ابتداء سے انتہاء تک شریعت کا ہونا ضروری مکتوب نمبر 50دفتر دوم

اس بیان میں کی تربیت کی ایک صورت ہے۔ ایک حقیقت اور اس بیان میں کہ ابتداء سے انتہاء تک شریعت کا ہونا ضروری ہے اور قلب کی تمکین اور نفس کے اطمینان اور اجزاء قالب کے اعتدال میں جو مرتبہ نبوت میں ہے اور اس کے مناسب بیان میں مرزا شمس الدین کی طر ف صادرفرمایا ہے۔ 

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (الله تعالیٰ  کا حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) شریعت کی ایک صورت ہے اور ایک حقیقت، صورت شریعت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ  اور اس کے رسول ﷺاور ان تمام چیزوں پر جو الله تعالیٰ  کی طرف سے آئی ہیں، ایمان لانے کے بعدنفس امارہ کی منازعت اور سرکشی اور طغیان کے باوجود جو اس کی طبیعت میں رکھا گیا ہے، احکام شرعیہ کا بجا لانا ہے۔ اس مقام میں اگر ایمان ہے تو ایمان کی صورت ہے اور اگر نماز، روزہ ہے تو نماز روزہ کی صورت ہے۔ تمام احکام شرعیه اسی قیاس پر ہیں کیونکہ نفس جووجود انسان میں سے عمدہ اور انا کے قول سے ہر ایک کا مشارالیہ ہے، اپنے فکرو و انکار پر اڑا ہوا ہے۔ ایمان اور اعمال صالحہ کی حقیقت کس طرح متصور ہو سکے۔ یہ الله تعالیٰ  کی رحمت ہے کہ صرف صورت کو قبول فرما کر جنت کی خوشخبری دی ہے جو اس کی رضا کا مقام ہے اور یہ اس کا احسان ہے کہ نفس ایمان میں تصدیق قلبی پر کفایت فرمائی ہے اورنفس کے مان لینے کی تکلیف نہیں فرمائی۔ 

ہاں جنت کی بھی صورت اور حقیقت ہے۔ اصحاب صورت جنت کی صورت سے محظوظ ہوں گے اور صاحبان حقیقت جنت کی حقیقت سے۔ اصحاب صورت اور ارباب حقیقت جنت کے ایک ہی میوہ کو کھائیں گے گر صورت والوں کو اور لذت آئے گی اور حقیقت والوں کو اور۔ 

آنحضرت ﷺکی ازواج مطہرات امہات المؤمنین رضی الله تعالیٰ  عنهن نبی ﷺکے ساتھ ایک جنت میں ہوں گے اور ایک ہی میوہ کھا ئیں گی لیکن ہر

ایک کا مزه ولذت جدا جدا ہوگا۔ اگر علیحدہ نہ ہو تو پیغمبرعلیہ الصلوة والسلام کے سوا تمام بنی آدم پر امہات المومنین کی فضیلت لازم آتی ہے۔ 

اور نیز لازم آتا ہے کہ جو شخص دوسرے شخص سے افضل ہو، اس کی عورت بھی اس دوسرے سے افضل ہو کیونکہ عورت مرد کے ساتھ ملی جلی ہے۔ شریعت کی یہ صورت بشرط استقامت آخرت کی فلاح ونجات اور جنت میں داخل ہونے کا موجب ہے۔ جب شریعت کی صورت درست ہوئی تو گویا ولایت عامہ حاصل ہوئی۔ اَللَّهُ ‌وَلِيُّ ‌الَّذِينَ آمَنُوا   الله تعالیٰ  ایمان والوں کا دوست ہے۔ 

اس وقت سالک اللہ تعالیٰ  کی عنایت سے اس بات کے لائق ہو جاتا ہے کہ طریقت میں قدم رکھے اور ولایت خاصہ کی طرف توجہ کرے اورنفس کو امارہ پن سے اطمینان کے درجے تک لے جائے لیکن یاد رہے کہ اس ولایت تک پہنچنے کی منزلوں کا طے کرنا بھی شریعت کے اعمال پر وابستہ ہے۔ ذکرالہی جل شانہ جو اس راہ میں سب سے بہتر و عمده ہے، شرعی امور میں سے ہے اور منہیات سے بچنا بھی اس راہ کی ضروریات میں سے ہے اور فرائض کا ادا کرنا مقربات سے ہے اور راہ بین رہنما پیر کا طلب کرنا بھی تا کہ وسیلہ ہو سکے شرعی امور ہیں۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہےوَابْتَغُوا إِلَيْهِ ‌الْوَسِيلَةَ    اس کی طرف وسیلہ تلاش کرو) غرض شریعت سے چارہ نہیں۔ خواہ شریعت کی صورت ہو خواہ شریعت کی حقیقت کیونکہ ولایت و نبوت کے تمام کمالات کی جڑ احکام شرعی ہیں۔ کمالات ولایت صورت شریعت کا نتیجہ ہیں اور کمالات نبوت حقیقت شریعت کا ثمرہ جیسے کہ آگے بیان کیا جائے گا۔ انشاء الله تعالیٰ ۔ 

ولایت کا مقصد طریقت ہے جہاں ماسوا کی نفی مطلوب ہے اور غیر وغریت کارفع مقصود ہے۔ جب الله تعالیٰ  کے فضل سے ماسوا بالکل نظر سے دور ہو جاتا ہے اور دید میں اغیار کا نام و نشان نہیں رہتا تو فنا حاصل ہو جاتی ہے اور مقام طریقت ختم ہو جاتا ہے اور سیر الی اللہ تمام ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مقام اثبات میں سیرشروع ہو جاتا ہے جس کو سیرفی اللہ سے تعبیر کرتے ہیں اوریہی مقام بقاء ہے جو حقیقت کا موطن ہے جو ولایت سے اعلی مقصد ہے۔ اس طریقت و حقیقت پر جوفنا و بقاء ہے، ولایت کا اسم صادق آتا ہے اور امارہ   مطمئنہ ہو جاتا ہے اور کفر وانکار سے ہٹ جاتا ہے اور اپنے مولی سے راضی ہو جاتا ہے اور مولی اس سے راضی ہو جاتا ہے اور   اس کی پیدائشی کراہت دور ہو جاتی ہے۔ اگرچہ کہتے ہیں کہ نفس مقام اطمینان میں بھی آ کر اپنی سرکشی سے باز نہیں آتا۔ 

ہر چند کہ نفس مطمئنہ گردد ہرگز زصفات خود نگردد

ترجمہ: نفس اگرچہ مطمئنہ ہو جانے پر اپنی صفات سے نہ باز آئے

 جہاد اکبرجواس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رَجَعْنَا ‌مِنَ ‌الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ ‌الْأَكْبَرِ.ہم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کی طرف آئے ہیں۔ 

اس سے مرادنفس کا جہاد ہے مگر جو کچھ فقیر کے کشف میں آیا ہے اور اپنے وجدان سے معلوم کیا ہے، اس حکم متعارف ومشہور کے برخلاف ہے۔ اطمینان کے حاصل ہونے کے بعد یہ فقیرنفس میں کسی قسم کی سرکشی اور نافرمانی معلوم نہیں کرتا بلکہ اس کو تابعداری کے مقام میں برابر دیکھتا ہے اور قلب متمکن  کی طرح جس سے ماسوا کانسیان ہو چکا ہے۔ معلوم کرتا ہے کیونکہ نفس اس وقت غیر وغیریت کی دید و دانش سے گزرا ہوتا ہے اور جب جاہ و ریاست اور لذت والم سے آزاد ہوا ہوتا ہے پھر مخالف و سرکشی کہاں۔ ہاں اطمینان کے حاصل ہونے کے بعد مخالف و سرکشی کی مجال نہیں ۔ فقیر نے ہر چند اس بارہ میں غور کی نظر سے دیکھا اور اس معمہ کےحل میں اور دور تک فکر کیا لیکن الله تعالیٰ  کی عنایت سے ان لوگوں کی مقررہ بات کے برخلاف ہی نظر آیا یعنی نفس مطمئنہ میں کسی قسم کی سرکشی اور مخالفت نہ پائی اور فانی اور ناچیز ہونے کے سوا اس میں کچھ نہ دیکھا۔ جب نفس اپنے آپ کو مولا جل شانہ پرفدا کر دے پھر مخالفت کہاں ہو سکتی ہے اور جب نفس اللہ تعالیٰ  سے راضی ہو گیا اور اللہ تعالیٰ  اس سے راضی ہو گیا تو طغیان وسرکشی جو رضا کے منافی ہے، کس طرح ہوسکتی ہے۔ حق تعالیٰ  کی مرضی ہرگز نا مرضی نہیں ہوسکتی اور جہاد اکبر سے مراد فقیر کے نزدیک والله سبحانه أعلم بحقيقة الحال ہوسکتا ہے کہ قالب کا جہاد ہو جومختلف طبیعتوں سے مرکب ہے اور اس کی ہر ایک طبیعت ایک امر کو چاہتی ہے اور دوسرے سے بھاگتی ہے۔ اگر قوت شہوی ہے تو وہ بھی قالب سے پیدا ہے اور اگر غضبی ہے تو وہ بھی وہیں سے ظاہر ہے۔ کیا نہیں دیکھتے کہ تمام حیوانات جن میں نفس ناطقہ نہیں ہے۔ ان میں یہ تمام صفات رذیلہ موجود ہیں اور شہوت وغضب وشره  وحرس سے متصف ہیں۔ یہ جہاد ہمیشہ تک قائم ہے نفس کا اطمینان اس جہاد کوکم نہیں کر سکتا اور قلب کی تمکین اس لڑائی کو رفع نہیں کرسکتی۔ اس  جہاد کے باقی رکھنے میں بہت سے فائدے ہیں جو قالب کے پاک و صاف کرنے میں کام آتے ہیں حتی کہ اس جہان کے کمالات اور آخرت کا معاملہ اصل میں اس پر وابستہ ہے کیونکہ اس جان کے کمالات میں قالب تابع ہے اور قلب متبوع۔ وہاں کام برعکس ہے۔ قلب تابع ہے اور قالب متبوع۔ جب یہ جہان درہم برہم ہو جائے گا اور وہ جہان پرتو ڈالے گا یہ جہاد و قتال بھی ختم ہوجائے گا۔ 

جب اللہ تعالیٰ  کے فضل سے نفس مقام اطمینان میں آجاتا ہے اور حکم الہی کے تابع ہو جاتا ہے تو اسلام حقیقی میسر ہو جاتا ہے اور ایمان کی حقیقت حاصل ہوتی ہے۔ بعد ازاں جو عمل میں آئے گا، شریعت کی حقیقت  ہوگی۔ اگر نماز ادا کرے گا تو نماز کی حقیقت ہوگی اور اگر روزه یا حج ہے تو روزہ و حج کی حقیقت ہوگی۔ دوسرے احکام شرعیہ کا بجالانا بھی اسی قیاس پر ہوگا۔ پس طریقت وحقیقت دونوں شریعت کی صورت اور اس کی حقیقت کے درمیان متوسط ہیں۔ جب تک ولایت خاصہ سے مشرف نہ ہوں۔ اسلام مجازی سے اسلام حقیقی تک نہیں پہنچ سکتے۔ جب سالک فضل خداوندی سے شریعت کی حقیقت کے ساتھ آراستہ ہو جاتا ہے اور اس کو اسلام حقیقی میسر ہو جاتا ہے تو اس بات کے لائق ہو جاتا ہے کہ کمالات نبوت سے انبیا علیہم الصلوة والسلام کی وراثت اور تبعیت کے طور پر کامل حصہ پائے جس طرح شریعت کی صورت کمالات ولایت کے لیے شجرہ طیبہ یعنی پاک درخت کی طرح ہے۔ گویا کمالات ولایت صورت شریعت کے ثمرات ہیں۔ اسی طرح شریعت کی حقیقت بھی کمالات نبوت کے لیےشجرہ طیبہ کی طرح ہے اور کمالات نبوت گویا حقیقت شریعت کے ثمرات ہیں۔ جب ولایت کے کمالات صورت کاشمره ہیں اور کمالات نبوت حقیقت کا ثمرہ تو اس لحاظ سے کمالات نبوت حقائق کی طرح ہوں گے اور کمالات ولایت ان کی صورتوں کی طرح۔ 

جاننا چاہیئے کہ جس طرح صورت شریعت اور حقیقت شریعت کے درمیان فرق نفس کی جہت سے پیدا ہوا تھا یعنی صورت شریعت میں نفس اماره نافرمان اور اپنے انکار پر تھا اور حقیقت شریعت میں نفس مطمئنہ اور مسلمان ہو گیا ہے اسی طرح کمالات ولایت میں جو صورتوں کی طرح ہیں اور کمالات نبوت میں جو حقیقتوں کی مانند ہیں۔ قالب کی جہت سے فرق ہے۔ مقام ولایت میں قالب کے اجزاء اپنی سرکشی اور نافرمانی سے باز نہیں آتے۔ مثلا اس کا  جزو ناری نفس کے اطمینان کے باوجود اپنی بہتری اور تکبر کا دعوی نہیں چھوڑتا اور جز وخا کی اپنی خست اورکمینہ پن سے پشیمان نہیں ہوتا۔ دوسرے اجزاء کا بھی یہی حال ہوتا ہے مگر کمالات نبوت کے مقام پر قالب کے اجزاء بھی اعتدال پر آجاتے ہیں اور افراط و تفریط سے ہٹ جاتے ہیں۔ 

ممکن ہے کہ اسی سبب سے آنحضرت ﷺنے فرمایا ہو کہ اسلم شيطانی یعنی میرا شیطان بھی مسلمان ہو گیا ہے جس طرح شیطان آفاق میں ہے۔ نفس میں بھی ہے اور وہ جز و ناری ہے جو خیر یت و بہتری کا مدعی اور تکبر و رفعت کا خواہاں ہے جو تمام صفات رذیلہ میں سے بدتر صفات ہیں اور اس کے اسلام لانے سے مراد یہ ہے کہ یہ صفات رذیلہ اس سے دور ہو جائیں۔ پس کمالات نبوت میں قلب کی نمکین بھی ہے اورنفس کا اطمینان بھی اور قالب کے اجزاء کا اعتدال بھی اور ولایت میں صرف قلب کی نمکین ہے یاکچھ کچھ نفس کا اطمینان اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ کچھ کچھ نفس کا اطمینان۔ اس لیے کہا ہے کہ نفس کو کامل اور بے تکلف اطمینان اجزاء قالب کے اعتدال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ارباب ولایت اجزاء قالب کے معتدل نہ ہونے کے باعث مطمئنہ کا صفات بشریت کی طرف رجوع کرنا جائز سمجھتے ہیں۔ جیسے کہ اوپر گزر چکا مگر وہ اطمینان جونفس کو اجزاء قالب کے اعتدال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ صفات رذیلہ کی طرف رجوع کرنے سے پاک و مبرا ہے۔ 

پس نفس کے رزائل کی طرف رجوع کرنے یا نہ کرنے کا اختلاف نظروں اور مقامات کے اختلافات پرمبنی ہے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے مقام کی نسبت خبر دی ہے اور جو کچھ کسی کو حاصل ہوا ہے، اسی کی نسبت گفتگو کی ہے۔

 سوال: جب قالب کے اجزاء بھی حد اعتدال پر آجائیں اور سرکشی اور نافرمانی سے ہٹ جائیں پھر ان کے ساتھ جہاد کی کیا ضرورت ہے؟ نفس مطمئنہ کے جہاد کی کیا صورت ہے۔ نفس مطمئنہ کے جہاد کی طرح ان کا جہادبھی مرتفع ہے۔

جواب: مطمئنہ اور ان اجزاء کے درمیان فرق ہے کیونکہ مطمئنہ فانی اور نا چیز ہے اور عالم امر سے ملا ہوا ہے۔ جو کمال فنا اور سکر(مستی)  سے متصف ہے اور یہ اجزاء احکام شرعیہ کے بجالانے کے باعث جن کی بنیادو پر ہے، فنا وسکر کے ساتھ مناسبت نہیں کرتے اور جوفانی اور مستہلک ہو اس میں مخالفت کی گنجائش نہیں رہتی اور وہ جوصحو رکھتا ہے۔ اگر بعض مصلحتوں اور منافع کے واسطے بعض امور میں مخالفت کی صورت ظاہر کرے تو ہوسکتا ہے امید ہے کہ یہ مخالفت اللہ تعالیٰ  کے فضل سے ترک مستحب سے اوپر نہ جائے گی اور مکروہ تنزیہی کے ارتکاب سے نیچے نہ آئے گی۔ پس قالب کے مرتبہ میں اس کے اجزاء کے اعتدال کے باوجود جہادمتصور ہوگا اور مطمئنہ میں جہاد نا جائز ہوگا۔ 

اس بحث کی تحقیق مکتوبات کی جلد اول میں اس مکتوب میں جوطریق کے بیان میں اپنے فرزند اعظم مرحوم کے نام لکھا ہے مفصل طور پر درج ہو چکی ہے۔ اگر کوئی امر پوشیدہ رہ گیا ہو تو وہاں سے معلوم کر لیں۔ 

مگرمحض فضل خداوندی جل شانہ سے کمالات نبوت بھی جوحقیقت شریعت کے نتائج و ثمرات ہیں، انجام تک پہنچ جائیں تو آگے ترقیات وہاں اعمال پر موقوف نہیں ۔ اس مقام کا معاملہ حق تعالیٰ  کے فضل و احسان پر موقوف ہے وہاں اعتقاد کا کچھ اثر نہیں علم وعمل کی کچھ حقیقت نہیں فضل درفضل و کرم در کرم ہے۔ یہ مقام پہلے تمام مقامات کی نسبت بہت بلند اور وسیع ہے اور اس قسم کی نورانیت رکھتا ہے جس کا پہلے مقامات میں کچھ اثر نہ تھا۔ یہ مقام اصلی طور پر اولوالعزم انبیا علیہم الصلوة والسلام کے ساتھ مخصوص ہے یا کچھ کچھ ان لوگوں کے ساتھ جن کو وراثت و تبعیت کے طور پر اس مقام سے مشرف فرمائیں۔ 

برکریماں کا رہا دشوار نیست  ترجمہ: کریموں پرنہیں مشکل کوئی کام 

اس مقام میں کوئی غلطی نہ کھا جائے اور یہ نہ کہے کہ اس مقام میں شریعت کی صورت و حقیقت سے استغنا حاصل ہو جاتی ہے اور احکام شرعیہ کے بجا لانے کی کچھ حاجت نہیں رہتی کیونکہ میں کہتا ہوں کہ شریعت ہی اس کام کا اصل اور اس معاملہ کی بنیاد ہے۔ درخت جس قدر بلند اور سرفراز ہوتا جائے اور دیوار جس قدر بلند ہوتی جائے اور اس پر بلند مکان بنتے جائیں اصل و بنیاد سے مستغنی نہیں ہوتے اور ذاتی احتیاج ان سے زائل نہیں ہوتی۔ مثلا خانہ بلند خواہ کس قدر اونچا ہو جائے اور پستی سے بہت دور تک بلند ہو جائے نیچے کے گھر کے سوا اس کا چاره نہیں اور نیچے کے گھر سے اس کی احتیاج دورنہیں ہوتی۔ اگر بالفرض نچلے گھر میں کسی قسم کا خلل پڑ جائے تو اوپر کے خانہ میں بھی وہ خلل اثر کر جائے گا اور نچلے گھر کا زوال اوپر کے گھر کوزائل کردے گا۔ 

پس شریعت ہر وقت ہر حال میں درکار ہے اور ہرشخص اس کے احکام بجالانے کا محتاج ہے۔ جب اللہ تعالیٰ  کی عنایت سے معاملہ اس مقام سے بھی بلند ہو جائے اور تفضل سے محبت کی نوبت آجائے تو اس سے آگے ایک اور نہایت بلند مقام آتا ہے جو اصولی طور پر خاتم الرسل علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ ہی مخصوص ہے اور وراثت و تبعیت کے طور پر دیکھیں کسی کو اس دولت سے مشرف فرماتے ہیں۔ اس بلندمحل میں جو نہایت بلندی کے باعث اچھی طرح نظر نہیں آ سکتا، یہ فقیر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو وراثت کے طور پر ناف تک داخل شده معلوم کرتا ہے اور حضرت فاروق رضی الله عنہ بھی اسی دولت سے سرفراز ہیں اور امہات المومنین میں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھی ازدواج کے علاقہ کے باعث آنحضرت ﷺکے پاس دیکھتا ہے۔ والأمر إلى الله سبحانه پوری حقیقت اللہ تعالیٰ  جانتا ہے۔۔ رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (یا اللہ تو اپنے پاس سے ہم پر رحمت نازل فرما اور ہمارے کام سے بھلائی ہمارے نصیب کر)

برادرم عزیز معارف آگاه شیخ عبدالحی جو مدتوں اور سالوں تک فقیر کی صحبت میں رہے ہیں، اب چونکہ اپنے وطن کی طرف جانے والے تھے اور وہ مقام بھی انہی کی جناب سے تعلق رکھتا تھا۔ اس لیے چند سطریں لکھی گئی ہیں اور مشار الیہ کے احوال پر اطلاع دی گئی ہے۔ اہل الله کا وجود جہاں کہیں ہو غنیمت ہے اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے موجب بشارت ہے۔ فطوبی من عرفهم (مبارک ہیں وہ لوگ جو ان کو پہچان لیں۔ اسی جگہ برادرم عزیز شیخ نورمحمد بھی اقامت رکھتے ہیں اور فقر و نامرادی میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس جگہ پر رشک آتا ہے جہاں اس قسم کے دو اہل اللہ جمع ہیں اور قران السعدین یعنی دونیک ستاروں کا اجتماع محقق و ثابت ہے۔ والسلام 

مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی دفتر دوم صفحہ180ناشر ادارہ مجددیہ کراچی


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں