إذا ‌أحَبَّ ‌اللهُ عبدًا کیا معنی ہیں مکتوب نمبر44دفتر دوم

ایک استفار کے جواب میں جو وحدت کی نسبت کیا گیا تھا اور علوم شریعہ کے ساتھ اس کے مطابق کرنے کے بیان میں اور نیز پوچھا گیا تھا کہ إذا ‌أحَبَّ ‌اللهُ عبدًا ان کے کیا معنی ہیں اور اس کے مناسب بیان میں محمد صادق ولد حاجی محمد مومن کی طرف صادر فرمایا ہے 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی اللہ تعالیٰ  کے لیے حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو۔

آپ نے پوچھا تھا کہ صوفياء وحدت وجود کے قائل ہیں اور علماء اس کو کفر و زندقہ جانتے ہیں اور دونوں گروہ فرقہ ناجیہ سے ہیں، اس معاملہ کی حقیقت کیا ہے۔ 

اے محبت کے نشان والے اس بحث کی تحقیق فقیر نے اپنے مکتوب اور رسالوں میں مفصل لکھی ہے اور فریقین کے نزاع کو لفظ کی طرف را جع کیا ہے لیکن چونکہ آپ نے پوچھا ہے ، اس لیے سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔ ناچار چندکلمات لکھے جاتے ہیں۔ 

جاننا چاہیئے کہ صوفیاء علیا میں سے جو لوگ وحدت وجود کے قائل ہیں اور اشیاء کو عین حق جانتے ہیں اور ہمہ اوست(سب کچھ وہی ہے) کا حکم کرتے ہیں، ان کی یہ مرادنہیں کہ اشیاء حق تعالیٰ  کے ساتھ متحد رہیں اور تنزیہ تنزل کر کے تشبیہ بن گئی ہے اور واجب ممکن ہو گیا ہے اور بیچون چون میں آ گیا ہے کہ یہ سب کفر والحاد اور گمراہی و زندقہ ہے۔ وہاں نہ اتحاد ہے نہ غیبت نہ تنزل نہ تشبیہ۔ 

فهوسبحانه ألان كما كان سبحانه من لا يتغير بذاته ولا في صفاته ولا في أسمائه بحدوث الأکوان. اللہ تعالیٰ  اب بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ پہلے تھا۔ پاک ہے وہ مالک جو موجودات کے حدوث اکوان (نئے تغیرات)سے ذات وصفات و اسماء میں متغیر نہیں ہوتا۔ 

حق تعالیٰ  اپنی اسی صرافت اطلاق(مطلق محض ہونے کی صفت) پر ہے۔ وجوب کی بلندی سے امکان کی پستی کی طرف نہیں آیا بلکہ ہمہ اوست کے معنے یہ ہیں کہ اشیا ءنہیں ہیں اور حق تعالیٰ  موجود ہے۔ منصور نے جو  اناالحق کہا، اس کی مراد یہ نہیں کہ میں ہوں اور حق کے ساتھ متحد ہوں کہ یہ کفر ہے اور اس کے قتل کا موجب ہے بلکہ اس کے قول کے یہ معنی ہیں کہ میں نہیں ہوں اور حق تعالیٰ  موجود ہے۔ 

حاصل کلام یہ کہ صوفیاء اشیاء کوحق تعالیٰ  کے ظہورات جانتے ہیں اور حق تعالیٰ  کے اسماء و صفات کے آئینے خیال کرتے ہیں۔ بغیر اس بات کے کہ ان میں کسی قسم کا نزول اور تغیر و تبدل ہو جس طرح کسی شخص کا سایہ دراز ہو جائے تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ سایہ اس شخص کے ساتھ متحد ہے اور عینیت کی نسبت رکھتا ہے یا وہ شخص تنزل کر کے ظل کی صورت میں ظاہر ہوا ہے بلکہ وہ شخص اپنی صرافت(کھرا ہونا) و اصالت پر ہے اور تنزل وتغیر کی آمیزش کے بغیرظل اس سے وجود میں آیا ہے۔ ہاں بعض اوقات ان لوگوں کی نظر میں جن کو اس شخص سے محبت ہوتی ہے، کمال محبت کے باعث سایہ کا وجو دمخفی ہو جاتا ہے اور حق کے بغیر ان کو کچھ مشہود نہیں ہوتا۔ اس وقت اگر یہ کہہ دیں کہ ظل عین شخص ہے یعنی ظل معدوم ہے اور موجود وہی شخص ہے تو ہوسکتا ہے اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ اشیا ء صوفیاء کے نزدیک حق تعالیٰ  کے ظہورات ہیں نہ  حق تعالیٰ  کا عین پس اشیاء حق تعالیٰ  سے ہوں گے۔ 

پس ان کی کلام ہمہ اوست کے معنے ہمہ از اوست(ہر شے کا وجود حق(اللہ) سے ہے) ہوں گے جو علماء کرام کے نزدیک مختار ہیں اور درحقیقت علماء کرام اور صوفیہ عظام کے درمیان کوئی نزاع ثابت نہ ہوگی اور دونوں قولوں کامآل ایک ہی ہوگا۔ البتہ اس قدر فرق ہے کہ صوفياء اشیاء کو حق تعالیٰ  کے ظہورات کہتے ہیں اور علماء اس لفظ سے بھی کنارہ کرتے ہیں تا کہ حلول و اتحاد کا وہم نہ پایا جائے۔

سوال: صوفياء اشیاء کو باوجودظہورات کے معدوم خارجی جانتے ہیں اور خارج میں حق تعالیٰ  کے سوا کچھ موجودنہیں دیکھتے اور علماء اشیاء کو موجودات خارجیہ کہتے ہیں ۔ پس معنی میں فریقین کا نزاع ثابت ہو گیا۔

 جواب: صوفیاء اگر چہ عالم کو معدوم خارجی جانتے ہیں لیکن خارج میں اس کا وجود وہمی ثابت کرتے ہیں اور نمود وظہور خارجی کہتے ہیں اور کثرت و ہمیہ خارجیہ سے انکار نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ وجود وہمی جو خارج میں نمایاں ہے۔ ان وجودات و ہمیہ کی قسم سے نہیں ہے۔ جو وہم کے اٹھ جانے سے اٹھ جاتے ہیں اور کچھ ثبات و استقرار نہیں رکھتے بلکہ یہ وہمی وجود اور خیالی نمائش چونکہ حق تعالیٰ  کی صنعت(کاریگری) اور اس کی قدرت کاملہ کانقش ہے، اس لیئے زوال وخلل سے محفوظ ہے اور اس جہان اور اس جہان کا معاملہ انہی وجودوں پر وابستہ ہے۔ 

سوفسطائی جو عالم کو وہم و خیالات جانتا ہے، اس کے نزدیک وہم و خیال کے اٹھ جانے سے اشیاء بھی اٹھ جاتی ہیں اور کہتا ہے کہ اشیاء کا وجود ہمارے اعتقاد کے تابع ہے۔ بذات خودکچھ ثبوت و حقیقت نہیں رکھتیں۔ اگر ہم آسمان کو زمین  اعتقاد کریں تو زمین  ہے اور زمین  ہمارے اعتقاد میں آ سمان ۔ اگر ہم شیریں کو تلخ جانیں تو تلخ ہے اور تلخ ہمارے اعتقاد میں شیر یں ہے۔ 

غرض یہ بے وقوف۔ صانع مختار جل شانہ کی ایجاد کا انکار کرتے ہیں اور اشیاء کو حق تعالیٰ  کی طرف منسوب نہیں کرتے ۔ ضلوا فضلوا (یہ لوگ خود بھی گمراہ ہیں اور اوروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ 

پس صوفياء اشیاء کے لیے خارج میں وجود وہمی جو ثبات و استقرار رکھتا ہے اور وہم کے اٹھ جانے سے اٹھ نہیں جاتا۔ ثابت کرتے ہیں اور اس جہان اور اس جہان کا معاملہ جو دائمی اور ابدی ہے۔ اسی وجود پر موقوف جانتے ہیں اور علماء اشیاء کو خارج میں موجود جانتے ہیں اور خارجی ابدی کے احکام کو اشیاء پر مترتب جانتے ہیں ۔ اس کے علاوہ وجود اشیاء کو حق تعالیٰ  کے وجود کے مقابلہ میں ضعیف و نحیف تصور کرتے ہیں اور ممکن کے وجود کو حق تعالیٰ  کے وجود کی نسبت فانی دنیست جانتے ہیں۔ 

پس فریقین کے نزدیک اشیاء کا وجود خارج میں ثابت ہو گیا جس پر اس جہان اور اس جہان کے احکام وابستہ ہیں اور وہم و خیال کے دور ہونے سے دور نہیں ہوسکتا۔ پس نزاع فيما بین رفع ہو گیا اور خلاف جاتا رہا۔ خلاصہ یہ کہ صوفیاء اس وجود کو وہمی کہتے ہیں۔ اس لیے عروج کے وقت اشیاء کا وجود ان کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتا ہے اور حق تعالیٰ  کے وجود کے سوا ان کی نظر میں کچھ نہیں رہتا اور علماء اس وجود پر وہم کا لفظ بولنے سے کنارہ کرتے ہیں اور وجود ہی نہیں کہتے تاکہ کوئی کوتاہ نظر اس کے رفع ہونے کا حکم نہ کرے اور اس کے ابدی ثواب و عذاب سے انکار نہ کرے۔

 سوال: صوفيا جو اشیاء کے لیے وجود وہمی ثابت کرتے ہیں، ان کا مقصود یہ ہے کہ یہ وجود باوجود ثبات و استقرار کے دراصل کچھ نہیں صرف وہم میں وجود رکھتا ہے اور نمود وظہور کے  سوا اس کو کچھ  نصیب نہیں اور علماء اشیاء کو باو جونفس الامری (اصل حقیقت)کے خارج میں موجود جانتے ہیں، پس نزاع باقی رہا۔

 جواب: وجود وہمی اور نمود خالی جب وہم و خیال کے اٹھنے سے اٹھ نہیں سکتا تو نفس الامری ہے کیونکہ اگر ہم تمام و ہمیوں کے وہم کا زائل ہونا فرض کریں تو یہ وجود ثابت رہے گا اور ان کے زائل ہونے سے زائل نہ ہوگا۔ واقع اورنفس الامری کے یہی  معنی ہیں۔ اس قدر ہے کہ یہ نفس الامری جو وجودممکن میں ثابت کی جاتی ہے۔ اس نفس امری کے مقابلہ میں جو واجب تعالیٰ  کے وجود میں ثابت ہے، لاشے کا حکم رکھتی ہے اور نزدیک ہے کہ اس کو موہومات اور متخیلات میں شمار کیا جائے جس طرح کلی مشکک( ایسا  تصورعام  جو افراد اور ان کے واقعات پر مختلف اور غیر مساوی طور پر لاگو ہوتا ہے) کے افراد جو ایک دوسرے کے ساتھ بڑا تفاوت رکھتے ہیں یا جس طرح ممکن کا وجود جو واجب تعالیٰ  کے وجود کی نسبت لاشے کا حکم رکھتا ہے نزدیک ہے کہ اس کو عد مات میں شمار کیا جائے۔ پس حقیقت میں کوئی نزاع نہ رہا۔

 سوال: تمام اشیاء کا وجود جب نفس الامری ہے تو لازم آتا ہے کہ نفس امر میں موجودات متعدد ہوں اور نفس الامر میں ایک موجود نہ ہو اور یہ امر وحدت وجود کے منافی ہے جو صوفیاء وجود یہ کے نزدیک مقرر ہے۔

 جواب: وہ تو نفس امری ہیں وحدت وجودی بھی نفس امری ہے اور تعدد وجودبھی نفس امری جب جہت و اعتبار مختلف ہیں تو اجتماع نقیضین کا وہم مرفوع ہے۔ 

یہ بحث اس مثال سے روشن ہوتی ہے مثلا زید کی صورت جو آئینہ میں دکھا دیتی ہے نفس الامر آئینہ میں کوئی صورت موجود نہیں ہے کیونکہ وہ صورت نہ آئینہ کی موٹائی میں ہے نہ آئینہ کے منہ میں بلکہ اس صورت کا وجود منہ میں وہم کے اعتبار سے ہے اور خیالی دکھاوٹ کے سوا آئینہ میں کچھ حاصل نہیں اور یہ ہی وجود اور خیالی نمود بھی جوصورت کے لیے آئینہ میں پیدا ہوئی ہے نفس امری ہے۔ پس اگر کوئی کہہ دے کہ میں نے زید کی صورت آئینہ میں دیکھی ہے۔ عقل وعرف میں اس کو اس کلام میں سچا جانتے ہیں اور حق رکھتے ہیں اور جب قسموں کی بنا عرف پر ہے۔ اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ واللہ میں نے زید کی صورت کو آئینہ میں دیکھا ہے تو حانث (قسم توڑنے والا)نہ ہو گا۔ پس اس صورت میں آئینہ میں زید کی اس صورت کا عدم حصول بھی نفس امری ہے لیکن پہلانفس امر مطلق نفس امر ہے اور پچھلانفس امروہم و خیال کے ذریعے ہے۔ 

عجب معاملہ ہے کہ وہم و خیال کا اعتبار جونفس امری کے منافی ہے، اس جگہ یہی اعتبار نفس امر کے حاصل ہونے کا باعث ہے۔ اذلو لاہ لما حصل ثمه نفس الامر اگر وہ نہ ہوتا تو نفس الامر حاصل نہ ہوتا۔ 

دوسری مثال نقطہ جوالہ(تیزی سے گردش کرنے والا نقطہ) ہے جس نے وہم و خیال کے اعتبار سے دائرہ کی صورت میں خارج میں ثبوت پیدا کیا ہے۔ یہاں بھی خارج میں دائرہ کا عدم حصول نفس امری ہے اور وہم و خیال کے اعتبار سے خارج میں اس دائرہ کا حصول بھی نفس امری ہے لیکن دائرہ کا عدم حصول مطلق نفس امری ہے اور اس دائرہ کا حصول وہم و خیال کے ملاحظہ سے نفس امری ہے۔ پس اول مطلق ہے دوسرا مقید۔ 

پس مذکورہ بالا صورت میں وحدت وجود مطلقا نفس امری ہے اور تعدد وجود باعتبار وہم و خیال کے نفس امری ہے۔ پس اطلاق وتنقید کے ملاحظہ سے ان دونوں نفس امر کے درمیان تناقض نہ رہا اور اجتماع نقیضین(دو ضدوں کا جمع ہونا) ثابت نہ ہوا۔

 سوال: جب تمام وہمیوں کے وہم کا زوال فرض کیا جائے تو وجود وہمی اور نمود خیالی کس طرح ثابت ہوگا۔

جواب: یہ وجود صرف وہم کے اختراع سے حاصل نہیں ہوا جو وہم کے زوال سے زائل ہو جائے بلکہ حق تعالیٰ  کی صنعت سے مرتبہ وہم میں حاصل ہوا ہے اور ثبات و قرار حاصل کیا ہے۔ اس لیے وہم کے زوال سے خلل پذیر نہیں ہوتا اور وجود وہمی اس اعتبار سے کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ  نے اس کو مرتبہ  حس و وہم میں خلق فرمایا ہے اور چونکہ اسی کی خلق ہے خواہ کسی مرتبہ میں ہو زوال وخلل سے محفوظ ہے اور چونکہ حق تعالیٰ  نے اس کو خلق فرمایا ہے، اس لیے نفس امری ہو گیا ہے۔ اگر چہ وہ مرتبہ کہ جس میں پیدا کیا ہو نفس امری نہیں ہوتا اور مجرد اعتبار ہوتا ہے لیکن مخلوق اس مرتبہ میں نفس امری ہے۔ 

اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ  نے اس کو مرتبہ حس و وہم میں پیدا کیا ہے لیکن اشیاء کو اس مرتبہ میں ایجادفرمایا ہے کہ اس مرتبہ کے لیے حس ووہم کے سوا کوئی حصول و ثبوت نہیں ۔ جس طرح کہ شعبده باز غیر واقع چیزوں کو واقع ظاہر کرے اور ایک چیز کی دس چیز یں دکھائے، ان دس چیزوں کا حصول و ثبوت وہم وحس کے سوا نہیں اورنفس امر میں ایک چیز کے سوا موجود نہیں۔ ان دس چیزوں کو جو اس نے ظاہر کی ہیں، اگر حق تعالیٰ  کی قدرت کاملہ سے ثبات و استقرار بخشیں اور سرعت زوال اور خلل سے محفوظ ہو جائیں تو نفس امری ہوجائیں گے۔ 

پس وہ دس چیز یں نفس امر میں ہیں بھی اور نہیں بھی لیکن دو اعتبار سے۔ اگر مرتبہ حس ووہم سے قطع نظر کی جائے تو نہیں ہیں اور حس ووہم کے ملا حظہ سے ہیں۔ 

قصہ مشہور ہے کہ ہندوستان کے کسی شہر میں شعبدہ بازوں نے بادشاہ کے حضور میں شعبده بازی شروع کی اورطلسم وشعبدہ سے آموں کے درختوں کا باغ ظاہر کیا حتی کہ وہ درخت اسی اثناء میں بڑے بڑے درخت ہو گئے اور ان کو پھل لگ گیا اور اہل مجلس نے ان پھلوں کو کھایا بھی۔ اس وقت بادشاہ نے حکم دیا کہ شعبده بازوں کوقتل کر دیں کیونکہ اس نے سنا ہوا تھا کہ شعبدوں کے ظاہر ہونے کے بعد اگر شعبده بازوں کوقتل کر دیں تو وہ شعبده حق تعالیٰ  کی قدرت سے اپنے حال پر رہتا ہے۔ اتفا ق جب ان شعبده بازوں کوقتل کر دیا گیا تو وہ آم کے درخت حق تعالیٰ  کی قدرت سے اسی طرح موجودرہے۔ 

میں نے سنا ہے کہ وہ درخت اب تک بھی موجود ہیں اور لوگ ان کے میووں کو کھاتے ہیں ۔ وَمَا ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ ‌بِعَزِيزٍ اللہ تعالیٰ  پر یہ بات مشکل نہیں۔ 

پس صورت متنازع فیہ میں حق تعالیٰ  نے کہ جس کے سوا خارج اور نفس الامر میں کوئی موجود ہیں ۔ اپنی قدرت کاملہ سے اپنے اسماء و صفات کے کمالات کو ممکنات کی صورتوں کے پردہ میں مرتبہ و وہم میں ظاہر کیا اور ان کمالات کو وجودوہمی اور ثبوت خیالی کے ساتھ اشیاء کے مظہروں میں جلوہ گر کیا یعنی اشیاء کو ان کمالات کے مطابق مرتبہ حس و وہم میں ایجاد فرمایا ہے اور انہوں نے نمود وہمی اور ثبوت خيالی حاصل کیا۔ پس اشیاء کا وجود نمود کے اعتبار سے خیالی ہے لیکن حق تعالیٰ  نے اس نمود کو ثبات و استقرار کرامت فرمایا ہے اور اشیاء کی صنعت میں استحکام کو مدنظر رکھا ہے اور ابدی معاملہ انہی پر وابستہ کیا ہے۔ ناچار اشیا ء کا وجود وہمی اور ثبوت خیالی بھی نفس الامر ہو گیا ہے اور خلل سے محفوظ ہے۔ 

پس کہہ سکتے ہیں کہ اشیاء خارج میں باعتبارنفس الامر کے وجود رکھتی بھی ہیں اور نہیں بھی رکھتیں لیکن دو اعتبار سے جیسے کہ اوپر گزر چکا۔ 

اس فقیر کے والد بزرگوار اقدس سرہ جو علمائے محققین میں سے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ قاضی جلال الدین آ گری نے جو بڑے بزرگ عالموں میں سے تھے، مجھ سے پوچھا کہ نفس  الامر وحدت ہے یا کثرت اگر وحدت ہے تو شریعت جس کی بنیاد مختلف اور جدا جدا احکام پرہے، باطل ہو جاتی ہے اور اگر نفس الامر کثرت ہے تو صوفیاء کا قول جو وحدت وجود کے قائل ہیں، باطل ہوتا ہے۔ 

والد بزرگوار قدس سرہ نے جواب میں فرمایا کہ دونوں نفس امری ہیں اور مفصل طور پر بیان کر دیا۔فقیر کو یاد نہیں رہا کہ اس وقت والد بزرگوار قدس سرہ نے کیا کچھ بیان فرمایا تھا۔ اس وقت جو بھی فقیر کے دل میں ڈالا گیا ہے لکھا گیا ہے والأمر إلى الله سبحانہ حقیقت امر کو اللہ تعالیٰ  ہی جانتا ہے۔ 

پس صوفیاء جو وحدت وجود کے قائل ہیں، حق پر ہیں اور علماء بھی کثرت وجود کا حکم کرتے ہیں حق پر ہیں۔ صوفیاء کے احوال کے مناسب وحدت ہے اور علماء کے حال کے مناسب کثرت ہے کیونکہ شرائع کی بنا کثرت پر ہے اور احکام کا جدا جدا ہونا کثرت پر موقوف ہے اور انبیاء علیہم الصلوة والسلام کی دعوت اور آخرت کا ثواب و عذاب اس کثرت سے تعلق رکھتا ہے اور جب حق تعالیٰ  أحببت أن أعرف (میں چاہتا ہوں کہ پہچانا جاؤں) کے موافق کثرت کو چاہتا اور ظہور کو دوست رکھتا ہے تو اس مرتبہ کا باقی رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ اس مرتبہ کی ترتیب حق تعالیٰ  کومحبوب اور پسندیدہ ہے۔ سلطان ذیشان کے لیے نوکروں چاکروں کا ہونا ضروری ہے اور اس کی عظمت و کبریا کے لیے ذلت اور احتیاط اور انکار درکار ہے۔ وحدت وجود کا معاملہ اگر چہ حقیقت کی طرح ہے اور کثرت کا معاملہ اس کے مقابلہ میں مجاز کی طرح اسی واسطے اس عالم کو عالم حقیقت کہتے ہیں اور اس عالم کو عالم مجاز لیکن چونکہ ظہورات حق تعالیٰ  کی محبوب اور پسندیدہ ہیں اور دائمی اور ابدی بقا اشیاء کو عطا فرمائی ہے اور قدرت کو حکمت کے لباس میں ظاہر کیا ہے اور اسباب کو اپنے فعل کا روپوش بنایا ہے، اس لیے وہ حقیقت گویا متروک ہے اور یہ مجاز متعارف و مشہور ہے۔ نقطہ جوالہ اگرچہ حقیقت کی طرح ہے اور وہ دائرہ جو اس نقطہ سے پیدا ہوا ہے۔ مجاز کی مانند ہے لیکن اس کی حقیقت متروک ہے اور جومتعارف ہے، وہ مجازی ہے۔ 

نیز آپ نے اس قول کے معنی پوچھے تھے کہ إذا ‌أحَبَّ ‌اللهُ عبدًا لَا ‌يضُرُّه ذَنبٌ

الله تعالیٰ  کی بندے کو دوست رکھتا ہے تو اس کو کوئی گنا مضر نہیں دیتا۔ 

جاننا چاہیئے کہ جب الله تعالیٰ  کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو کوئی گناہ اس سے صادرنہیں ہوتا کیونکہ اولياء اللہ گناہوں کے ارتکاب سے محفوظ ہیں ۔ اگرچہ ان سے گناہ کا صادر ہونا جائز ہے۔ برخلاف انبياءعلیہم الصلوة والسلام کے جو گناہوں سے معصوم ہیں۔ ان کے حق میں گناه صادر ہونے کا جواز بھی مسلوب ہے اور جب اولیاء اللہ سے گناه صادر نہ ہوں تو یقین ہے کہ گناه کا ضرر بھی نہ ہوگا ۔ پس گناہ کے صادر ہونے کی صورت میں لا يضره ذنب درست ہے۔ جیسے کہ صاحبان علم پر پوشیدہ نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ گناہ سے مراد وہ گناہ ہوں جو درجہ ولایت تک پہنچنے سے پہلے صادر ہوئے ہیں۔ فَإِنَّ ‌الْإِسْلَامَ يَجُبُّ ‌مَا ‌كَانَ ‌قَبْلَهُ ( کیونکہ اسلام پہلی باتوں کو قطع کر دیتا ہے) وحقيقة الأمر عند الله سبحانه حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ  ہی جانتا ہے۔ 

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا)یااللہ تو بھول چوک پر ہمارا مواخذہ نہ کر) 

والسلام على من اتبع الهدى والتزم متابعة المصطفى عليه وعليهم من الصلوة والتسليمات اتمها وادومها

 اور سلام ہو آپ پر اوران  لوگوں پر جو ہدایت کے رستہ پر چلے اور جنہوں نے حضرت محمدﷺکی متابعت کو لازم پکڑا۔

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ156ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں