معراج العاشقین
ابو الفتح صدر الدین ولی الاکبر الصادق سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز
معراج العاشقین
قَالَ النبَی عَلَيْهِ السلام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہا :- انسان کے سمجھنے کے لئے پانچ تن میں ہر تن کے پانچ دروازے
ہیں اور پانچ دربان ہیں۔
پنج تن :
(1)واجب الوجود(2) ممکن الوجود(3) ممتنع الوجود (4) عارف الوجود (5) وحدت الوجود
پہلاتن (واجب الوجود) نفس امارہ کو پہچا ننے کو واجب الوجود کہتے ہیں ۔ مقام اس کا شیطانی ہے۔
واجب کی آنکھ سے غیراللہ نہ دیکھنا ۔ (غیر اللہ کونہ دیکھنا )
حرص (لالچ) کے کان سے غیر کو نہ سننا ۔ ( لالچ نہ کرنا )
حسد کی ناک سے بونہ سونگھنا ۔ (حسد نہ کرنا )
بغض کینہ نہ رکھنا۔ (عداوت نہ رکھنا)
شہوت نہ کرنا۔ ( ہوس نہ کرنا )
مرشد – طبیب کا مل ہونا چاہئے ۔ نبض پہچان کر دوا دینا چاہئے۔
چشم اگر بین بود ، هر طرف دیدار است
( چشم اگر چشم بینا ہو جائے تو ہر طرف دیدار ہے )
گوش اگر شنوا بود ، کای جزیا د حق
(کان اگر سننے والے ہوں تو یاد الہی سے محروم نہیں ہونگے ۔
زبان اگر گویا بود ، هر طرف اسرار است
( زبان بولے تو راز ہی راز ہیں )
اس مقام کیلئے مرشد کی طالب کو ہدایت :-
(1) جو منع کرے ، اس سے پر ہیز اور گریز
(2) مراقبے (دھیان)نظر کے پیالے میں میکائیل کی مدد سے پانی حل کر کے پینا۔ (دو سانس کے ذریعے فکرو ذکر سے کام کرنا )
(3) طالب کو تمام اسرار و رموز سے واقف کرانا ۔
(4) پاکیزہ بنانا تا کہ نفی ا ثبات حاصل ہوسکے۔
ان باتوں پر عمل کر کے طالب فقیر بن سکتا ہے
پانچ اجزا ء سے واجب الوجود مکمل ہو جاتا ہے :-
مٹی میں پانی، مٹی میں آگ ،مٹی میں ہوا، مٹی میں مٹی، مٹی میں خالی (روح کی جسم کے تعلق سے ایک صفت جس میں سننا، کھانا ، پینا وغیرہ شامل ہے)
دو سرا تن (ممکن الوجود ) یعنی ذات ممکن ہونا ۔ نفس لوامہ پیدا ہو گا نگہبان (دربان) – اسرافیل
حواس خمسہ (پانچ)
(1) غیر اللہ نہ دیکھنا
(2) دنیا وی باتوں پر توجہ نہ دینا
(3) شک و شبہ کو جگہ نہ دینا
(4) غیبت ، جھوٹ ، بدگوئی سے پرہیز
(5) ہوس نہ کرنا
مرشد کی پیروی ۔ ہر حال میں غصے یا غفلت کے باوجودمرشد کی باتوں کی پیروی کرنی چاہئے ۔ مرشد کا مشاہدہ کرنا چاہئیے ، شریعت کے طریقے پر دل کو راغب (مائل) کرانا، پاکیز بنانا جس سے دل کا میل صاف ہو جائے گا۔
پانچ اجزاء ۔ پانی میں مٹی، پانی میں پانی ،آگ میں پانی، پانی میں ہوا، پانی میں خالی ۔ یہ پانچوں عناصر مل جائیں ممکن الوجود طریقت پرختم ہوگا۔ ت
تیسر اتن (ممتنع الوجود) لاثانی وجودتسلیم ورضا.
نفس مطمئنہ ہو جائے گا نگہبان ( دربان) ۔ عزرائیل (کیافنا ہوا،کیا جمع ہوا)
پانچ پر دے ہیں۔ مرشد کی ہدایات پر عمل ضروری ہے
مرشد ہے یا نہیں ، شک نہ کرنا، دونوں کانوں سے کلام خدا سنا کرنا
اپنی ناک سے خدا کی خوشبو سونگھنا، حق گوئی ، ہوس سے گریز ۔
ان پانچ باتوں پر عمل کرنے سے مرشد کا مشاہدہ حاصل ہو جائیگا۔(فنانی الشیخ کی منزل مل جائے گی)
مرشد کی ہدایت:
اچھی باتوں کی نصیحت کرنا (روح کی شہد میں شگون کے پانی کو ملا کر پینا)
شبہ کادور کرنا، در دکاخا تمہ ہو جائے گا ، ہوس دور کرنی ہوگی ۔
پانچ اجزاء : آگ میں مٹی، آگ میں ہوا، ہوا میں آگ، آگ میں پانی ، آگ میں خالی
یہ پانچوں عناصر ملیں گے تو ممتنع الوجود یعنی حقیقت پر سے پردہ اٹھے گا یعنی مرشد کی روح معلوم ہو جائے گی (حقیقت آشکار ہو جائے گی)۔
چوتھا تن ( عارف الوجود)
در بان (نگہبان ) – جبرائیل ۔ حضرت محمد کا نورانی جسم کہتے میں یعنی جبرئیل کی زبان میں رسول اللہ حقائق پر سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
(فنافی الرسول) – مرشد کی فنا رسول اللہ کی فنا بن جاتا ہے۔ عارف کی آنکھ سے جبرائیل کو دیکھنا کانوں سے جبرئیل کی باتیں سننا، ناک سے جبرائیل کی خوشبو سونگھنا، زبان سے جبرائیل کی باتیں سننا۔
ان پانچوں کو ملانے کے بعد مرشد کا طالب کو مشاہدہ کرنا ہے ۔ مرشد کو دھیان میں رکھ کر عارف تن کا مشاہدہ کرنا اور ذکرسرّی کرنا ، ذکر اور فکر سے کرنا، شہوت ( ہوس ) سے بچنا۔
پرہیز۔ مرشد کے سوا کسی کو نہ دیکھنے سے عارف بن جائیگا۔
اجزاء : ہوا میں ہوا ، ہوا میں مٹی ،مٹی میں پانی، پانی میں ہوا، ہوا میں خالی ۔
ان پانچوں اجزاء کو ملانے سے معرفت حاصل ہو گی .( مقام معرفت آشکار ہوگئی ) –
پانچواں تن (وحدت الوجود )
دربان (نگہبان ۔ خدا کے دروازے پر ابلیس (عزرائیل)
حديث قلوب المومنين بيت الله تعالى
( مومنوں کے دل اللہ تعالی کے گھر ہیں)
حق الحق ۔ مومنوں کے دل کی گفتگو خدا کے گھر میں آئے گی ( اللہ مل جاتا ہے یعنی ذات کے ساتھ مل جاتا ہے، اللہ سے براہ راست گفتگو ( فنافی اللہ کی منزل )
اپنے کو آنے دینا ،بیگانے کو بھگا دینا۔
وحدت الوجود کی آنکھ سے خدا کو پہچاننے سے خدا مل جاتا ہے۔ شہوت ختم ہو جاتی ہے اور شہوت اب اس کا صبر ہے یعنی طالب صابر بن جاتا ہے۔
واحد (وحدت )الوجود کی آنکھ سے عشق کے کان محبت کی ناک سے ، یا دالہی زبان سے ۔ وہیں الہام ہوگا غیبی آواز، نداء غیب الہامی دل)
ان پانچوں کو دھیان سے پورا کرنا، مرشد کا مشاہدہ کرنا ، وحدت الوجود کا مشاہدہ کرنا ہے۔
توحید کے دریا میں ٹھہرنا ، صرف نظر آئے گی ذات ہی ذات ۔ ذکر خفی کے محل میں وحدہ لا شریک ،( وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں) کی نیند لینا ۔
اجزاء : خالی میں مٹی ، خالی میں پانی، خالی میں آگ ، خالی میں ہوا،خالی میں خالی۔
حدیث لى مع الله وقت لا يمنعنى فيه مقرب لک ولا بني مرسل
(میرا اللہ کے ساتھ ایک ایسا قرب کا وقت ہوتا ہے کہ کوئی مقرب فرشتہ یانبی وہاں پر نہیں مار سکتا )۔
یہ پانچوں اجزاء کے مل جانے سے واحد الوجود( توحید تمام) کی روح بن جاتی ہے اوربقا باللہ کی منزل (یعنی اللہ ہی اللہ ہر طرف)مل جاتی ہے۔
اللہ کا ارشاد : مرشد کامل ہو یا نہ ہو مرید صادق زیادہ اچھا ہے۔
التوحيد حقيقت لارب ولا عبد
(توحید حقیقت مطلق ہے، عبودیت و ربوبیت کا امتیاز نہیں )
الغسل مطهر الميت
(غسل میت کو پاک کرنے والا ہے )
شریعت : طریقت کا محل واجب الوجود ہے ۔ ذکر جلی ،
الشريعه کا لسفينه (شریعت کشتی کی مانند ہے)
طریقت – طریقت کا وجود ممکن الوجود ہے ۔ ذکرقلبی ۔
الطريقته كالبحر (طریقت سمندر کی مثل ہے)۔
معرفت : – حقیقت کا محل ممتنع الوجود ہے ۔ ذکر روحی
حقیقت : معرفت کامل عارف الوجود ہے ۔ ذکر سرّی
وحدت : وحدت کامحل وحدت الوجود ہے ۔ ذکرخفی (چھپا ہوا )
نوٹ خير ذكر ذکر الخفی ، ذکر خفی بہترین عبادت ہے
مرشد کامل درکار ہے تاکہ پانچوں عمل کی خبر رکھ سکے اگرخبر نہیں رکھی گئی تو پیر رہزن بن جاتا ہے، اور مرید اسلام سے جاتا ہے جاہل پیر سے بیعت کرنے سے بہتر اس سے علیحدگی اختیار کر لینا ہے۔
واعرض عن الجاھلین اور جاہلوں سے بچتے رہو۔
واجب کا ممکن نفس ، نفس کا ممکن دل ممتنع کا ممکن روح ،روح کا ممکن عارف ، عارف کا ممکن نور، نور کا ممکن ذات ، ذات کاممکن عشق ۔
كنت كنزا مخفيا فَاجِبَتْ أَنْ أَعْرِفَ فَخَلَقْتُ الخَلْقَ
( میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں پس میں نےمخلوق پیدا کیا)
أَوَّلُ مَا خَلَقُ الله نوری
(پہلی چیز جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کی میرا نور تھا)
اے محمد سب خلق کو تیرے نور سے پیدا کیا ہے بعد میں اسی نور سے دوسرے چراغ روشن کئے ہیں اسی روشنی میں اپنی تصویر دیکھی اور دونوں عالم نورانی اور روحانی بن گئے۔
ابو الارواح (روحانی) اور ابو الاجساد (جسمانی) جہاد کو سفلی اور علوی کو میثاق کہتے ہیں سفلی کو محشر کہتے ہیں۔ ان دونوں کی پیدائش سے یعنی آدم سے محمد تک ایک لاکھ 24ہزار پیغمبر بھیجے گئے۔
يَخْرُجُ مِنْ بَيْنَ الصُّلْبِ وَالتَّرَائِبُ إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرُ (قرآن)
( اللہ انسان کو پشت اور پسلیوں کے درمیان سے پیدا کرتا ہے اور وہ اسے اپنی طرف لوٹانے پر بھی قدرت رکھتا ہے)
کسی پیغمبر کو نہیں دیا اللہ نے محمد کے لئے چار چیز یں چھپا کر رکھی ہیں۔ جبرئیل محمد کے پانچ تن سنوار کر ساتھ ایمان کے اوپر لائے معراج کے لئے جبکہ خدا نے موسیٰ سے صاف انکار کر دیا تھا کہ مجھے نہیں دیکھ سکتے۔ معراج میں جوں جوں عرش پر چڑھتے گئے پہلے ناسوت کی منزل آئی۔ ذره ذره درخشان ( چمکتا) تھا۔ وہاں سے آگے بڑھے تو مقام ملکوت کی سیر کی۔ یعنی فرشتوں کا تماشہ دیکھا (مشاہدہ کیا)، جبروت کی منزل سے ممتنع کے شہر پہونچے وہاں کی سب حقیقت معلوم ہوئی ۔ جہاں تاریکی تھی اور چاند اور سورج کی روشنی نہیں تھی یعنی ظلمات کے شہر میں ابھی آفتاب اور ماہتاب روشن نہیں ہوئے شہر ظلمات میں محمد کا نور اندھیرے میں اجالا اور روشنی ہے۔
يَخْرُجُهُم مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورُ (قران)
(اللہ انہیں تاریکیوں سے نور کی طرف لے جاتا ہے ) .
چوتھی منزل لاہوت یعنی عارف الوجود کا شہر ہے و ہاں پہنچنے پر لاہوت کے بیچ میں رسول اللہ کا تخت لاکر رکھا گیا
قلوبُ المُؤمِنِينَ عَرُشِ اللهِ تَعَالَى (حدیث) مومنوں کے دل اللہ تعالیٰ کا عرش ہیں
اب اللہ اور محمد ﷺکے درمیان پردہ ہے۔ وہاں دونوں میں گفتگو ہوئی کہ عاشق اور معشوق محو گفتگو ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے محمد میرے ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر ہیں وہ بھی میرے طالب ہیں میں نے ان کو معراج پر نہیں بلایا یعنی معرا ج سے بے خبر رکھا یعنی باطن میں ایک لاکھ 24 ہزار پیغمبر کا (سانس یعنی وجود) وجود عرش معلی تک نہیں جا سکتا اسی لئے انہیں معراج نہیں ہو سکتی ۔ اللہ فرماتا ہے کہ اے محمدﷺ آپ کی دوری ( فراق )میں تڑپ رہا تھا اسی لئے عرش پر بلوا لیا ہے
ہوس تھی دید کی معراج کا بہانہ تھا۔
أطِيعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولُ (قرآن)
اللہ تعالی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔
اللہ تعالی نے معراج میں عرش معلی پر مندرجہ ذیل باتیں کی ہیں
جس نے آپ سے محبت کی اس نے دراصل میری اطاعت اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد سے 90 ہزار باتیں کیں اور تیس پارہ قرآن عطا کیا۔ تیس پارے تیس میں تقسیم کئے دس پارے میں روح سے متعلق 30 ہزار باتیں بتائیں۔ عالم ناسوت کو سب سے افضل قرار دیا۔ اللہ نے معجزہ بتایا اور دکھایا ہے۔ ملکوت میں تزکیہ نفس (نفس کی پاکیزگی ضروری ہے ۔
حدیث: انزل القرآنَ عَلَى سَبْعَةُ أَحْرُفٍ كُلَّهَا شَافٍ وكاف
(خدانے قرآن نازل کیا سات حرفوں میں ان میں ہر ایک کافی وشافی ہے)
شریعت، طریقت ، حقیقت ، معرفت جو کہ وحدت کا خزانہ ہیں سب میرے سینے میں ہیں جو آپ کو بانٹ دے رہا ہوں یعنی آپ کو عطا کر رہا ہوں۔
افَمَنْ شَرَحَ اللهُ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ فَهُوَ عَلَى نُورٍ مِنْ رَبِّهِ
(جس کے سینے کو اللہ نے اسلام کیلئے کھول دیا وہ اپنے رب کی طرف سے ہدایت کی روشنی میں ہے)
یہ تمام باتیں بتا کر خدا نے محمد کو چار کانسے (پیالے) دیئے۔ دودھ ، پانی ، شہد اور شراب کے پیالے انہیں خوان میں سجا کر رسول اللہ ﷺکو پیش کیا اور فرمایا یا محمد آپ بھی لیجئے اور اپنی امت کو بھی پلائیے حضرت نے دودھ قبول کیا اور پوچھا اسے کسے دوں جبرئیل نے حضرت کو بتایا کہ
دودھ – محبت کا پیالہ -معرفت – جبرئیل – یعنی عقل
شہد -دنیا کی محبت کا پیالہ شریعت – اسرافیل یعنی دم صُور۔
پانی- قطرے کا پیالہ (قطرہ ہی دریا ہے )طریقت میکائیل یعنی دل۔
شراب- عشق کا پیالہ – حقیقت – عزرائیل – یعنی روح
جبرئیل نے کہا آپ نے دودھ پی کر بہتر کیا یہ تمام چیزیں اس میں شامل ہیں ۔ دوسرا پیالہ پانی ہے ۔ اس دکان سے پانی طالبوں کو دیجئے یعنی یاران طریقت کو عطا کیجئے ۔
الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (قرآن)
(وہ ابلیس ہے جو لوگوں کے دلوں میں شکوک اور وسو سے پیدا کرتا ہے )۔
خدا کا قول ہے کہ تم ابلیس سے واقف نہیں جو وہ لوگوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ جو شخص ابلیس سے واقف نہیں ہوگا اسے کوئی عبادت اثر نہیں کرے گی ۔ بہر حال سمجھو یا نہ سمجھو یہ آیت سنو۔
مثلهم كمثل الحمار يحمل السفارا (قرآن)
(انکی مثال ایسے گدھوں کی ہے جن پر خوشبو ئیں لادی ہوئی ہوں کہ وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا)۔
یعنی علم حاصل کر کے بھی اگر بصیرت روشن نہ ہوئی تو گدھے پرخوشبو لاد دیں یا صندل کی لکڑیاں لا ددیں تو کیا فائدہ ہے۔
تیسرا پیالہ شہدہے۔ دنیا کی لذت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کو دیجئے یعنی اہل شریعت کو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ خدا کو بھول کرعیش و عشرت اور ظاہری ہوس ولالچ میں مبتلا ہیں ۔
الغافِل حَيَاتِ مَوتُ وَلَيْسَ بَادِمٍ(حدیث)
(نبی ﷺنے فرمایا کہ غافل آدمی کی زندگی موت ہے اور وہ انسانوں میں داخل نہیں)
یعنی جو لوگ خدا کی عبادت سے غافل ہیں ، مردے ہیں۔
چوتھا پیالہ شراب کا ہے۔ شراب کا پیالہ عاشقوں کو دیجئے۔
وہ عشق میں ڈوب کر اچھے رہیں گے یعنی جو شراب عشق پئے گا وہ دیدار عاشق کر سکے گا۔ یعنی وہ حقیقت سے آشنا ہو جائے گا۔ خدا نے ان کی عبادت معاف کر دی ہے ۔
وَلَا تَقْرَبُو الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَ ا (قرآن)
( اور نماز کے پاس نہ جاؤ جب تم نشے میں ہو )
یہاں بہت اہم بات کہی گئی ہے۔ حضرت سے خدا وند تعالیٰ نے فر مایا کہ جو شخص دودھ پئے گا وہ آپ کی پیروی کرے گایعنی شریعت پر قائم رہے گا۔ پانی پئے گا تو شک و شبہے کے قطروں میں غوطہ زن رہے گا یعنی طریقت کی منزل کی جستجو کرے گا۔ شہدپئے گا تو دنیا کی محبت میں مبتلا رہے گا اور ہوس میں عاقبت خراب کرے گا یعنی شریعت پر عمل کر کے شروفساد میں پھنسا رہے گا۔ شراب پئے گا تو عاشق کا دیدار کر سکے گا( یہاں شراب سے مراد مئے حقیقی ہے )
یعنی حقیقت سے آشنا ہو جائے گا۔
وَسَقَاهُمْ رَبَّهُمْ شَرَابٌ طَهُورا (قرآن)
( اور ان کے رب نے انہیں شراب طہورا پلائی )
مراد ہے کہ ساقی (خدا) کے ہاتھ سے دیدار کی شراب پئے گا۔
یعنی مرشد کے عشق میں مجنوں رہے گا
لباس زہد وتقوی تا نه پوشی شراب معرفت را که نبوشی
(جب تک کوئی شخص معرفت الہی نہ حاصل کر لیے زہد و تقویٰ یعنی عبادت کے صفات سے فیض نہیں حاصل کر سکتا عاشق جب تک زہدوتقویٰ کا لباس نہیں پہنتے شراب معرفت کیا پی سکتے ہیں، یعنی جب تک ظاہر پاک نہیں ہو گا باطن پاک نہیں ہو سکتا ہے
زہد و تقوی اسے دل نہ ہرگز
اس کے معنی ہے کہ جس کا دل اور جسم طاہر نہیں ہو گا وہ معرفت کی شراب نہیں پی سکتا۔
فرشتے نے وضاحت کی ۔ دودھ – جبرئیل پانی – میکائیل ، شہد -اسرافیل، شراب عزرائیل دوسرے لفظوں میں جبرئیل عقل کو، میکائیل دل کو ، اسرافیل دم (صور) کو عزرائیل روح کو کہتے ہیں۔ یہ نصیحت حضرت نے گرہ میں باندھ لی۔ پھرمحمد ﷺ سےخدا کو ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا تو سات خوبیوں کو خوان میں سجا کر طبق میں جبرئیل کے ہمراہ پہنچے یعنی صدق ، عدل ، حیا ،شجاعت اور عنایت کا لباس اوڑھا کر جبہ میں لے گئے۔ صدق کا پائجامہ عدل کی قمیض ، حیا کا کمر بند شجاعت کا دستار اور عنایت کا دوپٹہ اوڑھا کر جبریل حضرت محمد کو خدا کے حضور میں لے گئے اور پیغمبر کو ان چیزوں کو پینے کا حکم دیا جن کی بابت اوپر ذکر ہو چکا ہے یعنی پہلے خدا نے رسول اللہ کی ضیافت کی پھر انہیں خلوت سے سرفراز کیا۔
النَّاسُ مَعَ اللباسِ
(لوگ اپنے پاس سے پہچانے جاتے ہیں )
حضرت محمد نے جبرئیل سے کہا کہ خدا نے مجھے یہ لباس عطا کیا جب کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کو نہیں دیا۔ مجھ پہ اس کی خاص نظر عنایت ہے۔
جبرئیل نے خدا کا حکم سنایا :
لولاكَ لِمَا خَلَقْتُ الْأَفْلَاكُ (حديث)
(اے نبی اگر تم نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو نہ پیدا کرتا ) ۔
خدا نے رسول اللہ سے کہا کہ اللہ نے آپ کو خصوصی درجہ عطا کیا ہے ، اپنی امت کو جا کر بتا دیجئے کہ صدق نبوت ہے، عدل ولایت ہے، حیا قدرت ہے اور رعایت بخشش رب کی ہے ۔ صدق شریعت کی بندگی ہے جس میں صدق ہے وہ مسلمان ہے
الصدق ينجي والكِذَّبُ يُهْلِكُ (حديث)
(سچائی نجات دلاتی ہے اور جھوٹ بلاک کر دیتا ہے ، )
یعنی سچے کو راحت ہے اور جھوٹا مہلک ہے ۔ عدل طریقت کی پیروی ہے جس میں عدل ہے وہ مومن ہے۔ حیا حقیقت کا حال ہے۔ جس میں مردم آزاری نہیں وہ انسان ہے۔ شجاعت معرفت کی راہ ہے جس میں اپنی اور خدا کی پہچان ہے وہ بندہ ہے عابد ہے۔ خدا کی عنایت ہی علم معرفت ہے۔ توحید کی راہ میں آدم و حوا نے خدا کی معرفت حاصل کی اور نفسانی افعال سے پاک ہوئے تو شریعت پر عمل پیرا ہوں ۔ عدل جبلی (حقیقی) ہے ۔ اس میں ممکن کا شائبہ ہوتا ہے یعنی ممکن الوجود کی منزل ہے ۔ اب جو لوگ دنیا وی حرص و ہوس سے دل کو پاک وصاف کر لیں تو شریعت کی منزل سے گذر کر طریقت کی منزل پر گامزن ہوتے ہیں حیا شافی (شفا دینے والا) ہے ممتنع الوجود میں روح کی منزل ہوتی ہے یعنی جس نے خود کو روح اور نفس کے خطرات اور خواہشات سے دور کیا وہ حقیقت میں شافی کہلاتا ہے۔ شجاعت میں مالک ہے عارف الوجود یعنی صاحب معرفت – جو لوگ معرفت کی منزل سے واقف ہو جاتے ہیں تو انہیں صاحب مذہب بھی کہتے ہیں اور انہیں سارے مذاہب کی بھی خبر ہوتی ہے۔ جن لوگوں کا ظاہر اور باطن یکساں ہو تو انہیں اہل صفہ یعنی صوفی مذہب کہتے ہیں۔
الفقير هو الصوفى مذهب الله
(فقیر صوفی ہے اور اس کا مذہب اللہ ہے)
شریعت کی بندگی ہے صدق سچائی ،
عدل ولایت ہے طریقت کی پیروی ہے
حیا قدرت ہے حقیقت کا حال ہے ۔ حضرت عثمان
شجاعت معرفت کی چال ہے بہادری، دلیری، حضرت علی
معرفت وہ ہے جس نے خود کو بچانا اس نے خدا کو بچانا ۔
اے سالک محمد – صدق (سچائی) حضرت ابوبکر کو دو۔ دنیامیں سچائی قائم رہیگی۔
عدل (انصاف) حضرت عمر کو دو عدل دنیا میں عدل قائم رہیگا۔
حیا و شرم حضرت عثمان کو دو ایمان برقرار رہے گا۔
شجاعت (بہادری) حضرت علی کو دو تا قیامت ولایت کا سلسلہ جاری رہے گا
حضرت علی کو ولایت کا مرکز یابانی مانا جاتا ہے۔ اور تاقیامت انہیں ولیوں کی مرکزیت کا شرف حاصل رہے گا۔ اللہ تعالی نے کہا ” چارپایوں مسلمان محمد یاری بولتے ہیں۔ اگر نہیں تو بندہ کہاں اللہ کہاں خدا کون ، کافر بولتے ہیں
لَعَنتُ اللهِ عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( قرآن)
کافروں پر خدا کی پھٹکار ہے ۔ ، معراج پر خدا وند تعالی اور رسول اللہ کے درمیان پردہ تھا۔ حضرت محمد نے جبرئیل سے کہاے اخی (یعنی چھوٹے بھائی ) درمیان میں سے پردہ ہٹا دو۔ یعنی اندھیرے اور اجالے کے درمیان میں جو پردہ تھا وہ ستر ہزار پردوں کے برابر تھا جبریل نے کہا ” اگر اس میں سے ایک پردہ بھی اٹھاؤں تو میں جل جاؤں گا
ان الله سبعين الف حجاب من نور وظلمت وكشفها لا حرقت سجات وجهه (حدیث)
(اللہ نور اور ظلمت کے ستر ہزار پر دوں میں مستور ہے اگر وہ کھل جائیں تو میں تجلی سےجل جاؤں یعنی خدا کی ذات عقل و ادراک کی سرحد سے پرے اور بہت پرے ہے کسی بھی حال میں خدا کے سوا کوئی شئے خدا کی تجلی کو پورا پورا نہیں دیکھ سکتی ) ۔
یعنی ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بس ” دیکھو اور سنو”
وصل ہوتے ہی پر دہ ختم ہو جاتا ہے جن لوگوں کو وصل نہیں ہوتا ان کے سامنے گہرا پر دہ چھایا رہتا ہے اور وصل کا وقت مقرر نہیں ہوتا کسی بھی وقت وصل ہو سکتا ہے۔
جب رسول اللہ ﷺمعراج پر گئے توان کا جسم جمالی تھا اور جب عرش معلی پر پہنچے وہاں خدا کا تن
(جسم )نہیں تھا کیونکہ وہ ذات قدیم ہے اور ذات قدیم اور صفات قدیم میں وصل ہو گیا ۔ ذات قدیم (خدا وند تعالے) نے ایک بار سوچا کہ اپنا معشوق خلق کروں اور اس نے نور محمد(صفات قدیم )پیدا کیا اور اسے اپنے خزانے میں محفوظ رکھ لیا۔ اس سے پہلے کوئی مخلوق نہیں تھی نہ لوح تھا نہ قلم تھا نہ سیا ہی تھی محمد بھی نہیں تھے غرضیکہ کچھ بھی نہیں تھا۔ لاکھوں سال گزرنے کے بعد خدا کو معشوق کی یاد آئی اور اس نے آدم کی تخلیق کی اور تکمیل نور محمدی ﷺ کے ذریعے کی ۔ عارفوں پر سے اندھیرے میں پردہ ہٹ جاتا ہے اور وصل ہوتا ہے تو کوئی پر دہ حائل نہیں رہتا۔ یعنی جب وصل ہوتا ہے تو ربوبیت کا پر دہ باقی نہیں رہتا جمال الوہیت کا پردہ ممکن الوجود کے سامنے ہوتا ہے ۔ الوہیت کے پردے کو پار کر کے ہی عارف الوجود کی منزل ملتی ہے ۔ روح القدس کے پردے کو پہنچے بغیر جمال کبریائی کا دیدار نہیں ہو سکتا جس طرح آفتاب کے اجالے میں تارے ماند پڑ جاتے ہیں اسی طرح دیدار الہی کے بعد ساری روشنی ماندپڑ جاتی ہے ۔
كُلِّ مَنْ عَلَيْهَا فَانُ (قرآن)
( دنیا میں جو کچھ ہے وہ فانی ہے ) ۔
من النظر الى الله تعالى ويبقى وجه ربك
( اللہ تعالیٰ پر نظر کرتے ہوئے صرف رب کی ذات باقی ہے
لايد خل أحد في عبادةً حَتَّى لَا يَدْخُلُ نَفْسِهِ فِي عِبَادَةِ حتى عادة نفسك (حدیث)
کوئی اس وقت تک عبادت میں داخل نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا نفس بھی عبادت میں داخل نہ ہو یہاں تک نفس سرا پا عبادت ہو جائے۔
معراج میں رسول اللہ نے جبرئیل سے دریافت کیا۔ اے اخی(چھوٹے بھائی) تینوں پر دے کہاں ہیں نہ تو مغرب میں ، نہ مشرق میں آخر کہاں ہیں ۔ جبرئیل نے جواب دیا (1)، طوبی ، نور محمدی کو کہتے ہیں ۔ (2) شجرہ کی انتہاء یعنی عارف الوجود (3) زیتون یعنی روح محمدی اس طرح یہ تینوں مومن کے تن میں ہیں۔
وَالتِينِ وَالزَّيْتُونِ
( قسم ہے انجیر اور زیتون کی)
خدا نے ہی حضرت محمد کو ” السلام علیکم ورحمہ اللہ برکاتہ یعنی رسول اللہ پر سلام بھیجا جس نے نفس کو پہچانا اس نے خدا کو پہچانا
من عرف نفسه و فقط عرف ربہ) یعنی جس نے خود کو پہچانا اس نے خدا کو پہچان لیا۔
نقاب کبریا۔ شرک خفی کو کہتے ہیں۔ خدا نے حضرت محمد سے کہا کہ آئیے میرے نزدیک میرے اور آپ کے درمیان جو ایک آئینہ رکھا ہوا ہے اس میں ایک دوسرے کی شکل دور سے دیکھ سکتے ہیں۔ اے نبی کی جان سب کی جان، نبی کے صدقے پہچان لیجئے۔ واحد کا رنگ یعنی خد ا کا نور جبریل نے عرض کیا میری پہنچ شجر کی انتہاء (عارف الوجود) کے عرش تک ہے اس پر نبی علیہ السلام نے جبر یل سے پوچھا اے چھوٹےبھائی (اخی) یہ تینوں پر دے کہاں ہیں۔ نہ مغرب میں، نہ مشرق میں ، آخر کہاں ہیں بتائیے جبر یل نے حضرت سے کہا اے محمدﷺ درست کہا آپ نے طوبی آپ کے نور کو کہتے ہیں اور شجرۃ المنتہیٰ اپنے عارف الوجود کو کہتے ہیں۔
وَالتِينِ وَالزَّيْتُونِ
( قسم ہے انجیر اور زیتون کی)
زیتون آپ کی روح کو کہتے ہیں اس طرح یہ تینوں مومن کے دل میں رہتے ہیں اور نا سمجھ ایمان کو اپنے آپ میں ڈھونڈتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر جبریل نے عرض کی کہ اب آپ سے اللہ کی ملاقات ہوگی مگر ایک سجدہ کیجئے میری طرف سے حضرت نے قبول کیا ۔ نقاب کبر یا ( شرک خفی )کے پاس سے آواز آئی
قف يا حبيب إن الله يصلى
(اے حبیب ٹھہر جاؤ خدا نماز میں مشغول ہے ) ۔
تحقیق یہ ہوئی کہ خدا نماز میں مصروف ہے جب کہ نبی علیہ السلام نے خدا کی نماز پڑھی حضرت محمد نے پوچھا ہمارے خدا وند تعالی تمہاری پرورش کے لئے نماز پڑھتے ہیں۔ یوں آواز آئی۔
يُصَلِّي صَلَاتِهِ
(وہ اپنی نماز پڑھ رہا ہے ۔)
یعنی خداوند تعالی اپنی نماز آپ ادا کر رہاہے اورجتنی بھی روحیں ہیں وہ نماز ادا کرتی ہیں اور خدا کے فرشتے بھی نماز ادا کرتے ہیں اس کا مطلب ہے کہ جب تک بندہ اپنے آپکو نہیں پہچانے گا اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئے گی عشق نے کہا مجھے بلانے کون آیا معشوق سے ملاقات کرانے کے لئے پردہ اٹھا کر وکیل (جبرئیل) نے نقاب کبر یاء اٹھادی. اور عاشق و معشوق ( اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد) کا وصل ہوا ۔ اس طرح پیغمبر علیہ السلام وصل کے ساتھ ہی ظاہر میں کفر سے دور اور باطن میں شرک سے دور ہو گئے۔
وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ .
(اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ) ۔
اقرا رباللسان وتصديق بالقلب
( زبان سے اقرار کیا اور دل سے یقین کیا) ۔
اس کے بعد عاشق نے معشوق کا ہاتھ پکڑ کر تخت سرایہ پر معشوق کو تخت نشین کرا دیا ۔ اور خدا نے کہا اے محمد جس روز روشن اور تازہ خدا کا دیدار کرتے ہیں اس روز اس کی معرفت حاصل ہو جاتی ہےیعنی مرشد کے نور میں خدا پالیں گے۔ اس روز یہاں آپ بھی دیکھئےاور ساری دنیا کو بھی دکھالا ئیے اور میرے رسول آپ ہی ہیں اور اپنی امت کو بھی اسی طرح کیجئے ۔
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا
(اے نبی جو لوگ تم سے بیعت کرتے ہیں وہ گویا خدا سے بیعت کرتے ہیں۔ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے عہد شکنی کی وہ اپنے نفس سے عہد شکنی کرے گا اور جس نے خدا سے اپنا معاہدہ پورا کیا اسے بہت بڑا اجر دیا جائے گا۔
وَمَا رَمَيْتَ إِذ رَمَيْتَ وَلَكن الله رمی (قرآن)
جب تم نے کنکر پھینکے تو تم نے نہیں پھینکے بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکے
مَنْ لَمْ يَبَايَعَ عَلَى الْإِسْلَامُ فَهُو مُشرك (حديث)
جس نے اسلام پر بیعت نہیں کی وہ مشرک
من يطع الرَّسُولَ فَقَد اطاع الله (قرآن)
جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
سنريهم اياتنا في الآفاق في انفسهم (قرآن)
ہم ا نہیں اپنی نشانیاں عنقریب کا ئنات میں ا ورخود ان کے نفسوں میں دکھا ئیں گے۔
جس نے محمد کو دیکھا۔ اس نے خدا کو دیکھا جس نے محمد کا حکم مانا اس نے خدا کا حکم مانا ، جس نے محمد کی بات سنی اس نے خدا کی بات سنی جو محمد بولتے ہیں وہی خدا بولتا ہے۔
ینام لله ويا كل للہ ويشرب لله (حدیث)
وہ خدا کے لئے سوتا ہے ، وہ خدا کے لئے کھاتا ہے اور خدا ہی کیلئے پیتا ہے
یعنی بندہ مومن کا ہر فعل عبادت میں داخل ہو جاتا ہے)
من تو شدم تو من شدی ، من تن شدم تو جاں شدی
تاکس نه گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری
(ہیں تو ہوا، تو میں ہوا، من تن ہوا تو روح ہوا، کوئی بھی اس کے بعد نہ کہہ سکے کہ میں کوئی اور ہوں اور تو کوئی اور ہے) ۔
وما ينطق عن الهوى (قرآن)
(نبی ﷺاپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ خدا کی طرف سے اس پر وحی نازل کی جاتی ہے ) ۔
فَإِنَّ الْجَنَّتَ هِيَ الماوى (قرآن)
(اور جنت ان کا ٹھکانہ ہے )
یعنی حضرت محمد اس وقت تک نہیں بولتے جب تک خدا کی مرضی نہیں ہوتی ۔
ذكر الخفى طريق (حدیث)
عروج اور نزول کو پہنچنے کو خفی کہتے ہیں ہے
مردان خدا خدا نه باشد لیکن زخدا جدا نه باشد
خدا کے بندے خدا نہیں ہوتے لیکن خدا سے جدا بھی نہیں ہوتے
اے عزیز خدا سے ملنا جدا ہونا یہ دونوں باتیں بھی تمہیں اپنے مرشد سے معلوم ہوگی ۔ اس طرح محمدﷺ کو اس ترتیب سے معراج کی خبر دے کر بندے کو سرفراز کیا یعنی اعزاز دے کر بھیجا۔ حضرت محمد ﷺنے وصل کے بعد دو رکعت نماز (ایک رکعت جبریل کی نیت سے اور ایک اپنی نیت سے ادا کی۔ سلام پھیرنے کے وقت اللہ کا حکم آیا ایک رکعت میری طرف سے بھی پڑھئے ، اسی حال میں تین بار اللہ اکبر قرآت (قرآن کا سورہ) پڑھے، روح سے سجدے کرے (یعنی کل روح امر ربی)سب روح اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں، اور اس نماز میں دعائے قنوت الحمد پڑھے، سلام پھیر کر دعا مانگے۔ دعا کیا ہے
استغفر اللهِ رَبِّي اتُوبِ إِلَيْه
(اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرما )
مجھے تیرا دیدار اور عشق اور مرتبہ نصیب ہو، میری امت کو بھی ان باتوں کی توفیق دے۔
الهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مَغْفِرَةً وَالْعَافِيه (حديث)
(خدا وند تعالی بخشش ہو اور عافیت نصیب ہو ) .
مومنوں پر نماز واجب ہے۔ جبرئیل کا بولنا سنت ہے نبی کا بولنا اللہ کا بولنا ہے۔
لا صلوة الابحضور القلب (حديث)
( حضور قلب نہ ہو تو نماز نہیں۔)
حضور قلب فرض ہے۔ خدا کا بولنا قول الله تعالیٰ ہے ۔
في كلامه المقدس الانبياء والأَوْلِيَاءِ يُصَلُّونَ فِي قلُوبِهِمْ دَائِمُونَ
اللہ کے کلام پاک میں آیا ہے کہ انبیاء اور اولیاء ہمیشہ دل میں نماز پڑھتے رہتے ہیں)
من أراد العبادة بارادة الوصل فقد اشرك
جس نے خدا کے پانے کی خواہش سے عبادت کی اس نے شرک کیا۔
یعنی جس نے خدا کے وصل کی خواہش میں نماز پڑھی اس نے بھی شرک کیا۔ نبی علیہ السلام نے فرمایا شریعت میں اللہ کو دیکھنا بہت اچھا ہے ۔ حضرت علیہ السلام کو معراج ہوئی۔ بہت سے عالموں کو معراج کے سلسلے میں شبہ ہے وہ محض ان کی غلط فہمی ہے
لا راحة لِلْمُؤْمِنِينَ الا بلقاء الله (حديث)
مومنوں کی خوشی اللہ کے دیدار میں ہے ) ۔
دیکھے بغیر یوں حضرت کے بولنے پر ایمان لانا گویا اسلام سے دور ہونا ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جس نے خدا کو پہچان لیا وہ بولتا نہیں خود میں اللہ کی ذات دیکھتا ہے مگر چپ رہتا ہے۔ اگر کہتا ہے کہ اس نے خدا کو دیکھا ہے تو شرک ہے اگر کہتا ہے کہ نہیں دیکھا تو کافر ہوتا ہے ۔
من عرف الله لا يقول الله وَمَنْ قَالَ اللَّهِ لَا عَرَفَ اللهُ
جس نے خدا تعالی کو پہچان لیا وہ کہتا نہیں اور جو کہتا ہے اس نے خدا کو واقعی نہیں پہچانا۔
جانت ہیں سو کہت نہیں ، کہت سوجانت نا ہیں ۔
یعنی جو کوئی خدا کو پہچانتا ہے زبان سے کہتا نہیں اور جو خدا کا نام لیتا ہے زبان سے ، خدا کو نہیں سمجھ پایا ہے۔
پیغمبر علیہ السلام کو اس دنیا میں اپنا کوئی ذاتی کام نہیں تھا۔ خدا وند تعالیٰ نے انھیں اپنا نائب بنا کر دنیا والوں کو خدا کی پہچان کرانے کے لئے بھیجا ہے ۔
لا نفرقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ (قرآن)
(ہم خدا کے رسولوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے )
یعنی خدا کا ارشاد ہے کہ میرے اور محمد کے قول میں کوئی فرق نہ کرو۔ جب رسول اللہﷺ معراج سے تشریف لائے تو سب سے پہلے حضرت علی کو معراج کا سارا واقعہ بتایا ، پھر حضرت ابو بکر سے کہا کہ وہ معراج سے آشنا ہوئے تو انہوں نے بغیر شک وشبہ کے اقرار کیا۔ جس نے معراج سے انکار کیا وہ کافرہے مثلاً ابو جہل، ابولہب وغیرہ ۔ کیونکہ خدا کا قول ہے( میرے قول میں اور محمد کے قول میں کوئی فرق نہیں ہے)۔ پھر رسول اللہ معراج سے رخصت ہو کر اپنے گھر پہنچے۔ دروازے کی زنجیر ابھی تک ہل رہی تھی اتنا ہی وقفہ آنے جانے میں صرف ہوا ۔ یہ واقعہ رسول اللہ ﷺنے خاص خاص صحابہ اور حضرت عائشہ کو سنایا اور معراج کے تمام واقعات بیان کئے۔
رات رَبِّي ليلة المعراج في أَحْسَنَ صورة امرد لاثبات انا فی الوحدۃ واحد
( میں نے شب معراج میں خدا کو ایک خوبصورت نوجوان کے روپ میں دیکھا یہ ثبوت ہے کہ وہ یگانہ ویکتا ہے )
یعنی اپنے رب کو وہاں میں نے دیکھا اپنے آپ میں خدا کو دیکھا ، شب معراج میں میں نے خدا کو اپنی شکل میں دیکھا جو جوان اور خوبصورت تھا۔ وہاں خود کو تنہا دیکھا یعنی اپنے نور کے آئینے میں خدا کا دیدار کیا۔ یہ بات سن کر تمام صحابہ نے آمنا و صدقنا کہا اور ایمان لائے جوایمان لایا مسلمان رہا جو نہیں لایا وہ کافر رہا۔
طولي لِمَنْ رَانِي وَلَمَن رَايَ مَنْ راني (حديث)
( رتبہ بلند ہے اس کا جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا)
قول خدا ہے ۔
وَمَا وَسَعْتَنِي الْأَرْضِ وَلا السَّماء العبد لا قلب المومن (قرآن)
میں نہیں سمایا آسمان میں، میں نہیں سمایا زمین میں، بلکہ سمایا ہوا ہوں مومنوں کے دل میں :-
یعنی خدا کی ذات آدمی کے تن سے نزدیک ہے یوں سمجھو کہ بندہ ہی خدا ہے پیغمبر علیہ السلام منزل یعنی مرتبہ سے اتر کر اس تن کے صفات میں آئے خدا اور بندے کے درمیان ستر ہزار پردے باطن کے تھے
ذات الله اقرب اليه من جسد انسان (حديث)
(انسان کے بہ نسبت اس کے جسم سے اللہ کی ذات زیادہ قریب ہے)
جبرئیل درمیان میں اللہ اور بندے کا دصل کرانے والے تھے اسکے بعد خدا کو محبت پیدا ہوئی اور محمد کو انہوں نے وصل کے لئے طلب کر لیا۔
طلب الله تعالى فرض الكل فرد ا قبل كُل فريضة( حدیث)
(اللہ کی طلب ہر شخص پر ہر فرض سے مقدم ہے )۔
امروز ایں جمال تو بے پردہ ظاہر ایست
در حریم که احدی فردا برائی چیست
( عبادان اللہ حاضر و ناظر ہے خلاف ورزی کرے تو شریعت رخصت ہوتی ہے )
بندے خود کو پہچانیں اور اپنے دل کی تاریکی کو دور کریں نہ کہ ساری دنیا کو تاریک خیال کریں ۔
لا تدرك الابصار وهو اللطيف الخبير (قرآن)
آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے اور خدا بہت لطیف اور تمام خبریں رکھنے والا ہے)
یعنی اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکیں گے مگر دیکھیں گے میری آنکھوں سے ان کی پاک و تقدس صورت کو، بندے کو پہلے اپنی پہچان کرنی پڑتی ہے اس کے بعد ہی وہ خود کو پہچان سکتا ہے۔
والله ابنتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتًا (قرآن)
(اور خدا نے تمہارے لئے زمین سے پیڑ پودوں کو پیدا کیا)
یعنی تمہارے تن کی زمین میں زندگی کا بیج بوتا ہے ۔ جو کوئی تن کی زمین پاک کرے گا اور خدا کے منع کئے ہوئے کاموں سے باز رہے گا وہی درخت طوبی کا میوہ بھی کھائے گا ۔
الصلوة معراجُ الْمُؤْمِنِينَ بِعَدَ الصَّلَاةِ تِلاوتِ القرآن الصُّومَ جَنَّهُ مِنَ النَّارِ وحُنَ الْإِيمَانُ (حدیث)
(نماز مومنوں کی معراج ہے نماز کے بعد قرآن پڑھنا اور روزہ رکھنایہ دوزخ سے بچاتا ہے اور حسن ایمان ہے)
یعنی اللہ کا دیدار کر لیا تو مومنوں کی نماز ہو گئی۔ اللہ سے باتیں کر لیں تو تلاوت قرآن پاک ہو گئی ۔ اس کو دیکھتے رہنا روزہ ہو گیا اور ان سب باتوں سے وہ دوزخ سے محفوظ ہو گیا ۔ اے عزیز ان سب باتوں کے بغیر مسلمان ، مسلمان نہیں رہتا جو لوگ کفر چھوڑ کر محمد کے دین کو قبول کرتے ہیں تو حضرت رسول اللہ اپنا نورا نہیں دکھاتے ہیں اورخود کو ظاہر کر دیتے ہیں انہوں نے یہی ترتیب ایمانی بتائی ہے ۔
الشريعة اقوالي والطريقة افعالي والحقيقة احوالي والمعرفة راس المالى الحديث
( شریعت میرے قول ہیں ، طریقت میرے افعال ہیں اور حقیقت میرے احوال ہیں اور معرفت میرا خزانہ ہے)
یعنی کلمہ پڑھتے رہنا ، میری شریعت نماز ہے ، میری طریقت روزہ رکھنا ہے، میری حقیقت مال زکوٰۃ کرنا ہے ۔ میری معرفت کعبے کی نیت کر کےحج کرنا ہے۔ یہ سارے کام کرے تو مسلمان ہوتا ہے ۔ اول کلمہ پڑ ھنا پھر تسبیح میں مشغول ہونا چاہئے۔ ان احکامات کی عدولی نہ کرے اور جسم کو پاک وصاف رکھے تو مرتبہ حاصل ہوتا ہے ۔
الايمان أول الطريقة أو لها شهادة أن لا إله الا الله (حدیث)
(ایمان طریقت کی ابتدا ہے اس میں سب سے پہلے یہ شہادت ہے کہ خداکے سوا کوئی معبود نہیں )
یعنی نبیﷺ کا ارشاد ہے کہ خدا کی تحقیق کرنے والوں کے نزدیک دنیا کو چھوڑنے سے تھوڑا مرتبہ حاصل ہوتا ہے ” لا اله الا الله ” پیغمبروں اور ولیوں نے دل کی زبان سے ادا کیا ہے اور دل کی آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ہے۔ روح سے نماز ادا کیا ہے۔ دماغ سے روزہ رکھا ہے وجود کو زکوٰۃ میں دیا ہے اور ذات ( دیدار الہی) سے حج کیا ہے۔ نور محمد دیکھنا کلمہ ہے ، حضرت آدم کی تو بہ اس وقت تک قبول نہیں ہوئی کہ جب تک کہ ان کی نظر نور محمدی پر نہ پڑی نظرکرتے ہی سارے گناہ معاف ) نور محمد پر ثابت (بر قرار رہنا۔ نماز ہے ۔
واقیمو الصلوة (قرآن) اور نمازقائم کرو)
اپنے وجود کا خاتمہ ۔ زکات ہے ۔
وا تو الزکواة (قرآن) –( زکوة ادا کرو)
دیدار الہی (کعبہ دیکھنا ۔ حج ہے۔
فَلا رَفتَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَج (قرآن)
(حج میں برائی اور گناہ اور مکروہات اور لڑائی جائز نہیں )
موتوا قبل أن تموتوا (حدیث)
(موت سے پہلے ہی با عتبار خواہش مر جاؤ ) ۔
یعنی موت کی نشانی بتاتے رہو یا خدا کی یاد اور اس کی معرفت میں موت آجائے۔
الانبياء يصلون في قبورهم (حديث )
(نبی اپنی قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں)
یعنی پیغمبر اپنی قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں یعنی تن سے نماز ادا کرتے ہیں۔ قبرمیں تجھے اپنی حقیقت معلوم ہوگی پھر تمہیں پتہ چلے گا کہ نماز کسی طرح ادا کی ہے قبر کی پرسش سے دوزخ کے عذاب کا علم ہوگا ۔ اسے عزیز کون ایسا ہے جو خدا کی راہ میں جان دیگر حیات حاصل کریگا۔
باد از شانہ چو دوائے تومنم در کسے منگر چوں نشانے تو منم
گربسر کوئے من کشته شوی شکرانہ بده که خوں بہائے تو منم
یعنی کہا کہ جو شخص درد مند بنکر آئے گا تو اس کی حاجت روائی میں کروں گا ۔ اگر میری راہ میں مارا جائے گا تو سارے گناہ میں بخش دوں گا۔ فنافی الشیخ سے سالک کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ مرشد گناہ بخشیں گے تو سمجھونبی نے گناہ بخش دیئے) ایک روز مرشد کامل گناہ بخشیں گے
جعل الشيخ الكامل نافعاً الإِنسَانِ كَمَا جَعَلَ النَّبِي
حدیث قدسی انسان کیلئے بنایا شیخ کامل کو اتنا ہی نافع جتنا نبی کو )
ایک دن مرشد کامل نفع بخشے گا جس طرح نبی نفع بخشتے ہیں ساری دنیا کی شفاعت کریں گے پیر ہمیشہ محمد پر کامل مرید سچا
علماء امتى كانبياء بني إسرائيل(حدیث)
(میری امت کے علمار بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے ہم رتبہ ہیں)
جنت اور دوزخ اپنا ہی وجود میں جس نے اپنا وجود پہچانا اس نے جنت پائی اور دوزخ سے نجات پائی ۔
خلاف پیمبر کسے رہ گزید کہ ہر گز منزل نه خواهد رسید (مولا ناردمی)
یعنی پیغمبر اسلام کے طریقے کے خلاف جو شخص کوئی بھی راستہ تیار کرے گا کبھی بھی وہ منزل مقصود پر نہیں پہنچ سکتا بہترین ہمنشین ہمارے واسطے کون شخص ہے۔ حضور نے فرمایا جسے دیکھنے سے اللہ کی یاد پیدا ہوا جس کی بات سے علم میں ترقی ہو جس کے عمل سے آخرت یاد آجا ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے خوب فرمایا ہے۔ مرشد کو دس چیزیں سمجھنی چاہیں، جو ان پر فرض ہیں ۔
اول : علم، فہم و فراست (سمجھ داری) اور دانائی (عقلمندی)
دوئم : سخاوت یعنی دل اچھا ہو ۔
سوئم : عمل ۔ زیادہ عقلمندی ۔ عمل عمدہ ہو۔
چہارم : حریص ( لالچ نہ کرنا (مرید کے مال پر نظر نہ رکھے)
پنجم : نادانی کی بات نہ کرے (مریدوں کے درمیان مجلس میں )
ششم : زیادہ عقل رکھنا۔
ہفتم : زیادہ شجاعت (طاقت رکھتے ہوئے بھی ظاہر نہ کرے)
ہشتم: یاد میں رہنا ر ذکر الہی میں رہنا )
نہم : حال پر حال ہوئے (عالم غیب میں بار بار جاتا ہے،)
دہم : جان پہچان ( سوجھ بوجھ کا مالک ہو)
وضاحت : – قول رسول اللہ پہلی چیز جو اللہ نے خلق کی وہ میرا نور ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور سب مومن میرے نور سے ہیں اور جو چیزیں عالم میں تم دیکھتے ہو سب تمہاری ذات میں ہیں۔ آدمی کے جسم میں ایک گھر گوشت کا ہے اور گوشت کے ٹکڑے میں قلب اور قلب میں روح ہے اور روح میں سرّ ہے اور سر میں خفی ہے ۔