روح کا حجاب (باب اول)

روح کا حجاب حکمت نمبر13

روح کا حجاب کے عنوان سے  باب  اول میں  حکمت نمبر13 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے ان اوصاف میں سے بعض کی طرف اس کی ضد بیان کر کے اشارہ فرمایا:
13) كَيْفَ يُشْرِقُ قَلْبٌ صُوَرُ الأَكْوَانِ مُنْطَبِعَةٌ فِى مِرْآَتِهِ
وہ قلب کیسے روشن ہو سکتا ہے جس کے آئینے میں مخلوقات کی صورتیں چھپی ہوئی ہیں؟

ایمان اور احسان کے انوار

میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: اللہ تعالیٰ نے انسان کے قلب کو صاف کئے ہوئے آئینے کی طرح بنایا ہے۔ جو چیزیں اس کے سامنے آتی ہیں۔ ان کا عکس قلب میں ظاہر ہوتا ہے۔ اور اس آئینے کا صرف ایک رخ ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے ساتھ مہربانی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی فکر کو اپنے ملکوت کے انوار، اور جبروت کے اسرار میں مشغول کر دیتا ہے اور اس کے قلب میں ظلمانی مخلوقات اور وہمی خیالات میں سے کسی شے کی محبت پیدا نہیں ہونے دیتا ہے۔ لہذا اس کے قلب کے آئینے میں ایمان اور احسان کے انوار چھپ جاتے ہیں۔ اور اس میں توحید کے چاند اور معرفت کے آفتاب ظاہر ہوتے ہیں۔ حضرت ششتری اپنے مسجع (قافیہ والے ) کلام میں اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
اغْمَضِ الطَّرْفِ تَرَى ، وَتَلُوحُ أَخْبَارَكَ،
وَافْنِ عَنْ ذِي الْوَرَى ، تَبْدُو لَكَ اسراركَ،
وَبِصِقُلِ الْمِرا، یہ يَزُولُ إِنْكَارُكَ
تم آنکھ بند کرو تو تم اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھو گے۔ اور تمہاری خبریں ظاہر ہوں گی ۔ اور تم مخلوق کے تعلق سے فنا ہو جاؤ تو تمہارے اوپر تمہارے اسرار ظاہر ہوں گے اور آئینے کی صفائی کے باعث تمہارا انکا رزائل ہو جائے گا۔
نیز فرمایا
الْفَلَكُ فِيْكَ يَدُورُ، وَيُضِی وَيَلْمَعُ،
وَالشَّمُوسُ وَالْبُدُورُ، فِيكَ تَغِيْبُ و تَطلُع
آسمان تیرے اندر گردش کرتا ہے اور روشن ہوتا اور چمکتا ہے۔ اور آفتاب و ماہتاب تیرےاندر غروب ہوتا اور طلوع ہوتا ہے ۔
یعنی تمہارے قلب کے آئینے کی صفائی کے سب اللہ تعالیٰ سے تمہارا انکار ختم ہو جاتا ہے۔ لہذا تم ہرشے میں اللہ تعالیٰ کو دیکھتے اور پہچانتے ہو اور تمہارا قلب انوار کے آسمان کا قطب ہو جاتا ہے۔ اور اس میں توحید کے ماہتاب اور عرفان کے آفتاب ظاہر ہوتے ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی ذلت اور رسوائی کا ارادہ کرتا ہے تو ان کی فکر کو ظلمانی مخلوقات اور جسمانی خواہشات میں مشغول کر دیتا ہے تو مخلوقات اس کے قلب کے آئینے میں چھپ جاتی ہیں۔ اور ظلمانی مخلوقات اور خیالی صورتوں کی وجہ سے قلب میں عرفان کے آفتاب اور ایمان کے انوار روشن ہونے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ اور جب آہستہ آہستہ قلب میں اشیاء کی صورتیں زیادہ جمع ہو جاتی ہیں تو اس کا نو ر بجھ جاتا ہے۔ اور حجاب سخت ہو جاتا ہے۔ اس وقت قلب صرف محسوس ظاہر کو دیکھتا ہے اور محسوس ظاہر ہی کی فکر کرتا ہے۔ انہیں میں سے کچھ قلوب ایسے ہوتے ہیں جن کا حجاب بہت سخت ہو جاتا ہے اور ان کا نور بالکل بجھ جاتا ہے۔ لہذاوہ نور کے وجود کی اصلیت ہی سے انکار کر دیتے ہیں اور یہی کفر کا مقام ہے۔ اور میں اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں ۔ اور انہیں میں سے کچھ قلوب ایسے ہوتے ہیں جن کا زنگ (مورچہ ) کم ہوتا ہے اور ان کا حجاب باریک اور ہلکا ہوتا ہے۔ لہذا وہ نور کا اقرار کرتے ہیں مگر اس کا مشاہدہ نہیں کرتے ہیں۔ یہ عام مسلمانوں کا مقام ہے۔ اور عام مسلمانوں میں بھی ان کے یقین ، ان کے دنیاوی تعلقات اور ان کی خواہشات اور ان کے وہی خیالات کے تناسب سے ایک دوسرے سے فرق ہے۔
حدیث شریف میں ہے: إِنَّ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ كَمَا ‌يَصْدَأُ ‌الْحَدِيدُ، وَإِنَّ الْإِيْمَانَ يَخْلَقُ، أَي يَبْلَى ، كَمَا يَخْلَفُ الثَّوْبُ الْجَدِيدُ بے شک قلب زنگ آلود ہوتا ہے جیسے لوہا زنگ آلود ہوتا ہے۔ اور ایمان پرانا ہوتا ہے جیسے نیا کپڑا پرانا ہوتا ہے اور دوسری حدیث میں ہے
إِنَّ العَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِيئَةً نُكِتَتْ فِي ‌قَلْبِهِ ‌نُكْتَةٌ ‌سَوْدَاءُ، فَإِذَا هُوَ ‌نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ سُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ عَادَ زِيدَ فِيهَا حَتَّى تَعْلُوَ قَلْبَهُ، وَهُوَ الرَّانُ الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ {كَلَّا بَلْ ‌رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ}أَو كَمَا قَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ
بے شک جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب میں ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے پھر اگر وہ اس گناہ سے باز آ جاتا اور استغفار کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ صاف ہو جاتا ہے اور اگر وہ پھر گناہ کرتا ہے تو وه سیاسی زیادہ ہوتی ہے۔ یہانتک کہ وہ اس کے قلب پر چھا جاتی ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ہر گز نہیں، بلکہ ان کے برے اعمال کی سیاہی ان کے قلوب پر چھا گئی ہے یا حضرت نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے جس طرح فرمایا ہو ۔ اور ایک حدیث میں ہے:
لكل شي مَصْقَلَةٌ ، مَصْقَلَةُ الْقُلُوبِ ذِكْرُ اللَّهِ ہر چیز کے صاف کرنے کے لئے ایک چیز ہوتی ہے اور قلوب کی صاف کرنے والی چیز اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ اور چونکہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ قلب کا صرف ایک رخ ہے۔ جب اس کے سامنے روشنی آتی ہے تو وہ روشن ہو جاتا ہے۔ اور جب اس کے سامنے سیاہی آتی ہے تو وہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ اور تاریکی اور روشنی بھی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ہے۔ لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے تعجب کی وجہ بھی واضح ہوگئی جو انہوں نے فرمایا:
ایمان اور احسان کے نور سے قلب کیسے روشن ہو سکتا ہے جب کہ ظلمانی مخلوق کی شکلیں قلب کے آئینے میں چھپی ہوئی ہیں۔ اور دو مخالف چیزیں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
مَا جَعَلَ اللَّهُ لِرَجُلٍ مِنْ قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ اللہ تعالیٰ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں بنائے ہیں اور جو قلب ایک ہے تو تعلق بھی ایک ہی ہوگا۔ خالق سے یا مخلوق سے )
لہذا اے فقیر! تمہارے پاس صرف ایک قلب ہے۔ جب تم اس کو مخلوق کی طرف متوجہ کرو گے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر جائے گا ۔ اور اگر تم اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کرو گے تو وہ مخلوق کی طرف سے پھر جائے گا۔ لہذا تم عالم ملک سے عالم ملکوت کی طرف ، اور عالم ملکوت سے عالم جبروت کی طرف سفر کرو۔ اور جب تک تم اس عالم میں اپنی خواہشات و عادات میں گرفتار رہو گے۔ اس وقت تک اللہ کی طرف تمہارا سر کر ناممکن نہیں ہوگا۔ مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اس کی طرف اپنے اس قول میں اشارہ فرمایا ہے:۔
أَمْ كَيْفَ يَرْحَلُ إِلَى اللهِ وَهُوَ مُكَبَّلٌ بِشَهَوَاتِهِ
یا وہ کیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سفر کر سکتا ہے جب کہ وہ اپنی خواہشات میں گرفتار ہے

مخلوق کے مشاہدے سے خالق کے مشاہدے کی طرف

رحیل کے معنی ہیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ۔ اور یہاں مراد ہے ۔ مخلوق کے مشاہدے سے خالق کے مشاہدے کی طرف یا ملک سے ملکوت کی طرف، یا سبب سے مسبب الاسباب کی طرف، یا غفلت کے مقام سے بیداری کے مقام کی طرف ، یا نفس کے فوائد سے اللہ تعالیٰ کے حقوق کی طرف، یا کدورتوں کے عالم سے صفائی کے عالم کی طرف، یا ظاہر کے دیکھنے سے باطن کے دیکھنے کی طرف ، یا جہالت سے معرفت کی طرف ، یا علم الیقین سے عین الیقین کی طرف ، یا عین الیقین سے حق الیقین کی طرف، یا مراقبہ سے مشاہدہ کی طرف ، یا سائرین کے مقام سے متمکنین کے مقام کی طرف منتقل ہونا۔
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: منتقل ہونا یا سفر کرنا ، اور گرفتار ہونا دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ہیں۔ پس جب تک قلب دنیائے فانی کی کسی شے کی خواہش میں گرفتار ہے۔ اگر چہ وہ شریعت میں مباح ہو۔ تو وہ اس خواہش کے ساتھ اپنے مقام میں گرفتار ہے۔ لہذا وہ ملکوت کی طرف سفر نہیں کر سکتا ہے۔ نہ اس کے اوپر جبروت کے انوار روشن ہو سکتے ہیں۔ پس خواہشات کے ساتھ قلب کا تعلق اس کی توجہ میں مشغول ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سفر کرنے سے روکنے والا ہے۔ اور اگر سفر ہو بھی تو خواہشات کی طرف توجہ ہونے کی وجہ سے تیز رفتاری کے ساتھ سفر کرنے میں رکاوٹ ہوگی۔ اور تیز رفتاری کے ساتھ سفر ہو بھی، تو نفسانی خواہشات کے ساتھ محبت ہونے کی وجہ سے سر کے بل گر جانے کا خطرہ ہے۔ اس وجہ سے اکا بر عارفین نے خواہشات کی لذت ترک کر دی۔
ایک عارف نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ قلب پر خواہشات کے ڈنک مارنے سے زخمی جسم پر بھڑوں کا ڈنک مارنا بہت آسان ہے۔
حضرت شیخ زروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے۔ میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: یہ حالت اس صورت میں ہے جب کہ خواہشات کے حاصل ہونے سے پہلے اس کی طلب میں قلب کا تعلق قائم ہو جائے ۔ ورنہ رکاوٹ نہیں ہے۔ کیونکہ خواہشات سے قلب کا تعلق نہیں ہے۔ اور تصوف کی حقیقت میں یہ بیان ہوچکا ہے کہ تمام تعلقات سے علیحدہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے ساتھ رہے۔
ہمارے شیخ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: اگر تم چاہو تو میں تمہارے سامنے قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ جس شخص کے قلب میں خواہشات سے ذرہ برابر بھی تعلق ہے وہ عالم ملکوت میں داخل نہیں ہو سکتا ہے۔ لہذا اے برادر! تم اپنے قلب سے تعلقات کی رگوں کو کاٹ دو ۔ اور رکاوٹوں کے مقام سے بھا گو ۔ تب تمہارے اوپر حقائق کے انوار روشن ہوں گے ۔ اس لئے سفر اور ہجرت مرید کے لئے امر موکد ( تاکیدی حکم) ہے۔ اس لئے کہ وہ اپنے ظاہری مقام میں ٹھہر نے کی وجہ سے ظاہری تعلقات سے خالی نہیں ہو سکتا ہے۔
عارفین نے فرمایا ہے:۔ فقیر کی مثال پانی کی طرح ہے۔ جب پانی زیادہ دن تک ایک مقام ٹھہر جاتا ہے تو اس کا رنگ و بو اور مزہ بدل جاتا ہے اور جب وہ جاری یعنی بہتا رہتا ہے تو وہ میٹھا رہتا ہے اور ظاہری سیر کی مناسبت سے باطنی سیر ہوتی ہے اور جسم کی سیر کی مناسبت سے قلب کی سیر ہوتی ہے۔ اور ہجرت حضرت نبی کریم ﷺ کی سنت ہے ۔ جس وقت سے حضرت نبی کریم ﷺ نے ہجرت فرمائی کبھی راحت و آرام نہیں کیا۔ ہمیشہ جہاد کے لئے سفر میں رہتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دست مبارک پر شہروں کو فتح کیا۔ اور اسی طرح حضرات صحابہ کرام کا حال تھا۔ چند حضرات کے سوا سب کے سب کبھی اپنے مقام میں نہیں ٹھہرے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں پر اکثر شہروں کی فتح عطا فرمائی۔ اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو ہدایت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی برکات سے ہم کو فیض عطا فرمائے۔ آمین ۔


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں