رسالہ محبوب العارفين وسيلۃ الطالبين

رسالہ محبوب العارفين وسيلۃ الطالبين

منسوب از حضرت سید نامولانا مرشدناعزیزان علی رامیتنی قدس سره
اس رسالے میں دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں راہ سلوک اختیار کرنیوالے کیلئے دس شرائط مذکور ہیں ۔ دوسرے حصے میں حضرت عزیزان علی رامیتنی قدس سرہ کے احوال و مقامات بھی ہیں اور سولہ رشحات ( ارشادات) بھی ہیں۔ کہ حضرت قدس سرہ کے ایک صاحبزاد ے خواجہ ابراہیم رحمتہ اللّہ علیہ تھے جنہوں نے اپنے پدر بزرگوار کے مقامات کو مرتب کیا تھا اور اس رسالہ میں انہی مقامات سے اکثر واقعات ماخوذ ہیں۔
حضرت خواجہ عزیزان علی رامیتنی رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی، زریں اقوال و کرامات
آپ کا اسم گرامی علی تھا۔ چونکہ آپ اپنے نفس کو عزیزاں کہا کرتے تھے اس لئے آپ کا لقب عزیزاں ہو گیا ۔ آپ کا وطن قصبہ رامیتن ہے جو بخارا سے سے دو کوس پر واقع ہے آپ صاحب مقامات و کرامات اور مالک درجات و کمالات بزرگ تھے ۔ اتفاقات زمانہ کی وجہ سے قصبہ را میتن سے شہر باور د میں تشریف لائے اور ایک مدت تک وہاں مقیم رہے آپ مخلوق کی خداوند تعالیٰ کی طرف رہنمائی فرماتے تھے۔ اور خلق اللہ کے ارشادات و ہدایت کا مشغلہ رکھتے تھے۔ پھر عوارض زمانہ سے شہر باورد کی سکونت ترک فرما کر شہر خوارزم میں آکر مقیم ہوئے ۔ آپ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہتے تھے ۔ شہر خوارزم میں آپکے سلسلہ کی ترویج کو بہت فروغ ہوا
آپ بہترین اوصاف حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ سے متصف تھے۔ خلق کثیر آپکی مریدی و نیاز مندی میں داخل ہوئی اہل خوارزم آپکو خواجہ علی باور دی اور اہل بخارا شیخ علی را میتنی اور صوفیہ آپکو حضرت عزیزاں کہتے تھے۔
آپ حضرت خضر علیہ السلام کے صحبت دار تھے انہی کے ارشاد پر حضرت سید نا و مولانا خواجہ محمود انجیرفغنوی قدس سرہ کے مرید ہوئے ۔ جب حضرت خواجہ محمود رحمتہ اللہ علیہ کی وفات کا وقت قر یب آیا تو انہوں نے خلافت کا کام عزیزان علی کے حوالے کرکے اپنے تمام اصحاب کو آپکے سپرد کیا۔ حضرت عزیزان علی قدس سرہ نے باشارہ غیبی ولایت ببخارا سے خوارزم کا ارادہ کیا تھا آپ خوارزم کے شہر پناہ کے دروازے پر پہنچ کر ٹھہر گئے اور دو درویشوں سے خوارزم کے بادشاہ کے پاس کہلا بھیجا کہ فقیر آپکے دروازہ پر آیا ہوا ہے اورٹھہرنے کا ارادہ رکھتا ہے اگر آپکی مصلحت مانع نہ ہو تو شہر میں داخل ہو جائے ورنہ واپس چلا جائے اور ان در ویشوں سے آپنے یہ بھی فرما دیا تھا کہ اگر بادشاہ اجازت دے تو بادشاہ کی مہر بھی بطور نشانی کے اس اجازت نامے پر کر الاؤ۔ جب وہ فقیر بادشاہ کے پاس گئے تھے اور جو کچھ حضرت عزیزان علی نے فرمایا تھا بادشاہ سے کہدیا تو خوارزم شاہ اور اس کے ارکان دولت ہنسنے لگے اور کہاکہ یہ درویش کیسے سادہ طبیعت اور نادان ہیں مذاق اور دل لگی سے حضرت خواجہ عزیزان علی قدس سرہ کی خواہش کیمطابق اجازت نامہ لکھ کر مہر شاہی اس پر ثبت کر کے درویشیوں کے حوالے کر دیا ۔ درویش اس کو لیکر حضرت عزیزان علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بادشاہی فرمان پہنچایا۔ اس کے بعد آپ نے شہر میں قدم رکھا۔ اور ایک گوشہ میں بیٹھ گئے اور طریقہ حضرت خواجگان قدس اللہ اسرارہم کے شغل میں مشغول ہو گئے ۔
آپ صبح کے وقت (اس سے ملتا جلتا واقع حضرت خواجہ باقی باللہ کا بھی ہے۔)مزدوروں کی تلاش میں ان کے قیام گاہ پر جاتے اور روزانہ ایک دو مزدور کو گھر لے آتے اور ان سے فرماتے کہ پوری طرح وضو کرواور دوسرے وقت کی نماز یعنی شام تک ہمارے میں ساتھ رہو ۔ اور ذکر کرو پھر اپنی مزدوری ہم سے لو اور چلے جاؤ لوگ نہایت شکریہ سے آپکی صحبت کو قبول کرتے اور جب ایک روز اس طریقہ سے گذر جاتا تو حضرت عزیزان علی قدس سرہ کے اثر محبت اور کمال تصرف اور کرامت سے ان میں ایسے اوصاف پیدا ہو جاتے تھے کہ آپکی جدائی کی طاقت انہیں نہ رہتی تھوڑی مدت کے بعد اس ملک اوراطراف کے اکثر لوگ حضرت کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے اور عالموں اور طالبوں کا اژدحام کثرت کے ساتھ آپکی خدمت میں حاضر ہونے لگا۔ یہ خبر خوارزم شاہ کو پہنچی کہ ایک شخص اس شہر میں ایسا ظاہر ہوا ہے کہ اکثر لوگ اس کے حلقہ ارادت میں داخل ہو گئے ہیں اور اسکی خدمت کیلئے ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔ خوارزم شاہ کو خیال پیدا ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ اس کے معتقدین کی کثرت اور اجتماع سے ملک میں کوئی خلل اور فتنہ نہ پیدا ہو اور کوئی فساد ایسا بر پا ہو کہ جس کا پھر انسداد نہ ہو سکے ۔ بادشاہ اس وہم میں گرفتار ہو کرحضرت کو شہر خوارزم سے نکال دینے کے درپے ہوا ۔ حضرت عزیز ان علی نے ان دونوں درویشوں کو بادشاہ کا اجازت نامہ مہر سے ثبت کیا ہوا دیگر خوارزم شاہ کے پاس بھیجا اور کہا کہ ہم تمہاری اجازت سے اس شہر میں آئے تھے اگر تم عہد کو توڑتے ہو ہم ابھی یہاں سے چلے جا ئیں گے ۔ بادشاہ اور اس کے ارکان دولت اس واقعہ سے نہایت شرمندہ ہوئے اور حضرت عزیزان علی قدس سرہ کی اس دوربینی کے معتقد ہو گئے ۔ پس حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپکے مریدوں کے گروہ میں داخل ہو گئے ۔( رشحات حضرات القدس)
حضرت عزیزان علی قدس سرہ خوارزم میں شام کے وقت سوت بیچنے والوں کے بازار میں تشریف لیجاتے تھے اور جن فقیروں کا سوت نہ بکتا تھا۔ ان کا سارا سوت خرید کر گھر لے آتے تھے اور چالیس گز کرباس(ایک قسم کاکھر درا اونی کپڑا) اس طرح سے بن لیتے تھے کہ خود گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر مراقبے میں مشغول ہو جاتے اور وہ چالیس گز کر باس بغیر اس کے کہ آپ کا مبارک ہاتھ لگے۔ خود بخود تیار ہو جاتا تھا جیسے کہ حضرت حسین بن منصور قدس سرہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ نے ایک نداف ( روئی دھننے والا)کو اپنے کسی کام کیلئے بھیجا اور خود اس کے گھر میں بیٹھے اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا سب دانے (بنولے) روئی سے جدا ہو گئے۔ ان کا اس کرامت سے حلاج یعنی نداف نام مشہور ہو گیا۔ اور اسی طرح حضرت عزیزان علی کا نساج” لقب مشہور ہوا ۔
ممکن ہے کہ اس کر باس کو مردان غیب یا مسلمان جنات جو کہ آپکے مرید تھے یا فرشتے حکم الہی سے بن دیتے ہوں یا بغیران تمام اسباب کے وہ کپڑا بن جاتا ہو۔ جس کی حقیقت ہم نہیں جان سکتے ہیں۔ حضرت عزیز ان علی قدس سرہ اس کر باس کو بازار لیجاتے اور فروخت کرتے اور جو کچھ نفع اس سے حاصل ہوتا اس کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ۔ ایک حصہ علما پر صرف کرتے دوسرا حصہ فقرا پر اور تیسرا اپنے اہل و عیال پر( حضرات القدس)
ایک روز ایک مہمان عزیز خواجہ عزیزان علی قدس سرہ کے مکان پر آیا اور اس وقت آپکے گھر میں کھانے کی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ اس لئے وہ مسافر بہت انتظار کر کے باہر نکلا۔ فوراً ہی ایک لڑکا جو کھانا فروخت کیا کرتا تھا۔ اور حضرت کے معتقدوں میں سے تھا ایک ، خوان لیکر پہنچا جو کہ کھانے سے بھرا ہوا تھا اور حضرت کی خدمت میں پیش کیا آپکو اس لڑکے کا اس وقت کھانا لیکر آنا نہایت پسند آیا اور بڑی خوشنودی کا باعث ہوا۔ آخر کار مہمان کو کھانا کھلایا۔ پھر اس لڑکے کو طلب کر کے فرمایا کہ بیٹا نہایت پسندیدہ خدمت تجھ سے ادا ہوئی۔ تیری جو مراد ہو تو وہ مانگ انشاءاللہ پوری ہوگی۔ لڑ کا نہایت عقلمند ہوشیار تھا۔ اس نے کہا کہ حضرت میں چاہتا ہوں کہ ایسا ہو جاؤں جیسے آپ ہیں ۔( اس سے ملتا جلتا واقع حضرت خواجہ باقی باللہ کابھی ہے)
حضرت عزیران علی نے فرمایا کہ یہ نہایت مشکل امر ہے اور تجھ پراس کا بار عظیم پڑجائیگا جس کے کھینچنے کی تجھ میں طاقت نہیں ہے۔ لڑکے نے بہت کچھ عاجزی کی اور کہا کہ میری مراد اور میرا مقصد تو یہی ہے اس کے سوا میری کوئی آرزو نہیں ہے ۔ حضرت عزیزان علی قدس سرہ نے فرمایا کہ ایسا ہی ہو جائیگا۔ پس آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر بالکل علیحدگی میں لے گئے۔ اور آپ نے اس پر توجہ ڈالی ایک ساعت میں حضرت عزیزان علی قدس سرہ کی شبیہہ اس پر وارد ہوئی اور وہ فوراً صورت دسیرت اور ظاہر و باطن میں حضرت عزیزان علی کی طرح ہو گیا ۔ اور بغیر کسی فرق مثل خواجہ عزیزاں بن گیا۔ اس کے بعد کم و بیش چالیس روز تک وہ لڑکا زندہ رہا بالاآخر اس بارگراں کی برداشت کی طاقت نہ لا سکا اور فوت ہو گیا ۔( رشحات حضرات القدس)
حضرت سید اتا قدس سره حضرت عزیز ان علی قدس سرہ کے ہمعصر تھے ۔ اور دونوں میں کبھی کبھی ملاقات ہوئی رہتی تھی۔ شروع میں حضرت سیداتا رحمہ اللہ علیہ کو حضرت عزیز علی قدس سره سے صفائی نہ تھی ۔ ایک روز حضرت سید اتار حمہ اللہ علیہ سے آپکی جناب میں بے ادبی ہوگئی ۔
اتفاقاً اسی زمانہ میں ترکوں کی ایک جماعت صحرا کی طرف سے حملہ آور ہوئی اور حضرت سیداتا رحمۃ اللہ علیہ کے لڑکے کو قید کر کے لے گئی ۔ حضرت سیداتا کو جو معلوم ہوا کہ یہ واقعہ اس بے ادبی کی وجہ سے ہوا ہے جو حضرت عزیزان علی قدس سرہ کی خدمت میں سرزد ہوئی تھی۔ تو معافی چاہنے کیلئےآ پ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور نہایت عاجزی کے ساتھ آپکی دعوت کی اور قبولیت کے امیدوار ہوئے حضرت عزیزان علی قدس سرہ نے آپکی غرض پر آگاہ ہو کر اس کو قبول فرمایا اور دعوت میں ان کے یہاں تشریف لے گئے اس مجلس میں سب بڑے بڑے علمی اور مشائخ وقت موجود تھے۔
حضرت خواجہ عزیزاں علی قدس سرہ ۔ اس وقت نہایت کیف کے عالم میں تھے۔ جب خادم نمک دان لایا اور دستر خوان بچھایا اس وقت حضرت عزیزان علی نے فرمایا کہ عزیزاں انگلی نمک دان میں نہیں ڈالیگا ۔ اور ہاتھ کھانے تک نہیں لے جائیگا۔ جب تک کہ حضرت سید اتا رحمہ اللہ علیہ کا فرزند دستر خوان پر حاضر نہ ہو جائے۔ پھر آپ نے تھوڑی دیر سکوت فرمایا ۔ سب حاضرین آپکے فیضان کلام کے ظہور اثر کے منتظر ہوئے ۔ اس وقت حضرت سیداتا کا فرزند گھر میں آپہنچا۔ یک بارگی مجلس میں شور بلند ہوا ۔ اور لوگ حیران ہو گئے۔ اور لڑکے سے ترکوں کی جماعت کے فیصلہ سے اس کی رہائی کی کیفیت دریافت کی ۔ اس نے کہا کہ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا ہوں کہ ہیں اس وقت جماعت ترکان کے ہاتھ قید تھا اور وہ مجھ کو مقید کر کے اپنے ملک کو لیجا رہے تھے کہ اب میں اپنے آپکو آپ کے پاس دیکھ رہا ہوں ۔ تمام اہل مجلس کو یقین ہو گیا کہ یہ تصرف حضرت عزیز آن علی قدس سرہ ہے۔
خواجہ عزیزان علی را میتنی قدس سرہ فرماتے ہیں ایک درویش نے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کی اور ان سے پوچھا کہ اس زمانے کے مشائخ میں ایسا کون بزرگ ہے جو استقامت کا مرتبہ رکھتا ہو تا کہ دست ارادت سے اس کا دامن پکڑوں اور اس کی پیروی کروں حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا کہ ان صفات کے بزرگ حضرت خواجہ محمد انجیر فغنوی قدس سرہ ہیں۔ حضرت عزیزان علی ر امیتنی کے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ وہ درویش خود عزیزان علی مدرس تھے۔ مگر اس وجہ سے اپنا نام نہ بتایا کہ یہ نہ ظاہر ہو کہ آپ نے حضرت خضر علیہ السلام کو دیکھا ہے ۔( رشحات وحضرات القدس) (اسی طرح کا واقعہ حضرت عبد القادر جیلانی قدس سرہ سے منسوب ہے)

ایک روز حضرت عزیزان علی قدس سره محمود انجیر فغنوی قدس سرہ کے اصحاب کے ساتھ قریہ را میتن میں ذکر میں مشغول تھے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑا سفید رنگ کا مرغ ہوامیں اڑتا ہوا ان سب کے سر پر سے گزر گیا۔ اور بزبان فصیح کہا کہ اے علی مردانہ رہ ۔ اس مرغ کو دیکھتے ہی اور اس کلمہ کو سنتے ہی تمام اہل مجلس غایت فیض سے بے ہوش ہو گئے۔ جب انکو افاقہ ہوا توخواجہ عزیز ان علی قدس سرہ سے پوچھا کہ ہم نے جو کچھ اس وقت دیکھا اور سنا اس کی حقیقت کیا ہے۔ خواجہ عز یزان علی نے فرمایا کہ خواجہ محمود انجیر فغنوی کواللہ تعالے نے وہ بزرگی عطا فرمائی ہے کہ آپ ہمیشہ اس مقام میں جہاں کہ اللہ تعالیٰ نے موسی کلیم اللہ علی نبینا و عليہ الصلواۃ والسلام سے ہزاروں کلمات فرمائے ، پرواز کرتے ہیں ۔ آپ اس وقت حضرت خواجہ دہقان قلتی رحمتہ اللہ علیہ جو خواجہ اولیائے کبار کے خلیفہ ہیں ان کے سرہانے تشریف لے گئے تھے کیونکہ انکی وفات قریب آگئی تھی اور انہوں نے دعا کی تھی کہ بار ا لہا میرے اس اخیر وقت میں اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیج دے تا کہ اس وقت مجھ کو مدد پہنچے اور اس کی برکت سے ایمان سلامت لے جاؤں، چنانچہ ان کا خاتمہ بالخیر ہوگیا۔حضرت خواجہ محمود کو حکم ہوا تھا کہ حضرت خواجہ دہقان کے پاس تشریف لیجائیں چونکہ میرے حال پر فرطِ محبت تھی اس لئے اس راہ سے گزرتے ہوئے تشریف لے گئے ۔( رشحات وحضرات القدس)
آپ فرماتے ہیں کہ
1۔ اللہ تعالیٰ کے ہمنشین رہو اگر خدا کی ہم نشینی نہیں کر سکتے ہو تو اس کے ہمنشیں رہو جو خداکی ہم نشینی رکھتا ہے۔ کیونکہ خدا کے ہمنشین کا ہم نشین خدا کا ہم نشین ہوتا ہے ۔
2۔ اگر نیکوں کے پاس بیٹھے گا تو نیک ہو جائے گا اور بدوں کے پاس بیٹھے گا تو بد ہو جائے گا۔
3۔اگر تو ایسے شخص کے ساتھ بیٹھے گا جو خدا تعالیٰ کی یاد کوتجھ سے بھلا دے تو جان لے کہ وہ انسانی شکل میں تیرا شیطان ہے۔
انسان ابلیس جن ابلیس سے بدتر ہے کیونکہ وہ پوشیدہ وسوسہ ڈالتا ہے اور یہ ظاہر ہو کر۔
4۔یار نیک کی صحبت کار نیک کی صحبت سے بہتر ہے کیونکہ نیک کام تم کو تکبر اور پندار سے نہیں بچاتا اور یار نیک تم کو صلاح و ثواب کا راستہ بتلائیگا ۔
5۔ خودی والے کے پاس مت بیٹھو جو شخص خودی سے پاک ہو اس کے پاس بیٹھو۔
6۔ ہمارے لئے دور والے نزدیک ہیں اور نزدیک والے دور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن دور والے جو نزدیک ہیں وہ لوگ ہیں جو بظا ہر بدن سے ہم سے دور ہیں لیکن دل و جان کے ساتھ ہم سے نزدیک ہیں۔ نزدیکان دور وہ لوگ ہیں جو بظا ہر ہماری صحبت میں نہیں مگر دل و جان سے ہمارے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ان کا دل وجان کاروبار دنیا اور حرص و ہوا میں مبتلا ہے اگر چہ وہ بظاہر ہمارے ساتھ ہیں مگر دل و جان ان کا دوسری جگہ ہے ہمارے لئے دورانِ نزدیک بہتر ہے نزدیکان دور سے کیونکہ اعتبار دل و جان کی نزدیکی کا ہے کہ آب و گل کی نزدیکی لائق اعتبار نہیں ہے۔
7 – غنا بے نیازی ہے یہ صفت اگرچہ مالداری کے مشابہ ہے مگر حقیقت میں بے نیازی فقیر کی صفت ہے کیونکہ بہت ممکن ہے کہ کوئی شخص فقیر کو کوئی چیز دے اور وہ اس کو نہ لے کیونکہ لینا اس پر واجب نہیں ہے اور غنی اگر نہ دینا چاہے تو ممکن نہیں ہے کیونکہ دینا اس پر واجب ہے
بموجب آیت شريف ” و آتوا الزكوة ” اور زکوٰۃ ادا کرو (سورۃ منافقون) اور انفقوا مما رزقنا كم ” سورة البقره )
اور خرچ کر دو اس چیز کو جو ہم نے تم کو بطور روزی کے دی ہے)
8۔ اگر فقیر ہاتھ میں کچھ نہ رکھتا ہو اور دل میں بھی کسی چیز کا خواہاں نہ ہو تو وہ فقیر اچھی صفات والا ہے ۔ اگروہ کہے گاکہ فقر میرا فخر ہے تو وہ سچا ہے اور اگر فقیر ہاتھ میں کچھ رکھتا ہو مگر دل میں کسی چیز کا خواہاں ہو تو وہ محلے بھر کا فقیر ہے نہ کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے والا اگر وہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے والا ہوتا تو وہ نہ دل سے کسی چیز کا خواہاں ہوتا ہےاور نہ زبان ہے ۔ اور اگر فقیر ہاتھ میں کچھ رکھتا ہو اور پھر اور کاطلب گارہو تو بری صفات والا فقیر ہے جسکی نسبت ” الفقر سواد الوجه (روسیاہی) ارشاد ہوا ہے۔ یہ اسی کا مصداق ہے اور حدیث شریف میں ہے ۔ وکان الفقران یکون کفرا کہ فقر کفر تک لیجاتا ہے ۔ آپ کے فرزندار جمند نے آپ سے پوچھا کہ یہ حدیث الفقر سواد الوجه فی الدارین و کا دالفقران یکون کفرا ” کہ فقیری دو جہاں میں روسیا ہی ہے اور فقر کفر کو قریب کرتا ہے ۔
اس حدیث شریف الفقر فخری (فقر میرا فخر ہے) کے مخالف ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ وہ دونوں حدیثیں اس فقیر کی شان میں ہیں جو مخلوق کی طرف متوجہ ہویعنی وہ درویش جو فقر کو خلق پر ظاہر کرے اور خلق سے کچھ چاہے اور اپنے فقر کو آلہ گدائی ، اور کمانے کا ذریعہ بنائے یہ طریقہ حقیقت میں خدائے پاک کی شکایت ہے اور دنیا میں رسوائی ہے اور حق سبحانہ کی شکایت کفر ہے ۔ اور روز آخرت کی روسیا ہی ہے ۔( ایک اللہ والا اگر یہ رویہ اختیار کرے اور دوسروں کے مال میں طمع اور لالچ رکھے۔ اور اپنی درویشی کو دنیا کمانےکا ذریعہ بنائے تو یہ حالت فقر کے منافی ہے اور درویش کو الفقر فخری کے مطابق قانع زاہد اور بے طمع بن کر رہنا چاہئے۔)
9۔ فقیر کا ہاتھ غنی کے ہاتھ سے اونچارہتا ہے کیونکہ فقیر کا ہاتھ خدا کے ہاتھ کا غائب ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ الصدة تقع في كف الرحمن قبل ان تقع في كف الفقیر
صدقہ رحمان کے ہاتھ میں جاتا ہے فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے( اس کو اسلام سیوطی علیہ الرحمہ نے ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے نقل کیا ہے۔)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (سورۃ الفتح :10) ، خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھ کے اوپر ہے۔
10- اگر اللہ تعالی بندہ سے خطاب کرے کہ اے میرے بندے ! ہم سے کچھ طلب کر تو زندگی کی شرط یہ ہے کہ بندہ خدا سے سوائے خدا کے اور کچھ نہ مانگے کیونکہ جس نے خدا تعالی کو پالیا اس نے سب کچھ پالیا ۔ اور جس نے سب کو پایا اور خدا تعالی کو نہ پایا اس نے کچھ بھی نہ پایا۔
گر کسے ہست در محبت چست از خدا جز خدا نخواهد جست
(ترجمہ) جو شخص کہ خدا تعالی کی محبت میں چست ہے وہ خدائے تعالی سے بجز خدا تعالے کے کچھ نہیں مانگتا ۔ (اللهم اجعلنا منهم)
11۔ ایک عالم چالیس سال تک طالب علمی میں مشغول رہتا ہے اور مدرسے کی تکلیفیں برداشت کرتا ہے اور استاد کی خدمت کرتا ہے تب کہیں اس کو کچھ مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ مگر عارف چالیس سال تک فقر و فاقہ میں گزارتا ہے اور اپنے نفس کو ریاضت اور مجاہدوں میں ڈالتا ہے اور بلاؤں ، محنتوں اور تکلیفوں میں خوش رہتا ہے ۔ تاکہ خدا تعالے کی نظروں میں جگہ حاصل کرے۔ عالموں کو ان کا علم عزت اور مرتبہ تک اور اہل فقر کو (مذکورہ مجاہدہ نفس)، خداتک پہنچاتا ہے ۔ ہر درخت سے وہ میوہ نکلتا ہے جو اس میں مخفی ہوتا ہے ۔
از کوزہ مہماں تراود که درد است –
ترجمہ۔ ہر برتن سے وہی چیز ٹپکتی ہے جو اسمیں ہے –
12۔ اگر تو اگلی صف میں بیٹھے اور پچھلی صف والوں کے سے عاجزی کے خیالات رکھے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ تو پچھلی صف میں بیٹھے اور اگلی صف والوں کی تعلی کرے یعنی اگر چہ تو اپنی بزرگی اور مخدومی کے سبب صدر نشینی کی مسند پر بیٹھنے کے لائق ہے تیرے صفات خادموں کے سے ہوں۔ اور اپنے آپکو اپنے دل میں سب سے کم درجہ شمار کرے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ تو پچھلی صف میں بیٹھے اور اپنے آپکو مسند صدرنشینی کے قابل خیال کرے۔
13- بنده خدا تعالیٰ نہیں ہو سکتا مگر خدا تعالے کی صفات سے متصف ہو جاتا ہے آپکے فرزند جانشین خواجہ ابراہیم قدس سرہ نے آپ سے پوچھا کہ اس کلمہ کے کیا معنی ہیں کہ ۔ فقیر خدا کا محتاج نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فقیر اپنی حاجت کیلئے خدائے بزرگ وبرتر سے سوال نہیں کرتا کیونکہ خدائے عالم الغیب جب اس کی حاجت کو جانتا ہے تو پھر اس کو سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے
ایک شخص نے آپ سے پوچھا کہ بالغ شریعت کون ہے اور بالغ طریقیت کون ہے۔ آپنے فرمایا کہ بالغ شریعت وہ شخص ہے جس سے من نکلے اور بالغ طریقت وہ شخص ہے جو منی یعنی خودی سے نکل جائے ۔ درویش نے آپ کا یہ ارشاد سن کر سرزمین پر رکھا آپ نے فرمایا کہ زمین پر سر رکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو چیز سر میں رکھتے ہو یعنی خودی اسکو زمین پر رکھو
آپ کے فرزند خواجہ ابراہیم قدس سرہ نے آپ سے پوچھا کہ حضرت منصور علیہ الرحمہ نے کہا ۔ انا الحق” میں حق ہوں۔ اور حضرت بایزید علیہ الرحمہ نے کہا کہ لیس فی جبہتی سوی اللہ ” (میرے جبہ میں سوائے خدا کے اور کچھ نہیں ہے) اور یہ دونوں قول شرع شریف کے موافق نہیں ہیں۔ پس حضرت منصور رحمہ اللہ علیہ کوکیوں ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا۔ اور ان کی خاکستر کو ہوا میں اڑایا گیا اور حضرت بایزید رحمہ اللہ علیہ سے کچھ نہ کہا گیا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ فرق اس وجہ سےہے کہ حضرت منصور نے پہلے اپنی ہستی کو پیش کیا اپنے قول” انا سے ، اس لئے ان کو اس کا اثر پہنچا اور حضرت بایزید نے اپنی نیستی کو آگے کیا۔ اور کوئی لفظ نہیں کہا اس لئے وہ سلامت رہے ۔
حضرت عزیزان علی قدس سرہ سے کسی نے اس حدیث شریف کے معنی پوچھے ” تسافر واو تصحوا واغتنموا (سفر کروصحت پاؤ گے اور اس کو غنیمت جانو ) آپ نے ارشاد فرمایا کہ سفر کرو اپنی خودی سے وجود حق تعالے کی طرف تو صحت پاؤ گے حوادث حدوث سے اور اس کو غنیمت جا نو جب تم اپنے نفس کے عالم صحرا میں سفر کرو گے اور ہر مقام کی ہوائے لطیف حاصل کرو گے تو اپنے وجود کی صحت حاصل کر لو گے۔ پس شک اور شبہہ کے مرض سے ۔ ریا اور مکاری – حرص وامید بغض وکینہ – حسد و نفاق ، بخل و کبر ، عجب و خود پسندی ، خود نمائی و بداندیشی، آزار وستم، اور تمامی برے اخلاق کے رنجوں سے اس سفر کیوجہ سے رہائی پاؤ گے۔ پس ایسی صحت کو غنیمت سمجھو اور عمر چند روزہ کو طاعت و عبادت میں صرف کر و۔
حضرت عزیزان علی قدس سرہ سے کسی نے پوچھا کہ لوگ جو کہتے ہیں ۔ کہ مرد تین طرح کے ہوتے ہیں ۔ پورا مرد ، آدھا مرد ، اور نامرد ، اس کا مطلب کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ پورے مرد کی صفت کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے
رجال لا تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله (سورۃ نور ۳۷) وہ ایسے مرد ہیں جنکو اللہ کی یاد سے تجارت اور خرید و فروخت غافل نہیں کر سکتی ۔
آنحضرت ﷺ پر بھی یہی حال وارد تھا۔ جس کو آپ نے بیان فرمایا ہے کہ تنام عینائی ولا ینام قلبی (میری آنکھیں سوتی ہیں . میرا دل نہیں ہوتا ہے) آدھا مرد وہ ہے جس کے قلب میں ذکر قلبی کی بھی لذت آتی ہو مگر وہ اتنی ہی بات پر قانع ہوگیا ہو یعنی یہ کیفیت کہ جب تک اس کی زبان ذکر میں مشنول رہے اس کا دل بھی اس ذکر سے لذت پاتا رہے اور جب وہ ذکر کو چھوڑ دے تو دل بھی ذکر سے باز رہ جائے ۔ نامرد وہ ہے جو منافق ہو یعنی ذکر کرے مگر خدائے تعالیٰ کیلئے ذکر نہ کرے۔
حضرت عزیزان علی قدس سرہ سے پوچھا گیا کہ آنحضرت علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے که من اخلص الله تعالى اربعين صباحا ظهرت ينابيع الحكمة من قلبه على لسانه” (جو شخص چالیس دن تک صبح کو خالص خدا کیلے پورے اعتقاد کے ساتھ دل سے بے غش وغل روح کی آگاہی اور یقین کی درستی اور پوری توجہ اور رجوع سے خدائے تعالیٰ کیلئے عبادت کرے نہ کسی اور غرض سے تو حکمت کےچشمے اس کے دل سے نکل کر اس کی زبان پر جاری ہو جائیں گے بہت لوگوں نے اس پر عمل کیا مگر کسی کو یہ بات حاصل نہیں ہوئی ۔ اس کی کیا وجہ ہے حضرت عزیز ان علی قدس سرہ نے فرمایا کہ وہ لوگ اس راستے میں سچے نہ تھے۔ اور ان کا مقصود چالیس صبح کی بیداری سے یہی تھا۔ کہ حکمت کے چشمے ان کے دل سے انکی زبان پر آجائیں خالصتاً خدائے تعالے ان کا مقصود نہ تھا۔ اس لئے ان کا مقصد حاصل نہ ہوا۔
ایک شخص حضرت عزیز علی قدس سرہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ میرے حال پر توجہ فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا کہ بازار کو جا اور ایک لوٹا خرید کر بطور تحفہ ہمارے پاس پیش کرو ۔ اس نے ایسا ہی کیا آپ نے فرمایا کہ جب اس لوٹے پر میری نظر پڑے گی۔ تو تو بھی میرے پیش نظر ہو جایا کرے گا ۔
حضرت عزیزان علی قدس سرہ کی خدمت میں ایک جماعت عقلمندوں کی حاضر ہوئی اور آپ کی صحبت میں شریک ہوئی ۔ اثنائے کلام میں ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ علما چھلکا ہیں اورفقراء مغز
حضرت عزیز ان کی نے کہا کہ مغز چھلکے کی حمایت سے محفوظ رہتا ہے“
ایک روز حضرت عزیران علی قدس سرہ مراقبہ میں مشغول تھے سامنے میں ایک مدعی آیا اور اس نے بطور امتحان کے آپ سے پوچھا کہ تصوف کیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ اکھیڑنا اور ملنا یعنی غیر سے اکھیڑنا اور حق سبحانہ تعالے سے ملنا
ایک شخص نے تمسخر کے طور پر آپ کی شان میں کہا کہ عزیزاں ایک بازاری ہے یعنی سوت کی خرید و فروخت کیلئے بازار میں پھرتا رہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یار عزیزان یعنی خدائے تعالے کو زاری بہت پسند ہے پس عزیزان کیونکر بازاری نہ بنے، یعنی درگاہ الہی میں زاری دل کا اور درد و سوز و نیاز اور مسکینی کی بڑی چاہت ہے۔
آپ فرماتے تھے کہ جو شخص جانشین ہو اور اللہ تعالے کی طرف لوگوں کی رہنمائی کرتا ہو۔ اسے اس شخص کی طرح ہونا چا ہئیے جو جانور پالتا ہے کہ ہر ایک پرندہ کا پوٹا دیکھ کر اس کے مناسب غذا اسے دیتا ہے۔ اسی طرح مرشد کو بھی صادقوں اور طالبوں کی تربیت ان کی قابلیت اور استعداد کے موافق کرنی چاہئیے ۔
تجرید۔ آپ فرماتے ہیں کہ جس شخص میں دلی تجرید کی صفت نہ ہو وہ کسی مراد کو نہیں پہنچا لوگوں نے آپ سے کہا کہ تجرید معنوی کس چیز سے حاصل ہو سکتی ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ ایثارے ۔ پھر کہا گیا کہ ایثار کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ فرمایا کہ بر یعنی نیکی۔ کہا گیا کہ بر کیا چیز ہے آپ نے فرمایا کہ بروہ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے ” لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون ” (سورہ آل عمران) ہرگز نہ پاؤ گے تم بہشت کو یا دیدار الہی کو یا شفاعت پیغمبرعلیہ الصلواۃ والسلام کویا مغفرت حق تعالے سجانہ کو جب تک کہ تم ان چیزوں کو خرچ نہ کرو جن کو تم دوست رکھتے ہو
ہوا۔ آپ کا کلام یہاں تک ختم ہوا

تجرید کی قسمیں

واضح ہو کہ حضرت خواجہ کے کلمات کی شرح میں مذکور ہے کہ تجرید کی دو قسمیں ہیں۔ صوری و معنوی ۔

تجرید صوری

تجرید صوری کی بھی دو قسمیں ہیں ۔ اول یہ کہ کسی کے پاس ظاہراً مال واسباب ملک و منصب، مرتبہ اور اسباب، مکانات اور باغ ، غلام اور لونڈیاں اور اسی قسم کی کوئی چیز موجود نہ ہو اور بظا ہر وہ تعلقات دنیا سے آزاد ہو اور دل سے بھی وہ ان میں سے کسی چیز کا خواہاں نہ ہو۔ پس یہ پہلی قسم تجرید صوری کی ہے۔ تجرید صوری کی دوسری قسم یہ ہے کہ اشیا مذکورہ میں سے کوئی چیز اس کے پاس نہ ہو مگر دل اس کا ان چیزوں کا خواہشمند ہو ایسی تجرید کسی کو نفع نہیں دیتی ہے بلکہ ایسی تجرید والا شخص گدائے محلہ ہے اور وہ تجرید کہ درویش کے پاس کوئی چیز نہ ہو اور اس کا دل بھی اشیا مذکور کا خواہشمند نہ ہو تو یہ اس کو فائدہ مند ہے ۔ اور اس کو کشائش بخشے گی ۔ اور بہت سے اسرار اس پرمنکشف ہونگے۔

تجرید معنوی

یہ ہے کہ آدمی کا باطن تعلقات دنیاسے خالی ہو۔ کبر حسد، بغض وکینہ تکلف اور دکھلا وے، جھوٹ اور غیبت ، خود بینی و خود آرائی بخل اور تکلیف دہی، ظلم اور بد اندیشی وغیرہ برے صفات سے خالی ہو کیونکہ اس کا باطن تسبیح و تقدیس ۔ رحم و شفقت – علم و توکل – توحید و مراقبہ مجاہدہ و مشاہدہ، ذکر وفکر، طاعت و عبادت، صدق و اخلاص اور محبت و ذوق وغیرہ نیک صفتوں سے متصف ہو۔ ایسی تجرید اس کو مقصود کا راستہ دکھلاتی ہے جس کے بڑے نتائج ہیں۔ اگر کسی کے پاس ، املاک واسباب اور منصب و مرتبہ ومال وغیرہ سب چیزیں ہوں مگر اس کا دل ان چیزوں پر متوجہ نہ ہو اور ان چیزوں کی محبت سے اس کا دل خالی ہو۔ بلکہ ان چیزوں کو وصول بقا کا آلہ اور فنافی اللہ کے حصول کا ذریعہ بناتا ہو تو یہ بھی تجرید معنوی میں داخل ہے چنانچہ بہت سے حضرات انبیاء علیہم السلام اور اولیاءے کرام گذرے ہیں کہ جن کے پاس بہت کچھ مال مرتبہ ملک و اسباب موجود تھے مگر ان کے لئے یہی چیزیں قرب حق تعالی اور رضائے حق جل شانہ کے حصول کا سبب ہو گئیں، چنانچہ منقول ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل الله على نبينا وعليہ الصلوة والسلام کے پاس ستر کتے سونے کے پٹے پہنے ہوتے تھے جو آپ کی بکریوں کی چرواہے کیسا تھ مل کر حفاظت کیا کرتے تھے ۔ اب اس پر آپ کی دوسری ملکیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے آپ نے اس تمام دولت کو راہ خدا میں صرف
کر دیا جس کے واقعات طویل ہیں ۔
اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس بھی ملک مال، مرتبہ ، لشکر اور روئے زمین کی سلطنت تھی مگر آپکو یہ تمام چیزیں کبھی نقصان نہ پہنچا سکیں ۔ کیونکہ ان (حضرت سلیمان علیہ السلام) کو ان چیزوں سے ذرا بھی دلی محبت نہ تھی اور خدائے عز و جل کی دی ہوئی چیزوں کو رد نہیں کر سکتے تھے اس لئے تمام املاک اور اسباب کو آپ نے سعادت اخروی کا ذریعہ بنایا ۔ آپ بیت المال سے کچھ نہ لیتے تھے۔ بلکہ آپ زنبیل بن کراپنے کسی خادم کو بیچنے کیلئے دیتے تھے اور اس کی قیمت سے اپنی بسر اوقات کیا کرتے تھے ۔ یہ امر اس پر دلیل ہے کہ آپ کے دل میں مال اور مرتبہ کی محبت نہ تھی۔
اسی طرح حضرت سکندر ذو القرنین علیہ السلام کو بھی سلطنت اور دولت نقصان نہ پہنچاسکی کیونکہ انہوں نے کسی چیز کی محبت کو اپنے دل میں راہ نہ دی تھی۔ اور وہ ان سب چیزوں کو خدا کی ملکیت سمجھتے تھے۔ اس لئے انہوں نے درگاہ حق کا تقرب حاصل کیا ۔
اس طرح حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر قدس سرہ نہایت دولت و حشمت والے تھے در بہت کچھ تکلفات رکھتے تھے۔
چنانچہ منقول ہے کہ آپ نے اپنے گھوڑوں کے نعل سونے کے بنوائے تھے۔ لوگوں نے عرض یا کہ جو کچھ آپ نے کیا ہے عین اسراف ہے ۔ آپ نے جواب دیا کہ سونا بھی دنیا کی ایک چیز ہے اور دنیا کا پاؤں کے نیچے رہنا بہتر ہے۔ تجرید معنوی – مقصود اس تمام گفتگو کا یہ ہے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام اور اولیا کرام کا ذکر ہم کر چکے ہیں ۔ بظاہر دنیا دار تھے ۔ مگر تجرید معنوی انکو حاصل تھی اس لئے اپنی مراد کو پہنچے ۔
حضرت عزیزان علی قدس سرہ نے فرمایا کہ جس کسی کو تجرید معنوی حاصل نہ ہو وہ کسی طرح مقصود کو نہیں پہنچ سکتا۔
حضرت خواجہ نقشبند رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عزیران علی قدس سرہ نے ارشاد فرمایا کہ ایک گروہ کی نظر میں روئے زمین مثل دستر خوان کے پیش نظر ہے اور ہم یہ کہتے ہیں کہ بصورت ناخن ہے لہٰذا کوئی شے زمین کی ان کی نظروں سے غائب نہیں ہے
اس ارشاد فرمانے کے وقت حضرت عزیز ان علی قدس سرہ دستر خوان پر تھے
حضرت عزیزان علی فرماتے ہیں جب نمازتہجد میں تین دل جمع ہو جائیں تو مومن بندہ کا کام بن جاتا ہے دل شب ، دل قران ، دل بندہ مومن ۔ دل قرآن سورہ یسین اور دل شب آخر رات ہے۔
حضرت عزیز علی قدس سره قطب دقت ، شریعت اور طریقت کے مجدد اورحنقی المذہب تھے آپ متوجہ حق و دنیائے دوں سے روگردان تھے۔ اور صاحب تصرفات و کرامات عجیبیہ تھے جو شخص ایک روز آپکی صحبت میں رہتا وہ حقیقت کو پہنچ جاتا اور آپکی خدمت سے جدا ہونا نہ چاہتا تھا۔
سالک حضرت عزیر ان علی قدس سرہ کی ایک ہی صحبت میں حقیقت کو پہنچ جاتا اور حضور قلب حاصل کر کے واپس آتا ۔
حضرت عزیز ان علی قدس سرہ کے دو فرزند تھے ایک خواجہ محمد رحمۃ اللہ علیہ خواجہ خود کے نام سے مشہور تھے اس لئے کہ حضرت عزیزان علی قدس سرہ کے اصحاب حضرت عزیزان علی کو خواجہ بزرگ کہتے تھے اور خواجہ محمد کو خواجہ خورد . دوسرے فرزند حضرت خواجہ ابراہیم قدس سرہ تھے جنہوں نے اپنے پدر بزرگوار کے مقامات کو ایک رسالہ میں جمع کیا ہے ۔ اس کتاب (ر شحات میں جس سے اکثر مضا میں حضرت القدس میں مذکور ہیں ) اکثر واقعات اس سے منقول ہیں ۔ جب حضرت کا زمانہ وفات قریب ہوا تو خواجہ ابراہیم قدس سرہ کو اجازت و خلافت عطا فرمائی ۔ بعض اصحاب کے دل میں خطرہ گذرا کہ حضرت کے بڑے فرزند کے ہوتے ہوئے جو عالم اور عارف ہیں۔ خواجہ ابراہیم قدس سرہ کو جو چھوٹے فرزند ہیں ہدایت کیلئے کیوں پسند فرمایا گیا۔ حضرت عزیزان علی قدس سرہ کو ان کے اس خطرہ پر اپنی کرامت سے آگاہی ہوئی اور ارشاد فرمایا کہ خواجہ محمد ہمارے بعد زیادہ زندہ نہیں رہیں گے اور جلد ہی ہم سےملاقات کریں گے۔ حضرت کے ارشاد کے مطابق ایسا ہی واقع ہوا لہذا حضرت عزیز ان علی قدس سرہ کے انیس روز بعد خواجہ محمدکی وفات بروز پیر وقت چاشت 27ذوالحجہ715 ھ ستر سال کی عمر میں ہوئی اور خواجہ ابراہیم قدس سرہ نے اٹھتر 78 سال بعد اسی مہینہ میں 793ھ میں وفات پائی حضرت عزیزان علی قدس سرہ کی عمر شریف ایک سو تیس سال ہوئی اور آپ کی وفات بروز پیر 28ماہ ذوالحجہ 715ھ میں ہوئی آپ کی قبر مبارک خوارزم میں مشہور و معروف اور عوام و خواص کی زیارت گاہ ہے۔ حضرت علامہ بدرالدین قدس سره خلیفہ مجاز حضرت مجدد الف ثانی قدس سره نے آپکی دو تاریخ وفات مندرجہ ذیل نکالی ہے۔
دے سرگرده صوفیه بود(715ھ) بحر الاسرار بود (715ھ)
حضرت خواجہ عزیزان علی قدس سرہ کے خلفا میں آپ کے صاحبزادہ خواجہ ابراہیم، خواجہ بابا سماسی، خواجہ محمد کلاه دوز خوازمی ، خواجہ محمد صلاح بلخی اور خواجہ محمد بادروی خوارزمی ہیں قدس اللہ اسرار ہم
حضرت عزیزان علی رامیتنی قدس سره قدیم اکابر خواجگان نقشبندیہ میں سے تھے آپ نے قریب سات سو سال پہلے اپنے زمانہ میں لوگوں کی رہنمائی فرمائی۔ آپ بلند پا یہ عالم اور طریقیت کے سردار تھے۔
آپکے حالات ، واقعات و مقامات وارشادات سے لوگوں کو کم واقفیت ہے اور یہ چیزیں آجکل کی تصوف کی کتابوں میں کم پائی جاتی ہیں اس لئے آپ کے حالات وغیرہ اس مقدمہ میں قدرےتفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ اس رسالہ محبوب العارفين وسيلة الطالبین میں بھی آپکے گرانقدر اور زرین اقوال درج ہیں۔ اس لئے کیا ہے تاکہ مسلمین خصوصاً صوفی منش لوگوں کی ہدایت کا سب ہے۔

رساله محبوب العارفين وسيلة الطالبين

بسم الله الرحمنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله و رب الْعَلَمِينَ ، وَالصَّلوة عَلَى رسوله محمد واله واصحابه أَجْمَعِينَ .
اے خدا تعالی کے دوست ! اللہ تعالے تیرا صدق ، یقین دولت ، اقبال ، عزت و جلال زیادہ کرے ، تجھے جاننا چاہئے کہ اس تصوف و سلوک کی راہ پر چلنے والوں کیلئےدس شرطوں کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔

شرط اول

طہارت ہے لہٰذا با طہارت رہیں ۔ طہارت کی چار قسمیں ہے ہیں ۔( 1) طہارت ظاہر ۔ (2) طہارت باطن ۔ (3) طہارت دل اور (4) طہارت سِر۔
1 ۔طہارت ظاہر ، خاص و عام کو معلوم ہے ۔ لیکن پانی کے پاک اور حلال ہونے کے بارے میں حتی الامکان احتیاط کرنی چاہئے ۔ اور لباس کی پاکی میں بھی احتیاط درکار ہے ۔ کیونکہ اس کا دل پر بہت اثر ہوتا ہے ۔
2۔ طہارت باطن ، حرام لقمہ و حرام مشروبات ( حرام کھانے پینے )سے بچنا چاہئے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص حرام کا ایک لقمہ کھاتا ہے تو چالیس روز تک نہ اس کا فریضہ قبول ہوتا ہے اور نہ اس کی نفلی عبادت اور نہ ہی اس کی دعا قبول ہوتی ہے ۔
3۔ طہارت دل : نا پسندیده صفات بد باطنی ، خیانت، فریب، کینہ ،حسد ، مکر بغض عدادت اور محبت دنیا سے دل کو پاک رکھنا چاہیئے ۔
بندہ کا ظاہر جو منظورِ نظر خلق ہے وہ جب تک پاک نہ ہو تب تک اس کی نماز و طاعت قبول نہیں ہوتی ۔ پس دل جو منظور نظر خالق جل شانہ ہے جب تک وہ پاک نہ ہو تب تک وہ محبت اور عشق الٰہی کی دولت سے مشرف نہیں ہوتا۔ 4۔طہارت سِر یہ ہے کہ ہر دقت غیراللہ سے ہٹاکر اللہ تعالی کیطرف دل کو متوجہ رکھیں۔

شرط دوم

زبان کی خاموشی ہے ۔ لہذا زباں کو نا شائستہ کلام سے روک رکھیں۔ اور اسے تلاوت قرآن مجید ، امر معروف و نہی منکر ، لوگوں کی اصلاح علم دین سیکھنے اور سکھانے میں مشغول رکھنا چاہئے ۔
حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ! هَلْ يُحِبُّ النَّاسُ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ فِي النَّارَ الأَحْصَائِدَ الْسِنَتِهِمُ.
ترجمہ : لوگوں کو منہ کے بل دوزخ کی آگ میں نہیں گرایا جائیگا مگران کی زبانوں کی کاٹ چھانٹ یعنی دروغ گوئی کے سبب سے ۔
رباعیات
ایزد چو بنا کردبحکمت تن و جاں در ہر عضوے مصلحتے کرد نہاں ۔
گر مفسدی ندیده بود ے ز زبان محبوس نمی کرد ، بزندان وہاں
یعنی اللہ تعالے نے جب اپنی حکمت کا ملہ سے بدن و جاں کو بنایا ۔ تو بندے کے ہر عضو میں اپنی حکمت و مصلحت کو پوشیدہ رکھا ۔ اگر زبان میں کوئی مضر چیز دیکھنے ہیں نہ آئی ہوتی تو اسے منہ کے قید خانے میں بند نہ کیا جاتا۔
جب حضرت مریم علیہاالسلام نے خاموشی اختیار کی تواللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو بچپن میں بولنے کی طاقت عطا فرمائی ۔ اور آپ نے کہا۔
اني عبد الله اتنى الكتب(مریم آیت 29)
ترجمہ : بے شک میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب دی ہے ۔
جب حضرت مریم علیہا السلام کی زبان نے خاموشی اختیار کی ، تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام سے گفتگو کرائی ۔ اس حقیقت کو عجیب و غریب نہ سمجھیں ۔
تا مریم تن غرقه قدسی نگزید ٍ با نفحہ احیا چو مسیحا نتوان بود
یعنی جب تک حضرت مریم علیہا السلام نے اپنے آپ کو عبادت الہی کے پاک بحر میں مستغرق نہ کیا ۔ تب تک اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام کی پھونک سے حمل نہ ٹھہرا اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا نہ ہوئے۔
حدیث شریف میں وارد ہے کہ جنتی (قیامت کے دن جنت میں داخل ہونے سے پہلے) کسی چیز سب سے زیادہ حسرت نہیں کریں گے، مگر اس گھڑی پر جوان پر بغیر ذکر اللہ تعالیٰ کے گذری ہوگی ۔ (حصن حصین) یا ( جس گھڑی میں حضرت رسول کریم ﷺ پر درود شریف نہ پڑھا ہوگا ۔ (مکاشفتہ القلوب امام غزالی )

شرط سوم

خلوت و گوشہ نشینی اختیار کرنا ہے تو خلق نادیدہ (غیر واقف لوگوں ) سے علیحدہ رہیں اور ” زنان نامحرم ” نامحرم عورتوں) پر بھی نظرنہ ڈالیں۔ کیونکہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ غیر محرم عورت کی طرف نظر کرنا ایک زہر آلودہ تیر ہے لہذا جب یہ تیر دل میں چبھے گا تو وہ سوائے ہلاک کرنے کے اور کیا کرے گا ؟ نیز حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ

النَّظُرُ سَهُم مَّسْمُومَةً مِّن سَهَامِ ابليس
ترجمہ : نظر (نگاہ) شیطان کے زہر آلودہ تیروں میں سے ایک تیر ہے ۔
شعری زتیر مکر شیاطین بد بیوش دو چشم ہلاک گردی اگر تیر کارگریابی
یعنی بدکار شیطانوں کی نظر کے مکرو فریب کے تیر سے (غیر محرم کو دیکھنے سے ) اپنی دونوں آنکھیں بند رکھ۔ اگر غیر محر م کی طرف نظر کر نیکا کارگر تیر ترے دل میں چبھ گیا تو تو ہلاک ہو جائیگا ۔ (اس سے تیری تباہی ہو جائے گی ) نیز جیسے نامحرم عورتوں کی طرف نظر کرنی حرام ہے ۔ دیسے ہی امردان خوبصورت (باریش خوبصورت لڑکوں) کی طرف نظر نہ کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہ بھی حرام ہے۔
نیز عورتوں کو بھی غیر محرم مردوں کو دیکھنے کی ممانعت ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
وقل للمومنت يحفظن من ابصارهن ويحفظن فروجهن (النور آیت :21)
ترجمہ : اور ایمان والیوں کو کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں۔
منقول ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ایک درویش کو روٹی دینے کیلئے باہر آئیں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ باہر کیوں آئی ہو، وہ درویش ایک مرد ہے حضرت ام المومنین نے عرض کی کہ وہ درویش اندھا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایاکہ اگر وہ نا بینا ہے مگرتم تو بیناہو یعنی اس کو دیکھ سکتی ہوں لہذا پردہ کرناچاہیئے
اب جو جو شخص غیر محرم کو دیکھنا حلال جانے یا اس کا جواز رکھے اس کے کفر کا خوف ہے
دیگر فائده عزلت (گوشه نشینی) کا :
ہاتھوں کونا شائستہ (نامناسب اور بے جان چیزوں کے پکڑنے سے روکے رکھنا ہے ۔ اور پاؤں کو بے جا جگہوں پر جانے سے روکنا ہے۔ اور کانوں کو نا شائستہ باتیں سننے سے دور رکھنا ہے اور نفس جو دشمنوں میں سے سب سے بڑا دشمن ہے اس کو برائی سے روکنا ہے اور غیب کے دروازوں کا دل پر کشادہ کرنا ہے ۔
فائدہ دیگر:
نقوش دنیا (دنیاوی خیالات) کو آئینہ دل سے دور کرنا ہے تا کہ دل اچھی طرح صاف ہو جائے اور اس پر نور وحدانیت ” کا پر تو پڑے ۔ اور جلوہ الہی کا اہل ہو جائے اور وہ فریاد کرے ۔
رباعی
زاں مے خوردم کہ روح پیمانہ اوست مستے شده ام کہ عقل دیوانہ اوست
دود سے بمن آمد و آتشی در من زد زان شمع کہ آفتاب پروانہ اوست
یعنی میں نے شراب محبت وہاں سےپی ہے ، میری روح جس کا پیمانہ ہے۔ میں اس شراب محبت سے مست ہو گیا ہوں کیونکہ میری عقل اس پر فریقتہ ہے.دہ شمع کہ جس کا پروانہ آفتاب ہو اس سے میری طرف دھواں آیا اور اس نے
میرے اندر آگ لگادی ۔

شرط چہارم

روزہ ہے۔ روزہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس سے روحانیاں” (فرشتوں) کے ساتھ مشابہت ہوتی ہے۔ اور نفس امارہ (برائیوں کی طرف رغبت دینے والا نفس) پر غلبہ ہوتا ہے۔ یہ بھی روزہ کی خصوصیت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے (حدیث قدسی) میں فرمایا
الصومُ لِي وَأَنا اجزی بہ ۔ روزہ میرے لئے اور میں ہی اس کی جزا دونگا ۔
لہذا روز ے کا بڑا ثواب ہے۔
إِنَّمَا يُوَلَّى الصَّبِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ (الاحزاب آیت ۱۱)
ترجمہ : بے شک صبر کرنیوالوں کو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔ –
روزہ شیطان کی راہ میں رکاوٹ ہے اور شیطان کے شر سے بچنے کیلئے ڈھال ہے

الصَّومُ جُنَّهُ مِنَ النَّارِ
ترجمہ : روزہ دوزخ کی آگ سے بچاؤ کیلئے ڈھال ہے ۔
روزہ سے بھوکوں کا احساس ہوتا ہے ۔ اور ان کو صدقہ وخیرات دینے کی ترغیب ملتی ہے۔ روزہ دار کو دو خوشیوں کی بشارت ہے یعنی روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک خوشی اسے روزہ کھولتے وقت ہوتی ہے اور دوسری خوشی اُسے تب حاصل ہو گی جبکہ وہ (قیامت کے دن) اپنے رب تعالے سے ملاقات کرے گا ۔
روزہ سے بدن کی صحت حاصل ہوتی ہے ۔ نیز روزے کے اور بھی بے شمار فائدے ہیں۔ روزه خصوصا ماہ رمضان کے فرض روزوں کے بعد ) ماہ رجب ، ذو القعدہ ، ذو الحجہ اور محرم کے ایام متبرکہ کے روزے رکھے جن کے بارے میں صحیح حدیثوں میں مذکور ہے ۔
حدیث صحیح اسناد کے ساتھ راوی نے روایت کی ہے اور فرمایا ہے کہ میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے فلاں شخص سے نہ سنا ہو کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ماہ حرام کے چار مہینوں میں ، ( نفلی روزوں کے بارے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے باقی سب مہینوں میں سے چار مہینوں ذوالقعدہ، ذوالحجہ محرم اور رجب کو زینت بخشی ہے مکاشفۃ القلوب امام غزالی ) ، تین روز ے جمعر ات جمعہ اور ہفتہ کے دنوں کے رکھے ۔ تو سات سو سال کی عبادت کا ثواب اس کے اعمال نامہ میں لکھا جاتا ہے(من صام ثلاثة ايام من شهر حرام كتب له عبادة سبع مأنته سنة) ۔ اللہ کی توفیق سے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ۔
(حدیث میں ہےجس نے 27 رجب کو روزہ رکھا اس کیلئے ساٹھ مہینوں کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے
جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر کچھ روز سے شوال کے بھی رکھے تو گویا اس نے تمام عمر کے وزے رکھے ۔
عرفہ کے دن (9 ذو الحجہ ) کا روزہ رکھنے سے ایک سال پہلے اور ایک سال آئندہ کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
محرم کی دسویں کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔ آپ نے دس محرم کا روزہ رکھا اور فرمایا اگر اگلے سال تک زندہ رہا تونو محرم کو بھی روزہ رکھوں گا۔
شعبان کے مہینے میں حضور کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے ۔آپ نے حضرت ابوہریرہ کو جن تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھے ۔
ہر ماہ کی تیرہویں، چودہویں، اور پندرہویں کے روزے ایام معین کے روزے ہیں۔ ان کا ثواب ایسا ہے جیسے کسی نے تمام عمر روزے رکھے ۔ )

شرط پنجم

اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ اور سب سے افضل ذکر لا اله الا اللہ ہے
نظم فارسی
بر تخت وجود هر که شاهنشاه است اوراسوٹے عالم حقیقت راه است.
یعنی : جس شخص کا اپنے وجود پر قبضہ ہے۔ اس پر اس کی حکومت ہے اُسے شرعی اوامرپر چلاتا ہے اور مناہی سے روکتا ہے اس کے دل کو عالم حقیقت کی طرف راستہ ملتا ہے۔
ہر نور یقین که در دل آگاه است دستش ز بد و نیک جہاں کوتاه است
یعنی ہر وہ شخص جس کا دل نور یقیں سے آگاہ ہے ۔ (اللہ تعالیٰ اور حضرت رسول کریم ﷺ کی سب باتوں کو بلا چوں و چرا سمجھ آئیں یا نہ آئیں۔ سچا مانتا ہے)
اس کے ہاتھ دنیا کے نیک وبد سے واسطہ نہیں رکھتے۔
زیں پیش کردر او بود ہزار اندیش اکنوں ہمہ لا اله الا الله است
یعنی دل میں نور یقین حاصل ہونے سے قبل میرے دل میں ہزاروں اندیشے تھے ۔ مگر اب وہ یقین کی بدولت سب مٹ گئے ہیں۔ اور اب صرف دل میں ایک ہی خیال ہے۔لا الہ الاللہ (اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں) کا ہے۔
اے خواجہ ترا غم جمال و جاه است اندیشه باغ و راغ دخرمن گاه است
یعنی (اس کے برعکس )اسے دنیا دار ! مجھے صرف دنیاوی چیزوں ، جمال وجاہ، باغ و کھیت ، چرا گاہ اور غلے کا غم دامن گیر رہتا ہے ۔ تیرا غم صرف دنیاوی مال و اسباب تک محدود ہے تجھے آخرت کا خیال نہیں۔

ما سوختگان عالم تجریدیم. ما را غم لا اله الالله است
یعنی ہم دنیا سے دل برداشتوں کی حالت نرالی ہے ۔ ہمیں ایک ہی غم و فکر لا الہ الاللہ دامن گیر ہے کہ ہمارا رب تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے۔
یاد رکھیں کہ) مرغ فکر متوجہ الی اللہ ر بنے کی فکر کے دو بال و پر ہونے چاہیئں تاکہ پر کھولے اور پھر پرواز کرے ۔ کیونکہ ! إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ ( فاطر آیت10)
ترجمہ : اس کی طرف سب نیک باتیں چڑھتی ہیں۔
ان مذکوره دو پروبال میں سے ایک پر ” حضور کا اور دوسرا اخلاص کا ہے ۔
اور یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ حضور آگا ہی کو کہتے ہیں۔ کہ بندہ جان لے کہ اللہ تعالے داناو بینا وشنوا ” (سب کچھ جاننے والا ، سب کچھ دیکھنے اور سب سننے والا ہے) وہی بلند وپست کر نیوالا ہے ۔ اور اخلاص یہ ہے کہ اپنے کردار و گفتار ” (اعمال صالح) کیوجہ سے دنیا کی طلب نہ کرے نہ جاہ و مال اور نہ کسی اور چیز (جس کا تعلق دنیا سے ہو) کی طلب کرے ، اور نہ ہی ان اعمال کی بدولت آخرت کی نعمتوں ، جنت ، حور و قصور ، نہروں، درختوں اور پھلوں کا طالب بنے۔
( یعنی اپنے نیک اعمال کیوجہ سے جنت اور اس کی نعمتوں کا طالب بھی نہ ہے۔ کیونکہ اعمال صالح بار آور ہوں ۔ اس کیلئے اللہ تعالیٰ کے فضل درحمت کا بندہ محتاج ہے اور بغیر اس کی رحمت اور فضل کے نیک اعمال نجات کیلئے کافی نہیں حقیقت میں نجات کا ذریعہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ جس کے مستحق ایما ندارو اعمال صالح بجالانے والے ہیں۔
بقول حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہ کے ہمیشہ نیک عملوں اور نیتوں کو تہمت زده جانیں اگر چہ وہ صبح کی سفیدی کی طرح روشن ہوں۔ (از مکتوب 171۔ دفتر ادل) ۔
لہذا اپنے اعمال کے متعلق یہ خیال رکھنا چاہئے کہ کیا خبر کہ وہ قابل قبول ہیں یا نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے محض اس کے فضل وکرم سے جنت مانگتے رہنا چاہئے ۔ اور دین و دنیا کی عافیت بھی طلب کرتے رہنا چاہئے ۔
گرچه دصالش نه بگوشش دهند ہر قدر اے دل کہ توانی بکوش)
ذکر کے درمیان کہتا رہے ؟ یا الہی مقصود من توئی از تو ترا می خواهم ، یا اللہ تو ہی میرا مقصود ہے میں تجھ سےتجھ ہی کو مانگتا ہوں)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لا اله الا اللہ کہتا ہے اس کے منہ سے ایک سبز پر ندہ نکلتا ہے ۔ اس کے بال سفید ہوتے ہیں۔ اس کے سر پر سونے اور یا قوت کا تاج ہوتا ہے ۔ وہ آسمانوں سے گذر کر عرش پر جاتا ہے اور وہاں شہد کی مکھی کی طرح بھنبھناہٹ کرتا ہے اسے حکم دیا جاتا ہے کہ خاموش رہ ، وہ کہتا ہے کہ کیسے خاموش رہوں۔ جب تک کہ میرے پڑھنے والے کو بخش نہ دیا جائے ۔ اللہ تعالیٰ اس پرندہ کو فرماتا ہے کہ میں نے اس کلمہ پڑھنے والے کو بخش دیا۔ اب تو خاموش رہ اور اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ فرشتو تم بھی گواہ رہو کہ جس گنا سگار کی اس پرندہ نے سفارش کی ہے۔ میں نے اس کی خطائیں مغفرت کے پانی سے دھودی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس پرندہ کو ستر زبانیں عطا فرماتا ہے ۔ تا کہ وہ اس لا الہ الا اللہ پڑھنے والے کی بخشش مانگے ۔ جب قیامت کا دن آئے گا۔ جس پر ہمارا ایمان واعتقاد ہے اور اسے برحق مانتے ہیں ۔ اس دن وہ پرندہ آئے گا۔ اور کلمہ پڑھنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اڑا کر بہشت میں لے جائیگا۔ مگر یہ اس شخص کیلئے ہوگا۔ جس کا ہاتھ پکڑنے کی اللہ کی طرف سے اجازت ہوگی۔ چنانچہ تیر بادشاہ کے ترکش ( تیردان) سے لینا چاہئے۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو تیردان کو پکڑ لینا چاہیئے
یعنی تعلق باللہ قائم کریں اور ذکر زیادہ کریں اللہ تعالی نے فرمایا ہے ۔ يايها الذين آمَنُوا اذكرو الله ذكراً كثيراء
(الاحزااب، 42)
ترجمہ : اے ایمان والو ! اللہ کو بہت یاد کرو۔
حدیث میں وارد ہے کہ (بندہ) ہر روز ہزاروں سانس لیتا ہے ۔ اسے ہر سانس کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ کہ کس حال میں اندر لیا تھا اور کس حال میں اسے باہر نکالا تھا۔ رہائی
ز ہر نفس بقیامت شمار خواهد بود. گنه مکن که گنہ گار خوار خواهد بود
بسا سوار که فردا پیاده خواهد شد بسا پیاده که فردا سوار خواهد شد

یعنی قیامت کے دن ہر سانس کے بارے میں حساب کتاب ہو گا کہ اسے غفلت میں گذارا تھا یا متوجہ الی اللہ رہ کر فرائض عبودیت کی بجا آوری میں گذارا تھا۔ لہذا کوئی گناہ نہ کرو قیامت کے دن گناہ گار خوار و ذلیل ہو گا۔ اس دن بہت سے سوار ( دنیا کے خوش حال لوگ) جو ذکر الہی سے غافل تھے ۔ پیادہ ہوں گے ان پر اللہ تعالے ناراض ہو گا۔ اور بہت سے پیادے (جو کہ دنیا میں خوش حال نہ تھے )۔ اور ذکر الہی میں لگے رہتے تھے۔ وہ سوار ہوں گے۔ ان کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی ۔ لہذا بندے کو چاہئیے کہ ان سانسوں کی قضا کرے جو بے فائدہ گزر گئے ہیں۔
یہ ایک راز ہے جب تک کوئی شخص بیعت نہ کرے اس کو بتایا نہیں جاسکتا
سرّے کو با تو دارم در نامه چون نویسم اسرار فاش گرد از کلک سر بریده
یعنی تجھے روبرو بتانے کیلئے میرے پاس ایک راز ہے ۔ وہ خط میں کیسے لکھا جائے کیونکہ کلک (قلم کا نیزہ )کے سر پر قط دیتے ہوئے قلم کے لکھنے سے وہ راز ظاہر ہو جائے گا۔
( آپ ہی کا قول ہے کہ درویشیوں کیلئے ہر سانس آخری سانس ہے ۔
غفلت از یاد حق مکن اے جان پر نفس را دمے تو آخر دان
میری جان اللہ تعالیٰ کی یاد سے غفلت نہ کرو ہر سانس کو آخری سانس سمجھو۔)

شرط ششم

نگاهداشت خاطر ہے اور اس کی چارقسمیں ہیں۔
1۔خاطر رحمانی –
2۔ خاطر ملکانی –
3۔ خاطر شیطانی –
4۔ خاطر نفسانی اور
خاطر رحمانی غفلت کیلئے تنبیہ ہے خاطر ملکانی میں طاعت کی ترغیب ہے خاطر شیطانی میں تزئین معصیت (نافرمانی کی زینت کرنا) ہے۔
اور خاطر نفسانی میں شہوت کا مطالبہ ہے نیز سلوک کی راہ پر چلنے والے کو چاہیئے کہ ذکر کرتے وقت جو خاطر (دل میں خیال) پیدا ہو ۔ اس کی نفی کرے ۔ اور اپنے ذکر کے کام میں لگا ر ہے ، تاکر اسے یہ بات روشن ہو جائے کہ وہ خاطر قبول کرنے کے لائق ہے یار د کرنے کے قابل ہے ۔ اگر اس کی تمیز نہ کر سکے تو کہے ، یا اللہ تو وہ جانتا ہے جو میں نہیں جانتا ۔ اور میں جانتا ہوں کہ تو وہ جانتا ہے جس کی مجھے خبر نہیں ، جو کہ تیری نظر میں بہتر ہے ، وہ کرامت فرما۔
یہ دعا پڑھے۔
بِسمِ اللهِ الرَّحمنِ الرَّحِيمِ اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتَّبَاعَهُ وار نا الباطل بَاطِلاً وَ رُزُقُنَا اجابة لا ا كَلْنَا إِلَى الْفُنَا طُرْفَةَ عَيْنٍ وَلَا أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ وَكُنْ لَنَا وَاليَّا وَ حَافِظاً وَ نَاصِراً وعدنا وَ مُعِينَا وَ عَلَى كُلِّ خَيْرٍ دَلِيلاً لَا مُلَقِنَا وَمُؤَيَّدًا، رَبَّنَا آتِنَا وَمَنْ حَضَرُنَا وَمَنْ غَابَ عَنَّا وَكُلَّ مُؤْمِنُ وَمُؤْمِنَةٍ فِي النَّارَينِ حَسَنَةٌ يا واسع المغفرة وَيَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ
ترجمہ یا اللہ ہمیں حق کو حق ہی دکھا ۔ اور ہمیں اس کی پیروی کی توفیق عطا فرما۔ اورہمیں باطل(جھوٹ) کو باطل ہی دکھا۔ اور ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں ہمارے نفس کے حوالے آنکھ جھپکنے یا اس سے کم جتنا نہ کر۔ اور ہمارا والی نگہبان، مددگار اعانت کرنیوالا ، اور معین بن جا۔ اور ہر بھلائی میں رہنمائی کرنیوالا تلقین کرنیوالا اور تائید کر نیوالا بن جا۔ یا ہمارے رب ہمیں اور ان کو جو ہمارے پاس موجود ہیں اور وہ جو ہمارے پاس سے غائب ہیں اور ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کو دونوں جہانوں میں بھلائی عطا فرما۔ کشادہ مغفرت دالے اور سب سے زیادہ رحم کر نیوالے ، (آمین)

شرط ہفتم

اللہ تعالیٰ کے حکموں پر راضی رہنا چاہئے ۔ اور تو کل و تفویض (اللہ تعالے پر بھر دسہ کرنا اور اپنے کام اس کو سونپ دنیا ) اسی باب میں سے ہے اور ظاہر و پوشیدہ اور سختی و خوشحالی اور سب احوال میں خوف ورجا (خوف وامید) کے درمیان رہے ۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی کریمی، رحیمی، غفوری وستاری پر نظر کرے ۔ تاکہ رجاء (امید) کو تقویت ملے۔ اور جب اس کی قہاری اور شدید العقابی (سخت عذاب دینے) پر نظر کرے تو خوف کو تقویت حاصل ہو۔
جب اس کی توفیق پر نظر کرے تو بندے کو رجا دا مید پیدا ہو کیونکہ جب اللہ تعالے نے اسے چاہا ہے تو اسے نیک اعمال بجا لانے کی توفیق دی۔ اگروہ نہ چاہتا تو، توفیق عطا نہ فرماتا
توفیق عزیزست بہر کس ندہند دیں گوہر نا سفتہ بہر حس ندہند
یعنی اللہ تعالے کے ذکر و عبادت کی توفیق بہت پیاری چیز ہے ۔ وہ ہر ایک کو نہیں دیتے ۔ وہ تو گوہر ناسفتہ (بہت قیمتی موتی ) ہے جو ہر خسیس کو نہیں دیتے۔
نیز بندہ جب اپنی تقصیر وں پر نظر کرے تو اس کے دل میں خوف پیدا ہو گا۔
قطعہ
بندہ ہماں پہ کہ از تقصیر خویش ۔ عذر بدرگاه خدا آورد
در نه سزاوار خدا وندیش کس نتواند که بجا آورد
یعنی ، بندہ وہ بھلا ہے ، جو اپنی تقصیروں کا عذر اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں پیش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قبولیت کے لائق کسی سے اس کی عبادت و فرمانبرداری نہیں ہو سکتی ۔ نیز بندے کی بھلائی دنیا میں اس بات میں ہے کہ خوف ورجاء کے درمیان رہے اور سب احوال میں ، اگرچہ اللہ تعالے کی طاعت ہی ہو ، اس سے بے خوف نہ رہے ، (کیا خبر طاعت قابل قبول ہے یا نہیں)
اگر کوئی گناہ ہو جائے تو اس کے در سے نا امید نہ ہو بلکہ اس کا تدارک کرے، اور فورا توبہ واستغفار کرے
بیت
ایمن مباش خواجه د نومید هم مشو اسلام در میانه خوف در جا بود
یعنی اے خواجہ ! تو بے خوف نہ رہ اور نا امید بھی نہ ہو ۔ کیونکہ اسلام تو خوف ور جا کے درمیان ہے۔

شرط هشتم

نیکوں کی صحبت اختیار کرنی ہے اور مفسدوں کی صحبت سے دور رہنا ہے کمزوروں ۔ (عورتوں) کو حجاب (پردہ) میں رہنا چاہئے ، تاکہ ان کی نظر نا محرم پر نہ پڑے ۔ اور نہ ہی نا محرم کی نظر ان پر پڑے ۔ عزیزان علی کا کلام یہ ہے ۔
رباعی
با هر که نشستی و نشد جمع دلت روز تونر هید رحمت آب وگلت
از صحبت او اگر تبرا نکنی ہرگز نکند روح عزیزان بجلت
یعنی تو جس شخص کے ساتھ بیٹھے اور اس کی صحبت سے اگر تجھے دل کا سکون اور اطمینان حاصل نہ ہوا اور تجھ سے آب وگل ( بری خصلتیں ) نہ چھوٹیں، تو اگر تو ایسی صحبت کو نہ چھوڑے گا ، تو عزیزان علی کی روح تیری یہ غلطی معاف نہ کریگی ۔

شرط نہم

بیداری (جاگنا) ہے۔ اس کے بہت فائدے ہیں
اول ، تَخَلَقُوا يَا خُلَاقِ الله اپنے آپکو اخلاق اللہ کاتخلق بناؤ اللہ کے ایک وصف ہے
لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلانوم : نہ اس کو اونگھ دبا سکتی ہے اور نہ نیند۔
فرد؎
گفتم بچه خدمت بوصالت برسم گفتار کہ تخلوا بِاخْلَاقِ اللهِ
یعنی میں نے عرض کی یا اللہ) میں کس خدمت سے تیرے قریب کے درجے کو پا سکتا ہوں۔ تو فرمایا کہ اپنے آپکو اخلاق اللہ سے متصف کرو۔
رات اللہ تعالے سے محبت کرنیوالوں کا خلوت خانہ ہے کہ اس بے نیاز سے ، اللہ کے بندے غیروں کی تشویش کے بغیر، راز دنیا ز پیش کرتے ہیں ۔
رباعی
از صبح وجود بے خبر بود عدم آنجا که من و عشق تو بودیم بهم
در روز اگر کسے نیا بم محرم شب ہست و علمت ہست مرا پیش چہ غم
یعنی عدم میں میں اور تیرا عشق اکھٹے تھے وہاں صبح ہونے کی کوئی خبر نہ تھی۔ اب اگر صبح ہو گئی ہے اور کوئی محرم نہیں ملا تو اس بات کا مجھے کوئی علم نہیں کیونکہ میرے سامنے گذشتہ رات آنیوالی رات کا خیال اور تیرا غم موجود ہے ۔
اس راہ کے سالکوں کو ہر دولت و سعادت جو ملی ہے وہ شب بیداری (رات کو عبادت کیلئے جاگنے) سے ملی ہے۔
فرد.
دولت شب گیر خواهی خیز و شب را زنده دار خفته نابینا بود دولت به بیداران رسید
یعنی اگر تو رات کو جاگ کر عبادت گزاروں کی دولت اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور اس کے انعامات حاصل کرنا چاہتا ہے تو رات کو جاگ کر عبادت کر۔ کیونکہ غافل سونیوالا اندھا ہے اور یہ دولت ( عبادت کیلئے ) رات کو جاگنے والوں کو ملتی ہے ۔

شرط دہم

لقمہ کی حفاظت ہے۔ لقمہ حلال وپاک ہونا چاہئے ۔ سب فرائض میں سے ایک فریضہ یہ بھی ہے اللہ تعالی نے فرمایا ہے ۔
ياتهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا –
ترجمہ :۔ اسے لوگوں ان چیزوں سے کھاؤ جو زمین میں حلال وپاکیزہ ہیں۔
2۔اور حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ عبادت کے دس جزء ہیں نوجزو حلال روزی طلب کرنے ہیں ہیں باقی ساری عبادت ایک جزو ہے۔ اور حلال وہ ہے جس کو حاصل کرتے وقت اللہ تعالے کا گنہ گار نہ بنے اور پاک وہ ہے جس کا کھانا اس نیت سے ہو کہ طاعت کیلئے طاقت حاصل ہو ۔ جب روزی حلال و پاک حاصل ہو تو اس میں اسراف نہ کرے، شعر
گرچه خدا گفت کلو و اشر بوا از پئے آن گفت ولا تسرفوا
یعنی اگر چہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ کھاؤا اورپیو مگر اس کے بعد یہ بھی فرمایا ہے کہ اسراف نہ کرو اور جب کھانا کھائیں تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کے ساتھ اور غفلت سے کھانا ایسا ہے جیسا کہ بغیر بسم اللہ پڑھتے ذبح کئے ہوئے جانور کا گوشت کھانا منع ہے۔
وَلَا تَا كُلُوا مِمَّا لَمْ يَذْكَر اسم اللهِ عَلَيْهِ
ترجمہ ، اور جس چیز پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا اس میں سے نہ کھاؤ
ظاہراً آیت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ جب کھاؤ تو غافلوں کے ساتھ مل کر نہ کھاؤ۔
قطعہ
نشین با بدان که صحبت بد گرچه پاکی ترا پلید کند
آفتابے بدان بزرگی را ذرہ ابر ناپدید کند.
یعنی بدوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔ اگر تو پاک بھی ہوگا تو وہ تجھے پلید کر دیں گے آپ دیکھتے ہیں بادل کا ذرہ سا ٹکڑاسورج کو ، اتنا بڑا ہونے کے باوجود چھپا دیتا ہے ۔
فرد
گوهر از ناقصان رہ مطلب زاں کہ ایں مایہ کا ملی دارد.
یعنی سلوک اور تصوف کے جواہر اس راہ پر چلنے والے ناقصوں سے نہ مانگو۔ یہ جواہر، کامل پابند شریعت بزرگوں کو حاصل ہیں۔ نا قصوں کو چھوڑ کر ان کی خدمت میں رہ کر سلوک حاصل کرو.
نیز چاہیئے کہ کھانا پکانے والا کھانا پکاتے وقت با طہارت (وضو کے ساتھ) ہو اور ذکر کر نیوالا ہو۔ تا که خوراک غفلت اور تاریکی کا سبب نہ بنے۔
حضرت خواجہ خضر صلوات الله علیہ وسلامہ ، خواجہ خواجگاں حضرت خواجہ عبد الخالق غجد وانی قدس اللہ تعالیٰ روحہ کے پاس تشریف لائے تو کھانا لایا گیا۔ حضرت خواجہ خضر صلوات اللہ علیہ وسلامہ نے نہ کھایا اور فرمایا کہ جس شخص نے خمیر تیار کیا ہے وہ بے طہارت تھا۔ لہٰذا ایسا لقمہ میرے حلق کے لائق نہیں ہے۔
اللہ تعالی ہمیں اور ہمارے ساتھ سے محبت کرنیوالوں کو حلال و پاک روزی عطا فرمائے ۔آمين يارب العلمين
واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين
تمت بالخير

تتمہ (اختتام رسالہ) محبوب العارفين واصلین مقامات بلند
احوال حضرت خواجہ عزیزان علی را میتنی خواجہ خواجگان نقشبند قدس سرہ
حضرت عزیزان علی را میتنی قدس سرہ حضرت خواجہ محمود رحمۃ اللہ علیہ کے خلفا میں سے دوسرے خلیفہ ہیں اور خواجگان قدس اللہ تعالے ارواحہم کے سلسلہ میں ان کا لقب عزیزاں ہے بیان کیا ہے کہ جب حضرت خواجہ قدس سرہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو خلافت کا کام حضرت عزیزان علی رحمہ اللہ علیہ کے حوالے کر دیا اور تمام اصحاب کو ان کے سپرد کر دیا حضرات خلفاً و اصحاب خواجہ محمود کا سلسلہ نسبت حضرت خواجہ بہاؤالدین قدس سرہ تک دو واسطوں سے پہنچتا ہے عزیزان علی رامیتنی کے بلند مقامات اور عجیب کرامات بہت ہیں ۔ آپ کپڑا بننے کا کام کرتے تھے۔
حضرت مخدومی یعنی مولوی جامی رحمۃ اللہ علیہ کتاب نفحات الانس” میں لکھا ہے کہ اس فقیر نے بعض بزرگوں سے اس طرح سنا ہے کہ جو حضرت مولانا جلال الدین رومی قدس سرہ نے اپنی غزل میں فرمایا ہے ان کا اشارہ حضرت عزیزان علی کی طرف ہے ۔
فرد
گرز علم حال فوق قال بودے کی شدے بنده اعیان بخارا خواجه نساج را
یعنی اگر قول سے بلند حال یعنی کیفیت و عمل کو نہ جانتا تو کس طرح بخارا کے شرفاء میں سے خواجہ نساج (بننے والا) یعنی عزیزان علی برگزیدہ بندہ خدا ہوتا۔
آپ کی جائے پیدائش را میتن میں ہے جو کہ بخارا کے ملک میں ایک بڑا قصبہ ہے اس کا رقبہ چھ میل اور دس حصوں پر مشمل ہے اور آپ کی قبر مبارک خوارزم میں معروف و مشہور جس کیزیارت کی جاتی ہے اور برکت حاصل کیجاتی ہے اور آپکے نفیس انفاس کی برکات سے پر ہے، یہ چند باتیں سولہ رشحہ( جسم سے پسینہ کا ٹپکنا ۔ مراد نتیجہ فکر نصیحت شاد)کی صور ت میں تحریر کی جاتی ہیں۔

رشحہ اول

حضرت شیخ رکن الدین علاؤالدولہ سمنانی قدس اللہ تعالی ارواحہ آپ کے ہمعصر گزرے ہیں ۔ ان دونوں کے درمیان خط و کتابت ہوتی تھی۔ کہتے ہیں کہ حضرت شیخ رکن الدین نے ایک درویش کو آپکی خدمت میں بھیجا اور تین مسئلے (سوال) بھیجے اور ہر ایک کا جواب سنا۔
مسئلہ اول ہے۔ یہ کہ ہم اور آپ آنے جانے والوں کی خدمت کرتے ہیں۔ آپ دستر خوان یعنی کھانے میں تکلف نہیں کرتے ہیں اور ہم تکلف کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود لوگ آپکے پاس آنے کی آرزو رکھتے ہیں اور ہم سے شاکی ہیں اس کا سبب کیا ہے ؟ آپ (حضرت علی عزیزان قدس سرہ) نے جواب میں فرمایا کہ خدمت کرنے والے احسان جتانے والے بہت ہیں۔ اور خدمت کر نیوالے احسان مند ہونے والے کم ہیں۔ کوشش کریں کہ خدمت کرنے والے احسانمند ہونے والوں میں سے ہو جائیں تاکہ کسی کو آپ سے گلہ و شکایت نہ ہو ۔
مسئلہ دوم ۔ یہ بھی میں نے سنا ہے کہ آپکی تربیت حضرت خضر علیہ السلام نے فرمائی ہے اس کی کیا حقیقت ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا کرحق سبحانہ تعالی کے جو بندے اللہ تعالیٰ کے عاشق ہوتے ہیں حضرت خضر علیہ السلام بھی ان کے عاشق ہو جاتے ہیں۔
مسئلہ سوم : یہ کہ ہم نےسنا ہےکہ آپ ذکر جہر کر تے ہیں اس کی کیا وجہ ہے۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ ہم نے بھی سنا ہے کہ آپ ذکر خفی کرتے ہیں پس آپ کا ذکر بھی جہری ہوا اس لئے کہ مسموع ہوا۔

رشحہ دوم

مولاناسیف الدین فصہ اس زمانے کے بزرگ علما میں سے تھے۔ آپ نے حضرت عزیزاں سے سوال کیا کہ آپ علانیہ ذکر کس نیت سےکرتے ہیں ؟ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ متفقہ علما کی رائے کیمطابق آخر وقت (فوت ہوتے وقت میں ذکر یعنی کلمہ توحید کو آواز سے کہنا اور تلقین کرناچاہئے بموجب حدیث کے حکم کے
تقنوا موتاكم بشهادة ان لا اله الاللہ (اپنے مردوں یعنی قریب المرگ لوگوں کو یہ گواہی سکھاؤ کہ سوائے خدا کے کوئی معبود نہیں ہے )
اور درویشوں کیلئے ہر سانس آخری سانس ہے ۔

رشحہ سوم

شیخ بدر الدین میرانی ” جوکہ شیخ حسن بلغاری” کے بزرگ اصحاب میں سے تھے اور انہوں نے عزیزاں علی رامیتنی قدس سرہ کی صحبت حاصل کی تھی۔ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ ذکر کثیر جس کیلئے ہمیں حق تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ جیسا کہ حق سبحانہ نے فرمایا کہ ، واذكرواللہ اً كثيرا الجمعہ (۱۰۰) اور اللہ کو بہت یاد کیا کرد یہ ذکر زبان سے ہے یا دل ہے ۔ حضرت عزیزان نے فرمایا کہ مبتدی کیلئے زبان سے ذکر ہے ۔ اور منتہی کیلئے دل سے ذکر ہونا چاہئے ۔ مبتدی ہمیشہ ذکر کو تکلیف اٹھا کر کرتا ہے اور اس کیلئے جان لگاتا ہے. منتہی کو جب ذکر دل میں رچ بس جاتا ہے تو اس کے تمام اعضا جو ارح ۔ بدن کی رگیں اور جوڑ جوڑ ذکر کرنے لگتے ہیں۔ اور اس وقت سالک کثرت سے ذکر کرنے والا حقیقتا ہو جاتا ہے. اس حال میں اس کا ایک دن کا کام یعنی ذکر دوسروں کے مقابلے میں ایک سال کے ذکر کے برابر ہوتا ہے۔

رشحہ چہارم

آپ نے فرمایا کہ یہ بات کہ حق سبحانہ تعالی دن ورات میں تین سو ساٹھ دفعہ مومن کے دل پر رحمت کی نظر کرتا ہے اسکے معنی یہ ہیں کہ دل تین سو ساٹھ روزینہ رکھتا ہے جب دل ذکر سے متاثر ہوتا ہے تو اس ساتھ تمام اعضا اور دل سے متصل رگیں ۔ تین سو ساٹھ دفعہ حرکت کرتی ہیں۔ اور اس طرح اس مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ حق تعالیٰ کا خاص منظور نظر ہو جاتا ہے اور اس اطاعت یعنی بندگی کے نور سے ہر عضو کو فیض (جس سے مراد رحمت کی نظرہے دل کو پہنچتا ہے۔

رشحہ پنجم

لوگوں نے آپ سے دریافت کیا کہ ایمان کیا ہے ؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ
ایمان کندن و پیوستن، یعنی غیراللہ سے دل کو توڑنا اور اللہ تعالے کے ساتھ اس کو جوڑنا ہے یہ جواب آپنے اپنی صنعت کپڑا بننے کے مطابق فرمایا جس طرح دھاگوں کی جوڑ توڑ سے کپڑا تیار کیا جاتا ہے ۔

رشحہ ششم

آپ سے دریافت کیا گیا کہ مسبوق ( جس شخص کو کسی فرض نماز کی ایک یا کئی رکعتیں نہ ملی ہوں ) اس مسبوقانہ کی قضا کس طرح کرے ۔ آپ نے فرمایا کہ پیش از صبح یعنی چاہئیے کہ ہر نماز کیلئے اس کے وقت سے پہلے ہی کام کاج چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہو، تاکہ نماز کی جماعت قضا ہونے نہ پائے ۔

رشحہ ہفتم

آپ نے فرمایا ہے کہ آیت کریمہ تو بوا الى الله” (خدا کے آگے توبہ کرو) میں اشارہ بھی ہے اور بشارت ( خوشخبری ) بھی ہے ۔ اشارہ تو بہ کرنے کی طرف اور بشارت اس کے قبول ہونے کیلئے ہے ۔ اگر اللہ تعالیٰ قبول نہ فرماتا تو توبہ کرنے کاحکم نہ فرماتا حکم کرنا قبولیت کی دلیل یا ثبوت ہے بشرطیکہ اپنے قصور کا اعتراف و احساس ہو۔

رشحہ ہشتم

آپ نے فرمایا کہ عمل (نیک) کرنا چاہیے اور اس عمل کو نہ کیا ہوا خیال کرنا چاہیئے۔ اپنے آپ کو قصور وار سمجھنا چاہئے ۔ اور از سر نو عمل کرنا چاہئے۔

رشحہ نہم

آپ نے فرمایا ہے کہ دو وقتوں پر اپنے اوپر خوب نگاہ رکھنی چاہئیے
(1) بات کرتے وقت اگر فضول وغیرہ نہ ہو)
(2) کچھ کھاتے وقت (حلال و پاک ہو)

رشحہ دہم

آپ نے فرمایا کہ ایک روز حضرت خضر علیہ السلام ، حضرت خواجہ عبد الخالق قدس سرہ کے پاس تشریف لائیے ۔ حضرت خواجہ صاحب دو جو کی روٹیاں گھر سے لائے حضرت خضر علیہ السلام نے ان کو نہ کھایا۔ حضرت خواجہ صاحب نے فرمایا کہ آپ کھائیے اس لئے کہ یہ حلال کا لقمہ ہےحضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ایسا ہی ہے لیکن اس کا خمیر کرنے والا بے طہارت (بے وضو ) تھا۔ اس لئے اس کا کھانا میرے لئے جائز نہیں

رشحہ یازدہم

آپ نے فرمایا کہ جو شخص مسند رشد و ہدایت پر بیٹھتا ہو اور لوگوں کو خدا تعالے کی طرف دعوت دیتا ہو، تو اس کو چاہئے کہ جانوروں کو پالنے والے مرد کی طرح ہو کہ وہ ہر پرندہ کی خوراک کو جانتا ہے اور ہر پرندے کو اس کی خوراک اس کی ضرورت کے مطابق دیتا ہے ۔ مرشد کو بھی چاہیئے کہ صادقوں اور طالبوں کی تربیت ان کی قابلیتوں اور استعدادوں کے فرق کے مطابق کرے۔

رشحہ دوازدہم

آپ نے فرمایا کہ اگر تمام روئے زمین میں حضرت خواجہ عبد الخالق قدس سرہ کا ایک بھی فرزند موجود ہوتا تو حضرت منصورہرگز سولی پر نہ چڑھتا یعنی اگر حضرت خواجہ صاحب کے فرزندان معنوی میں سے کوئی بھی زندہ ہوتا تو حضرت حسین منصور کی تربیت کر کے اس کے اس مقام سے گذرواد دیتا۔

رشحہ سیزدہم

آپ نے فرمایا ہے کہ راہ طریقت پر چلنے والوں کو ریاضت و مجاہدہ (محنت و کوشش )بہت کرنی چا ہیئے تا کہ کسی بلند مقام و مرتبہ تک پہنچ جائیں ۔
لیکن ان سب سے ایک راستہ نزدیک تر ہے جس کے ذریعے زیادہ جلدی طالب مقصود دل تک پہنچ سکتا ہے اور وہ راستہ یہ ہے کہ طریقت کے راستے پر چلنے والے اس بارہ میں کوشش کریں کہ خوش خلقی و خدمت کے زریعے صاحب دل یعنی اللہ والے مرشد کے دل میں اپنے لئے جگہ پید کریں اس لئے کہ اس گروہ کے حضرات کا دل حق تعالے کی نظر کرم کے وارد ہونے کی جگہ ہے اور ان کو بھی اس نظرحق تعالے سے حصہ پہنچے گا۔ ۔

رشحہ چہاردہم

آپ نے فرمایا کہ اس زبان سے دعا کریں جس زبان سے گناہ نہ کیا ہو تاکہ قبولیت حاصل ہو یعنی خدا کے دوستوں کے روبرو انکساری ونیاز مندی کریں تاکہ وہ تمہارے لئے دعا کریں اور ان کے نام سے وہ دعا قبول ہو۔

رشحہ پانزدہم

ایک دن کسی شخص نے حضرت عزیزان علی قدس سرہ کے روبرو یہ مصرع پڑھا
عاشقاں در دمی دو عید کننده عاشق لوگ ایکدم یا سانس میں دو عیدیں کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا کہ بلکہ وہ تین عیدیں (خوشیاں) کرتے ہیں۔ اس شخص نے عرض کیا کر حضرت اس معنی کی تشریح فرمائیں ۔ آپ نے فرمایا کہ بندہ کا ایک دفعہ یاد کرنا، خداوند تعالی کو دو دفعہ یاد کرنے کے درمیان ہے۔ اور اللہ تعالے بندہ کو توفیق دیتا ہے کہ وہ اس کو یادکرے تو جب وہ یاد کرتا ہے، وہ اس یاد کو قبولیت سے مشرف فرماتا ہے پس توفیق ، و قبول اور یاد کیا تین عیدیں ہوئیں۔

رشحہ شانزدہم

حضرت شیخ فخر الدین نوری رحمۃ اللہ علیہ اس زمانے کے بزگ حضرات میں سے تھے ، انہوں نے ایک دن حضرت عزیزاں علی قدس سرہ سے دریافت کیا۔ کہ روز اول جبکہ اللہ تعالے نے سوال – الست بر بکم( کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں) کیا تو سب روحوں نے جواب دیا ہاں ہے۔ اور قیامت کے دن حق تعالی جبکہ لمن الملك اليوم ” ( آج بادشاہی کس کی ہے ) فرمائے گا تو کوئی شخص بھی جواب نہیں دیگا اس کی کیا وجہ ہے ۔ آپ نے جواب میں فرمایا کہ روز اول بندوں پر اس شرعی احکام کی بجاآوری کی تکلیف اٹھانے کا دن تھااور شروع میں الست بر بکم کےجواب میں بولنا ضروری تھا۔ مگر روز ابد شرعی تکالیف کے اٹھادینے کا دن ہے۔ اور عالم حقیقت کی ابتدا ہے اور حقیقت کے بارے میں بولا نہیں جاتا۔ بیشک اس دن حق سبحانه المن الملك اليوم ، کا خود ہی جواب دیں گے کہ اللہ الواحد القهار ( اللہ کی جو واحد اور قہار ہے)
ان جملہ اشعار میں سے جو حضرت عزیزاں رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب میں ایک قطعہ اور چا رربا عیاں تحریر کیجاتی ہیں۔

قطعہ

نفس مرغ سفید در درون است نگهدارش سر خوش مرغیت دم ساز
زمانش بند منگسل تا نپرد گر نتوان گرفتن بود پرداز

ترجمہ :۔ (نفس جسم وروح کے اندر قید ایک پرندہ ہے اس کی حفاظت کر کہ وہ عمدہ اور ہمدرد پرندہ ہے ۔ زندگی کے زمانے میں اس کے بند نہ توڑ کر وہ اڑ نہ جائے اس لئے کہ پرواز کے بعد تو اس کو پکڑا نہیں سکتا ہے۔ یعنی نفس کی برائیوں سے حفاظت کر۔

رباعیات

با هر که نشستی دنشد جمع دلت وزتونه رہید زحمت آب و گلت
زنهارز صحبتش گریزان می باش ورنہ نہ کند روح عزیزاں بجلت
ازصحبت وے گر تبرا نہ کنی ہر گز نہ کند روح عزیزاں بجلت
یعنی اگر تو جس شخص کے ساتھ بیٹھے اور اس کی صحبت سے تجھے دل کا سکون حاصل نہ ہو اور تجھ سے آب وگل ( بری صحبتیں) دور نہ ہوں اگر تو اس کی صحبت سے بیزار ہو کر اس سے علیحدہ نہ ہو جائے گا۔ تو علی عزیزاں کی روح ہر گز تجھے معاف نہیں کریگی۔
بیچاره دلم کہ عاشق روئے تو بود تا وقت صبوح دوش در کوئی تو بود
چوگان سر زلف تو از حال بحال می بردش و همچنان یکی گوی تو بود
میرا بے چارہ دل تیرے چہرہ کا عاشق تھا اور کل صبح تک ترے کوچہ میں تھا تیری زلف کے سرے کا بلا اس کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف لیجاتا تھا اور اس طرح میرا دل تیرے قبضہ میں ایک گیند کی مانند تھا۔ یعنی میرا دل عشق الہی میں اس قدر مدہوش تھا کہ اس کو مختلف کیفیات دحالات حاصل ہوتے تھے
چون ذکر بدل رسد دلت درد کند. آن ذکر بود که مرو را فرد کند
هر چند که خاصیت آتش دارد لیکن دو جهان به دل تو سرد کند
ترجمہ:-جب ذکر الہی دل پر پہنچتا ہے تو تیرے دل میں دردیعنی اثر پیدا کرتا ہے ۔ وہ ذکر ہی ہے جو مرد کو نیچے کرتا ہے یعنی انکساری وعا جزی پر مائل کرتا ہے۔ باوجود یکہ ذکر آگ کی خاصیت رکھتا ہے لیکن تیرے دل پر دونوں جہاں کی گرمی کو سرد کر دیتا ہے یعنی ذکر کے اثر اور اللہ کے فضل سے دونوں جہانوں کی کامیابی حاصل ہونے کی امید ہے)
خواہی کہ بحق رسی بیا نام اے تن داندر طلب دوست پیارامے تن
خوا ہی مدد از روح عزیزان یا بی پا از سر خود ساز دبیا را میتن
ترجمہ :اگر تو چاہتا ہے کہ حق یعنی خدا تک پہنچ جائے تو آ اور اپنے بدن کو تابعدار کر یعنی شرعی عبادات میں مشغول ہو دوست کی طلب اور عشق میں بدن کو بے تاب رکھ یعنی کوشش کرتا رہ اگر تو عزیزاں کی روح سے مدد چاہتا ہے تو سر کے بل را میتن میں آجا)

تمت با لخير


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں