اجساد میں روحوں کی دکانیں فصل3

روح جسمانی کی دکان پورا جسم ظاہری جوارح کے ساتھ ہے۔ اس کا سامان تجارت شریعت ہے۔ اور اس کا کاروبار شرک سے بچتے ہوئے اللہ تعالی کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

وَلاَ يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدَاَ (الکہف:110( اور نہ شر یک کرے اپنے رب کی عبادت میں کسی کو“ 

حضور ﷺ نے فرمایا : ‌إِنَّ ‌اللَّهَ ‌طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًااللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک ہی کو قبول فرماتا ہے“ 

اسی طرح حضورﷺکا ایک اور ارشاد گرامی ہے۔ إنَّ الله وتر يحبُّ الوتراللہ تعالی و تر(واحد) ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے ۔

لفظ وتر سے مراد نمود و نمائش سے بلند تر ہوتا ہے (یعنی اللہ تعالی بناوٹ سے پاک ہے اور اعمال میں اخلاص کو پسند فرماتا ہے) 

روح جسمانی کا نفع ولایت، مکاشفہ (اتصال یا تعلق باللہ کا نام مکاشفہ ہے۔ مکاشفہ سے چھپے راز عیاں ہو جاتے ہیں اور انسان باطن کی آنکھ سے سب کچھ دیکھنے لگتا ہے)اور تحت الثری سے آسمان بالاتک پوری کائنات کا مشاہدہ (دل کی آنکھ سے حق کو دیکھنا) ہے۔ اس کی مثال کرامات کونیہ(  جس کا تعلق خلق و ایجاد سے ہے اورجو تمام موجودات و حوادث کو شامل ہے۔ اس کائنات میں خیر و شر، کفر و ایمان اوراطاعت و معصیت جو کچھ بھی ہو رہا ہے کونیہ کہلاتا ہے) جو مراتب رہبانیت سے ہے۔ مثلا پانی پر چلانا، ہوا میں اڑنا۔ طے مکانی ، دور سے سننا اور باطن میں جھانکنا اور اس قسم کی دوسری کرامات۔ آخرت میں اس کا نفع جنت، حور و قصور ، غلمان، شراب طہور۔ تمام نعمتیں، جنت الاولی میں گھر جو جنت الماوی ہے۔

 روح روانی(عالم ملکوت میں نورانی ارواح کا لباس اسے روح سیر انی بھی کہتے ہیں) کی دکان قلب ہے۔ ان کی متاع علم طریقت(سالکین کی راہ جو انہیں واصل بحق کرتی ہے۔ مثلا منازل سلوک کا طے کرنا اور مقامات میں ترقی کرنا) اور اس کا کاروبار اللہ تعالی کے بارہ ، اصولی اسماء میں سے پہلے چار اسماء میں مشغول ہو تا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرائی ہے۔ 

وَلِلَّهِ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا (الاعراف:180( 

اور اللہ ہی کے لیے ہیں نام اچھے اچھے۔ سو پکارو اسے انہیں نا موں سے اور یہ آیت اشارہ کر رہی ہے کہ اسماء مشغول ہونے کامحل ہیں۔ اور یہی علم باطن( دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال، خواطر ، يقين ، اخلاص ، اخلاق اس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت، توبہ کی ضرورت، توبہ کے حقائق، توکل، زهد ، انابت ، فناء، علم لدنی۔ ) ہے۔ معرفت اسمائے توحید(اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط)) کا نتیجہ ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ 

إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ‌تِسْعَةً ‌وَتِسْعِينَ اسْمًا، مَنْ ‌أَحْصَاهَا كُلَّهَا دَخَلَ الْجَنَّةَبیشک اللہ تعالی کےنناویں نام ہیں جس نے ان کا ورد کیاوہ جنت میں داخل ہوا 

حدیث میں لفظ احصاءسے مرادان اسماء سے متصف ہوتا ہے۔ اور ان اخلاق خداوندی کو اپنی ذات میں جاری کرنا ہے۔ یہ بارہ اسماء اللہ تعالی کے تمام اسماء کی بنیاد اور اصول ہیں۔ جن کے عدد کلمہ لا الہ الا اللہ کے حروف کے برابر ہیں۔ پس اللہ تعالی نے قلوب کی گہرائیوں میں ہر ایک حرف کے لیے ایک اسم کو ثبت فرما دیا ہے۔ ہر ایک عالم کے لیے تین اسماء ہیں۔ اللہ تعالی انہیں اسماء کے ذریعے محسنین کے دلوں کو اثبات بخشتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے۔ 

يُثَبِّتُ اللهُ الَّذِينَ ءَامَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الآخِرَة (الابراہیم:27( 

ثابت قدم رکھتا ہے اللہ تعالی اہل ایمان کو اس پختہ قول (کی برکت سے دنیوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اللہ تعالی ایسے لوگوں پر انسیت(دل کے مشاہدہ سے روح کا لطف اندوز ہونا) کی خاص کیفیت نازل فرماتا ہے جسے سکینہ کہا جاتا ہے۔ اس میں شجر توحید پروان چڑھتا ہے جس کی جڑ ساتویں زمین میں بلکہ تحت الثری میں ہے اور ٹہنیاں ساتویں آسمان تک بلند ہیں ۔ بلکہ عرش کے اوپر تک بچھی ہوئی ہیں۔ جیسا کہ ارشاد ہے كَشَجَرَةٍ طَيِبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَآءِ

(ابراہیم:24( پاکیزہ درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں بڑی مضبوط ہیں اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں“ 

روح روانی کو اس کاروبار سے جو نفع ہو تا ہے وہ دل کی زندگی ہے۔ عالم الملكوت کو وہ اپنی دل کی آنکھ سے عیاں دیکھتا ہے۔ جنت کے باغ اسے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اہل جنت، جنت کے انوار اور فرشتے اس کے روبرو ہوتے ہیں۔ اور جب وہ اسمائے باطن کا مشاہدہ کر تا ہے تو اپنی زبان سے باطنی گفتگو کر تا ہے جو بلا حرف و صوت ہوتی ہے۔ اس کاروبار کی وجہ سے اس کا ٹھکانا دوسری جنت یعنی جنت النعیم قرار یا تاہے۔

 روح سلطانی (اللہ تعالی کا وہ نور جو اس نے دونوں عالم ، عالم لاہوت (روحوں کا پہلا وطن جہاں وہ تخلیق ہو گئیں۔ اسی عالم میں محو فناء ہے۔ کیونکہ فانی کو اس عالم میں قرب خداوندی حاصل ہو تا ہے۔ اس عالم تک ملا ئکہ نہیں پہنچ سکتے) اور عالم جبروت (عالم لاہوت سے ارواح جس دوسرے عالم کی طرف اتریں اس دوسرے عالم کو عالم جبروت کہتے ہیں۔ عالم جبروت دو عالموں، عالم لاہوت اور عالم ملکوت کے در میان واقع ہے۔ عالم جبروت کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں احکام خداوندی کے مطابق امور سر انجام پاتے ہیں) کے در میان ارواح کو عطا فرمایا )کی دکان جان ہے۔ اس کا سامان تجارت معرفت اور کاروبار باره اسماء میں سے در میان چار اسماء کادل کی زبان سے ورد ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا : 

الْعِلْمُ ‌عِلْمَانِ: وَعِلْمٌ عَلَى اللِّسَانِ فَذَاكَ حُجَّةُ اللَّهِ عَلَى ابْنِ آدَمَ. وَعِلْمٌ بِالْجَنَانِ فَذَاكَ ‌الْعِلْمُ ‌النَّافِعُ، ” علم کی دو قسمیں ہیں (1( علم لسانی (2( علم جنانی علم لسانی الله تعالی کی ابن آدم پر حجت ہے اور علم جنانی ہی علم نافع ہے“ کیونکہ علم کے تمام فائدے اسی دائرہ میں ہیں۔ حضور ﷺکا ارشاد ہے۔ إنَّ للقرآن ظهراً وبطناً ولبطنه بطناً إلى سبعة أبطن” 

قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ اور ہر باطن کا پھر ایک باطن ہے (یہ سلسلہ سات باطنوں تک (دراز) ہے“ آپﷺ کا ارشاد ہے: إنَّ الله أنزل القرآن على عشرة أبطن فكل ما هو أبطن فهو أنفع وأربح لأنه مِفَنٌ بیشک اللہ تعالی نے قرآن کو دس بطنوں پر نازل فرمایا۔ پس ہر باطن پہلے باطن سے زیادہ نفع بخش اور مفید ہے۔ کیونکہ اس میں پہلے کی نسبت زیادہ عجائب ہیں۔

 یہ اسماء ان بارہ چشموں کی مانند ہیں جو عصائے موسی کی ضرب سےپھوٹے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشادالہی ہے۔ 

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْناً قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ (البقرہ:60( 

اور یاد کروجب پانی کی دعامانگی موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے تو ہم نے فرمایاماروا پنا عصا فلاں چٹان پر تو فور ابہہ نکلے اس چٹان سے بارہ چشمے۔ پہچان لیا ہر گروہ نے اپنا اپناگھاٹ 

علم ظاہری اس پاک پانی کی مانند ہے جو عارضی ہو جبکہ علم باطن(دل میں ظاہر ہونے والا علم نہ کہ ظواہر میں صوفیاء کرام علیہم الرحمۃ کی جماعت نے اس کی کئی قسمیں بیان کی ہیں۔ مثلا علم ، حال، خواطر ، يقين ، اخلاص ، اخلاق اس کی معرفت ، اقسام دنیا کی معرفت، توبہ کی ضرورت، توبہ کے حقائق، توکل، زهد ، انابت ، فناء، علم لدنی۔ ) چشمے کے اصلی پانی جیسا ہے( جوکبھی ختم نہیں ہوتا) علم باطنی ، علم ظاہری کی نسبت زیادہ نفع بخش ہے۔ اور علم کا یہ چشمہ ابد ی ہےکبھی خشک نہیں ہو تا۔

ارشاد ربانی ہے: وَآيَةٌ لَّهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ (یس:33( اور ایک نشانی ان کے لیے یہ مردہ زمین ہے۔ ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے نکالا اس سے غلہ پس وہ اس سے کھاتے ہیں۔ 

اللہ تعالی نے روئے زمین سے ایک دانا نکالا جو حیوانات نفسانیہ کی خوراک ہے، زمین انفس سے ایک دانا پیدا کیا جو ارواح روحانیہ کی خوراک ٹھہرا جیسا کہ حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے۔ 

من أخلص لله تعالى أربعين صباحاً ظهرت ينابيع الحكمة من قلبه على لسانه جس نے چالیس صبحیں اللہ کے خلوص میں کیں تو اللہ نے اس کے دل سے حکمت کے چشمے اس کی زبان پر جاری کر دئیے“ 

رہاروح سلطانی کا نفع تو انسان اس سے جمال خداوندی کا عکس دیکھتا ہے 

جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ 

مَا كَذّبْ الفُؤاد مَا رَأى (النجم:11( نہ جھٹلایادل نے جو دیکھ ( چشم مصطفی)نے 

اسی طرح حضور ﷺکا ارشاد گرامی ہے : المُؤْمِنُ مِرْآةُ المُؤمِن”ایک مؤمن دوسرے مؤمن کا آئینہ ہے“ 

پہلے مؤمن سے مراد ، بندہ کادل ہے اور دوسرے سے مراد اللہ تعالی کی ذات بابرکات ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا صفاتی نام مؤمن آیا ہے 

المُّؤْمِن المُهَيمِن العَزِيز الْجَبَّار المُتَكَبِر (الحشر:23( مانگنے والا، نگہبان، عزت والا، ٹوٹے دلوں کو جوڑنے والا متکبر۔

صاحب المرصاد فرماتے ہیں کہ اس طائفہ کا مسکن تیسری جنت یعنی جنت الفردوس ہے۔ 

روح قدسی(عالم لاہوت میں نور کا لباس ) کی دکان باطن ہے۔ جیسا کہ حدیث قدسی ہےالإنسان سرِّي وأنا سِرُّهْ انسان میر اراز اور میں اس کا راز ہوں‘‘ 

روح قدسی کی متاع علم الحقیقت(اس سے مراد علم ظاہری اور باطنی کا مجموعہ ہے۔ اس علم کا حصول ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اسی کو علم شریعت کہتے ہیں) ہے جسے علم التوحيد کہتے ہیں۔ اور اس کا معاملہ (کاروبار ( اسمائے توحید(اللہ تعالی کے اصلی نام سات ہیں۔ ان سات سے پھر چھ اور نام نکلتے ہیں۔ ان تمام اصلی اور فرعی اسماء کے مجموعے کو اسماء توحیدی کہتے ہیں۔ اصلی نام یہ ہیں۔ (لا الہ، الا الله ،هو،حی ، واحد، عزیز، ودود) فر عی چھ نام ۔ ( حق ،قھار، قیوم ، وھاب، مهیمن، باسط) کا ورد ہے۔ یعنی آخر چار اسماء کا ورد۔ مگر یہ وظیفہ ظاہری زبان سے نہیں باطن کی زبان سے بغیر نطق کے کرنا ہو تا ہے اور اس کے لیے وقت مقرر نہیں دائمی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے: 

وَإِن تَجْهَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَهُ يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى (طہ:7( 

اور اگر توبلند آواز سے بات کرے تو تیری مرضی وہ تو بلا شبہ جانتا ہے رازوں کو بھی اور دل کے بھیدوں کو بھی“ 

اس کاروبار کا فائدہ یہ ہے کہ طفل معانی(انسان حقیقی ، عالم لاہوت میں روح کی پہلی صورت جس میں اللہ نے پیدا کیا) کا ظہور ہو جاتا ہے۔ اور وہ باطن کی آنکھ سے جلال و جمال خداوندی کوروبرو بغیر کا پردہ کے دیکھتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد پاک ہے۔ 

وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (القیامۃ:22،23( 

کئی چہرے اس روز تر و تازہ ہوں گے اور اپنے رب کے انوار جمال( کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ دیدار بلا کیف و کیفیت اور بلا تشبیہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (الشوری:11( نہیں ہے اس کی مانند کوئی چیز اور وہی سب کچھ سننے والا ۔ دیکھنے والا ہے“ 

جب انسان اپنے مقصود کو پالیتا ہے تو عقلیں سوچنے سے قاصر ، دل عالم تحیر میں سر گرداں اور زبانیں گنگ ہوتی ہیں۔ حتی کہ صاحب مقام( اس سے مراد بندے کا دہ مرتبہ ہے جو وہ توبہ ، زهد ، عبادات ، ریاضات اور مجاہدات کے ذریے بارگاہ خداوندی میں حاصل کرتا ہے۔ جب تک وہ ایک مقام کے احکام پر پورا نہیں اتر تا دوسرے مقام کی طرف ترقی نہیں کر سکتا) خود بھی کوئی خبر نہیں دے سکتاوہ کہے بھی تو کیا کہے۔ الله تعالی مثال سے پاک ہے۔ اگر علماء تک ایسی چیزیں پہنچیں تو انہیں چاہیئے کہ وہ ان مقامات قلوب کو خوب سمجھیں ان کے حقائق کو جاننے کی کوشش کریں۔ اور کسی اعتراض کے بغیر اعلی علیین کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ اس طرح انہیں بارگاہ خداوندی سے علم لدنی حاصل ہو گا اور ذات احدیت( اللہ تعالی کی ذات یکتا) کی معرفت تک رسائی ہو گی۔ وہ ہر گز ہر گز اس مقام کا انکارنہ کریں اور تعرض کی روش سے بچیں۔ 

سرالاسرار ،شیخ عبد القادر جیلانی صفحہ35 سلطان الفقر پبلیکیشنز لاہور


ٹیگز

اپنا تبصرہ بھیجیں