا جسم پگھل نہ جائے۔ پھر جب بسط تم کو روک لیتا ہے ۔ اور تم اس سے خوش ہوتے ہو ۔ اور اس کے جمال کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہو۔ تو تمہارے اوپر قبض کی حالت طاری کرتا ہے۔ تا کہ تم کو بسط کے ساتھ نہ چھوڑ دے۔ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ تم بے ادبی میں مبتلا ہو جاؤ اور غضب اور تباہی کی طرف چلے جاؤ اس لئے کہ بسط کی حالت میں ادب کے ساتھ بہت کم لوگ ٹھہرتے ہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے جلال اور جمال کے مشاہدہ کے درمیان تم کو سیر کراتا ہے۔ تو جب تم اس کے جلال کے وصف کے نشان کا مشاہدہ کرتے ہو، تو قبض اور تنگ دلی کی حالت میں ہوتے ہو۔ اور جب اس کے جمال کے وصف کے اثر کا مشاہدہ کرتے ہو، تو بسط اور فرحت کی حالت میں ہوتے ہو۔ پھر وہ تمہارے لئے دروازہ کھول دیتا ہے۔ اور تمہارے اور اپنے درمیان سے حجاب اٹھا دیتا ہے ۔ تو تم اس کی ذات کے کمال ، اور صفات کے مشاہدہ میں پاک ہو جاتے ہو ۔ اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کے مشاہدہ کے سبب تم جلال اور جمال کے اثر سے غائب ہو جاتے ہو ۔ تو نہ اس کا جلال تم کو اس کے جمال سے حجاب میں کرتا ہے۔ نہ اس کا جمال تم کو اس کے جلال سے حجاب میں کرتا ہے۔ نہ اس کی ذات تم کو اس کی صفات سے روکتی ہے۔ نہ اس کی صفات تم کو اس کی ذات سے روکتی ہے ۔ تم اس کے جمال کا مشاہدہ اس کے جلال میں کرتے ہو۔ اور اس کے جلال کا مشاہدہ اس کے جمال میں کرتے ہو ۔ اور اس کی ذات کا مشاہدہ اس کی صفات میں ، اور اس کی صفات کا مشاہدہ اس کی ذات میں کرتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے جلال اور جمال کے مشاہدہ کے اثر سے تم کو اس لئے نکالا ہے تا کہ تم ہر حال میں اللہ کے بندے ہو جاؤ اور اس نے تم کو ہرشے سے اس لئے نکالا ہے تا کہ تم ہرشے سے آزاد ہو جاؤ۔ اور ہرشے میں اس کے بندے رہو۔ ایک عارف کے اشعار ہیں۔
حَرَامٌ عَلَى مَنْ وَحدَ اللَّهُ رَبُّهُ وَأَفْرَدَہً أَنْ یَحْتَذِى أَحَدًا رِفْدًا
جس شخص نے اپنے رب اللہ تعالیٰ کی توحید کا یقین کیا اور اس کو یکتا مانا اس کے اوپر حرام ہے کہ کسی کو اس کے مثل بڑا سمجھے۔
فَيا صَاحِبِي قِفْ بِي عَلَى الْحَقِّ وَقفۃ اَمُوتُ بِهَا وَجْدًا وَأَحْيَابِهَا وَجْدًا
پس اے میرے ساتھی میر ےساتھ اللہ تعالیٰ پر پوری طرح ٹھہرجا (یعنی ہر شے سے منقطع ہو کر اس کے لئے خالص ہو جا) جس کے ساتھ میں وجد کی حالت میں مرتا اور جیتا ہوں۔
وَقُلْ لِمُلُوكِ الْأَرْضِ تَجْهَدُ جَهْدَهَا فَذَا الْمَلِكُ مَلِكُ لَا يُبَاحُ وَلَا يُهْدًا
اور زمین کے سب بادشاہوں سے کہہ دو: وہ اپنی پوری کوشش کر ڈالیں پھر بھی وہ اللہ تعالیٰ کی برابری نہیں کر سکتے ۔
کیونکہ وہ ایسا بادشاہ ہے جو نہ ظاہر ہوتا ہے نہ اس کا پتہ ونشان بتایا جاسکتا ہے۔
حضرت فارس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے : پہلے قبض ہوتا ہے پھر اس کے بعد بسط ہوتا ہے۔پھر نہ قبض ہوتا ہے نہ بسط۔ کیونکہ قبض اور بسط وجود میں ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن فنا اور بقاء کے ساتھ وہ ظاہر نہیں ہوتے ہیں۔
تم کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ قبض اور بسط دونوں کے لئے آداب ہیں ۔ پھر جب کوئی شخص ان دونوں میں بے ادبی کرتا ہے۔ تو اس کو بارگاہ کی حضوری سے دروازے کی طرف ہٹادیا جاتا ہے یا جانوروں کی سیاست کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔
پس قبض کے آداب: اطمینان ، اور وقار، اور قضا و قدر کے احکام کے ماتحت سکون یعنی رضا وتسلیم ، اور اللہ واحد قہار کی طرف رجوع کرنا ہے۔ اس لئے کہ قبض رات کے مشابہ ہے۔ اور بسط دن کے مشابہ ہے۔ اور رات کی شان: نیند ، اور سکون و آرام ہے۔ پس اے مرید ! صبر کرو۔ اور قبض کی رات کی تاریکی میں سکون اختیار کرو ۔ یہاں تک کہ بسط کے دن کا آفتاب تمہارے او پر روشن ہو جائے ۔ کیونکہ رات کے بعد دن کا آنالازمی ہے اور دن کے بعد رات کا آنالازمی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَفي الليل اللہ تعالیٰ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔ یہ اس قبض کے آداب ہیں جس کا سبب نہ معلوم ہو۔ لیکن اگر قبض کا سبب تم کو معلوم ہو، تو تم اس میں مسبب الاسباب کی طرف رجوع کرو۔ اور اللہ کریم ووہاب کی بارگاہ میں پناہ لو۔ کیونکہ، کیا اس نے تمہیں اچھے حال کے سوا کبھی برے حال میں رکھا؟ اور کیا تمہارے پاس احسان کے سوا کچھ اور بھیجا؟ پس وہ ذات پاک جس کی طرف سے تمہارے سامنے قضا و قدر کے احکام آئے ہیں وہی ہے جس نے تم کو اختیار و ارادہ کی خوبی عطا کی ہے۔ تو جس ذات سبحانہ وتعالیٰ نے مرض نازل کیا ہے اس کے قبضہ قدرت میں شفاء ہے۔
اے اپنے نفس کی نظر میں مبتلا ہونے والے! اگر تم اپنا مرض اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتے ہو تم کو آرام مل جاتا۔ کیونکہ قلب کو جو رنج و غم پہنچتا ہے، وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ تم نے اس کو مشاہد ہ وعیاں سے باز رکھا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ قبض کا سبب اللہ تعالیٰ سے غفلت ، اور ماسوی کی طرف دیکھنا ہے۔ لیکن اہل صفا و خلوص تو وہ صفاو خلوص کے سوا کچھ نہیں دیکھتے ہیں۔ اسی لئے حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:۔
ممَنْ أَصَابَهُ هَم أَوْ غَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ اللَّهُ لَا أشرك به شيئاً ، فَإِنَّ اللهَ يُذْهِبُ هَمَّه وغمہ
جس شخص کو کوئی فکر یا غم پہنچے ۔ تواس کو کہنا چا ہے – الله الله لا أشرك به شیئا اللہ اللہ میں اس کے ساتھ کسی شے کو شریک نہیں کرتا ہوں ۔ تو بے شک اللہ تعالیٰ اس کی فکر اور غم کو دور کر دے گا ۔ یا جس طرح فرمایا ہو علیہ الصلوۃ والسلام۔ اور یہ حدیث صحیح ہے۔ پس غور کرو ۔ کہ حضرت نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے مقبوض ( جس کو قبض لاحق ہو ) کوکس طرح دوا کی طرف رہنمائی کی یعنی دوا بتائی ۔ اور وہ توحید کا مشاہدہ یا شہادت، اور شرک سے غائب ہونا ہے۔ پس ہم کو حضرت نبی کریم ﷺ نے قول کی ہدایت فرمائی ، اور مراد اس سے معنیٰ ہے ۔ گویا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو پہچا نو ، اور اس کو ایک یقین کرو۔ اور ما سوی سے منہ پھیر لو۔ تو تمہارا قبض بسط میں تبدیل ہو جائے گا۔ اور تمہاری مصیبت نعمت سے بدل جائے گی ۔
اور ایسے ہی دوسری حدیث میں ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے
مَا قَالَ أَحَدٌ قَطُّ إِذَا أَصَابَهُ هَمٌ أَوْ حَزَنٌ: اللَّهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ ابْنُ عَبْدِكَ ابْنُ أَمَتِكَ، نَاصِيَتِي بِيَدِكَ، مَاضٍ فِيَّ حُكْمُكَ، عَدْلٌ فِيَّ قَضَاؤُكَ، أَسْأَلُكَ بِكُلِّ اسْمٍ هُوَ لَكَ، سَمَّيْتَ بِهِ نَفْسَكَ، أَوْ أَنْزَلْتَهُ فِي كِتَابِكَ، أَوْ عَلَّمْتَهُ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ، أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِهِ فِي عِلْمِ الْغَيْبِ عِنْدَكَ، أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِيعَ قَلْبِي، وَنُورَ صَدْرِي، وَجَلَاءَ حُزْنِي، وَذَهَابَ هَمِّي، إِلَّا أَذْهَبَ اللَّهُ هَمَّهُ، وَأَبْدَلَهُ مَكَانَ حُزْنِهِ فَرَحًا
جب کوئی شخص اس طرح دعا کرتا ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی فکر اور اس کے غم کو دور کر دیتا ہے۔ اور اس کی فکر اور غم کو خوشی اور سرور میں تبدیل کر دیتا ہے ۔ دعا یہ ہے: اللهم انی عبدک سے وهمی وغمی تک
اے اللہ میں تیرا بندہ ہوں، اور تیرے بندے کا بیٹا ہوں، اور تیری بندی کا بیٹا ہوں ، میری پیشانی تیرے قبضہ اور اختیار میں ہے۔ تیرا حکم میرے بارے میں جاری ہونے والا ہے۔ اور تیری قضاء یعنی تیرا فیصلہ میرے حق میں درست اور انصاف پر مبنی ہے۔ میں تیرے ان مبارک ناموں کے وسیلے سے جن کے ساتھ تو نے اپنے کو موسوم کیا ( جو تو نے اپنا نام رکھا )ہے۔ جن کو تو نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے، یا جن کی اپنی مخلوق میں سے کسی کو تعلیم دی ہے۔ یا جن کو تو نے اپنے علم غیب میں اپنے ساتھ خاص کیا ہے، میں تجھ سے سوال کرتا ہوں یعنی بھیک مانگتا ہوں کہ تو قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار اور رونق اور میری آنکھوں کا نور، اور میرے غم کی صفائی ، اور میری فکر کی دوری کا ذریعہ بنادے
پس حضرت نبی کریم ﷺ نے پہلی حدیث میں ربوبیت کے مشاہدہ یا شہادت کی طرف رہنمائی فرمائی۔ اور دوسری حدیث میں عبودیت کے ساتھ قائم ہونے کی ہدایت فرمائی ہے۔ اور دہ صبر و رضا ہے۔ اس لئے کہ بندے کی شان یہ ہے کہ اپنے مولا کے احکام پر صبر کرے، یعنی ثابت قدمی سے قائم رہے۔ اور اپنے قہر کے اوصاف سے جو درد و غم اس کے اوپر نازل کرے، اس پر راضی رہے اور سر تسلیم خم رکھے۔
اور بسط کے آداب: جسم کے اعضاء کا نافرمانی ، اور سرکشی سے روکنا ہے۔ خصوصا زبان کو ۔ کیونکہ نفس جب خوش ہوتا ہے۔ تو اتر اتا ہے۔ اور ہلکا، اور آسان پسند اور جلد باز ہو جاتا ہے۔پس اکثر اوقات وہ ایسے الفاظ کے ساتھ بات کرتا ہے، جس کی اس کو اجازت نہیں دی گئی ہے ۔ پس اپنی بے ادبی کے سبب جدائی کے گڑھوں میں گرتا ہے۔ اور بسط کی حالت میں قدموں کی لغزش اکثر اسی وجہ سے ہوتی ہے۔ پس جب مرید بسط کو محسوس کرے ۔ تو اس کو چاہیئے کہ اپنے نفس کو خاموشی کا لگام لگائے اور اطمینان، اور وقار کے زیور سے آراستہ ہو۔ اور اپنی خلوت میں داخل ہو۔ اور اپنے گھر میں رہنا لازم پکڑے۔ کیونکہ بسط اور قوت کی حالت میں فقیر کی مثال جوش کھانے والی دیگ اور آگ کی طرح ہے۔ تو اگر اس کو جوش کھاتے ہوئے چھوڑ دے گا۔ تو اس کا سالن گر جائے گا۔ اور دیگ خالی باقی رہے گا ۔ اور اگر اس کو جوش کھانے سے روک دے گا اور آگ کو بجھا دے گا۔ تو پوراسالن باقی رہے گا۔ اسی طرح قوت اور بسط کی حالت میں فقیر کا نور قوی، اور دل جمع ہوتا ہے۔ تو جب وہ حرکت کرتا ہے، اور پکڑتا ہے۔ اور اپنی قوت کی پیروی کرتا ہے، تو وہ سرد ہو جاتا ہے اور اپنی کمزوری کی طرف لوٹتا ہے۔ اور یہ صرف اس کی بے ادبی کے سبب ہوتا ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔