معصیت اور طاعت کا فرق کے عنوان سے باب ششم میں حکمت نمبر50 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
الغرض عارف نہ کسی معصیت کے ساتھ ٹھہرتا ہے، خواہ وہ کتنی ہی بڑی ہو ۔ نہ کسی طاعت کےساتھ ٹھہرتا ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی عظیم الشان ہو اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے اس قول کا یہی مفہوم ہے ۔
50) لاَ صَغِيرَةً إذَا قَابَلَكَ عَدْلُهُ ، وَلَا كَبِيرَةً إِذَا وَاجَهَكَ فَضْلُهُ .
کوئی گناہ صغیرہ نہیں ہے، اگر اللہ تعالیٰ کا عدل و انصاف تمہارے سامنے آئے اور کوئی گناہ کبیرہ نہیں ہےاگر اس کا فضل و کرم تمہارے ساتھ ہو۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ صغیرہ گناہ وہ ہے جس کے بارے میں قرآن مجید اور حدیث شریف میں کوئی وعید (دھمکی) نہیں آئی ہے۔ اور کبیرہ گناہ ۔ وہ ہے جس کے لئے قرآن یا سنت میں عذاب کا وعدہ کیا گیا یا حد مقرر کی گئی۔ اور اس کے سوا دوسری تعریف بھی کی گئی ہے لیکن یہ ظاہری حکم کے اعتبار سے ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی غیبی مشیت کے اعتبار سے تو اس کو علم وعفو، اور عدل وانصاف کے لحاظ سے
کبھی اس کے خلاف ہوتا ہے جو خیال اور گمان کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ اوران کے لئے وہ ظاہر ہوا جس کا وہ گمان نہیں کرتے تھے
تو جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عنایت شامل ہو۔اس کو گناہ نقصان نہیں پہنچاتا ہے۔
فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ یہ وہ لوگ ہیں جن کی گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دے گا۔
اور اگر چہ اعمال، علامات ہوتے ہیں۔ لیکن بعض مقامات میں اس کے برعکس بھی ہوتا ہے۔ لہذا بعض مقامات میں امید اور خوف کا برابر ہونا۔ اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ رضا تسلیم واجب اور ضروری ہے۔ کیونکہ تمہارے رب کے کلمات سچائی اور انصاف کے ساتھ مکمل ہو چکے ہیں۔ کوئی اس میں تبدیلی کرنے والا نہیں ہے تو اگر حق سبحانہ تعالیٰ اپنے انصاف اور جلال کے ساتھ تم سے پیش آئے گا۔ تو سارے صغیرہ گناہ بھی کبیرہ ہو جائیں گے اور اگر حق سبحانہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور احسان و جمال کے ساتھ تم سے پیش آئے گا۔ تو تمہارے سب کبیرہ گناہ بھی صغیرہ ہو جائیں گے۔ حضرت یحی معاذ رازی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ جب اللہ تعالیٰ کا فضل بندوں کے ساتھ شامل ہوگا۔ تو ان کے لئے کوئی گناہ باقی نہ رہے گا۔ اور اگر ان کے اوپر اپنا انصاف جاری کرے گا تو ان کے لئے کوئی نیکی باقی نہ رہے گی۔ اور کہا گیا ہے اگر مومن کی امید اور اس کا خوف وزن کیا جائے تو کسی ایک کا پلہ دوسرے پر بھاری نہ ہوگا ۔ بلکہ مؤمن دو بازو والی چڑیا کی طرح ہے۔ یا جیسا کہا گیا یہ حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں نے اس شخص کے قصہ پر غور کرو۔ جسکے سامنے ننانوے ورق اعمال نامہ پھیلایا جائے گا۔ ہر ورق حد نگاہ تک لمبا ہو گا۔ پھر اس کے مقابلہ میں انگلیوں کے برابر ایک رقعہ نکالا یا جائے گا۔ اس میں اس کی لا الہ الا اللہ کی شہادت بھی ہوگی۔ تو نامہ اعمال کے یہ سب ورق اس کے مقابلے میں ہلکے ہو جائیں گے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کے علم اور رحم کی عظمت اور اس کے کرم و احسان کی شمولیت کی دلیل ہے۔
شیعہ کا جنازہ پڑھنے پڑھانے والےکیلئے اعلیٰحضرت کا فتویٰ
دوہرا اجر پانے والے
سواء السبیل کلیمی
خاندانِ نبوی ﷺ کے فضائل و برکات العلم الظاهر في نفع النسب الطاهر
حیلہ اسقاط ایک جلیل القدر نعمت
امر الہی کے تین مراتب
آداب مرشد
تہنیت از سخی مادھو لعل حسین قلندر
مقامات سلوک از ڈاكٹر محمد عبد الرحمن عمیرہ المصری
مفتاح اللطائف
کشکول کلیمی
رسم رسُولی
آداب سماع شیخ کلیم اللہ جہان آبادی چشتی