ہمت اور تقدیر کی دیوار حکمت نمبر03
ہمت اور تقدیر کی دیوار کے عنوان سے باب اول میں حکمت نمبر03 ہےیہ کتاب اِیْقَاظُ الْھِمَمْ فِیْ شَرْحِ الْحِکَمْ جو تالیف ہے عارف باللہ احمد بن محمد بن العجیبہ الحسنی کی یہ شرح ہے اَلْحِکَمُ الْعِطَائِیَہ ْجو تصنیف ہے، مشہور بزرگ عارف باللہ ابن عطاء اللہ اسکندری کی ان کا مکمل نام تاج الدین ابو الفضل احمد بن محمدعبد الکریم بن عطا اللہ ہے۔
لہذا مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) کے دل میں یہ خطرہ پیدا ہوا کہ اس حقیقت کی بناء پر ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس و ہم میں مبتلا ہو جائے کہ ہمت تقدیر کی دیوار میں شگاف پیدا کر دیتی ہے۔ اور جس کام کا ہونا تقدیر میں مقدر نہیں ہوا۔ وہ کام بھی کر ڈالتی ہے۔ لہذا اس وہم کو دور کرنے کے لئے مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے فرمایا:۔
3) سَوَابِقُ الهِمَمِ لا تَخْرِقُ أَسْوارَ الأَقْدارِ.
بلند ہمتیں قضا و قدر کی دیواروں کو نہیں توڑتی ہیں
بلند و پست ہمت
میں (احمد بن محمد بن العجیبہ ) کہتا ہوں: ہمت کسی شے کی خواہش اور اس کے ہو جانے کی کوشش میں بغیر کسی وسو سے کے قلب کی جمعیت کے ساتھ مضبوط ارادے کا نام ہے۔ پس اگر وہ شے بلند ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کی رضا مندی کی طلب ۔ تو اس کا نام بلند ہمت رکھا گیا۔ اور اگر وہ شے حقیر ہے۔ جیسے دنیا اور اس کے فائدوں اور لذتوں کی خواہش۔ تو اس کا نام پست ہمت رکھا گیا۔ اور جب عارف یا مرید کسی شے کی خواہش کرتا ہے اور اس کے لئے اس کی ہمت مضبوط ہوتی ہے تو وہ ہی اللہ تعالیٰ ایک گھڑی میں ظاہر کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا علم اللہ تعالیٰ کے حکم کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ہمارے شیخ الشیوخ حضرت مولائے عربی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے۔ مرید صادق جب اللہ تعالیٰ کے اسم میں فنا ہو جاتا ہے تو جب وہ کسی شے کے لئے ہمت وارادہ کرتا ہے تو وہ ہو جاتی ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے تو جس شے کی اس کو حاجت ہوتی ہے وہ اس کی ہمت اور ارادہ سے پہلے ہو جاتی ہے اور یہ صحیح ہے۔
بعض اخبار میں ہے: يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : عَبْدِى أَنَا اللَّهُ الَّذِي أَقُولُ لِلشَّيْيَ كُنْ فَيَكُونُ، فَاطِعْنِي اجْعَلُكَ تَقُولُ لِلشَّيْيَ كُنْ فَيَكُونُ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:۔ اے میرے بندے میں وہ اللہ ہوں۔ کہ جب کسی شے کے لئے کہتا ہوں ، ہو جا، تو وہ ہو جاتی ہے۔ پس تو میری اطاعت کر ۔ میں تجھ کو ایسا بنا دوں گا کہ جب تو کسی شے کے لئے کہے گا، ہو جا تو وہ ہو جائے گی ۔
اور صحیح حدیث میں وارد ہے:۔ فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ لَهُ سَمْعًا، وَبَصَرًا، وَيَدًا، وَمُؤَيِّدًا، دَعَانِي فَأَجَبْتُهُ، وَسَأَلَنِي فَأَعْطَيْتُهُ پس جب میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ تو میں اس کا کان اور آنکھ اور ہاتھ اور مددگار ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو عطا کرتا ہوں
اور ان ارشادات کے باوجود ہمت سے نہ کوئی شے فنا ہوتی ہے۔ نہ وجود میں آتی ہے ۔ صرف وہی ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی قضاء وقد ریعنی تقدیر نے احاطہ کر لیا ہے۔ لہذا عارف کی ہمت جب کسی شے کی طرف متوجہ ہوتی ہے تو اگر تقدیر اس شے کے بارے میں سبقت کر چکی ہے۔
ہمارے شیخ الشیوخ سیدی علی فرماتے تھے:۔ جب ہم نے کچھ کہا۔ اور وہ ہو گیا ۔ تو ہم ایک مرتبہ خوش ہوئے ۔ اور اگر نہیں ہوا۔ تو ہم دس مرتبہ خوش ہوئے ۔ اور ایسا اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ان کے ثابت و قائم ہونے کی وجہ سے ہے۔
ارادوں کے ٹوٹنے سے رب کی پہچان
ایک بزرگ سے دریافت کیا گیا:۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کو کیسے پہچانا۔ انہوں نے جواب دیا۔ ارادوں کے ٹوٹ جانے سے ۔ اور یہ تاثیر قوی اور مضبوط ہمت کے لئے حاصل ہوتی ہے۔ اگر چہ وہ ہمت والا ناقص ہو۔ جیسا کہ نظر لگانے والے اور جادوگر کے لئے تاثیر ظاہر ہوتی ہے۔ ان کی خباثت کی بناء پر ، یا اس خاصیت کی بناء پر جو اللہ تعالیٰ نے دونوں میں پیدا کی ہے۔ جب وہ کسی شے کے ہونے کا ارادہ کرتے ہیں۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہو جاتی ہے۔ اور یہ سب بھی تقدیر کی دیواروں کو نہیں توڑ سکتے۔ بلکہ وہی ہوتا ہے جس کے ہونے کا ارادہ اللہ واحد قہار کر چکا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
ومَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ
اور یہ جادوگر ، جادو سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے حکم سے ۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:۔
إِنَّا كُلَّ شَيْ ءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍ ہم نے ہرشے کو ایک اندازے کے ساتھ پیدا کیا۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا إِنْ يَّشَاءَ اللَّهُ تم لوگ وہی چاہتے ہو جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔
اور حضرت رسول کریم ﷺنے فرمایا ہے:۔
كُلُّ شَيْ ءٍ بِقَضَاءِ وَ قَدَرٍ حَتَّى الْعِجْرُ وَالْكِبْسُ ہرشے قضا و قدر سے ہے۔ یہاں تک کہ کمزوری اور طاقت بھی۔
اور مصنف (ابن عطاء اللہ اسکندری ) نے اپنے قول میں بلند ہمت فرمایا ہے۔ اس لئے کہ کمزور ہمت سے کسی شے پر کچھ اثر نہیں ہوتا ہے اور بھلائی اور برائی میں کمزور ہمت اس طرح بے اثر ہے۔
اور مصنف نے لفظ خرق (توڑنا ) اور اسوار (دیواریں ) مجازا اس لئے استعمال کیا ہے تا کہ معلوم ہو جائے کہ طاقت دونوں طرف ہے۔ ہمت میں بھی ، اور تقدیر میں بھی۔ لیکن کل اشیاء کا گھیر نے والا اللہ تعالیٰ غالب اور طاقتور ہے۔ لہذا مجبور اور کمزور بندے کی طاقت کا کچھ اعتبار نہیں ہے۔ اور جب کہ ہمت تقدیر کی دیواروں کو نہیں تو ڑ سکتی ہے تو پھر تیری تدبیر اور اختیار کا کیا حال ہو گا ؟