حسن ظن میں رکاوٹ (باب ششم)

حسن ظن میں رکاوٹ کے عنوان سے  باب  ششم میں  حکمت نمبر49 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
49) لا يَعْظُمِ الذَنْبُ عِنْدَكَ عَظَمَةً تَصُدُّكَ عَنْ حُسْنِ الظَّنِّ باللهِ تَعالى،
تمہارے خیال میں گناہ اتنا بڑا نہ ہو جائے کہ تم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حسن ظن رکھنے سے روک دے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: خوف اور رجاء کے معاملہ میں آدمیوں کی تین قسمیں ہیں۔
اول ۔ اہل بدایت (ابتدا والے)۔ خوف کے پہلو کو غالب رکھنا ان کے لئے منا سب ہے۔
دوم ۔ اہل وسط درمیان والے :۔ ان کے لئے خوف و رجاء کا اعتدال پر ہونا موزوں ہے ۔
سوم ۔ اہل نہایت (انتہا والے) یہ لوگ رجاء کا پلہ بھاری رکھتے ہیں۔
لیکن اہل بدایت : ۔ تو اس وجہ سے کہ ان پر خوف غالب ہے عمل میں کوشش کرتے ہیں۔ اور گناہوں سے باز رہتے ہیں ۔ اس کی وجہ سے ان کی انتہا روشن ہو جاتی ہے۔ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا جولوگ ہمارے اندر (یعنی ہماری طرف آنے کی) کوشش کرتے ہیں۔ ہم ان کو اپنے راستوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اور اہل وسط : تو اس وجہ سے کہ ان کی عبادت ، ان کے باطن کے تصفیہ کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ ان کی عبادت قلبی ہو گئی ہے۔ تو اگر چہ وہ خوف کے پہلو پر غالب ہو چکے ہیں۔ پھر بھی وہ جسمانی اعضاء کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں ۔ اور اس سے ان کا مقصد : اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی امید، اور اللہ تعالیٰ سے دور ہو جانے کے خوف سے باطن کی عبادت ہے۔ تو ان کا خوف اور رجاء معتدل ہو جاتے ہیں (یعنی دونوں برابر برابررہتے ہیں)۔
اور اہل نہایت:۔ یعنی واصلین ۔ تو وہ اپنے لئے نہ فعل دیکھتے ہیں نہ ترک ۔ وہ صرف حق تعالیٰ کا اختیار، اور پہلے سے جو کچھ قدر میں جاری ہوا۔ اس کو دیکھتے ہیں۔ اور تسلیم ورضا کے ساتھ اس کو گوارہ کرتے ہیں۔ پھر اگر وہ طاعت ہوتی ہے تو اس پر شکر ادا کرتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہیں ۔ اور اگر معصیت ہوتی ہے تو عذر کرتے اور مؤدب ہو جاتے ہیں اور اپنے نفس کے ساتھ نہیں ٹھہرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس نفس کا وجود ہی نہیں ہے ۔ وہ در حقیقت اس شے کو دیکھتے ہیں جو قدرت کی اصل سے ظاہر ہوتی ہے۔ پس ان کی نظر اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب سے زیادہ اس کے برداشت اور معافی اور احسان اور بھلائی کی طرف ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ پر اپنی رحمت نازل کرے۔ انہوں نے بہت خوبی کے ساتھ یہ اشعار فرمائے ہیں۔
فَلَمَّاقَسَا قَلْبِي وَضَاقَتْ مَذَاهبِي جَعَلْتُ الرِّجَا مِنِّي لِعَفُوكَ سُلَّمًا
جب میرا دل سخت ہوا اور میرے راستے تنگ ہوئے ہوں تو تیری معافی کے لئے میں نے اپنی رجاء کو سیڑھی یعنی ذریعہ بنایا۔
تَعَاظَمَنِي ذَنْبِي فَلَمَّا قَرَنْتُهُ بِعَفُوكَ رَبِّي كَانَ عَفُوكَ أَعْظَمَا
مجھ کو اپنا گناہ بڑا معلوم ہوا تو جب میں نے اپنے گناہ کو تیری معافی کے سامنے کر دیا۔ تو تیری معافی بڑی ہوگئی۔
فَمَا زِلْتَ ذَاجُودٍ وَ فَضْلٍ وَمِنَّةٍ تَجُودُ وَ تَعْفُوَ مِنَّةً وَ تَكرما
پس تو ہمیشہ بخشش اور فضل اور احسان کرنے والا ہے۔ اور احسان اور سخاوت کی بناء پر بخشتا اورمعاف کرتا ہے ۔
فيا ليتَ شِعْرِى هَلْ أَصِيرُ لِجَنَّةٍ أَهَنَّا وَإِمَّا لِلسَّعِيرِ فَاندَمَا
تو کاش مجھے معلوم ہوتا، کہ میں جنت کے لئے ہوں تو میں خوش ہوتا۔ یا دوزخ کے لئے ہوں ۔ تو میں شرمندہ ہوتا ۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنوبَ جَمِيعاً – إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيم
آپ فرمادیجئے : اے میرے وہ بند و جو اپنے نفسوں پر حد سے بڑھ گئے ۔ یعنی نا فرمانی کر بیٹھے۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امید نہ ہو ۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کر دےگا۔ کیونکہ بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اور اس شخص کے معاملے پر غور کرو۔ جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا۔ پھر ایک راہب سے دریافت کیا: کیا میرے لئے تو بہ کی کوئی صورت ہے؟ راہب نے جواب دیا ۔ تمہارے لئے تو بہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تو اس نے اس راہب کو قتل کر کے ایک سو پورا کر دیا۔ پھر ایک عالم کے پاس آیا۔ اور اس سے پوچھا: تو عالم نے جواب دیا : تمہارے اور تو بہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ لیکن تم فلاں گاؤں میں چلے جاؤ۔ اس میں ایسے لوگ ہی رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں تم بھی انہیں لوگوں میں شامل ہو جاؤ۔ اور اپنی موت کے آنے تک انہیں کے ساتھ رہو۔ تو جب وہ بیچ راستے میں پہنچا۔ اس کی موت آگئی اور وہ مر گیا ۔ تو اس کے لے جانے کے بارے میں رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہو گیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کی طرف وحی فرمائی ۔ جس گاؤں کی طرف وہ جارہا تھا۔ اور جس گاؤں سے نکل کر وہ آیا تھا۔ دونوں طرف کے راستوں کی تم لوگ پیمائش کرو۔ تو دونوں گاؤں میں سے وہ جس کے قریب ہے انہیں لوگوں میں اس کا شمار کرو ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جس گاؤں کی طرف وہ جارہا تھا اس کو وحی کی تو قریب ہو جا۔ اور جس گاؤں سے وہ آیا تھا۔ اس کو وحی کی تو دور ہو جا۔ تو فرشتوں کی پیمائش میں وہ گاؤں جہاں وہ جارہا تھا ایک بالشت سے زیادہ قریب پایا گیا۔ تو اس کو رحمت کے فرشتوں نے لے لیا۔ یہ حدیث صحیح بخاری و مسلم میں ہے۔ میں نے اس کے معنی نقل کیا ہے۔
حضرت شیخ ابو العباس مرسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ عام لوگ جب ان کو ڈرایا جاتا ہے تو وہ ڈرتے ہیں۔ اور جب ان کو امید دلائی جاتی ہے تو وہ امید کرتے ہیں۔ اور خواص :۔ جب ان کو ڈرایا جاتا ہے تو وہ امید کرتے ہیں اور جب ان کو امید دلائی جاتی ہے تو وہ ڈرتے ہیں۔ لطائف المدن میں مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے:۔ شیخ کے کلام کا معنی یہ ہے:۔ عوام حکم کے ظاہر کے ساتھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ تو جب ان کو ڈرایا جاتا ہے تو ڈرتے ہیں کیونکہ سمجھ کی روشنی میں وہ عبارت سے آگے نہیں بڑھتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ والے ہیں۔ اور اہل اللہ : جب ڈرائے جاتے ہیں تو وہ امید کرتے ہیں کیونکہ وہ علم رکھتے ہیں۔ کہ اس ڈر کے، اور جس سے ڈرایا گیا ہے۔ اس کے ماسوا بھی اللہ تعالیٰ کے ایسے اوصاف ہیں کہ اس کی رحمت اور احسان سے نامید ہونا مناسب نہیں ہے۔ تو وہ اس کے اوصاف کرم پر امید کرتے ہیں۔ اپنے اس علم کی بناء پر کہ اس نے صرف اس لئے ڈرایا ہے کہ ان کو اپنے خیال پر جمع رکھے۔ اور اس خوف کے ذریعہ ان کو اپنی طرف لوٹائے ۔ اور جب ان کو امید دلائی جاتی ہے تو وہ اس کی مشیت کے غیب سے ڈرتے ہیں ۔ جو ان کی امید کے ماسوا ہے۔ اور ڈرتے ہیں ، کہ ایسا نہ ہو کہ جو امید ان کے لئے ظاہر کی گئی ہے۔ وہ ان کی عقلوں کی آزمائش کے لئے ہو ۔ کہ آیا ان کی سمجھ امید پر ٹھہر جاتی ہے۔ یا اس کی طرف بڑھتی ہے۔ جو اس کی مشیت میں پوشیدہ ہے۔ اسی لئےامید نے ان کے خوف کوابھارا ہے۔
حضرت جنید رضی اللہ عنہ اپنے شیخ سری سقطی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ تو ان کو قبض کی حالت میں پایا۔ تو کہا: اے شیخ! آپ کا کیا حال ہے۔ میں آپ کو قبض کی حالت میں دیکھتا ہوں ۔ حضرت سری نے فرمایا:۔ میرے پاس ایک جوان آیا اور اس نے مجھ سے دریافت کیا۔ توبہ کی حقیقت کیا ہے؟ میں نے اس کو جواب دیا : تو بہ کی حقیقت یہ ہے کہ تم اپنے گناہ کو نہ بھولو۔ تو اس جوان نے کہا نہیں، بلکہ تو بہ یہ ہے کہ تم اپنے گناہ کو بھول جاؤ۔ پھر وہ میرے پاس سے چلا گیا ۔ حضرت جنید نے کہا: میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : جو جوان نے کہا۔ وہی درست ہے۔ کیونکہ میں جفا یعنی خطا کی حالت میں تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو صفاء کے مشاہدہ کی طرف منتقل کر دیا۔ تو صفا کی حالت میں جفا کی یاد جفا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں : حضرت سری نے اہل ابتدا کی طرف دیکھا۔ اور حضرت جنید نے اہل انتہا کی طرف دیکھا۔ اور دونوں حضرات کی بات درست ہے۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں