عارفوں کے آداب (باب دوم)

عارفوں کے آداب حکمت نمبر17

عارفوں کے آداب کے عنوان سے  باب  دوم میں  حکمت نمبر17 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔

دوسرا باب

اللہ تعالیٰ کے بارگاہ قدس کے آداب کے بیان میں
پہلا ادب
جہالت کو ترک کرنا ، اور ہرشے میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے۔
حضرت مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے:۔
17) ما تَرَكَ مِنَ الجَهْلِ شَيْئاً مَنْ أَرادَ أَنْ يَحْدُثَ في الوَقْتِ غَيْرُ ما أَظْهَرَهُ اللهُ فيِهِ.
اللہ تعالیٰ نے جس وقت میں جس شے کا ظاہر ہونا مقرر کیا ہے، اس وقت میں جس شخص نے اس کے سوا دوسری شے ظاہر کرنے کا ارادہ کیا۔ اس نے جہالت میں سے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔

جہالت کی قسمیں

جہالت : علم کی ضد کو کہتے ہیں۔ اور اس کی دو قسمیں ہیں ۔ جہل بسیط ۔ اور جبل مرکب ۔
جہل بسیط :- یہ ہے کہ کوئی شخص جاہل ہو ، اور اپنے کو جاہل سمجھتا ہو۔
جہل مرکب:۔ یہ ہے کہ کوئی شخص جاہل ہو، لیکن اپنے کو جاہل نہ کہتا ہو۔ اور بدترین جہالت : اللہ تعالیٰ سے جاہل ہونا ، اور اس کی معرفت کے بعد انکار کرنا ہے۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ حقیقی عارف کے آداب میں سے یہ ہے کہ اشیاء کو ان کے مقام میں قائم رکھے۔ اور ان کی رفتار کے مطابق ان کے ساتھ چلے۔ یعنی تقدیر الہٰی نے تمام اشیاء کے ساتھ جو کچھ مقدر کیا ہے۔ اس کی موافقت کرے۔ لہذا جس شخص کے سامنے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کو علانیہ ظاہر کر دیا ، وہ کمال اور یقین کے آخری درجے میں ہے۔ اس حقیقت کے بارے میں عینیہ کے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا ہے :
وَكُلُّ قَبيْحٍ إِن نَسَبْتَ لِحُسْنِهِ اتَتْكَ مَعَانِى الْحُسْنِ فِيْهِ تُسَارِعُ
اور ہرشے اگر تو اسکی نسبت اللہ تعالیٰ کے حسن و خوبی کے ساتھ کرے گا تو اس شے میں تجھے اس حسن کی حقیقتیں نظر آئیں گی جن کے لئے تو دوڑتا ہے۔ یعنی جس حسن کی تلاش میں تو کوشش کرتاہے۔
يُكَمِّلُ نُقْصَانَ الْقَبِيحِ جَمَالُهُ فَمَا ثُمَّ نُقْصَانُ وَلَاثَمَّ بَاشع
اللہ تعالیٰ کا جمال بری شے کے عیب و نقصان کو دور کر دیتا ہے ۔ کیونکہ نہ وہاں نقصان ہے نہ عیب ہے۔
حضرت ابوالحسن نوری رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ اپنی مخلوق سے اللہ تعالیٰ کا مقصد وہی ہےجو اس نے ارادہ کیا ہے۔ لہذا جب اللہ تعالیٰ بندے کو کسی مقام میں قائم کر دے، تو عارف پر واجب ہے کہ دل کی رضا مندی اور خوشی کے ساتھ اپنے کو اس مقام میں قائم رکھے نتیجہ جو بھی ہوتا ہے ہو ۔ اور اگر شریعت اس کو نہ تسلیم کرے۔ تو مناسب تدبیر کے ذریعے اس مقام سے نکلنے کی رغبت کے ساتھ اس میں قائم رہے۔ اور انتظار کرے کہ اللہ تعالیٰ کیا کرتا ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے:۔ جو شخص مخلوق سے شریعت کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، تو اس کی دشمنی ان کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے۔ اور جو شخص ان سے حقیقت کے ساتھ معاملہ کرتا ہے، وہ ان کو معذور سمجھتا ہے۔ اور جو شخص کسی وقت میں اپنی ذات کے لئے یا اپنے غیر کے لئے کچھ ایسا ہونے کا ارادہ کرتا ہے، جو اس کے خلاف ہے جو اس وقت میں ہونے کا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے۔ تو اس نے کل جہالت کو جمع کر لیا۔ ایک ذرہ بھی جہالت کا باقی نہیں چھوڑا کیونکہ اس نے تقدیر کا مقابلہ کیا۔ اور قادر مطلق اللہ تعالیٰ سے لڑائی کی ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :-
إِنَّ رَبَّكَ ‌فَعَّال لِّمَا يُرِيدُ بے شک آپ کا رب وہی کرتا ہے جو ارادہ کرتا ہے ۔
اور دوسری جگہ فرمایا:۔وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ لوگ اس کو نہ کرتے۔
اور تیسری جگہ فرمایا : وَلَو شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعاً ، آفَانتَ تَكْرَةَ النَّاسَ حَتى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ اگر آپ کا رب چاہتا تو زمین پر رہنے والے سب کے سب ایمان لے آتے کیا آپ لوگوں کو ایمان لانے کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ اور حدیث شریف میں واردہے:
يَقُولُ اللهُ تَعَالَى: مَنْ لَّمْ يَرْضَ لِقَضَائی، وَلَمْ يَصْبِرُ عَلَى بَلَائِي، فَلْيَخْرُجُ مِنْ تَحْتِ سَمَائِي، وَلِيَتَّخِذُ رَبًّا سِوَائِي
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ جو شخص میری تقدیر پر راضی نہیں ہے اور میری بلاؤں پر صابر نہیں ہے ۔ اس کو چاہیئے کہ میرے آسمان کے نیچے سے نکل جائے ۔ اور میرے سوا کسی دوسرے کو اپنا رب بنا لے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود و عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے فرمایا ہے :۔ محسوس آگ جو جلنے والی چیزوں کو جلا دیتی ہے اور باقی رہنے والی کو باقی رکھتی ہے یہ آگ مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ جو کچھ ہوا ، اس کے لئے میں یہ کہوں : کاش کہ ایسا نہ ہوتا اور جو کچھ نہیں ہوا اس کے لئے میں یہ کہوں: کاش کہ ایسا ہوتا

ظاہری حقیقت والوں کی پہچان

حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:۔ چالیس سال کے عرصے میں ایسا بھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی حال میں قائم کیا ہو اور میں نے اس کو نا گوار سمجھا ہو ۔ یا جب ایک حال سے دوسرے حال میں منتقل کر دیا ہو، تو میں اس سے ناراض ہوا ہوں ۔
ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے:۔ جو شخص ظاہری حقیقت والوں کو پہچانے ، اور ان کے احوال کے کسی شی سے انکار و اختلاف نہ کرے۔ تو وہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا ۔ اور ان کی بھلائی سے ہرگز محروم نہ ہو گا۔ اور جو شخص باطنی حقیقت والوں کو پہچانے ، اور ان کے احوال کے کسی شی سے اختلاف نہ کرے ۔ تو وہ جو کچھ ان کے پاس ہے اس کے حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا۔ اور ان کی بھلائی سے ہر گز محروم نہ ہوگا۔ اور عارف باللہ دونوں جماعتوں کی بھلائیاں جمع کرتا ہے۔ اور ان کے ساتھ چلتا ہے۔ اور ہر جماعت اپنے رنگ پر قائم رہتی ہے
جیسا کہ ہمارے شیخ الشیوخ سیدی احمد یمانی رحمہ اللہ تعالیٰ (اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے فیض سے فیضیاب کرے ) ان لوگوں میں سے تھے، جو مخلوق کے کسی حال سے انکار اور اختلاف نہیں کرتے ہیں۔ وہ ظاہری علوم میں اہل ظاہر کی شاگردی کرتے تھے اور ظاہر انہی کے سپر د کر تے تھے اور ان کو ظاہرہی میں قائم رکھتے تھے۔ اور اسی طرح باطنی احوال میں وہ اہل باطن کی شاگردی کرتے تھے ۔ اور باطن ان کے سپرد کرتے تھے۔ اور ان کو باطن میں قائم رکھتے تھے۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ان کو دونوں جماعتوں کی بھلائی معرفت اور حکمت حاصل ہوئی۔
بیان کیا گیا ہے۔ ولی کامل سب طریقے اختیار کرتا ہے۔ جو کل حاجتیں پوری کرتے ہیں۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں:۔ جو شخص حضرت نبی کریم ﷺ کی احادیث شریفہ میں غور کرے گا ۔ وہ احادیث کو اسی طریقے پر پائے گا۔ اس لئے کہ حضرت نبی کریم ﷺ عارفین کے سردار اور تربیت کرنے والوں کے پیشوا تھے ۔ آپ لوگوں کو اسی طریقے اور حکمت میں قائم کرتے تھے۔ جس طریقے اور حکمت میں اللہ تعالیٰ نے ان کو قائم کیا تھا۔ اور اس کی ترغیب دیتے تھے ۔ اس لئے تم احادیث کو ایک دوسرے سے ٹکرا تا ہوا پاؤ گے۔ اور حقیقتا کچھ ٹکراؤ نہیں ہے۔ لہذا جب تم ذکر کی فضیلت کی احادیث دیکھو گے ۔ تو کہو گے ذکر سے افضل کوئی شی نہیں ہے۔ اور جب تم جہاد کی فضیلت کی احادیث پڑھو گے تو کہو گے:۔ جہاد سے افضل کوئی شے نہیں ہے۔
اور جب تم علم کی فضیلت کی احادیث پڑھو گے تو کہو گے علم حاصل کرنے سے افضل کوئی شے نہیں ہے۔ اور جب تم زہد اور تجرید کی فضیلت کی احادیث پڑھو گے تو کہو گے: زہد و تجرید سے افضل کوئی شے نہیں۔ اور جب تم کسب اور اہل و عیال کی خدمت کی احادیث پڑھو گے تو کہو گے :۔ اس سے افضل کوئی شے نہیں ہے۔ پس جس طریقے اور حکمت کی ترغیب حضرت نبی کریم ﷺ نے دی ہے۔ اور اس کے لئے تم یہی کہو گے کہ اس سے افضل کچھ نہیں ہے۔ وہ در حقیقت اس طریقے اور حکمت کو اختیار کرنے والے کی تسلی اور اطمینان کے لئے اس طرح ترغیب دی ہے تا کہ لوگ اس حکمت پر مضبوطی سے قائم ر ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے مقرر کی گئی ہے۔ لہذا آ نحضرت ﷺ نے ان کو اس سے منتقل ہونے کا حکم نہیں دیا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ ان کو اسی میں قائم رکھنا چاہتا تھا، اس لئے آنحضرت ﷺ نے ان کو اسی میں قائم کیا۔ اور اس کے لئے ایسی ترغیب دی کہ ان احادیث کا سننے اور پڑھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس سے افضل کچھ نہیں ہے۔ پس حاصل یہ ہوا ۔ عارف نہ کسی شے سے انکار و اختلاف کرتا ہے۔ نہ کسی شے سے جہالت ونادانی کرتا ہے۔
ایک عارف نے فرمایا ہے:۔ جو کچھ ہوا، وہی سب سے بہتر ہے۔ اور اس سے زیادہ بہتر ہونا ممکن نہیں ہے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں جو کچھ پہلے مقرر ہو چکا ہے کہ اس طرح ہوگا ۔ اور اس کے سوا کچھ اور ہونا ممکن نہیں ہے۔ لہذا اس سے بہتر کچھ نہیں ہے۔ اور انشاء اللہ اس موضوع پر عنقریب بحث آئے گی ۔ وَاللَّهُ تَعَالٰی أَعْلَمُ ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں