دل کے اندھے حکمت نمبر41
دل کے اندھےکے عنوان سے باب چہارم میں حکمت نمبر41 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
جب کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ تمہارے ساتھ احسان ہی کیا۔ اور ہمیشہ تمہاری طرف انعام ہی بھیجا۔ تو یہ تعجب ہے کہ تم اس کو چھوڑ کر اس کے ماسوا کو طلب کرو ۔ چنانچہ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے اس قول میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے:۔
41) العَجَبُ كُلُّ العَجَبِ مِمَّنْ يَهْرُبُ مِمَّنْ لا انْفِكاكَ لَهُ عَنْهُ، وَيَطْلُبُ ما لا بَقاءَ لَهُ مَعَهُ (فَإِنَّهَا لا تَعْمَى الأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُور.
بہت تعجب ہے اس شخص پر جو اس سے بھاگتا ہے، جس سے اس کو جدا نہیں ہونا ہے۔ اور اس کو طلب کرتا ہے جو اس کے ساتھ باقی نہیں رہتا ہے پس بیشک اس کی آنکھیں اندھی نہیں ہوئی ہیں بلکہ اس کا دل اندھا ہو گیا ہے جو سینہ میں ہے۔
بڑی ہی عجیب بات
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جس سے جدا نہیں ہونا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی قضا و قدر ہے اور جس کو باقی نہیں رہنا ہے وہ دنیا ہے یاوہ چیزیں جن کی تدبیر اور اندازہ نفس کرتا ہے، پس سارےعجائبات سے بڑا تعجب یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے بھاگے اور طلب کے ساتھ اس کے ماسوا کی طرف توجہ کرے باوجود اس کے کہ اس کو اللہ تعالیٰ سے جدا ہو نا ممکن نہیں ہے اور نہ اس سے پھر کر جانے کی کوئی جگہ ہے کیونکہ اس کا وجود اسی سے ہے ۔ اور اس کے وجود کا قیام اس کے ساتھ یعنی اس کے باعث ہے تو وہ اس کی معرفت کی طلب کو اور اس کے حکم کی پیروی اور اس کے منع سے پر ہیز کے ذریعہ اس کے تقرب کو ترک کر کے کیسے بھاگتا ہے۔ اور دنیائے فانی کے حظوظ یعنی حصوں کو طلب کرتا ہے جنہیں باقی نہیں رہنا ہے اور ان کو اگر تم نے دنیا کی زندگی میں نہیں چھوڑا تو وہ موت کے ساتھ تم سے چھوٹ جائیں گی پس تم اس کو طلب کرو جو باقی رہے گا ۔ اور اس کو چھوڑ دو جوفنا ہو جائیگا۔
ایک عارف نے بہت خوب کہا ہے:۔
هَبِ الدُّنْيَا تَسَاقُ إِلَيْكَ عَفْوا اَلَيْسَ مَصِيرُ ذَاكَ إِلَى زَوَالٍ
فرض کرو کہ دنیا تمہاری طر ف ضرورت سے زایدہ یعنی کثیر مقدار میں آرہی ہے تو کیااس کاٹھکانہ زوال کی طرف نہیں ہے (یعنی کیا اس کا انجام فنا ہو جانا نہیں ہے
وَمَا دُنْيَاكَ إِلَّا مِثْلُ ظِل أَهْلَكَ ثُمَّ آذَن َبِارِّتحَالٍ
اور تمہاری دنیا صرف سایہ کی طرح ہے ۔ تمہارے اوپر سایہ کیا پھر کوچ کرنے کا اعلان کر دیا۔
یا اس طرح کہو :۔ سب سے بڑا تعجب یہ ہے کہ بندہ جس سے جدا نہیں ہو سکتا اس سے بھاگے اور وہ اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر ہے اور جس کو باقی نہیں رہنا ہے اس کو طلب کرے اور وہ اس کی تدبیر اور اختیار ہے اس لئے کہ جو کچھ وہ تدبیر کرتا اور مضبوط کرتا ہے قضا اس کو الٹ دیتی اور منہدم کر دیتی ہے۔
مَتَى يَبْلُغُ البَنْيَانُ يَوْمًا تَمَامَهُ إِذَا كُنتَ تَبْنِيْهِ وَغَيْرُكَ یَهْدِمُ
وہ دیوار بھی کیسے پوری ہو سکتی ہے جس کو تم بناتے ہو اور قضا اس کو ڈھادیتی ہے ۔
سب بصیرت کے نہ کھلنے یا اس کے اندھی ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لئے فرمایا:۔
فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ بیشک آنکھیں محسوس یعنی ظاہر کے دیکھنے سے اندھی نہیں ہوتی ہیں۔ کیونکہ یقیناوہ اس کو دیکھتی ہیں اور اس کےحجاب میں رہتی ہیں ولکن تعمی الْقُلُوبُ) بلکہ قلوب کی آنکھیں حقیقت کے دیکھنے سے اندھی ہوتی ہیں۔ تو وہ صرف ظاہر کو دیکھتا ہےاسی کو محبت کرتا ہے۔
اور اس کے سوا اور کچھ نہیں چاہتا۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی عافیت اور اس کی ہدایت چاہتے ہیں۔
بصیرت کب اندھی ہوتی ہے
حضرت ابوالحسن شاذلی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بصیرت کے اندھی ہونے کے تین سبب ہیں:
اول:۔ جسمانی اعضا کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں آزاد چھوڑ دیا ۔
دوم :۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں حرص کرنا۔
سوم : اللہ تعالیٰ کی عبادت میں بناوٹ اختیار کرنا۔ پس اگر تم کو اللہ تعالیٰ کی طلب ہے جس سے جدا ہونا تمہارے لئے ممکن نہیں ہے اور تم اس کی طرف سفر کرنا چاہتے ہو تو اس کی ذات کی معرفت طلب کرو اس کی جنتوں کی زیب و زینت نہیں کیونکہ وہ بھی اس کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے