دلیل اورمشاہدہ کی معرفت (باب دوم)

دلیل اورمشاہدہ کی معرفت حکمت نمبر29

دلیل اورمشاہدہ کی معرفت کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر29 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
اور سب سے بڑی شے جو باطن میں امانت رکھی گئی ، وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے۔ اور معرفت کی دو قسمیں ہیں:
ایک قسم : دلیل کی معرفت ۔ دوسری قسم: مشاہدہ کی معرفت ۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے ان دونوں قسموں کا فرق اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے:۔
39) شَتَّانَ بَينَ مَنْ يَسْتَدِلُّ بِهِ أَوْ يَسْتَدِلُّ عَلَيِهِ. المُسْتَدِلُّ بِهِ عَرَفَ الحَقَّ لأَهْلِهِ، فأَثْبَتَ الأَمْرَ مِنْ وُجودِ أَصْلِهِ. وَالاسْتِدْلالُ عَلَيْهِ مِنْ عَدَمِ الوُصولِ إليَهِ. وَإلّا فَمَتى غابَ حَتّى يُسْتَدَلَّ عَلَيْهِ؟! وَمَتى بَعُدَ حَتّى تَكونَ الآثارُ هِيَ الَّتي تُوْصِلُ إلَيْهِ؟!
جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ استدلال کرتا ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر استدلال کرتا ہے۔ دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استدلال کرنے والے نے حق کو اس کے اہل کے لئے پہچانا۔ پس امر کو اس کی اصل کے وجود سے ثابت کیا۔ اور اللہ تعالیٰ پر استدلال کرنے والے نے حق کو اس کے اہل کے لئے پہچانا۔ پس امر کو اس کی اصل کے وجود سے ثابت کیا ۔ اور اللہ تعالیٰ پر استدلال کرنا، اللہ تعالیٰ تک نہ پہنچنے کی وجہ سے ہے۔ ورنہ وہ غائب کب ہے کہ اس کے اوپر استدلال کیا جائے؟ اور وہ دور کہاں ہے کہ آثار اس کے پاس پہنچانے والے ذریعہ نہیں ؟

ذات کے اسرار صفات کے انوار

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: جب اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے اسرار، اور اپنی صفات کے انوار کے ساتھ جلوہ گر ہونے کا ارادہ کیا۔ تو اپنی قدرت سے اپنے ازلی نور سے ایک مشت نور ظاہر کیا۔ پس قدرت کا تقاضا ہوا کہ اس کے آثار ظاہر ہوں، اور اس کے انوار مشاہدہ کئے جائیں۔ اور حکمت کا تقاضا ہوا کہ اس پر حجاب ڈال دیا جائے۔ اور پردے ظاہر کر دیے جائیں۔ لہذا جب قدرت نے اپنا نورمخلوق کے مظہروں میں رکھا تو حکمت نے اس پر حفاظت کی چادر ڈھانپ دی ، پس کل مخلوقات پوشیدہ حجاب میں نور ہو گئی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو دو قسموں میں تقسیم کیا اور ان کی دو جماعت بنا ئیں: ایک جماعت کو اپنی محبت کے لئے مخصوص کیا۔ اور ان کو اپنے اولیاء کے صف میں رکھا۔ اور ان کے لئے اپنی معرفت کا دروازہ کھولا۔ اور حجاب اٹھا دیا۔ اور ان کو اپنی ذات کے اسرار کا مشاہدہ کرایا۔ اور ان کے لئے اپنی ذات کے اسرار کو قدرت کے آثار کے حجاب میں نہیں رکھا۔ یعنی اپنی ذات کے اسرار ان پر عیاں کر دیئے اور مظاہر کا حجاب ان سے دور کر دیا۔ اور دوسری جماعت کو اپنی خدمت کے لئے مقرر کیا۔ اور انہیں اپنی حکمت کا اہل بنایا۔ اور ان کے اوپر وہم کا حجاب ڈال دیا۔ اور علم و فہم کا نوران سے غائب کر دیا۔ لہذا وہ لوگ ظاہری سطح پرٹھہر گئے۔ اور باطنی نور کا اس کی شدت ظہور کی وجہ سے مشاہدہ نہ کر سکے۔
پس وہ ذات مقدس ہے جس نے اپنا راز اپنی حکمت سے پوشیدہ کیا۔ اور اپنا نور اپنی قدرت سے ظاہر فرمایا۔ پس اہل محبت جو ولایت اور عرفان والے ہیں، وہ عیاں مشاہدہ کرنے والوں میں سے ہیں ۔ وہ نور کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اور خالق کے وجود سے مخلوق کے وجود پر استدلال کرتے ہیں۔ لہذاوہ صرف خالق کو پاتے ہیں۔ وہ اس کی قدرت سے اس کی حکمت پر استدلال کرتے ہیں لہذادہ اس کی قدرت کو اس کی عین حکمت، اور اس کی حکمت کو اس کی عین قدرت پاتے ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ میں مخلوق کے دیکھنے سے غائب ہیں کیونکہ یہ محال ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرو۔ اور اس کے ساتھ اس کے ماسوی کو بھی دیکھو ۔ اور اہل خدمت، حکمت والے ہیں۔ وہ حجاب کے وجود سے نور کے وجود پر استدلال کرتے ہیں لہذا وہ اللہ تعالیٰ کے حاضر ہونے کے باوجود اس سے غائب ہیں۔ اور اس کی شدت ظہور کی بناء پر اس سے حجاب میں ہیں ۔
بعض عارفین نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ نے عوام کے لئے مخلوق کو ثابت کیا ۔ لہذا انہوں نے اس کے ذریعے خالق کو ثابت کیا۔ اور خواص کے لئے اپنی ذات کو ثابت کیا ۔ لہذا انہوں نے اس کے ذریعہ مخلوق کو ثابت کیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے وجود سے اس کی مخلوق کے وجود پر استدلال کرنے والے، اور مخلوق کے وجود سے اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال کرنے والے کے درمیان بہت بڑا فرق کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ استدلال کرنے والے نے حق یعنی وجود حقیقی کو اس کے اہل یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے پہچانا ، جو واجب الوجود ہے ۔ اور امریعنی قدیم ہونا ، وجود حقیقی کے لئے اس کی اصل کے وجود یعنی جبروت اصلی قدیم ازلی سے ثابت کیا۔ یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو اس طریقے پر پہچانا کہ اس کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اس نے پہچان لیا کہ وجود صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے ۔ اور اسکی نگاہ سے اللہ تعالیٰ کے ماسوا کا وجود ختم ہو گیا ۔ اور اس نے قدیم ہونا ، اس کے اول اور آخر کے لئے ثابت کیا۔
یا تم اس طرح کہو : اس نے حق یعنی وجود اصلی کو اس کے اہل یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے پہنچانا۔ اور امریعنی وجود فرعی کو اس کی اصل کے وجود سے کیا یعنی وجود فرعی کو اسکی اصل سے ملا دیا۔ اور جب فرع اصل سے مل گیا، تو سب جبروتی ہو گیا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ دونوں کا مفہوم ایک ہو ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔
اور مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وجود پر استدلال کرنے والا اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کے باوجود اس سے دور ہونے ، اور اس کے حضور کے باوجود اس سے غائب ہونے کی وجہ سے استدلال کرتا ہے۔ اور اس کی دوری مخلوق کے وجود کا وہم ہے۔ اور اسکا غائب ہونا اللہ تعالیٰ سے نا سمجھی ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ غائب کہاں ہے۔ جو تم اس پر استدلال کرو۔ کیونکہ وہ تمہاری شہ رگ سے زیاد ہ تم سے قریب ہے۔ اور وہ دور کہاں ہے کہ تمہیں اس کے پاس پہنچنے کے لئے وہمی آثار کی ضرورت ہو۔ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَمَا كُنتُم اور وہ تمہارے ساتھ ہے۔ تم جہاں کہیں بھی ہو۔
اور چونکہ مخلوق قدرت کا اثر ہے۔ لہذا قدرت کا اثر معین قدرت ہے۔ کیونکہ صفت موصوف سے جدا نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے کہ صفت موصوف ہی کے ساتھ قائم ہوتی ، اور موصوف ہی میں ظاہر ہوتی ہے۔ اور عنقریب اس کا بیان مناجات میں اس قول کی تشریح میں آئے گا۔ اے میرے اللہ ! تیرے وجود پر اس شے سے کسی طرح استدلال کیا جاسکتا ہے جو اپنے وجود کے لئے تیری محتاج ہو؟ کیا تیرے غیر کے لئے وہ صفت ہے جو تیرے لئے نہیں ہے۔ تا کہ وہ تیری ظاہر کرنے والی ہو؟ تو غائب کب ہے جو تو کسی ایسی دلیل کا محتاج ہو جو تیری طرف رہنمائی کرے؟ اور تو دور کہاں ہے کہ تیرے پاس پہنچانے کے لئے آثار کی ضرورت ہو؟ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں