سلام وسیلۂ محبت
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم لاَ تَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ حَتَّی تُؤْمِنُوا وَلاَ تُؤْمِنُوا حَتَّی تَحَابُّوا.
أَوَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَی شَیْء ٍ إِذَا فَعَلْتُمُوہُ تَحَابَبْتُمْ أَفْشُوا السَّلاَمَ بَیْنَکُمْ ( صحیح مسلم :کتاب الایمان)
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان نہیں لاؤ گے اور پورے مومن نہیں بنو گے جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے لگ جاؤ گے وہ یہ ہے کہ آپس میں ہر ایک آدمی کو سلام کیا کرو۔ (تم ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے)
آقائے دوجہاں حامی بے کساں ﷺ کے اس فرمان سے ظاہر ہوا کہ دخول جنت کے لئے سب سے پہلی شرط ایمان ہے اور قلب و جاں میں ایمان کی پختگی کے لئے اہل ایمان کی باہمی محبت ضرور ی ہے۔اور اس باہمی محبت کے حصول کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کثرت سلام کو اختیار کرو تمہیں باہمی محبت نصیب جائے گی ۔حدیث کے مفہوم کو منطقی طور پر اس طرح بیان کیا جاسکتاہے۔
اولاً: دخول جنت ایمان پر منحصر ہے۔
ثانیاً: ایمان باہمی محبت کے بغیر ممکن نہیں۔
ثالثاً: باہمی محبت کثرت سلام کا نتیجہ ہے۔
ان مقدمات کا حاصل یہ ہے کہ ’’سلام کی اشاعت و کثرت حصولِ جنت کا سبب ہے‘‘اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ سلام کا مفہوم والفاظ کیا ہیں۔اس کا آغاز کب ہوااور قرآن و حدیث میں اس کی اہمیت کیا ہے۔اور سلام کے فوائد و ثمرات کیا ہیں۔اور اس کے آداب اور احکام کیا ہیں۔
سلام کا مفہوم
سلام کے لغوی معنی امن و سلامتی،عافیت و مصالحت اور خیر و بھلائی کے ہیں دوسرے الفاظ میں نقائص و عیوب سے برات و نجات پانا۔سلام اﷲ تعالی کا ایک اسم پاک ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو ہر عیب و آفت اور تغیر و فنا سے پاک اور محفوظ ہے۔
اسلامی اصطلاح میں سلام سے مراد وہ دعائیہ کلمات اور خیر سگالی کے جذبات ہیں جو مسلمان عند الملاقات ایک دوسرے کو پیش کرتے ہیں۔جس کے شرعی الفاظ یہ ہیں۔
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم: تم پر سلامتی ہو۔(اگر اجر کی زیادتی مطلوب ہوتو وَرَحْمَۃُ اللّٗہِ وَبَرَکَاتُہٗ کے کلمات کو بڑھا دے۔
دوسرا مسلمان بھائی بھی اس کو دہراتے ہوئے جواب دیتا ہے۔
وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ : اور تم پر سلامت ہو۔ (پورا جواب اس طرح واپس لوٹائے۔ (وَرَحْمَۃُ اللّٗہِ وَبَرَکَاتُہ وَمَغْفِرَتُہٗ)
سلام اسلامی تہذیب و معاشرت کا ایک خاص رکن ہے اس کے لیے جو الفاظ مقرر کیے گئے وہ السلام علیکم ہے اس کے معنی ہیں کہ اﷲ تعالی تیرے حال سے واقف ہے لہذا غفلت اختیار نہ کر، یایہ کہ اﷲ تعالی کے اسم پاک کا تجھ پر سایہ رہے یعنی اﷲ کی حفاظت و نگہبانی میں ر ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے۔ اﷲ معک۔ یعنی اﷲ تیرے ساتھ رہے اکثر علماء کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ تجھ پر سلامتی ہو یعنی تو مجھ سے سلامتی میں ہے اور مجھ کو بھی اپنے سے سلامتی میں شریک رکھ۔ اس صورت میں سلام سلم سے مشتق ہوگا جس کے معنی مصالحت کے ہیں اور اس کلمہ کا مطلب یہ ہوگا کہ تو مجھ سے حفظ و امان میں رہ اور مجھ کو بھی حفظ و امان میں رکھ۔ سلام کرنے کا طریقہ اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ میں مشروع ہوا تھا اور اس کا مقصد ایک ایسی علامت کو رائج کرنا تھا جس کے ذریعہ مسلمان اور کافر کے درمیان امتیاز کیا جا سکے تاکہ ایک مسلمان، دوسرے مسلمان سے تعرض نہ کرے گویا اس کلمہ کو اپنی زبان سے ادا کرنے والا اس بات کا اعلان کرتا تھا کہ میں مسلمان ہوں اور پھر یہ طریقہ مستقل طور پر مشروع قرار پایا۔
عالمگیر تحفۂ انسانیت:
مسلمان باہمی ملاقات سے ایک دوسرے کو امن و سلامتی اور عافیت و سلامتی کا تحفۂ انسانیت دیتے ہیں۔آج کل کی فرنگی تہذیب میں گڈ مارننگ،گڈ ایوننگ اور گڈ نائٹ کے کلمات رائج ہیں۔ظاہر ہے یہ کلمات محدود وقت کے ساتھ مخصوص اور جامعیت اور وسعت سے عاری ہیں۔اگر صبح خیریت سے گزری تو ضروری نہیں کہ شام خیریت سے گزرے اور اگر شام خیریت سے گزری تو ضروری نہیں کہ رات بھی خیریت سے گزرے۔ان کلمات کی بجائے اسلام نے بوقت ملاقات ہمیں’’ السلام علیکم‘‘ کہنے کی تلقین کی جن میں بڑی جامعیت اور وسعت ہے۔گویا آپ یہ ا لفاظ زبان پر لا کر ہر گھڑی مخاطب کے ایمان،مال،جان،صحت اور عزت و آبرو کی سلامتی کی خاطر اپنی دلی تمنا کا اظہار کرتے ہیں۔نیز یہ دعائیہ کلمات وقت ،زمانہ اور ماحول کی قید سے آزاد ہیں۔اس اسلام نے آداب ملاقات کی بنیاد سادہ اور آفاقی کلمات نیز خیر سگالی کے بہترین جذبات پر رکھی ہے۔جو اسلامی تہذیب و ثقافت کا منفرد امتیاز ہے۔
سلام کا آغاز
سلام کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے ہوا۔حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب اﷲ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور ان میں روح پھونکی تو سب سے پہلے انہیں چھینک آئی ۔انہوں نے اﷲ کی توفیق سے الحمد اﷲ کہا پھر انہیں حکم ہوا کہ سامنے بیٹھے ہوئے فرشتوں کی جماعت کو سلام کہو۔حضرت آدم علیہ السلام نے انہیں جا کر سلام کہاتو فرشتوں نے جواباً وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٗہِ کہااس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایاکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا طریقہ ٔ سلام ہے۔ علاوہ ازیں تمام انبیاء علیہم السلام کایہی شعار رہاہے۔حتی کہ خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ نے بھی جاہلیت کے دیگر طریقوں کو ختم کر کے اسلام کا یہی طریقہ رائج کیا جو قیامت تک دینِ اسلام کا امتیازی شعار ہے۔
ورحمۃ اﷲ کا لفظ فرشتوں نے زیادہ کیا اس کے ذریعہ سلام کے جواب کے سلسلے میں ایک تہذیب و شائستگی اور ادب فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا چنانچہ افضل طریقہ یہی ہے کہ اگر کوئی شخص السلام علیکم کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام وحمۃ اﷲ وبرکاتہ کہا جائے اسی طرح اگر کوئی السلام علیکم ورحمۃ اﷲ کہے تو اس کے جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ کہا جائے ایک روایت میں ورحمۃ اﷲ کے بعد ومغفرۃ کا لفظ بھی منقول ہے ۔
یہ بات کہ فرشتوں نے حضرت آدم کے سلام کے جواب میں وعلیک کے بجائے السلام علیک کیوں کہا تو ہو سکتا ہے کہ ملائکہ نے بھی یہ چاہا ہوگا کہ سلام کرنے میں وہ خود ابتداء کریں ،جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے کہ جب دو آدمی ملتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک سلام میں ابتداء کرنا چاہتا ہے تو دونوں ہی ایک دوسرے سے السلام علیک یا السلام علیک یاالسلام علیکم کہتے ہیں لیکن یہ بات واضح رہے کہ جواب کے درست و صحیح ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جواب سلام کے بعد واقع ہو نہ کہ دونوں ایک ساتھ واقع ہوں کہ اگر دو شخص ملیں اور دونوں ایک ہی ساتھ السلام علیکم کہیں تو دونوں میں سے ہر ایک پر جواب دینا واجب ہوگا۔
قرآن وحدیث میں سلام کی اہمیت
قرآن مجید نے سلام کے لئے سورۂ یسین میں یہی کلمات استعمال کئے ہیں۔
سَلٰمٌقَوْلااًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ(۸۵)
’’سلام بولنا پروردگار کی طرف سے ہے۔‘‘
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ،جن کا پورا کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے وہ حقوق مندرجہ ذیل ہیں۔
۱۔بیمار کی عیادت اور بیمار پرسی کرنا۔ ۲۔مسلمان بھائی کی دعوت کو قبول کرنا۔ ۳۔مسلمان کے جنازے میں شرکت کرنا۔
۴۔ملاقات کے وقت سلام کہنا۔ ۵۔چھینک کا جواب دینا۔ ۶۔ہر حال میں اس کی خیر خواہی اور بھلائی چاہنا۔
ان حقوق میں سے سلام بھی ایک اہم حق ہے جو عند الملاقات ایک مسلمان بھائی کا دوسرے مسلمان بھائی پر پورا ضروری ہے۔
سلام کا تعلق شناسائی کے حقوق سے نہیں ہے بلکہ یہ ان حقوق میں سے ہے جو اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے تئیں عائد کیے ہیں اس طرح مریض کی عیادت اور اس جیسے دوسرے امور بھی اسلامی حقوق و واجبات سے تعلق رکھتے ہیں ۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کچھ لوگوں سے ملے اور یہ چاہے کہ ان سب کو سلام کرنے کے بجائے ان میں سے چند کو سلام کرے تو یہ مکروہ ہے کیونکہ سلام کا اصل مقصد آپس میں موانست و الفت کو فروغ دینا ہے جب کہ بعض دوسرے مخصوص لوگوں کو سلام کرنا گویا باقی لوگوں کو وحشت و اجنبیت میں مبتلا کرنا ہے اور یہ چیز اکثر اوقات نفرت و عداوت کا بھی سبب بن جاتی ہے۔لیکن بازار اور شارع عام کا حکم اس سے الگ ہے کہ اگر بازار میں یا شارع عام پر بہت سے لوگ آ رہے ہوں تو وہاں بعض لوگوں کو سلام کرنا کافی ہوگا۔ کیونکہ اگر کوئی شخص بازار میں شارع عام پر ملنے والے ہر شخص کو سلام کرنے لگے تو وہ اسی کام کا ہو کر رہ جائے گا اور اپنے امور کی انجام دہی سے باز رہے گا۔
سلام کے فوائد وثمرات
قرآن و حدیث میں باہمی سلام کہنے کی بڑی فضیلت و اہمیت اور افادیت بیان کی گئی ہے۔جو کہ مندرجہ ذیل ہے۔
۱۔محبت کا ذریعہ: بار بار سلام کرنے سے دلوں کی صفائی ہوتی ہے۔کدورت اور رنجش دور ہوجاتی ہے۔اجنبی اپنے اور دشمن دوست بن جاتے ہیں۔باہمی محبت اور اُلفت میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے۔فرمان رسول ﷺ ہے:’’کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جسے تم کرو تو تمہارے درمیان محبت پیدا ہوجائے تو تم آپس میں سلام کو پھیلاؤ‘‘(سنن الترمذی:کتاب الاستئذان )
۲۔ سیدنا عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ ”بہتر اسلام کونسا ہے؟” آپ نے فرمایا ”یہ کہ تم (دوسروں کو) کھانا کھلاؤ اور اسے بھی سلام کرو جسے تم جانتے ہو اور اسے بھی جسے تم نہیں جانتے” (بخاری، کتاب الایمان، باب اطعام الطعام من الاسلام۔ الاستیذان، باب السلام للمعرفۃ و غیر المعرفۃ)
۳۔ سلام کے آداب:۔ سیدنا عمران رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہا ”السلام علیکم” تو آپ نے فرمایا ”دس” (یعنی اس کے لیے دس نیکیاں ہیں) پھر ایک اور آدمی آیا اور اس نے کہا ”السلام علیکم ورحمۃاﷲ ” تو آپ نے فرمایا ”بیس” پھر ایک اور آدمی آیا اس نے کہا ”السلام علیکم ورحمۃاﷲ وبرکاتہ” آپ نے فرمایا ”تیس” (ترمذی۔ ابواب الاستیذان، باب فضل السلام)
۴۔ آپ نے فرمایا ”جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو ملے تو اسے سلام کہے۔ پھر اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت، دیوار یا پتھر آ جائے۔ پھر اس سے ملاقات کرے تو پھر سلام کہے۔” (ابو داؤد، کتاب الادب۔ باب فی الرجل یفارق الرجل ثم یلقاہ ایسلم علیہ)
۵۔ آپ نے فرمایا ”چھوٹا بڑے کو سلام کرے، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ تھوڑے آدمی زیادہ کو سلام کریں۔ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے اور چلنے والا کھڑے کو سلام کرے۔” (بخاری، کتاب الاستیذان باب تسلیم الصغیر علی الکبیر ۔۔۔ مسلم، کتاب السلام، باب یسلم الراکب علی الماشی ۔۔۔ ترمذی، ابواب الاستیذان)
۶۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ چند یہودی آپ کے پاس آئے اور کہا ”السام علیک” (تجھے موت آئے) میں سمجھ گئی وہ کیا کہہ رہے ہیں، تو میں نے کہا ”علیکم السام واللعنہ” آپ نے فرمایا ”ٹھہرو عائشہ رضی اﷲ عنہااﷲ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں نے جواب دیا ”یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپ نے سنا نہیں وہ کیا کہہ رہے ہیں؟” آپ نے فرمایا ”میں نے وعلیکم تو کہہ دیا تھا” (بخاری، کتاب الاستیذان، باب کیف الرد علی اھل الذمۃ السلام۔ مسلم، کتاب السلام، باب النہی عن ابتداء اہل الکتاب بالسلام و کیف یردعلیھم)
۷۔ آپ نے فرمایا ”لوگوں میں سے اﷲ سے زیادہ قریب وہ ہے جو ان میں سے پہلے سلام کرتا ہے۔” (ابو داؤد، کتاب الادب، باب فضل من بدأ بالسلام)
۸۔ آپ نے فرمایا ”جب کوئی مجلس میں آئے تو سلام کہے اور جب جانے لگے تو بھی سلام کہے اور یہ دونوں سلام ایک ہی جیسے ضروری ہیں” (ابو داؤد، کتاب الادب۔ باب فی السلام اذاقام من المجلس)
سلام کے آداب واحکام
جس طرح قرآن و حدیث میں سلام کی اہمیت و افادیت بیان کی گئی اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ہمیں سلام کے آداب و احکام کی پوری پوری وضاحت کی ہے۔ان مسائل کو سلام کرتے وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
۱۔سلام کرنا سنّت ہے اور جواب دینا فرض ہے سلام کہنے والا السلام علیکم کہے جواب دینے والا وعلیکم السلام و رحمۃ اﷲ کہے یعنی جواب میں کلمات کا اضافہ ہو یا اُسی طرح لو ٹا دے۔ اگرپہلے نے ورحمۃ اﷲ بھی کہا تھا تو یہ وبرکاتہ اور بڑھائے پس اس سے زیادہ سلام و جواب میں اور کوئی اضافہ نہ کرے۔
۲۔سلام بے غرض ہوکر کہا جائے اور سنت سمجھ کر کیا جائے خوشامداور مطلب براری کے لئے سلام کہنا ناجائز ہے۔
۳۔سلام میں پہل کرنے کی کوشش کی جائے ۔کیونکہ حدیث میں پہل کرنے والے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
۴۔اگر ساری جماعت میں سے ایک آدمی سلام کہہ دے تو وہ ساری جماعت کے لئے کافی ہے۔اسی طرح جواب میں بھی ایک آدمی جواب دے دے تو سب کے لئے کافی ہے۔
۵۔جب کوئی شخص راستے میں بیٹھا ہو تو ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دے۔اسی طرح سوار پیدل کو ،کھڑا بیٹھے کو،اور باہر سے آنے والا گھر والوں کو سلام کرے۔بہتر سواری والا کمتر سواری والے کو اور کمتر سواری والا پیدل چلنے والے کو اور پیدل بیٹھے ہوئے کو اور چھوٹے بڑے کو اور تھوڑے زیادہ کو سلام کریں ۔
۶۔ہر واقف و ناواقف کو سلام کرناچاہیے۔
۷۔مجلس میں آتے اور جاتے وقت سلام کرناچاہیے۔
۸۔اگر کسی محفل میں مسلم اور غیر مسلم اکٹھے بیٹھے ہوں تو ان پر سلام کہنا بھی جائز ہے۔
۹۔گفتگو کرنے سے پہلے سلام کہا جائے بالخصوص فون پر بات کرتے وقت ابتداء السلام علیکم سی کی جائے۔
۱۰۔چھوٹے بچوں کو چاہیے کہ وہ بڑوں کو سلام کریں۔لیکن اگر تعلیم و تربیت کے لئے بڑے چھوٹوں کو سلام کریں تو یہ بھی درست ہے۔
۱۱۔جب کوئی غیرمسلم آپ کو سلام کرے تو اس کے جواب میں و علیکم کہیں۔
سلام کی ممانعت
مندرجہ ذیل لوگوں کوسلام کہنے کی ممانعت ہے۔
جو نماز پڑھا رہا ہو ۔ اس حال میں ان کو سلام نہ کیا جائے اور اگر کوئی سلام کرے تو ان پر جواب دینا لازم نہیں
وہ مجلس جہاں دینی وعظ اور درس قرآن ہو رہا ہو یا تلاوت قرآن ہو رہی ہو جو شخص خطبہ یا حدیث یا مذاکرہ علم یا اذان یا تکبیر میں مشغول ہو۔
قاضی جو عدالت کر رہا ہو۔
جو شخص قضائے حاجت میں مصروف ہو۔
جو شخص غسل کررہا ہو یابے عذر برہنہ ہو۔
جو شخص کھانا کھا رہا ہو۔
جو شخص خلاف شرع کام کررہا ہو۔
کافر ،گمراہ، فاسق اور استنجا کرتے مسلمانوں کو سلام نہ کریں۔
جو شخص شَطرنج ،چوسر ،تاش، وغیرہ کوئی ناجائز کھیل کھیل رہا ہویا گانے بجانے میں مشغول ہو اس کو سلام نہ کیا جائے ۔
آدمی جب اپنے گھر میں داخل ہو تو اہل خانہ بالخصوص بیوی کو سلام کرے ہمارے ہاں یہ بڑی غلط رسم ہے کہ زن و شو ہرکے اتنے گہرے تعلقات ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو سلام سے محروم کرتے ہیں باوجود یہ کہ سلام جس کو کیا جاتا ہے اس کے لئے سلامتی کی دعا ہے۔