دھوکا و فریب کی علامتیں کے عنوان سے باب نہم میں حکمت نمبر75 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمد
عبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
باب نهم
عارف کے کمال کی علامت طلب کے آداب ، بسط و قبض منع وعطا کے بیان میں حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:
75) خَيْرُ مَاتَطْلُبُهُ مِنْهُ مَا هُوَ طَالِبُهُ مِنْكَ .
اللہ تعالى سے طلب کرنے میں بہتر یہ ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ تم سے طلب کرتا ہے۔ وہی یعنی اس کی توفیق تم اس سے طلب کرو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ ہم سے جس چیز کا طالب ہے۔ وہ ظاہری اور باطنی استقامت ہے۔ اور اس کا مرجع ظاہر میں عبودیت کا ثابت ہونا، اور باطن میں معرفت کا کامل ہونا ہے۔یا تم اس طرح کہو:۔ اللہ تعالیٰ ہم سے جس چیز کا طالب ہے۔ وہ ظاہری جسمانی اعضاء کی احکام شریعت کی پابندی کے ذریعے ، حکمت کے طریقے کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اصلاح کرنی ہے۔ اور قلوب اور باطنی اسرار کی حقیقت کے ذریعے ، قدرت کے وظیفوں کے ساتھ قائم رہتے ہوئے اصلاح کرنی ہے۔ یا تم اس طرح کہو :- اللہ تعالیٰ ہم سے جس چیز کا طالب ہے۔ وہ اس کے حکم کی تعمیل کرنی اور اس کے منع سے پر ہیز کرنا اور اس کے ذکر کی کثرت کرنی اور اس کے غلبہ و اختیار کے سامنے سرتسلیم خم کرنا اور ہر حال میں راضی رہنا ہے۔ پس عارف کے لئے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم پر توکل کر کے ہر شے سے بے نیاز ہو جائے ۔ اور صرف حال کے سوال کو کافی سمجھے ۔ زبان سے نہ طلب کرے۔ اور اگر اس کے اندر طلب کا وارد ظا ہر ہو تو بہتر یہ ہے کہ اس سے جس چیز کا طالب اللہ تعالیٰ ہے، اس کی توفیق طلب کرے۔ اور اللہ تعالیٰ جس چیز کا طالب ہے اس کا بیان پہلے گزرا۔
بعض احادیث میں ہے ۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ۔
إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَا يَسْئَلُ الْخَلْقَ عَنْ ذَاتِهِ، وَصِفَاتِهِ، وَلَا عَنْ قَضَائِهِ وَقَدْرِهِ، وَلَكِنْ عَنْ أَمْرِهِ وَ نَهْيِہٖ
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے اپنی ذات وصفات کی معرفت کے بارے میں سوال نہ کرے گا۔ اور نہ اپنی قضا و قدر کے بارے میں سوال کرے گا۔ بلکہ اپنے حکم اور منع کے بارے میں سوال کرے گا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ اس لئے کہ حکم اور منع اس کے کسب میں ہے۔ اور اس کے کرنے کی اس کوتکلیف دی گئی ہے۔ اور ذات وصفات کی معرفت، اور قضا و قدر کے ساتھ رضا و تسلیم اعمال کے بدلے میں بخششیں، اور حکم کی تعمیل کے نتیجے ہیں ۔ تو جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ تو وہ اس کو پہلے اپنی معرفت عام عطا کرتا ہے۔ اور وہ دلیل کی معرفت ہے۔ پھر جب اس کی پیاس بڑھ جاتی ہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کسی شیخ کو مقرر کرتا ہے جو اس کی دستگیری کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس شیخ کے ذریعہ اس شخص کو اپنی خاص معرفت عطا کرتا ہے۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے:۔ جب کوئی حاجت تمہارے سامنے آئے تو اسے اللہ تعالیٰ کےسامنے طلب کئے بغیر پیش کرو۔ یعنی اس کے تو کل پر چھوڑ دو ۔ اس طرح کہ تمہارے پیش نظر اپنا کوئی فائدہ نہ ہو۔ ورنہ تم اللہ تعالیٰ سے محجوب ہو جاؤ گے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔ وَلَا تَتَمَنَّوا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمُ عَلَى بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُواوَالنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَيْنَ وَاسْئَلُوا اللَّهَ مِنْ فَضْلِهٖ
اور جس چیز میں اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ اس کی خواہش نہ کرو۔ مردوں کے لئے ان کے کئے ہوئے کاموں کا حصہ ہے۔ اور عورتوں کے لئے ان کے کئے ہوئے کاموں کا حصہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگو۔
اور اس کا فضل اس کے ساتھ غنا ہے۔ یعنی اس پر تو کل کسی کے ما سوی سے بے نیازی ہو جانا۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ کی دعاؤں میں ایک دعا یہ ہے:۔ اے اللہ ! میرا ہر سوال اس کے لئے ہے جس کے لئے تو نے مجھے سوال کرنے کا حکم دیا ہے۔ پس تو میرے سوال کو اپنے لئے محبت کا سوال بنادے۔ اور تو مجھے ان لوگوں میں نہ کر جو اپنے سوال سے حظوظ (فوائد ) کے مقامات کا ارادہ کرتے ہیں۔ بلکہ ان لوگوں میں کر ، جو تیرے حق کے واجب کے ساتھ قائم ہونے کا سوال کرتے ہیں ۔
پھر جب تم اللہ تعالیٰ سے طلب کرو۔ تو وہی چیز طلب کرو ۔ جس کا وہ تم سے طالب ہے اور وہ طاعت اور استقامت ہے۔ اگر چہ قضا و قدر تمہارے موافق نہ ہو ۔ اور سوال کرنے سے پہلے تم اس سے روک دیئے گئے ہو۔ پس اگر تم اپنے قلب کے ساتھ طاعت اور استقامت کی طرف نہیں بڑھے لیکن اس کے نہ ہونے پر اپنے نفس کے ساتھ افسوس کیا تو یہ دھوکا میں مبتلا ہونے کی علامت ہے۔